وه میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد اب فائل لیے اپنی ٹیبل کی طرف جا رہی تھی جب ماریہ نے اُسے بتایا کے سر نے اُسّے اپنی کیبن میں بلایا ہے۔۔
مس دانیہ آپکو جو فائل میں نے ریچیک کرنے کے لیے دی تھی کیا اپنے۔۔۔ابھی وہ بول رہا تھا جب دانیہ کا فون بجا اُسنے بغیر دیکھے کال کٹ کر دی مگر فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔تو شمس نے اکتا کر اسے فون اٹھانے کا کہا مگر کال اٹینڈ کرتے ہی اُس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا آنکھوں سے آنسو روا تھے جبکہ شمس کو نہ جانے کیوں اُسکے آنسوؤں سے تکلیف ہوئی تھی۔۔۔کیا ہوا مس دانیہ از ایوری تنگ ال رائٹ۔۔۔امی ام امی ہسپتال میں ہیں۔۔۔اُسنے نم آنکھوں سے اُسے جواب دیا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی جب اُسنے پیچھے سے آواز دی۔۔۔روکے مس دانیہ میں لے چلتا ہوں آپکو۔۔۔کہتے ساتھ ہی وہ اٹھ کر باہر کی طرف بڑھ گیا راستے میں اُسنے اپنی امی کو کال کرکے بلا لیا تھا وہ جانتا تھا دانیہ کے گھر میں اُسکی امی کےعلاوہ اور کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔
**********
ہسپتال پہنچتے ہی وہ reception پر روم نمبر پوچھنے کے بعد اُن کے بتائے ہوئے کمرے کی طرف چلی گئی دروازے کے باہر اُسکے محلے کو ایک خاتون کھڑی تھی۔۔
خالہ امی کسی ہے۔۔۔ اُسنے اُنکی طرف دیکھتے بے قراری سے پوچھا۔۔۔
پتہ نہیں بیٹا میں تو رضیہ سے ملنے تمہارے گھر گئی تھی مگر اُسے بیہوش دیکھ کر محلے والو کی مدد سے یہاں کے ائی ڈاکٹر نے انتظار کرنے کا بولا ہے۔۔۔انہوں نے شروع سے آخر تک ساری رواد اُسّے سنا دی اور مصروفیات کا کہہ کر چلی گئی جبکہ وہ یک ٹک اُس کمرے کے دروازے کو دیکھ رہی تھی جب کسی با وقار سی خاتون نے اُسکے کھندے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
فکر مت کرو بیٹا اللہ بہتر کرے گا۔۔۔انہوں نے اُسے تسلی دی جب کے وہ اُنہیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
میں شمس کی والدہ ہوں تم فکر مت کرو بیٹا میں ہوں تمہارے ساتھ انہوں نے اُسکا کھندہ تھپتھپا کر اُسّے تسلی دی تو وہ اپنا ضبط ہارتی اُنکے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔۔
ہسپتال کی ساری ذمداری اُسنے ہی سنبھالی تھی دو گھنٹے ہو چُکے تھے ڈاکٹر نے کوئی اُمید نہیں دلائی تھی صرف دعا کرنے کا کہہ کر گئے تھے وہ سنڈ وِچ اپنی امی کو دینے ایا تھا تاکہ وہ اُسّے کچھ کھلا سکے جب ڈاکٹر باہر ایا تو وُہ تینوں اُس طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔
امی کیسی ہیں ڈاکٹر۔۔۔دانیہ نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی سوال کیا۔۔۔
I am sorry she is no more
یہ دوسرا اٹیک تھا اور وہ اسے survive نہیں کر پائیں۔
الفاظ تھے یا پگھلا سیسہ ڈاکٹر کے الفاظ سنتے ہی وہ ہوش و خرو سے بیگانہ ہوکر مسز خان کی باہوں میں جھول گئی۔۔۔
