"دانیہ سنئں"وہ کچن کی طرف جا رہی تھی جب شمس کی آواز نے اُسکے قدم روکے۔۔
"جی۔۔جی"اُسنے پلکے جھکاتے ہوئے کہا دل معمول سے تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔
"آپ اس رشتے سے خوش ہیں نہ"اُسنے گھمبیر لہجے میں پوچھا تو دانیہ کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔
"جی۔۔۔جی س نہیں مطلب خان"اُسنے اَپنا جملہ درست کرتے کہا تو شمس نے مسکراہٹ دبائی۔۔
____________________
ہادی کے منا کرنے کے بعد اُسنے کوئی بات نہیں کی تھی اور اُسکی خاموشی شاہ کو بے چین کر رہی تھی جب کچھ دیر بعد بھی وہ کچھ نہ بولی تو شاہ نے تنگ آکر اُسے مخاطب کیا۔۔۔
"یونی کب سے جوائن کر رہی ہو تم"اُسّے کوئی اور بات نہ سوجی تو یہی کہہ دیا۔۔۔
ابھی ایگزیم کی پریپریشن کی چھٹیاں ہیں اگلے ہفتے سے ایگزیمز شروع ہونے والے ہیں۔۔۔
"صحیح صحیح تیاری کیسی ہے تمہاری"اُسنے بات بڑھائی۔۔۔
"اچھی ہے بس یہاں سے جاتے ایک بار ریوائز کر لوں گی"اُسے تو یہ شخص سمجھ ہی نہیں آتا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے اُس سے چپ رہنے کا کے رہا تھا اور اب خود ہی اُسّے مخاطب ہو رہا تھا۔۔۔
"اچھا پہلا پیپر کونسا ہے"اُسنے پھر پوچھا "واہ کیا سوال کیا ہے حداد شاہ"اُسنے سوچتے ہوئے خود پر خود ہی طنز کیا۔۔۔۔
"کیمسٹری کا ہے"اُسنے مختصر جواب دیکر منہ موڑ لیا۔۔۔
رات کے کسی پہر وہ لوگ حویلی پونچھے تھے دانی سفر کے دوران گاڑی میں ہی سو گئی تھی۔۔۔
"دانی اٹھو ہم پونچھ گئے ہیں"ہادی نے اُسکا کندھا ہلا کر کہا مگر بے سود۔۔۔
"اٹھا کر لے جاؤں نہیں نہیں توبہ استغفار"اُسنے سوچتے ہی جھرجھری لی۔۔
"دنین اٹھو"اس بار وہ اُسکے کان کے پاس چیخا۔۔
"ہاں ک کیا ہوا"وہ ہربڑھا کر اٹھی۔۔
"اُترو"وہ حکم دیتا خود بھی گاڑی سے نکل گیا تو وہ بھی اُسکے پیچھے ہولی۔۔۔۔
لال اینٹوں سے بنی حویلی کے داخلی دروازے سے اندر جاتے اُسنے چاروں طرف نگھا دوراہی چت پر بڑے فانوس لٹک رہے تھے دیواروں پر نفیس پینٹنگز لگی تھیں لاؤنج میں صوفے رکھے تھے اور اُسکے برابر سے سیڑھیاں تھیں جسکے دائیں اطراف اُنکا کمرہ تھا۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو حداد کو جوتے اتارتے دیکھا وُہ بھی سائڈ پر بیٹھ کر اپنے پیرو کو فلیٹ شوز سے آزاد کرنے لگی۔۔۔
"شاہ یہ حویلی کتنی پرانی ہے"اُسنے اَپنی جگہ پر لیٹے لیٹے اُس کی طرف کروٹ لیتے کہا۔۔
"پتہ نہیں چپ کر کے سو جاؤ "وہ اُسے ڈپٹ کر کروٹ بدل گیا۔۔۔
"ہنہ سوجاؤ"وہ بڑبڑاتی ہوئی آنکھیں موند گئی۔۔۔
