ناول: سکونِ قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:01بالوں کو جیل لگا کر سیٹ کرنے کے بعد اُس نے بیڈ پہ رکھا کوٹ اُٹھا کر پہنا اور بازو پہ گھڑی باندھتے ایک بارشیشے میں اپنے عکس کو تنقیدی نظروں سے دیکھا۔
”اُفف بہت دیر ہو گئی ہے“،ڈریسر سے پرفیوم اُٹھا کر جلدی سے اپنے اوپر اسپرے کرتے اُس نے کلاک پہ صبح کے آٹھ بجتے دیکھ اپنا لیپ ٹاپ والا بیگ اور موبائل اُٹھاتے ہوئے باہر کا رخ کیا۔
”السلام علیکم“،ڈائنگ ہال میں داخل ہوتے ہی اُس نے وہاں براجمان شخصیت کو ادب سےسلام کیا۔
”وعلیکم السلام،ماشاءاللہ آج لگ رہے ہو تم وجاہت شاہ کے پوتے“،اُسے سوٹ بوٹ میں پوری تیاری کے ساتھ اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر اُنہوں نے دل ہی دل میں اُس کی نظر اُتاری۔
”کیا مطلب دادا جان؟ کیا میں پہلے آپ کا پوتا نہیں لگتا تھا؟“اپنی طبیعت کے برعکس اُس نے بیگ ساتھ والی کرسی پہ رکھتے شکوہ کناں نظروں سے اُنہیں دیکھا۔
”ایسی بات نہیں ہے برخوردار، ہم تو بس اتنا کہہ رہے ہیں کہ آج ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارا اکلوتا وارث ہماری تمام تر ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو چکا ہے“،اُس کی بات پہ مسکراتے ہوئے اُنہوں نے لہجے میں تکبر لیے وضاحت دی تو جواباً زیان نے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ سجاتے ڈائنگ ہال میں داخل ہوتی خاتون کو مخاطب کیا۔
”چاچی، زویا کہاں ہے؟ اُس نے آج کالج نہیں جانا کیا؟“مسلسل اُس کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے زیان نے سائرہ بیگم سے پوچھا جو ٹیبل پہ اُس کے قریب ہی جوس کا جگ رکھ رہی تھیں۔
”جانا تھا بیٹا مگر زینب نے رات کو اُس کے کمرے میں شیشے کا گلاس توڑدیا تھا۔ سکینہ نے سارے کانچ اُٹھائے بھی تھے مگر پتا نہیں کیسے ایک ٹکڑا وہیں رہ گیا اور صبح جب زویا نماز کے لیے اُٹھی تو اُس کے پاؤں میں لگ گیا۔ کافی خون نکل رہا تھا، میں نے پٹی کر دی تھی مگر تمہیں پتا ہی ہے وہ لڑکی تو سر درد پہ اتنا ہنگامہ کرتی ہے یہ تو پھر زخم ہے“،وجاہت شاہ کے کپ میں چائے نکالتے سائرہ بیگم نے بے بسی سے اُسے پوری تفصیل بتائی۔
”آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ آپ مجھے جگا لیتی میں اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا اور یہ سکینہ؟ اُسے فارغ کریں آج ہی“،اُن کی پوری بات سننے کے بعد زیان کا رنگ ایک دم سے بدلا اور چہرے پہ نرمی کی جگہ سختی در آئی۔
”بیٹا، سکینہ کا کوئی قصور نہیں اُس بچاری نے تو ٹھیک سے اپنا کام کیا تھا وہ تو بس زویا کی قسمت میں تھی چوٹ تو لگ گئی“،زیان شاہ کے غصے سے خائف ہوتے سائرہ بیگم نے کام والی کی سائیڈ لی۔
”قسمت میں تھی یا نہیں بس میں اب سکینہ کو اس گھر میں نہ دیکھوں“،اپنے غصے کو ضبط کرتے زیان شاہ نے دو ٹوک بات کی اور کرسی پیچھے دھکیلتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
”کہاں جا رہے ہو؟ ناشتہ تو کر لو“،اُسے یونہی اُٹھتا دیکھ وجاہت شاہ نے ایک غصیلی نظر سائرہ پہ ڈالی جس نے صبح ہی صبح اُن کے پوتے کا موڈ خراب کر دیا تھا۔
”میں زویا کو دیکھ کر آتا ہوں۔ آپ پلیز ناشتہ کریں“،لہجے میں احترام لیے اُس نے وجاہت شاہ کو تسلی دی اور مزید کچھ کہے بغیر ڈائنگ ہال سے نکلا۔
”کتنی بار تمہیں منع کیا ہے کہ صبح صبح کوئی بری خبر نہ سنایا کرو مگر پتا نہیں تم عورتوں کے دماغ میں ایک بار سمجھائی گئی بات کیوں نہیں بیٹھتی“،زیان کے جاتے ہی وجاہت شاہ نے اپنی چھوٹی بہو کو خفگی سے دیکھا۔
”معذرت ابا جان بس زیان نے پوچھا تو بے اختیار ہی میرے منہ سے نکل گیا“،اُن کی ناراضی پہ شرمندہ ہوتے سائرہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔
”ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھنا اور سکینہ کو فارغ کرو“،مزید کوئی سخت ست سنانے سے خود کو روکتے اُنہوں نے حکم صادر کیا اورچائے پینے کی بجائے اخبار اُٹھاتے سرخیوں پہ نظر دوڑانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