************
آج امی کو گزرے پورے دو دن ہو چکے تھے لوگ ابھی ملنے آرہے تھے مگر اُسّے تو جیسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھی تھی رو رو کر اب آنکھیں بھی تھک چکی تھی۔۔
دانیہ۔۔وہ نہ جانے کس دنیا میں گم تھی جب اُسّے اپنے برابر سے مسز خان کی آواز ائی اُسنے اپنی خالی نگائیں اُن پر مرکوز کر لیں۔۔۔
بیٹا اللہ کی چیز تھی اللہ نے لے لی کوئی بھی ہمارے ساتھ عمر بھر نہیں رہتا ہر کسی کا وقت مقرر ہے یہ دنیا تو صرف آزمائش کی جگہ ہے سب نے لوٹ کر خالق حقیقی کی پاس جانا ہے ہم تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں۔۔۔۔
میں بہت چھوٹی تھی جب ابا گزر گئے میری امی میرا سب کچھ تھی میری ماں میرا باپ میری واحد دوست تھی وُہ اور دوست یوں بیچ رہ میں تو نہیں چھوڑ کر جاتے نہ آنٹی وہ وہ کیوں چلی گئی ہیں۔۔۔وہ دور خلا میں دیکھ کر دھیمی آواز میں بول رہی تھی آنکھوں سے آنسو ایک بار پھر بہنا شروع ہو چکے تھے۔۔۔میری جان اس میں بھی اللہ کی کو بہتری ہوگی اب چلو اٹھو ہاتھ منہ دھو کر اپنی پیکنگ کرلوں۔۔۔انہوں نے اُسکے بال سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن آنٹی۔۔وہ کچھ بولتی اس سے پہلے ہی انہوں نے اُسے ٹوک دیا ۔۔
لیکن ویکین کچھ نہیں میں ایک لفظ نہیں سنونگی تم میرے ساتھ جا رہی ہو سمجھی میں نے شمس کو کال کر لی ہے وہ انے والا ہوگا لو آگیا چلو جلدی سے جاؤ اور اپنے ضرورت کے سامان لے آؤ۔۔۔وہ بول رہی تھی جب دروازے پر ہارن کی آواز ہوئی تو وُہ اُسّے اندر بھیجتی خود دروازے کی طرف چلی گئی۔۔۔
****************
ہاں نہیں کرتی میں تم سے محبت سمجھے تم نہیں کرتی میں تم سے محّبت مسٹر حداد شاہ۔۔۔وہ آنکھیں بند کیئے ماضی کی یادوں میں گم تھا جب مسز شاہ اندر داخل ہوئی۔۔۔
حداد انہوں نے اُسکے کندے پر ہاتھ رکھ کر اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔
اُن لوگوں نے رشتے کے لیۓ ہاں کردی ہے۔۔۔اُن کی بات پر اُسکی مٹھیاں بینچ گئی مگر اُسکا چہرہ بے تاثر تھا۔۔۔
اس ویک اینڈ پر ہم نے انہیں ڈنر پر بلایا ہے تاکہ منگنی کی تاریخ طے کر سکے۔۔۔اسکو جواب نہ دیتا دیکھ انہوں نے اپنی بات جاری رکھی اُنکی بات پر اُسنے سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔۔۔
*************
وہ لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی جب ارحم اُسکے برابر آکر بیٹھا اُسنے گردان گھما کر اُسے دیکھا وہ نظرے جھکائے چہرے پر اداس تاثر لیے خلا میں گھور رہا تھا۔۔۔
تمہیں کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔دانی کو تشویش ہوئی بات ہی ایسی تھی بھلا جہاں ارحم ہو وہاں خاموشی کا رہنا نہ ممکنات میں سے ہے۔۔۔
اب تو اکثر طبیعت خراب رہتی ہے
دل میں ہر پل یادِ یار رہتی ہے۔۔جواب شعر کی صورت میں ملا تھا۔۔۔
کیا مجنوں کی روح گھس گئی ہے تمہارا دماغ تو سہی ہے ارے پر تمہارے پاس تو دماغ ہی نہیں ہے دنین نے ایسے کہا جیسے اُسّے بہت افسوس ہوا ہو۔۔۔
