تم ملے

90 14 8
                                    

وہ سب مال پونچھ چُکے تھے ارحم اذلان اور جزلان اُنہیں اُن کے مطلوبہ دوکان چھوڑ کر اپنی شاپنگ کرنے چلے گئے تھے دانیہ نے پنک کلر کی ہلکے کام والی میکسی دنین اور پری کے بہت اسرار پر لی تھی جبکہ پری نے رائل بلیو کلر کا فروک اور چوڑی دار پاجامہ لیا تھا اور دنین ابھی شاپنگ کر رہی تھی جب کسی نے اُسے کندھے سے پکڑ کر پُکارا۔۔۔
"اسلام علیکم بھابھی"۔۔۔علینا نے چہکتے ہوئے اُسے دیکھ کر کہا۔۔۔
"وعلیکم السلام تم لوگ بھی شاپنگ کرنے ائی ہو"۔۔۔دنین نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا دانیہ اور پری بھی اُن کی طرف متوجہ ہو چُکے تھے۔۔۔
"اسلام علیکم بھابھی اور اپیز"۔۔۔علیزے اور حداد بھی وہیں اگئے تھے جبکہ دنین کا تو حداد کو دیکھ کر ہی منہ بن گیا تھا۔۔۔
"جی ہم بھی شاپنگ کرنے ائی تھی ویسے اپنے ڈریس پسند کر لی اپنے لیے اگر نہیں کی تو آپ اور بھائی ایک ہی کلر کی ڈریس لیجئے گا"۔۔۔علینا کی بات پر دنین نے حداد کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
"ہاں بھابھی آپ اور بھائی ایک ہی کلر کا ڈریس لے" علیزے اور علینا کی ضد پر اُن دونوں کو ماننا ہی پڑا حداد نے وائٹ کلر کا ڈنر سوٹ لیا تھا جبکہ دنین نے وائٹ کلر کا کامدار شرارا شرٹ لیا تھا شاپنگ کے بعد علینا کے کہنے پر وہ سب فوڈ اریا چلے گئے دنین نے ارحم والو کو بھی وہی بولا لیا تھا۔۔۔
                        ************
دونوں گھروں میں نکاح کی تیاریاں زورو شورو سے چل رہی تھی لڑکوں اور لڑکیوں کے ائے روز بازاروں کے چکر لگ رہے تھے دن پر لگا کر اُڑ گئے اب بس دو دن رہ گئے تھے نکاح کی تقریب شاہ ہاؤس میں رکھی گئی تھی ہر کوئی اپنی تیاریوں میں مصروف تھا اگر کسی کو اس سب میں دلچسپی نہیں تھی تو وہ تھا حداد جو ایسے react کر رہا تھا جیسے اُسکی نہیں کسی اور کی شادی ہو رہی ہو۔۔۔۔
دوسری طرف دنین کی شاپنگ ہی ختم نہیں ہو رہی تھی نجانے اب زندگی ان دو الگ شخصیت رکھنے والے لوگوں کو ایک راہ پر کیسے لانے والی تھی۔۔۔
صوبہ کا سورج اپنے پورے اب و تاب سے چمک رہا تھا گھر کی خواتین کچن میں ناشتہ کی تیاری کے لیۓ موجود تھی دانی بھی وہی آگئی تھی ۔۔۔
"میں کچھ مدد کردوں تو تائی جان"۔۔۔اُسنے فریحہ بیگم کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔۔
"ارے واہ بھئی دنین بی بی آج اپنے کچن میں انے کا کیسے سوچ لیا"۔۔جواب کچن کے دروازے میں کھڑے ارحم کی طرف سے ایا تھا۔۔۔۔
"دماغ سے سوچا تھا میں نے لیکن تم ہے کیسے پتہ ہوگا کے کیسے سوچا جاتا ہے تمہارے پاس دماغ جو نہیں ہے"۔۔۔وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ٹکا کر جواب دیا تھا اُسّے۔۔۔
"ارحم کیوں تنگ کر رہے ہو میری بیٹی کو"۔۔۔فریحہ بیگم نے ارحم کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
"دیکھ رہی ہیں چاچی جان یہ نہ انصافی"۔۔۔اُسنے سوریہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا
"دنین بڑا ہے وہ تم سے تمیز سے بات کیا کرو"۔۔اُنہیں اپنی سائڈ لیتا دیکھ ارحم نے بتیسی کی نمائش کی جبکہ دنین کا منہ بن گیا۔۔۔
