ناول: سکون قلب قسط نمبر 18

32 4 0
                                    

ناول: سکونِ قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:18

”امی میں جا رہی ہوں اور آپ پریشان مت ہوئیے گا، میں کوشش کروں گی کہ نو بجے تک واپس آجاؤں“،نیچے آتے ہی اُس کا پہلا سامنا سائرہ بیگم سے ہوا۔
”ٹھیک ہے بس تمہارے ابو بھی تیار ہیں رکو میں اُن کو بلا کر لاتی ہوں“،اُس کی بات سنتے ہی سائرہ بیگم نے ہاتھ میں پکڑے برتن ٹیبل پہ رکھے۔
”ابو کو کیوں بلاناہے؟“اس سے پہلے کہ وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھتی زویا نے ناسمجھی سے اُنہیں مخاطب کیا۔
”صائم تمہارے ساتھ جائیں گئے،ابا جان نے کہا ہے کہ ایک بار اُس لڑکی کے گھر والوں سے مل لینا تاکہ تسلی رہے کہ زویا کسی محفوظ جگہ پہ ہے“،وجاہت شاہ کا حوالہ دیتے سائرہ بیگم نے مقابل کے سر پہ دھماکہ کیا۔
”کیا مطلب؟ دادا جان نے اس شرط پہ مجھے جانے کی اجازت دی ہے کہ ابو میرے ساتھ رہیں گے؟“صدمے سے بات دہراتے زویا نے تصدیق کے لیے بات ادھوری چھوڑی۔
”نہیں بیٹا ساتھ کیوں رہنا بس اُن لوگوں کو اور گھر کو ایک بار دیکھنا ہے تاکہ ہمیں تسلی رہے کہ تم کسی اچھی جگہ ہو۔ آج کل کے حالات کا تو تمہیں پتا ہے لوگ نظر کچھ آتے ہیں اور ہوتے کچھ ہیں، بس اسی لیے ابا جان اور صائم نے یہ فیصلہ کیا ہے“،چہرے پہ نرمی لیے سائرہ بیگم نے اُسے ساری تفصیل بتائی۔
”پہلی بات کہ میں اُن کے گھر نہیں جا رہی سارا انتظام ہوٹل میں ہے اور دوسری اگر ابو نے ساتھ جانا تھا یا آپ لوگوں کو مجھ پہ اتنی بے اعتباری تھی تو آپ مجھے یہ بات شام کو ہی بتا دیتیں“،دکھ کے باعث زویا کی آواز گلے میں اٹکی۔
”بات بے اعتباری کی نہیں ہے، بات احساس اور تمہارے تحفظ کی ہے“، سیڑھیوں سے اُترتے زیان جو اُس کی بات سن چکا تھا اُس نے سائرہ بیگم کے کچھ بولنے سے پہلے ہی جواب دیا۔
”چاچو اور دادا جان تمہاری فکر کرتے ہیں اُنہیں پتا ہے کہ آج کل باہر کے حالات کیسے ہیں اسی لیے یہ سب بول رہے“،سائرہ بیگم کی وجہ سے اپنے غصے کو قابو کرتے زیان نے تحمل کے ساتھ اُسے سمجھایا۔
”یہ میرا اور میرے والدین کا معاملہ ہے، اس میں کسی ایرے غیرے کو مداخلت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے“،اُس کی آواز پہ پلٹتے زویا نے کاٹ دار الفاظ میں اُسے اُس کی حد میں رہنے کا بولا۔
”زویا، تمیز سے بات کرو زیان بڑا ہے تم سے“،اُس کی پیشانی پہ پڑتے بل سائرہ بیگم کو تشویش میں مبتلا کر گئے تب ہی اُنہوں نے کسی اور کے وہاں آنے سے پہلے بیٹی کو ڈانٹتے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
”رہنے دیں چاچی، اب مجھے اسکی باتیں حیران نہیں کرتیں“،اُس کے الفاظ سے زیادہ اُس کا اپنے لیے حقارت سے بھر پور لہجہ زیان کو بُرا لگا تھا تب ہی اُس نے سائرہ بیگم کو مزید کچھ بولنے سے روکتے ایک نظر زویا پہ ڈالی۔
”میں جا رہی ہوں اور کسی کو میری جاسوسی کرنے کی ضرورت نہیں ہے“، اُس کی آنکھوں میں بے خوفی سے دیکھتے زویا نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور ماں کو نظر انداز کرتے بیرونی دروازے کی جانب بڑھی۔
”زیان پلیز اسے روکو، ابا جان کو پتا چل گیا کہ یہ اس وقت اکیلی گئی ہے تو وہ بہت ناراض ہوں گے“،بے بسی سے دروازے کی جانب دیکھتے سائرہ بیگم نے اُس سے کہا۔
”نہیں ناراض ہوں گے، میں دادا جان کو خود ہی سنبھال لوں گا آپ اُن کی فکر نہ کریں“،اپنے تاثرات کو نرم کرنے کی کوشش کرتے زیان نے سائرہ بیگم کو تسلی دی جو بیٹی کی حرکت پہ پریشان سی کھڑی تھیں۔
”صائم بھی غصہ کریں گے، وہ تو کب سے تیار بیٹھے ہیں کہ میں ساتھ چلا جاؤں گا۔ پتا نہیں اس لڑکی کو کیا ہوتا جا رہا ہے، پہلے تو کبھی اس نے یوں من مانی نہیں کی تھی“،چہرے پہ فکر لیے سائرہ بیگم کو نئے سرے سے زویا کی فکر لاحق ہوئی۔
”کوئی بات نہیں آپ چاچو کو بول دیں کہ وہ پریشان نہ ہوں، میں ڈرائیور کو بول دیتا ہوں کہ جب تک زویا فارغ نہیں ہوتی وہ وہیں رک جائے“، اُنہیں مطمئن کرتے زیان نے آگے بڑھنا چاہا۔
”زیان پلیز تم ڈرائیور سے بول دو کہ وہ اندر ہی چلا جائے، پارٹی ہوٹل میں ہے“،اُس کے پلٹتے ہی سائرہ بیگم نے اُسے مخاطب کیا۔
”ہوٹل میں؟ ٹھیک ہے میں بول دیتا ہوں آپ پریشان نہ ہوں“،ہوٹل کے نام پہ ایک بار پھر سے زیان کی پیشانی پہ بل پڑے تب ہی اُس نے وجاہت شاہ کے کمرے میں جانے کا راداہ ترک کرتے سائرہ بیگم کو حوصلہ دیا جو صائم شاہ کی آواز پہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھیں۔
”میں خود ہی جاتا ہوں“،زویا کی تیاری اور اُس کی بے خوفی زیان کو کسی غیر معمولی بات کا احساس دلا رہی تھی، تب ہی اُس نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر گھر کی گاڑی پہ لگے ٹریسر کی مدد سے اُس کی لوکیشن چیک کی اور پاؤں کے زخم کی پروا کیے بغیر تھوڑا لنگڑاتے ہوئے باہر کی جانب بڑھا۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکونِ قلبTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang