ناول: سکون قلب قسط نمبر 19

29 3 0
                                    

ناول: سکونِ قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:19

ہوٹل میں داخل ہوتے ہی زیان نے ریسپشن پہ موجود لڑکے سے برتھ ڈے پارٹی کے متعلق پوچھا۔
”جی سر وہ اُس ہال میں ہے“،کچھ فاصلے پہ بنے ہال کی طرف اشارہ کرتے اُس لڑکے نے زیان کو آگاہ کیا۔

”ٹھیک ہے، پلیز آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ ہال کس کے نام سے بک ہے؟ اور کیا اس کے علاوہ بھی  سالگرہ کی کوئی بکنگ ہے؟ ایک نظر ہال کے بند دروازے پہ ڈالتے زیان نے اُس لڑکے کو مخاطب کیا۔
”نہیں سر اس کے علاوہ کوئی بکنگ نہیں اوریہ ہال سر پاشا کے نام سے بک ہے۔ آپ اُن کے مہمان ہیں؟“وہ لڑکا جو یہ سمجھ رہا تھا کہ زیان برتھ پارٹی کے لیے آیا ہے اُس نے ایک نظر اُس کے عام سے حلیہ پہ ڈالتے تصدیق چاہی۔
” جی“،انکار کرنے کے بجائے زیان نے اثبات میں سر ہلایا اور ہال میں جانے کے بجائے وہاں باہر ہی موجود ٹیبل میں سے ایک پہ جا بیٹھا۔
”عجیب انسان ہے آیا پارٹی کے لیے اور بیٹھ باہر ہی گیا“،زیان کی حرکت پہ اُس لڑکے نے حیرت سے خود کلامی کی اور ایک اور کسٹمر کے آنے پہ اُس کی جانب متوجہ ہوگیا۔
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”علیم بات سن“،صحن میں آتے حوالدار نے وہاں موجود ایک لڑکے کو آواز دی۔
”جی صاحب“،ہاتھ میں موجود کرسی سائیڈ پہ رکھتے اُس لڑکے نے حوالدار کی آواز پہ جلدی سے اُس کی جانب قدم بڑھائے۔
”وہ جو کچی بستی سے بچی کی لاش ملی ہے اُسے سرد خانے بھیج دیاہے؟“ کمر پہ ہاتھ رکھتے حولدر نے تصدیق کے لیے اُس سے سوال کیا۔
”نہیں صاحب وہ ابھی وین میں ہی ہے“،ایک نظر حوالدار کے ساتھ کھڑے آدمیوں پہ ڈالتے اُس لڑکے نے لاپروائی سے جواب دیا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ ان دونوں کو لے جاؤ، ان کی بچی بھی دوپہر سے لاپتا ہے“،کمرے میں زارون کا غصہ دیکھنے کے بعد حوالدار نے مناسب الفاظ میں اُس لڑکے کو تاکید کی جو اثبات میں سر ہلاتے اُنہیں آنے کا اشارہ کرتے بائیں جانب موجود گاڑیوں کی طرف بڑھا۔
”گندے نالے سے ملی ہے لاش، حالت سے تو لگ رہا کہ کسی درندے نے اپنی حوس پوری کرنے کے بعد قتل کیا ہے“،اُن کے آگے چلتے اُس لڑکے نے اپنی ہی دھن میں بولتے افسردگی سے کہا تو زارون کا دل تیزی سے دھڑکا اور ایک انجانے سے خوف کے تحت اُس کے قدم ڈگمگائے۔
”زارون باؤ، حوصلہ کرو اللہ سب خیر کرے گا“،اُسے سہارا دیتے تنویر نے اپنے بازؤں کے گھیرے میں لیا۔
”بہت بو آرہی تھی اسی لیے وین سے نہیں نکالا“،تنویر کے بولنے پہ ایک سرسری سی نظر پلٹ کر اُن دونوں پہ ڈالتے اُس لڑکے نے وین کا پچھلا حصہ کھولا۔
”دیکھ لیں“،چہرے سے کپڑا ہٹاتے اُس نے خود سائیڈ پہ ہوتے اندھیرے کی وجہ سے موبائل کی لائٹ جلاتے اُس معصوم کے چہرے پہ ڈالی تو زارون کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہوا۔
”ک....ش...ف میرا بچہ....کیا ہو گیا ہے یہ تمہیں“ ،مضبوط ہونے کے باوجود بھی اس وقت اپنی اولاد کی طرح عزیز بہن کو یوں بے حس وحرکت دیکھ کر اُس کے الفاظ گلے میں ہی دم توڑ گئے۔
”ک..ک...شف آنکھیں کھولو، دیکھو میں آیا ہوں. میری جان پلیز دیکھو مجھے“، اُس کے چہرے کو اپنے کانپتے ہوئےہاتھوں میں بھرتے زارون کی ہمت بالکل جواب دے چکی تھی، تب ہی وہ چاروں خانے چت زمین پہ لیٹتا چلا گیا۔
