ناشتے کی میز پر اس وقت سب موجود تھے جب کاظم صاحب نے ارحم کو مخاطب کیا۔۔
"پڑھائی کے بعد کیا کرنے کا ارادہ ہے برخوردار"۔۔۔اُنکی بات پر ارحم کے حلق میں نوالہ اٹک گیا تو پاس کھڑی سوریہ بیگم نے اُسے پانی کا گلاس بھر کر دیا اور اُسکی پیٹ سہلانے لگی۔۔
"ٹھیک ہو بیٹا" انہوں نے فکرمندی سے پوچھا
"جی چاچی جان"اُسنے اُنہیں دیکھ کر کہا
"ابھی تو پڑھائی باقی ہے ایگزیمز کے بعد میں کچھ دن ریسٹ کرونگا پھر آفس جوائن کرلونگا"اُسنے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے اُنہیں جواب دیا جبکہ وہاں موجود ہر نفوس جانتا تھا وہ ایسا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔
"اذلان آج تم فری ہو تو دنین کو لے انا میں نے اُسے کہہ دیا تھا وہ شام میں تیار رہیگی"سوریہ بیگم نے اذلان کو دیکھ کر کہا آج اُسکی شو سے چھٹی تھی۔۔
"جی تائی جان میں کے اونگا جزی تم بھی چلو گے نہ"اُسنے اُنہیں جواب دینے کے بعد جضلان سے پوچھا تو اُسنے اسے گھورنے پے اکتفا کیا وہ جانتا تھا وہ اُسے چھیڑ رہا ہے۔
******************
"یہ کیا ہے ڈیڈ"۔۔وہ سب کھانے کی ٹیبل پر جمع تھے جب شاہ صاحب نے کچھ پیپرز حداد کی طرف بڑھائے تھے
"یہ ٹکٹس ہے بیٹا جی ہم چاہ رہے ہیں کے آپ دونوں نورترن اریاز گھوم ائے اور دنین کو اسکرڈو میں ہماری حویلی بھی دیکھا لائیں ویسے بھی بہت عرصہ ہوا ہے وہاں گئے ہوئے"انہوں نے اُسے لمبی چوڑی وضاہت دیتے ہوئے کہا
"لیکن ڈیڈ آفس میں اتنا کام ہے فارعن دیلیکشنز بھی انی ہیں اس ہفتے سوری بٹ آئی ہہو نو ٹائم فور ال دس"اُسنے انکار کیا۔۔
"فارعن دیلیکشنز کو اسد (سیکٹری) سنبھال لیگا اور میں بھی یہیں ہوں یو ڈونٹ نیڈ ٹو وری"انہوں نے جیسے بات ہی ختم کردی جبکہ حداد صرف مٹھیاں بینچ کر رہ گیا۔۔
ناشتے کے بعد وہ کمرے میں آکر تیار ہونا شروع ہو گئی آج اُسّے خان ولا جانا تھا وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی جب حداد کمرے میں داخل ہوا اور اپنے پیچھے کمرے کے دروازے کو زور سے بند کیا جس پر دنین کا ہاتھ دل پر پڑا۔۔۔
"تم ڈیڈ کو کے دو تم کہیں نہیں جانا چاہتی"حداد نے بیدردی سے اُسکی کلائی پکڑتے ہوئے کہا چند چوڑیاں ٹوٹ کر اُسکی کلائی میں چوبی تو وُہ کرہ کر رہ گئی اُسکے کرہآنے پر اس نے اُسکی طرف دیکھا تو ایک پل کو وہ اُسکی نم آنکھوں میں ڈوب سا گیا تھا۔۔۔
"شاہ میرا ہاتھ چھوڑے"اُسنے اَپنی کلائی سے اُسکا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تو اُسنے آہستگی سے اُسکی کلائی چھوڑ دی۔۔۔
"سوری مجھے غصّہ آگیا تھا"اُسکے لہجے میں شرمندگی کا اعزر نمایاں تھا اس سے پہلے دنین کچھ کہتی کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دنین اُسّے ایک نظر دیکھتی دروازہ کھولنے چلی گئی۔۔۔