____________________
وہ کمرے میں بیٹھی شاعری کی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی جب اُسکا فون رنگ ہوا اُسنے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا تو مقابل کی آواز سے ایک پل کو اُسکی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی مگر پھر اُسے اس پر شدید غصّہ ایا۔۔۔
"سلام کیسی ہیں آپ"جضلان نے موبائل پکڑ کر شائستہ لہجے میں کہا اذلان بھی موبائل سے چپکا ہوا تھا۔۔۔
"تم تمہیں میرا نمبر کیسے ملا"علینا نے بغیر دیکھے فون اٹھا لیا تھا مگر اُسکی آواز سن کر اُسے جھٹکا لگا۔۔۔
"زہے نصیب آپکو میری آواز یاد ہے"وہ تو خوشی سے جھوم ہی اٹھا۔۔۔
"شٹ اپ یو لوفر آئندہ اس نمبر پر فون کیا تو شوٹ کر دونگی بدتمیز لفنٹر"اُسنے کہتے ٹک سے فون بند کر دیا۔۔۔
"اور کرو فون مسٹر لفنٹر"اذلان نے اُسے چراتے کہا تو اُسنے ایک دھپ اُسکے کنھدے پر دے ماری۔۔۔
"دفاع ہو جا منحوس انسان"اُسنے منہ کے زاویے بگاڑ کر کہا تو اذلان کا قہقہ بلند ہوا۔۔۔
_____________________
اُنہیں یہاں ائے دو دن ہو چکے تھے شاہ اپنے کاموں میں مصروف تھا اور اج اُسکی لاسٹ میٹنگ تھی وہ چت پر بیٹھی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھ رہی تھی جب کوئی اُسکے برابر آکر بیٹھا اُسنے نظر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی وہ اُسکی پرفیوم کی مہک سے اُسے پہچان گئی تھی۔۔۔۔"یہاں کیوں بیٹھی ہو"ہادی نے اُسکا چہرہ دیکھتے ہوۓ کہا جو چاند کی روشنی میں چمک رہا تھا وہ آج اُسے کچھ اُداس سی لگ رہی تھی جب اُسنے کچھ دیر بعد بھی جواب نہ دیا تو اُسے پریشانی ہوئی۔۔۔
"کیا ہوا دانی کسی نے کچھ کہا ہے کیا ایسے کیوں بیٹھی ہو"اُسنے اُسکا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے کہا۔۔
"میری مرضی میں جہاں بھی بیٹھوں آپکو کیا فرق پڑتا ہے"وہ اُسکا ہاتھ جھٹک کر جانے لگی جب اُسنے اُسے کلائی سے پکڑ کر واپس بیٹھایا۔۔۔۔
"ناراض ہو"اُسنے نرمی سے پوچھا۔۔۔
"آپ کل مجھ پر چلائے تھے"اُسنے اُسے کل والی بات یاد دلائی جب دانی کے زیادہ بولنے پر اُسنے تنگ آکر اُسے ڈانٹ دیا تھا۔۔۔
"آئندہ ایسا نہیں ہوگا"لہجہ ابھی نرم تھا وُہ واقعی اپنے رویے پر شرمندہ تھا۔۔۔
"آپ مجھے ابھی تک کہیں گھمانے بھی نہیں لیکر گئے"اُسنے منہ پھلا کر کہا تو وہ بے ساکتا مسکرایا۔۔
"آج سے میٹنگز ختم کل تم جہاں کہو گی وہاں لے جاونگا"اُسنے مُسکرا کر کہا۔۔۔
"سچی"اُسنے تصدیق چاہی۔۔۔
"بلکل سچی"اُسنے اُسکا ناک دباتے کہا تو وہ ہنس دی۔۔۔
"ہنستی رہا کرو اچھی لگتی ہو"اُسنے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو دانی کی ہنسی کو بریک لگی اُسنے چاند سے نظریں ہٹا کر اُسے دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا اُسکے دیکھنے پر وہ مسکرایا۔۔