”زارون باؤ حوصلہ کرو“،کشف کی تصویر دیکھنے کی وجہ سے تنویر نے فوراً ہی اُس لاش کی شناخت کی مگر کسی کے جگر کے ٹکڑے کو یوں بے جان دیکھ کر اُس کے الفاظ ختم ہوگئے تھے۔
”اللہ پاک غارت کرے ایسے لوگوں کو، بہت ظلم ہوا ہے“،زارون کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے تنویر کی اپنی آنکھیں نم ہوئیں تو اُس نے دل سے اُس شخص کو بددعا دی جس نے اُس معصوم کا یہ حال کیا تھا۔
”شکر ہے شناخت ہوگئی، ورنہ اس بدبودار لاش نے تو میرا آدھا دماغ خراب کر دیا تھا“،کپڑا واپس اُس کے چہرے پہ ڈالتے اُس لڑکے نے خود کلامی کی تو تنویر نے افسوس سے اُن بے حس انسانوں کو دیکھا جو کسی کی تکلیف میں شریک ہونے کے بجائے اُس پہ مزید نمک چھڑک رہے تھے۔
”اندر آجاؤ، میں سر کو اطلاع دے دیتا ہوں۔ کچھ قانونی کاروائی کے بعد ہی لاش تم لوگوں کو ملے گی“،وین کو واپس بند کرتے اُس لڑکے نے اُن سے کہا اور انتظار کیے بغیر دائیں جانب بنے کمروں کی جانب بڑھا۔
”زارون باؤ چلو“،اُس کے قریب ہی زمین پہ بیٹھتے تنویر نے اُسے پکارا جو خالی خالی نظروں سے اُس کے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔
”حوصلہ کر میرا ویر، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وقت بہت کٹھن ہے مگر تمہیں ہمت سے کام لینا پڑے گا“،اُس کے چہرے پہ رقم اذیت تنویر کی ساری تسلیاں خاک میں ملا چکی تھیں، تب ہی اُس نے نظریں چراتے مختصرالفاظ میں اُسے سمجھایا جو اتنے بڑے صدمے کے زیر اثر اُس کی کوئی بھی بات سمجھنے سے قاصر تھا۔
” اُٹھوشاباش، جو بھی کاروائی ہے پوری کرو تاکہ بیٹیا رانی کو گھر لے کر چلیں“،خود اُٹھتے اُس نے ہمت سے کام لیتے اُس کا بازو پکڑتے اُسے بھی اُٹھایا تھا۔
”میں امی ابو کو کیا جواب دوں گا؟ میں اُن سے کیا کہوں گا؟ روز محشر جب وہ مجھ سے پوچھیں گے کہ زارون، کشف کے ساتھ کیا ہوا تو میں کیابتاؤں گا۔تنویر بھائی پلیز مجھے مار دو۔ میرے اوپر ایک احسان کرو کہ مجھے بھی میری بہن کے ساتھ ہی دفن کردو۔ میں ساری زندگی اتنا بڑا بوجھ لے کر زندہ نہیں رہ سکتا“، اُس سے ہاتھ چھڑواتے زارون نے اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں لے کر نوچا۔
”زارون باؤ، اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ اس معصوم کی قسمت میں یہی لکھا تھا“،اُس کی حالت دیکھ تنویر نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے اُسے اپنے حصار میں لیا۔
”نہیں،اتنی بُری قسمت نہیں ہو سکتی میری بہن کی۔ تنویر بھائی وہ تو بہت چھوٹی تھی۔ میرا اللہ تو بہت مہربان ہے، وہ کیسے  کسی معصوم کی قسمت میں اتنی بھیانک موت لکھ سکتاہے؟ نہیں وہ ایسانہیں کرسکتا، وہ میری کشف کو اتنی تکلیف نہیں دے سکتا“،ایک مضبوط مرد ہونے کے باوجود بھی آج بے بسی سے آنسو نکل کر اُس کے رخساروں پہ بہہ نکلے۔
”صبر کرو، یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ جس نے دنیا میں آنا اُس نے واپس اُسی رب  کے پاس لوٹ  کر جانا ہے۔ میں تمہارے درد کو محسوس کرسکتاہوں مگر اس وقت تمہیں بہت ہمت کی ضرورت ہے۔ تمہیں اپنے ساتھ ساتھ گھر میں موجود اُن بچیوں کو بھی سنبھالنا ہے جو شاید اس اچانک افتاد کو برادشت نہ کر سکیں“،اُسے دونوں کندھوں سے تھامتے تنویر نے حوصلہ دیا تو زارون نے کچھ کہنے کے بجائے اپنا چہرہ صاف کیا اور زمین سے اُٹھتے شکستہ قدم اُٹھاتے حولدار کے کمرے کی جانب بڑھا۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکونِ قلبWhere stories live. Discover now