"باجی نیچے آپکے بھائی آپکو لینے ائے ہیں"ملازمہ نے اُسے اذلان اور حضلان کے انے کی اطلاع دی تو اس نے انے کا کہہ کر دروازہ بند کر دیا اور فرسٹ ایڈ باکس نکال کر کریم لگانے لگی حداد جو اُسکی ساری کاروائی دیکھ رہا تھا اُسکے پاس آکر روکا
"لاؤ میں لگا دیتا ہوں"اُسکے لبوں سے بیختیار پھسلا تھا
"زخم دینے والے مرہم لگاتے ہوۓ اچھے نہیں لگتے شاہ صاحب"اُسنے اُسّے دیکھتے ہوئے کہا تو حداد اُسے نظرے چرا گیا وہ بے حس نہیں تھا بس حالات نے اُسے ایسا بنا دیا تھا۔
وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے جب علیزے وہاں ائی۔۔
"اسلام علیکم بھائی" اُسنے اُن دونوں کو دیکھ کر کہا جس پر اذلان کا تو اچھا خاصا منہ بن گیا تھا اُسے اُسکا بھائی کہنا برا لگا تھا لیکن کیوں اسکا جواب اُسکے پاس نہیں تھا یا شاید وہ اس جواب کو ماننا نہیں چاہتا تھا۔
"وعلیکم اسلام گڑیا"جزلان نے خوشدلی سے کہا اُسکا علیزے سے ایسے بات کرنا اذلان کو زہر لگ رہا تھا اُسکا دل کر رہا تھا سامنے بیٹھے اپنے بھائی کا گلا دبا دے۔۔۔
"اوہ یہ کس کا بندر کھول کر ہمارے گھر آگیا ہے"علینا نے اتے ہی طنز کیا تھا اور جس پر کیا تھا وہ جناب تو اُسے دیکھتے ہی کھل اٹھے تھے۔۔
"اسلام علیکم اپیا"اذلان نے دانی کو سیڑیوں سے اترتے دیکھا تو فوراً سلام کیا تو باقی سب بھی اُس طرف متوجہ ہو گئے ہادی بھی اُسکے پیچھے ہی نیچے آگیا تھا۔۔
"وعلیکم اسلام کیسے ہو تم دونوں"اُسنے اُنکے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا حداد بھی اُسکے برابر بیٹھا تھا مگر دنین اُسے فل اگنور کر رہی تھی۔۔
"الحمدللہ بلکل ٹھیک لیکن یہ آپکے ہاتھ پر کیا ہوا ہے اپیا"جضلان نے کچھ پریشانی سے اُسکی کلائی کو دیکھا جس پر پٹی بندی تھی
"کچھ نہیں بس چوڑیاں پہن رہی تھی نہ تو ایک ٹوٹ کر چب گئی"اُسکی بات پر حداد کو ڈہرو شرمندگی نے ان گھیرا تھا
"کیا زخم بہت گہرا ہے"علینا نے تشویش سے پوچھا
"ان زخموں کی عادت ہو گئی ہے اب فرق نہیں پڑتا"اُسنے اذیت بھرے لہجے میں کہا۔۔
"تو چوڑیاں پہنا چھوڑ دے نہ بھابھی"علیزے نے اُسکا زخم دیکھتے ہوئے کہا جو کافی گہرا لگ رہا تھا۔۔
"جن سے محّبت ہوتی ہے اُنہیں چھوڑا نہیں جاتا"اُسکے جواب نے پاس بیٹھے ہادی کو چونکایا تھا۔۔۔
"اگر محّبت چبنے لگے تو اُسّے چھوڑ دینا ہی بہتر ہے"جواب ہادی کی طرف سے ایا تھا اُسکے جواب پر دانی نے زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اُسے دیکھا۔۔
"محّبت سے دستبردار ہونا آسان نہیں ہوتا مسٹر شاہ"اُسکے جواب نے اُسے لاجواب کیا تھا چند ایک باتوں کے بعد دنین اذلان اور جضلان کے ساتھ چلی گئی تھی جبکہ ہادی اپنی آفس چلا گیا تھا دو دن بعد اُن لوگوں نے سکرڈو کے لیے نکلنا تھا اس لیے وہ سب کام وائینڈ آپ کر لینا چاہتا تھا۔۔۔