"آپ بھی مسکراتے ہوئے بہت اچھے لگتے ہیں پتہ نہیں آپکو یوں سری ہوئی شکل بنا کے گھومنے کا شوق ہے"اُسنے منہ بنا کر کہا تو ہادی جو مسکرا کر اُسے دیکھ رہا تھا ایک دم سنجیدہ ہو گیا وہ آٹھ کر کمرے میں جانے لگا تو دنین نے اُسے واپس بٹھایا۔۔۔
آپ مجھے بتا سکتے ہیں مجھے جہان کی طرح راز رکھنے اتے ہیں"اُسنے مسکرا کر اُسے دیکھا۔۔
"یہ جہان کو ہے"اُسنے آبرو اچکا کر پوچھا اُسے اُسکے منہ سے کسی اور کا نام برا لگا تھا۔۔۔
"حیا کا شوہر اب اُسے چھوڑے نہ مجھے بتائیں میں واقع کسی کو نہیں بتاؤں گی"اُسنے اسرار کیا تو اُسنے شروع سے لیکر آخر تک سب کچھ اُسے بتا دیا بعض اوقات ہمیں صرف کوئی سننے والا چائیے ہوتا ہے جس سے ہم ہر بات بلہ جھجک کہہ دیں کسی کا صرف پوچھ لینا آپکی پریشانی بھانپ لینا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔۔۔
اُسکی داستان سننے کے بعد وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر اُسکا بے سکتا قہقہ چھوٹا ہنستے ہنستے اُسکی آنکھوں میں آنسو اگئے۔۔۔
"ہائے شاہ آپکو بھی بابو نے تھانہ تھایا والا چونا لگ چُکا ہے"وہ ہنسی سے دوہری ہوتی بولی۔۔۔
"کونسا چونا"ہادی نے منہ بنا کر پوچھا۔۔۔
"وہی جو آپکو وہ لگا گئی مجھے آپسے پوری پوری ہمدردی ہے"اُسنے اُسکا شانا تھپكا۔۔
"تم میرا مذاق اُرا رہی ہو"اُسنے مصنوعی غصے سے کہا۔۔۔
"ہی ہی میری مجال میں آپکا مذاق اراؤ"وہ کھسیانا ہنستے ہوئے بولی۔۔۔
"ہنہ لگ تو کچھ یہی رہا ہے"اُسنے پھر منہ بنایا۔۔۔۔
"اچھا نہ اب یہ روٹی محبوبہ نہ بنیں"اُسنے اُسکے پھولے ہوئے گال کینچے تو وہ کرہا کر رہ گیا۔۔۔
____________________
"افف شاہ یہ جگہ کتنی پیاری ہے"دانی نے سامنے نظر آتے گھروں کو دیکھتے ہوئے کہا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
"جگہ تو واقعی بہت پیاری ہے چلو یہاں سامنے ایک جھیل ہے بہت خوبصورت سی اؤ تمہیں دکھاؤں"وہ اُسکا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گیا جہاں بہت خوبصورت سی جھیل تھی شفاف پانی میں مچھلیاں تیر رہی تھی اُسنے ہاتھ بڑھا کر پانی اپنی حتيلی میں برہا شاہ بھی اُسکے ساتھ بیٹھ چکا تھا
اُسنے پانی کے چھینٹے شاہ پر پھینکے تو وہ ہڑبڑایا پھر اُسے گھورا تو وہ کھلکھلا کر هنس دی۔۔۔۔

YOU ARE READING
راہِ عشق
Romanceیہ میرا پہلا ناول ہے اس سے پہلے میں ایک کہانی لکھ چکی ہوں لیکن یہ ناول کافی مختلف ہے اُمید کرتی ہوں آپکو پسند ایگا ۔ محبت کرنا آسان ہوتا ہے نبھانا نہیں اس کہانی میں آپکو انسان کی محبت کے ساتھ اُسکے عشق کی داستان بھی دیکھنے کو ملے گی۔۔۔