ناول: سکون قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 14کالج سے واپسی پہ زیان کی گاڑی گھر میں موجود دیکھ کر زویا نے اندر داخل ہوکے سب سے پہلے شازیہ بیگم سے اُسی کے بارے میں پوچھا۔
”بڑی امی شاہ گھر پہ ہیں کیا؟“ بیگ صوفے پہ رکھتے اُس نے شازیہ بیگم کو مخاطب کیا جو ناہید سے لاؤنج کی صفائی کروانے میں مصروف تھیں۔
”ہاں گھر پہ ہی ہے“،ایک نظر اُس کے میک اپ سے اٹے چہرے پہ ڈالتے شازیہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیوں؟ میرا مطلب طبیعت ٹھیک ہے اُن کی؟“بیل کی آواز پہ اپنی شرٹ کی جیب سے موبائل نکالتے زویا نے عمر کی کال دیکھتے ہی اُسے منقطع کیا۔
”ہاں طبیعت ٹھیک ہے پاؤں میں کانچ لگ گیا تھا اس وجہ سے نہیں گیا“،اُس کے بڑے ہوئے ناخنوں سے کوفت محسوس کرتے شازیہ بیگم نے مختصراً اُس کی بات کا جواب دیا۔
”کانچ کیسے لگ گیا؟ زیادہ لگا ہے کیا؟ ڈاکٹر کو دکھایا؟“کانچ کا سنتے ہی زویا نے چہرے پہ فکر لیے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔
”ہاں دکھایا ہے ڈاکٹر کو اور وہ ٹھیک ہے اب اس لیے تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں“،سرد سے انداز میں شازیہ بیگم نے اُس کی فکر مندی پہ جواب دیتے ناہید کو اپنے ساتھ کچن میں آنے کا بولا تو زویا نے اُن کی پشت کو غور سے دیکھا۔
”یہ بڑی امی کو آج کیا ہو گیا ہے؟ لگتا ہے بڑے ابو سے لڑائی ہوئی ہے“،اُن کے لہجے کو دائم شاہ سے بدمزگی کی وجہ سمجھتے ہوئے زویا نے خود کلامی کی اور بیگ اُٹھاتے اپنے کمرے کی جانب بڑھی تاکہ عمر سے بات کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ایمان یہ لو پانی پیو“،گلاس اُس کے ہاتھ میں تھماتے حرا اُس کے قریب ہی کرسی پہ بیٹھ چکی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں، تم پریشان نہ ہو“،ٹشو سے اپنا چہرہ صاف کرکے ایمان نے اُسے اپنے لیے فکر مند دیکھ کر تسلی دی۔
”کہاں ٹھیک ہو؟ یار پلیز آپ اندر تھوڑی ہمت پیدا کرو، ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے دل چھوٹا کر کے بیٹھ جانا کہاں کی عقل مندی ہے“،اُس کے زرد پڑتے رنگ کو دیکھ کر حرا نے کوئی بھی لحاظ رکھے بغیر اُس کی کلاس لی۔
”آگے بڑھنے اور اپنے حالات کو بہتر کرنے کے لیے انسان کو محنت کے ساتھ ساتھ حوصلہ اور ہمت کی بھی ضرورت ہوتی تاکہ راستے میں آئی مشکلات کا سامنا ثابت قدمی سے کر سکے“،ڈاکٹر کی غیر موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے حرا نے اُسے سمجھایا۔
”دیکھو ایمان، لوگ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ ہم ڈر کر کسی کونے میں دبک کر بیٹھ جائیں مگر کیا ہمارا خوف ہمیں دو وقت کا کھانا دے دے گا؟ کیا ہماری ضروریات یوں رونے دھونے سے پوری ہو جائیں گی؟ اور میں تمہیں پہلے بھی سمجھا چکی ہوں کہ جب تک انسان خود اپنے دفاع کے لیے جدوجہد نہیں کرتا تب تک کوئی دوسرا اُس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ اختیار صرف ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ کب ہم بزدلی کا مظاہرہ کر کے خود کو کمزور کر لیں اور کب تھوڑی سے بہادری دکھا کر ہم احتشام جیسے لوگوں کے سامنے ڈٹ جائیں۔ یار کوئی بھی انسان تب تک ہمارے اوپر حاوی نہیں ہوتا جب تک ہم اپنی کم عقلی کی وجہ سے اُسے موقع نہیں دیتے۔ تم مجھے بیوقوف سمجھتی ہونا؟ کہ میں کسی کے سامنے بے دھڑک بول دیتی ہوں، اور ہاں تھوڑی تھوڑی دل پھینک بھی ہوں“،تصدیق کے لیے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے حرا نے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
”نہیں ایسا نہیں ہے میں بھلا تمہارے بارے میں ایسا کیوں سوچوں گی“،تھوڑا گڑبڑاتے ہوئے ایمان نے اُس کے بالکل ٹھیک اندازے پہ نفی میں سرہلایا۔
”ہونہہ جھوٹ مت بولو، میں اپنے بارے میں تمہارے نایاب خیالات کو بہت اچھے سے جانتی ہوں۔ تمہیں پتا ہے فائق نے مجھے کیوں چھوڑا؟“اپنے شوہر کا نام لیتے ہوئے حرا نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔
”نہیں“،اس وقت اُس کی زبان سے فائق کا ذکر سن کر ایمان کو کسی غیر معمولی احساس نے گھیرا تب ہی نفی میں سر ہلاتے اُس نے حرا کے سرد پڑتے تاثرات کو دیکھا۔
”اُسے میرا کسی سے بات کرنا پسند نہیں تھا حتی کہ اپنے کزنز سے بھی نہیں مگر کیا تھا کہ شروع سے گھر میں اس بات کو لے کر کبھی بھی مجھے روک ٹوک نہیں کی گئی، مطلب کبھی مجھے یہ سکھایا ہی نہیں گیا تھا کہ اپنے رشتوں سے ہنس کر بات کرنا، اُن کا خیال کرنا غلط ہے اور دل پھینک بھی...“چہرے پہ تلخی لیے حرا نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
”فائق کو مجھ سے محبت تھی تب ہی اُس نے میرے اتنی بار انکار پر بھی اپنے والدین کو میرے گھر بھیج دیا۔ رشتہ تو اُس کی مرضی سے ہوا تھا مگر شاید نبھانے کا فرض مجھ اکیلی پر عائد تھا“،گہری سانس لے کر حرا نے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے اپنی بات جاری رکھی۔
”مجھے اُس سے کوئی شکوہ نہیں ہے بس ایک بات کا دکھ ہے کہ جب وہ میرے کردار پہ کیچڑ اچھال رہا تھا، مجھے دل پھینک اور بدکردار ہونے کے طعنے دے رہا تھا تو میں نے اُس کا گریبان کیوں نہیں پکڑا؟ اُس سے پوچھا کیوں نہیں کہ کب اُس نے مجھے اپنی ناپسندیدگی کے بارے میں آگاہ کیا اور میں نے بغاوت کی؟ایمان وہ مجھے زبان سے ایک بار بھی کہہ دیتا نا کہ اُسے میرا یوں دوسروں سے بات کرنا پسند نہیں تو قسم سے میں اپنے بھائیوں سے بھی بات کرنا چھوڑ دیتی۔ میں اُس کی خوشی کے لیے اپنے تمام تر احساسات قربان کر دیتی“،آنکھوں میں آتی نمی کو ہاتھ سے رگڑتے وہ اپنا درد کم کرنے کے لیے کچھ سیکنڈز کے لیے خاموش ہوئی۔
”میں نے اُس وقت بزدلی دکھائی اور اُس کے ہر الزام پہ خاموشی اختیار کی تو آج نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ طلاق کا دھبہ لیے نا صرف ماں باپ کے لیے اذیت کا باعث بن گئی بلکہ بھائیوں کے دل سے بھی اُتر چکی ہوں۔ تم نے دیکھا ہے نا کہ کیسے وہ سب اپنے اپنے بیوی بچوں کو لے کر الگ ہو گئے ہیں۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کے باوجود بھی میں اس دنیا میں اکیلی ہوں بس ماں باپ ہیں جو ساتھ رہنے پہ مجبور ہیں اور بے بس بھی...“آنسو بے اختیار ہی بند توڑے آنکھوں سے باہر نکلے تو حرا نے با مشکل اپنی بات مکمل کی۔
”محبت کرنے والا دغا دے دے تو جو برائیاں انسان میں نہیں بھی ہوتیں وہ بھی پیدا ہونے لگتی ہیں، فائق نے جس بات کو وجہ بنا کر مجھے اپنی زندگی سے نکالا میں نے سزا کے طور پہ اُس ہی وجہ کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا۔ اذیت دی تھی مجھ اس دل پھینک لفظ نے مگر اُس سے محبت ہو گی تھی مجھے، تب ہی چاہتی ہوں کہ وہ اب بھی مجھے دیکھے تو اُسے اپنے الفاظ اور فیصلے پہ افسوس نہ ہو“،گھٹی ہوئی آواز میں اپنی فطرت میں شامل کچھ عادتوں کی وضاحت دیتے حرا نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپایا۔
”حرا پلیز یار کیا ہو گیا ہے، تم تو مجھے ہمت دیتی ہو اور فائق نے جو کچھ بھی کیا یہ اُس کی سوچ تھی، تمہارے اندر کوئی کمی نہیں ہے“،اُسے یوں ٹوٹا بکھرا سا دیکھ کر ایمان نے نرمی سے اپنے ساتھ لگایا۔
”ٹھیک ہوں میں“،دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کرتے حرا نے اُسے پریشان دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی۔
”گندی سوچ کے مرد ہمیشہ عورت کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور گندی فطرت کے مرد ہراساں کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں صفات انسان کو خود کچھ کرنے کے قابل نہیں چھوڑتیں اسی لیے ایسے لوگ دوسروں کو ڈرا کے اور الزام تراشی کر کے اپنے سامنے بے بس کرنے کی کوشش کرتے ہیں“،اُس کے ہاتھ پہ دباؤ ڈالتے حرا نے اپنے تجربے کی بنا پہ اُسے سمجھایا اور ڈاکٹر کے ساتھ بلال کو بھی کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر خاموشی اختیار کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