وہ لوگ پونچھے تو سب انہیں لاؤنج میں بیٹھیں میل گئے تھے دنین سب سے باری باری ملی اور وہیں سب کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔
"ماشاءاللہ شادی کے بعد تو میری جان اور بھی پیاری ہو گئی ہے"سوریہ بیگم نے اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی مطلب اتنی عزت۔۔۔
"اماں آپ ٹھیک تو ہیں نہ میں دنین ہوں آپکی نکمی بیٹی یاد ایا آپکو"دنین کو لگا شاید اُنہیں اُسّے پہچانے میں غلطی ہو گئی ہے اس لیے اپنا تعارف کرواتی ہوئی بولی جبکہ اُسکی اداکاری دیکھتے سب لوگ مسکردیے۔۔۔
"واہ بھئی واہ دنین بی بی مطلب عزت راس نہیں تمہیں"ارحم نے اُسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا جس پر پاس بیٹھے اذلان اور جزلان نے اپنا قہقہ ضبط کیا ورنہ دنین نے اُنہیں اٹھا کر باہر پھینک دینا تھا۔۔۔
"ارحم مت تنگ کرو میری گڑیا کو"شمس نے دنین کو دیکھتے ہوئے ارحم کو ڈپٹا تو وہ اپنا سا منہ لیکر رہ گیا جبکہ اُسکی حالت دیکھ کر سب نے قہقہ لگایا۔۔۔
"چلو ہٹو مجھے بھی اپنی بچی سے کچھ باتیں کرنے دو"فریحہ بیگم نے ارحم کو ہٹاتے ہوئے کہا تو وُہ چپ چاپ اٹھ کر پری کے برابر بیٹھ گیا جس پر پری سرک کر دور ہوئی تھی اُسکی یہ حرکت ارحم کی نظروں سے چھپی نہیں تھی۔۔
"یہ چوٹ کیسے لگی ہے دنین تمہیں"ہاجرہ بیگم نے فکرمندی سے اُسکی کلائی کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو اُسنے وہی جواب دیا جو اُسنے اذلان اور جزلان کو دیا تھا۔۔
وہ آفس میں اپنی چیئر پر آنکھیں مندیں بیٹھا تھا بار بار آنکھوں کے سامنے اُسکی آنسو بھری آنکھیں آرہی تھی اُسنے سگریٹ جلا کر منہ میں رکھ لی مگر اُسکی بے سکونی کسی صورت کم نہیں ہو رہی تھی سگریٹ بجھانے کے بعد گاڑی کی چابی لیتا شاہ پلیس روانہ ہو گیا۔۔۔
عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد اُسنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے"یا میرے اللہ میں تک گئی ہوں۔۔۔۔میری برداشت ختم ہو رہی ہے مجھ پر رحم کردے" وہ جائے نماز پر بیٹھی اپنے رب سے التجا کر رہی تھی۔۔۔اور شاید اُسکی التجا سن لی گئی تھی سنی بھی کیوں نے جاتی وہ رب کسی کو خالی ہاتھ تھوڑی لوٹاتا ہے وہ تو اپنے بندے سے ستّر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ کسی کو اُسکی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا دعا کرنے کے بعد وہ اٹھ کر کمرے سے مہلک ٹیرس پر آگئی اُسے ٹیریس پر کھڑے ابھی چند سانیئی ہی گزرے تھے جب پرياب اور دانیہ اُسکے کمرے میں آئیں تو وہ اُنکے ساتھ باتوں میں لگ گئی۔۔۔۔
