ناول: سکون قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:10”اُس کی ہمت کیسے ہوئی زینب کو اپنے ساتھ لے جانے کی؟ امی آپ لوگ کہاں تھے؟ آپ لوگوں نے زینب کا دھیان کیوں نہیں رکھا؟“گھر پہنچتے ہی زیان نے ساری بات سننے کے بعد غصے سے پاگل ہوتے شازیہ بیگم سے سوال کیا۔
”بیٹا میں تو اوپر تھی ملازمہ بھی میرے ساتھ کام کروا رہی تھی، سائرہ شاید نہانے چلی گئی تھی تب ہی زینب گھر سے باہر نکل گئی“،اُس کے غصے سے خائف شازیہ بیگم نے نرمی سے بتایا۔
”تو آپ کیوں اوپر گئیں؟ کام کیا بہت ضروری ہیں؟ میں نے کتنی بار کہا ہے آپ لوگوں سے کہ زینب کو اکیلا مت چھوڑا کریں“،رفیق کی ہمت اور آگے آنے والے وقت کو سوچ کے زیان کے چہرے کے تاثرات مزید سخت ہوئے۔
”ہم لوگ کب اُسے اکیلا چھوڑتے ہیں بیٹا، بس آج قسمت ہی خراب تھی جو ایسی لاپروائی ہو گئی“،اُسے غصے میں دیکھ کر شازیہ بیگم نے اپنی غلطی تسلیم کی تو زیان نے اُنہیں مزید کچھ کہنے کی بجائے گاڑی کا ہارن سنتے ہی باہر کا رخ کیا۔
”یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ رفیق کہاں ہے؟ آپ نے اُسے جانے تو نہیں دیا؟“ بشیر کی عمر کا لحاظ کرتے زیان نے غصے کے باوجود بھی اُس سے تم کہہ کے بات نہیں کی۔
”جی چھوٹے صاحب وہ میری دسترس میں ہی ہے آپ فکر نہ کریں“،اُس کے چہرے کے پتھر یلے تاثرات دیکھ کر بشیر نے اُسے اطلاع دی۔
”ٹھیک ہے اُسے فارم ہاؤس لے کر پہنچیں میں بھی آتا ہوں“،ماتھے پہ بل لیے اُس نے بشیر کو اگلے لائحہ عمل کے بارے میں آگاہ کرتے واپس اندر کی جانب قدم بڑھائے تو وہ بھی اثبات میں سر ہلاتے گیٹ کی جانب چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سائرہ بیگم کافی دیر سے اُسے چپ کروانے کی کوشش میں لگی تھیں مگر وہ بار بار ایک ہی بات کر کے روئے جا رہی تھی کہ زویا نے اُس کی کھانے پینے والی چیزوں کا شاپر لے کر سڑک پہ پھینک دیا۔
”زینب میں تمہیں اور چیزیں منگوا دوں گی پلیز اب چپ ہو جاؤ“،اب کی بار تنگ آکر سائرہ بیگم نے اُسے غصے سے ڈانٹا۔
”بُری ہیں آپ، زویا بھی بُری ہے۔ وہ انکل اچھے تھے اُنہوں نے مجھ سے پیار کیا مجھے چیزیں بھی لے کر دیں“،ماں کی ڈانٹ پہ وہ جو پہلے ہی زویا کے رویے پہ خفا تھی ہاتھ میں پکڑی گڑیا اُٹھا کر دور پھینکتے مزید زور و شور سے رونے لگی۔
”زینب اب اگر تم چپ نہ ہوئیں تو میں تمہیں اسٹور میں بند کردوں گی“،اُس کے غائب ہونے سے پریشانی اُٹھانے کے بعد اب اُس کا رونا اور ضد کرنا سائرہ بیگم کو غصہ دلارہا تھا تب ہی پیار سے بہلانے کی بجائے اُنہوں نے غصے سے کہتے اُس کا بازو پکڑتے ڈرایا۔
”نہیں میں اسٹور میں نہیں جاؤں گی، وہاں اندھیرا ہے“، جلدی سے اپنا بازو چھڑواتے زینب نے اب چپ ہونے کے ساتھ ہی فوراََ سے اپنا چہرہ صاف کیا۔
”ٹھیک ہے، اُٹھو منہ ہاتھ دھلاؤں تمہارا“،اپنی چادر اُتار کر دوپٹہ لیتے سائرہ بیگم نے اُسے زمین سے اُٹھنے کا بولا۔
”نہیں میں نے منہ نہیں دھونا، پانی ٹھنڈا ہے“،اُن کی بات سنتے ہی زینب کو ایک اور ضد کا خیال آیا تو اُس نے فورا سے انکار کرتے بیڈ پہ پڑا کمفرٹر اٹھا کر اپنے گرد لپیٹا۔
”زینب کیا ہو گیا ہے تمہیں، میں پہلے ہی پریشان ہوں مجھے مزید تنگ مت کرو“،اچھے خاصے ٹھیک موسم میں اُسے کمفرٹر لپیٹتے دیکھ کر سائرہ بیگم نے اپنا سر پکڑا۔
”نہیں مجھے سردی لگتی ہے مجھے نہیں دھونا منہ، دیکھیں تو صاف ہے بالکل، نہیں دھونا مجھے“،کمفرٹر کو مزید اچھے سے سر تک لپیٹتے زینب نے زور سے نفی میں سر ہلاتے انکار کیا۔
”اچھا ٹھیک ہے بیٹھی رہو پھر ایسے ہی اور ہاں تم جب تک ہاتھ منہ نہیں دھو گی کھانا نہیں ملے گا“،اُس کی ضد کے آگے ہار مانتے سائرہ بیگم نے دھمکی دی۔
”تو نہ دیں، زینب کو نہیں کھانا کھانا، زینب کو بھوک نہیں ہے“،اُن کے بات سمجھنے کی بجائے ہٹ دھرمی دکھاتے اُس نے کانپنے کی ایکٹنگ کی تو سائرہ بیگم نے اُسے اُس کے حال پہ چھوڑتے باہر کا رخ کیا تاکہ شام کے کھانے کا بندوبست کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