محّبت انسان کو مجنوں بنا ہی دیتی ہے خاص کر لاحاصل محّبت۔۔ انداز ابھی وہی تھا سنجیدگی ہی سنجیدگی تھی لہجے میں۔۔۔۔
م۔م۔محبت لہجے میں بيقینی سموئے کہا گیا۔۔۔
ہاں ہاں محبت۔۔۔ایک بار پھر اقرار کیا گیا
تم تم پری کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو۔۔۔اُسے اپنی بہن کی فکر لاحق ہوئی
میں کیا کرتا محّبت تو کسی سے بھی کہیں بھی ہو جاتی ہے۔۔۔اہ یہ معصومیت
کیا پریاب سے زیادہ خوبصورت ہے وہ اُسّے اپنی بہن کی فکر کھائے جا رہی تھی۔۔۔
خوبصورتی تو ختم ہے میری بلو پر ہائے میری بلو اُسنے آنکھیں بند کرکے جیسے تصاور میں اُسکا چہرہ دیکھتے ہوئے بولنا شروع کیا۔۔۔
یہ جھیل سی نیلی گھیری آنکھیں میٹھی آواز اور سفید بال۔۔۔
سفید بال۔۔۔وہ بڑبڑائی۔۔ کسی بوڈھی سے محّبت تو نہیں کرلی تم نے ارحم۔۔۔
بوڈھی نہیں ہے وہ اف اتنی معصوم ہے اور جب وہ مجھے اپنی پیاری آواز میں میاؤں کے کر بلاتی ہے تو۔۔ابھی اُسکی بات منہ میں تھی جب دانی نے مداخلت کی۔۔۔
میاؤں کرکے بلاتی ہے۔۔۔وہ ٹھٹکی
ہاں بلی ہے تو میاؤں کرکے ہی بلائے گی نہ۔۔۔اُسنے مسکراہٹ دبا کر کہا چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔۔۔
ارحم تم تم میں تمہارا سر پاڑ دونگی۔۔۔دانی سے تو کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔
ارے آپ دونوں پھر سے لڑنا شروع ہوگئے۔۔۔اذلان اور جذلان نے لاؤنج میں آتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں نہیں ہم کہا لڑ رہے ہیں ارحم تو مجھے اپنی محبت کی داستان سنا رہا تھا اپنی محبوبہ کے حسن میں قلابے پڑھ رہا تھا۔۔۔اُسکی بات پر اذلان جذلان کا منہ حیرت سے کھلا جبکہ ارحم کے چہرے پر پھر سے سنجیدگی اور اُداسی نے جگہ لیلی اور اب وُہ اُن دونوں کو اپنی بلو رانی کی کہانی سنانا شروع ہو چکا تھا جبکہ دانی بس سر جھٹک کر رہ گئی۔۔۔۔
*************
اسلام علیکم کراچی دیس اس اذلان شاہ۔۔۔۔
تو کیسے ہے آپ سب اُمید ہے خیریت سے ہونگے۔۔۔
آج کا ہمارا موضوع ہے محّبت۔۔۔کہتے ساتھ اُسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی وہ جانتا تھا وہ آج بھی کال کریگی۔۔۔
اسلام علیکم دس از علیزے فرم کراچی۔۔۔فون سے اسکی آواز گونجی اور اذلان کو مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔۔
تو مس علیزے آج کے موضوع کے بارے میں کیا کہنا چائنگی آپ۔۔۔۔لہجے میں شوخی تھی جیسے کسی نے محسوس کیا ہو یا نہیں مگر علیزے نے ضرور کیا تھا اور اُسکے چہرے پر دھیمی سی مسکان پھیل گئی۔۔۔
محبت وفا ہوتی ہے احترام ہوتی ہے زندگی میں قدم قدم پر ساتھ چلنا محّبت ہوتی ہے۔۔۔جواب مختصر تھا مگر مقابل کے دل کے تار چیڑ گیا۔۔۔
*************
ESTÁS LEYENDO
راہِ عشق
Romanceیہ میرا پہلا ناول ہے اس سے پہلے میں ایک کہانی لکھ چکی ہوں لیکن یہ ناول کافی مختلف ہے اُمید کرتی ہوں آپکو پسند ایگا ۔ محبت کرنا آسان ہوتا ہے نبھانا نہیں اس کہانی میں آپکو انسان کی محبت کے ساتھ اُسکے عشق کی داستان بھی دیکھنے کو ملے گی۔۔۔