وہ کمرے کا دروازہ کھکھٹا کر کمرے میں داخل ہوا تو فریحہ بیگم اُسے بیڈ پر بیٹھی دیکھی جبکہ کاظم صاحب سٹڈی میں تھے۔۔۔
"اپنے بلایا تھا اماں جان"شمس نے اُنکے سر پر بوسہ دیتے ہوئے پوچھا۔۔
"جی میں نے ہی بلوایا ہے آپکو مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے"انہوں نے اُنکی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا تو وُہ اُنکی طرف پوری طرح متوجہ ہوئے۔۔
" دانیہ کو اس گھر میں میں اپنی زمادری پر لائی تھی لیکن دنین کی شادی میں دانیہ کو لیکر لوگوں نے بہت سوالات کیے ہیں اس لیے میں چاہتی ہوں اُسّے اس گھر میں ایک مقام دیا جائے جس سے لوگوں کو باتیں بنانے کا مزید موقع نہ ملے"انہوں نے لمبی توہمید باندھتے ہوئے کہا۔۔۔
"آپ کیا چاہتی ہیں اماں جان"وہ سمجھ گئے تھے لیکن پھر بھی تصدیق کے لیے ایک بار پوچھ لینا ضروری سمجھا۔۔
"میں دانیہ کو اپنی بڑی بہو بنانا چاہتی ہوں"اُنکی بات پر شمس کی تو مانو خوشی کی انتہا نہیں تھی جسے چاہا جائے وہ آپکو اتنی آسانی سے مل جائے اس سے زیادہ خوش گوار احساس آپکے لئے اور کیا ہوگا۔۔۔
"جیسا آپکو ٹھیک لگے اماں جان مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے"انہوں نے فرمابرادری سے کہا لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے اُنہیں دیکھا۔۔۔
"اپنے دانیہ سے اس بارے میں بات کی ہے"اُسنے اُنہیں دیکھتے پوچھا۔۔۔
"وہ میری بات نہیں ٹالیگی شمس"اُنکی بات پر اُسنے گردان ہلا دی اور چند ایک باتوں کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔۔۔
وہ سڑکوں پر بے مقصد گاڑی دوڑا رہا تھا مگر اُسکے اضطراب میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی ایک بے سکونی سے تھی اس کا یوں اُسّے ناراض ہو کر جانا اُسے برا لگ رہا تھا مگر وہ سمجھنے سے قاصر تھا کے ایسا کیوں ہو رہا ہے اب تک وہ کوئی دس سگریٹ پونک چکا تھا جب یوں بے وجہ سرکو پر گاڑی چلانے سے تھک گیا تو گھر کی طرف گاڑی موڑ دی۔شاہ ہاؤس میں اس وقت خاموشی کا راج تھا سب اپنے اپنے کمروں میں تھے وہ بھی اپنے کمرے کی طرف چلا گیا مگر خالی کمرہ دیکھ کر اُسکا موڈ مزید بگڑا تھا اُسنے فون نکال کر دنین کا نمبر ملایا تو دوسری بیل پر کال اٹھا لی گئی تھی۔۔۔
وہ سونے کےلئے لیٹی ہی تھی جب اسکا فون بجنے لگا۔۔۔
"یہ مجھے کیوں کال کر رہے ہیں"اُسنے سوچا پھر کال اٹھا لی اُسکے اس وقت کال کرنے پر اُسے حیرت ہوئی تھی۔۔
YOU ARE READING
راہِ عشق
Romanceیہ میرا پہلا ناول ہے اس سے پہلے میں ایک کہانی لکھ چکی ہوں لیکن یہ ناول کافی مختلف ہے اُمید کرتی ہوں آپکو پسند ایگا ۔ محبت کرنا آسان ہوتا ہے نبھانا نہیں اس کہانی میں آپکو انسان کی محبت کے ساتھ اُسکے عشق کی داستان بھی دیکھنے کو ملے گی۔۔۔