"اچھا یہ منہ بنانا بند کرو اور جاکر اپنے بابا کو ناشتہ کے لیے بولا کر لاؤ"۔۔اُنکے کہنے پر وہ سر ہلاتی حازم صاحب کے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔
                           ***********
اُسنے دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تو حازم صاحب بیڈ پر نیم دراز ہوکر بیٹھے تھے۔۔۔
"اسلام علیکم ابو طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی"۔۔۔اُسنے اُنہیں یوں دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
"وعلیکم سلام بیٹا میں بلکل ٹھیک ہوں بس ہلکا سا سر میں درد ہے"۔۔۔وہ سیدے بیٹھتے ہوئے بولے
"تو میں آپکا ناشتہ یہی لا دیتی ہوں پھر ناشتہ کے بعد آپ میڈیسن بھی لے لیجئے گا"۔۔۔
"اچھا چلو لے آو یہی ناشتہ"۔۔۔انہوں نے اثبات میں سر
ہلاتے ہوئے کہا۔۔
کچن میں اتے ہی اُسنے انڈا پڑھاٹا اور جوئس کا گلاس لیکر حازم خان کے کمرے میں چلی گئی ناشتہ کروانے کے بعد اُسنے اُنہیں میڈیسن دی اور جانے لگی تو انہوں نے اُسے اپنے پاس ہی روک لیا۔۔۔
"دنین اِدھر ا کر بیٹھیں میرے پاس" انہوں نے اپنے پاس بیڈ پر اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ چپ چاپ اُنکے برابر جاکر بیٹھ گئی انہوں نے لمبی سانس ہوا میں خارج کرنے کے بعد کہنا شروع کیا۔۔۔
"مُجھے یقین نہیں ہوتا میری گڑیا اتنی بڑی ہوگئی ہے کہ اس کی شادی ہو رہی ہے لیکن میں ایک بات سے بہت مطمئن ہوں جانتی ہو کیا"۔۔۔اُنکے سوال پر اُسنے اُنہیں جواب طلب نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
"حداد بہت اچھا لڑکا زمیدار بھی ہی بس تھوڑا مزاج کا تیز ہے لیکن میں جانتا ہوں میری بیٹی سمجھ دار ہے ہیں نہ"۔۔۔انہوں نے اُسے دیکھ کر پوچھا نہ جانے کیوں اُنکی باتوں سے اُسکا دل اداس ہو گیا تھا اپنا گھر چھوڑنا آسان تو نہیں ہوتا وہ لوگ جن کے ارد گرد آپکی پوری دنیا گھومتی ہو اُنہیں چھوڑ کر کسی اور کا گھر آباد کرنا ایک لڑکی کے لیے کافی مُشکِل مرحلہ ہوتا ہے اُسنے اُنکی باتوں پر صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا تو انہوں نے بھی اُسکا ماتا چوم کر اُسے جانے کی اجازت دے دی شاید اُنکا ضبط بھی اب جواب دے رہا تھا باپ کو تو بیٹیاں ویسے ہی بہت عزیز ہوتی ہیں۔۔۔
                      *************
اور آخر وہ دن آن پہنچا وہ سفید رنگ کا کامدار شرارا شرٹ پہنے ہوئے تھی جو اُس نے حداد کے ساتھ میچنگ کر کے لیا تھا اُسپر ہلکا میکپ آنکھوں میں کاجل ہاتھوں میں گجرے اور پیرو میں پایل پہنے وہ کسی کی بھی نظروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی وہ کمرے میں نظرے جھکائے لال دوپٹہ سر پر پہنے بیٹھی تھی پری اور دانیہ بھی اُس کے ساتھ وہی موجود تھی تائی چاچی اور امی بھی ابھی وہی آگئی تھی پیچھے حازم خان نکاح خواہ کے ساتھ داخل ہوئے مولوی صاحب نے نکاح کے الفاظ ادا کرنا شروع کیئے۔۔۔
"دنین خان ولد حازم خان کیا آپکو حداد شاہ ولد اکرم شاہ سے  بس عوض سکا راج ال وقت ۱ لاکھ حق مہر یہ نکاح قبول ہے"۔۔۔۔کازی صاحب کے لفظوں سے اُسکا دل ایک پل کو تھما تھا۔۔۔
"قبول ہے"۔۔۔اُسنے لرزتی آواز میں کہا۔۔۔
"کیا آپکو قبول ہے"۔۔۔ایک بار پھر پوچھا گیا
"قبول ہے"۔۔۔آنکھوں میں نمی اکھٹا ہونے لگی تھی آخر کو حقدار بدلنے والا تھا وہ دنین خان سے دنین حداد شاہ بننے والی تھی۔۔۔۔
"کیا آپکو قبول ہے"۔۔۔۔کمرے میں پھر نکاح کے بول گونجے۔۔۔
"قبول ہے"۔۔۔ ایک آنسو چپکے سے پلکوں کی بار توڑ کر رخسار پر بہ گیا حازم صاحب نے اُسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسّے دعائیں دی چچا اور تایا نے بھی سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دی۔۔۔
                           ***********
نکاح پڑھایا جا چکا تھا دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی زندگی میں قبول کر لیا تھا ہر طرف مبارک ہو کا شور گونج رہا تھا۔۔۔
وہ سب سے ملنے کے بعد چپ چاپ بیٹھا تھا سیڑھیوں سے وہ پری اور دانیہ کے ساتھ چلتی ہوئی قدم قدم اُسکے قریب آرہی تھی ایک پل کو حداد اُسکی اُن آنکھوں میں کھویا تھا مگر پھر خود کو سنبھالتا نظروں کا زاویہ بدل گیا کوئی اور بھی تھا جو اپنا دل سامنے سے آتی لڑکی پر ہار بیٹھا تھا۔۔۔
وہ پنک کلر کی ہلکے کام والی میکسی پہنے دنین کا ہاتھ پکڑے سیڑیاں اتر رہی تھی شمس کو اپنا دل اُسکی مسکراہٹ میں ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا دل نے چا کی تھی اُسّے ہر پل مسکراتا دیکھنے کی وہ حیران تھا کیسے وہ لڑکی بغیر اجازت اُسکے دل پر حکمرانی کرنے لگی تھی۔۔۔۔
                             **********
وہ کمرے سے باہر نکل کر نیچے جا رہی تھی جب اُسکا کسی سے زور کا تصادم ہوا۔۔۔۔
"دیکھ کر نہیں چل سکتے آپ"۔۔۔۔۔اُسنے جزلان کو مسلسل خود کو گھورتے پا کر کہا اُسکی جھنجھلائ ہوئی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا تھا مگر نظرے ابھی اُس پر تھی جو لال ہلکے کام والی شرٹ اور ٹراوزر کے ساتھ سلیقے سے دوپٹہ لیے ہلکے میکپ میں اُسے اپنے دل میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"دیکھ ہی تو رہا ہوں"۔۔۔۔اُسنے مسکراہٹ دبا کر کہا
اُسکا جواب جلتی پر تیل کا کام کر گیا تھا
"اوہ ہیلو سمجھتے کیا ہیں آپ خود کو"اُسنے دانت پیس کر کہا غصے میں وہ اُسّے اور زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
"انسان"جواب خٹک سے ایا تھا۔۔۔۔
"آپ شروع سے ڈھیٹ ہیں یا ابھی کوئی خاص کورس کیا ہے"اُسکی طرف سے طنز کیا گیا
"بس مجھے بھی اپنے اس ٹیلنٹ کا ابھی ہی پتہ چلا ہے"سادگی سے جواب دیا گیا وہ اُسکا جواب ائگنور کرتی آگے بڑ گئی جبکہ وہ اُسے جاتا دیکھتا رہا پھر سر جھٹکتا اپنا کام کرنے اندر چلا گیا۔۔۔۔
                         ************
"کیا ہوا تمہارا کیوں منہ بنا ہوا ہے"علیزے نے اُس کا غصے سے بھرا چہرہ دیکھ کر پوچھا مگر بیچاری اپنی شامت کو دعوت دے بیٹھی۔۔۔۔۔
"وہ گھوروں بندر شرم نام کی تو کوئی چیز نہیں اُس میں یوں گھور رہا تھا جیسے زندگی میں پہلی بار کوئی خوبصورت لڑکی دیکھی ہو اوپر سے مجھ سے علینا شاہ سے بحث کر رہا تھا چھوڑو گی تو میں بھی نہیں اُسے بدتمیز نہ ہو تو جانتا نہیں ہے ابھی میرے بھائی کو ہاں نہیں تو"علیزے کی پوچھنے کی دیر تھی بس وہ شروع ہوئی تو ساری بھڑاس نکالنے کے بعد ہی رکھی جبکہ علیزے اُسے حیرت سے آنکھیں کھولیں دیکھ رہی تھی اور اذلان جو بڑی دیر سے اُسے دیکھنے میں مصروف تھا اُسکی معصوم ادا پر مسکرا دیا مگر دور کھڑے ہونے کی وجہ سے وہ علینا کے اپنے بھائی کے لئے بولے گئے تعریفی جملے نہیں سن پایا۔۔۔۔۔
"ایک منٹ لڑکی سانس تو لیلو اور تم کس کی بات کر رہی ہو کون گھوروں بندر"۔۔۔۔اُسنے اُلجھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"وہی بھابھی کے چاچا کا بیٹا"۔۔۔۔۔اُسکے کہنے پر اُسکے سامنے اذلان کا چہرہ آگیا مگر وُہ خود کو سنبھالتی اُسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔
"ک۔کون ا۔اذلان"۔۔۔اُسنے بظاھر تو انجان بنتے ہوئے کہا مگر دل میں نہ جانے کیوں ایک خوف تھا جسے وہ کوئی نام نہیں دے پارہی تھی۔۔۔۔
"ارے نہیں وہ دوسرا جاضلان"۔۔۔۔اُسکے جواب پر اُسے اپنے دل میں سکون اترتا محسوس ہوا
"شُکر"اُسکے منہ سے بے اختیار نکلا جس پر علینا نے اُسّے گھورا۔۔۔
"میں یہاں تمہیں اپنی پریشانی بتا رہی ہوں تم کیس خوشی میں شُکر کیے جا رہی ہو ہاں"اُسکے کہنے پر وہ گڑبڑا گئی۔۔۔۔
"نہیں وہ تم ایسے ہی فضول سوچ رہی ہو جاضلان بھائی تو بہت اچھے ہیں یاد ہے انہوں نے تمہیں وہ بک بھی تو دے دی تھی نہ"۔۔۔۔اُسنے جیسے اُسے یاد کروانا چاہ۔۔۔۔
"ہاں تو بک دی تو کوئی احسان نہیں کیا  تم زیادہ اُسکی سائڈ نہ لو اور جاؤ میرے لیے کولڈرنک لیکر اؤ شدید ضروت ہے مجھے ابھی"اُسکے کہنے پر وہ کولڈرنک لینے چلی گئی ابھی وُہ کولڈرنک لیکر مڑی تھی جب اذلان اُسکے سامنے آگیا۔۔۔۔۔
"اسلام علیکم"اُسنے اَپنی خوبصورت گھمبیر آواز میں سلام کیا اور علیزے تو اُسے دیکھتے ہی نظرے جُھکا گئی۔۔۔
دھڑکنیں ایک پل میں بڑی تھی۔۔
پلکوں نے اُٹھنے سے انکار کر دیا۔۔
لفظ تو مانو کہیں غم گئے تھے۔۔
"علیزے"اُسنے اُسے نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا بلیک پیرو تک آتا فروک ہلکا میکپ اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے وہ اُسے آسمان سے ائی کوئی پری ہی لگ رہی تھی۔۔۔
"و۔وعلیکم س۔سلام"بڑی مُشکِل سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے۔۔
"کال پر تو آپکی آواز بلکل سہی ہوتی ہے میرے سامنے آپکی زبان کیوں لڑکرانے لگتی ہے"اُسنے مسکراہٹ دبا کر کہاں جبکہ اُسکی بات پر مقابل کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا مطلب وہ جانتا تھا کے وہ وہی ہے جو روز اُسکے شو میں کال کرتی ہے
"افف کیا سوچ رہے ہونگے یہ میرے بارے میں"اُسنے دل میں سوچا۔۔۔
"مُجھے جواب کا اور کتنی دیر انتظار کرنا ہوگا"اُسے خود کو بیخیالی میں گھورتا پاکڑ اُسنے سنجیدگی سے پوچھا جبکہ آنکھوں میں شرارت وضع تھی اُسکی بات پر وہ شرماتی وہاں سے چلی گئی اُسکے ایسا کرنے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نے اُسکے لبوں کو چھوا۔۔۔
                          **********

راہِ عشقTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang