ناول: سکونِ قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:17موبائل پہ ایک انجان نمبر دیکھتے ایمان نے کال ریسیو نہیں کی تب ہی بلال نے آفس پہنچتے ہی حرا سے اُس کے متعلق پوچھا۔
”اُس کی آج چھٹی ہے، میں ابھی ابھی درخواست دائم سر کو دے کر آئی ہوں“،بلال کے پوچھنے پہ حرا نے اپنی حیرت چھپاتے نرمی سے بتایا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ آپ مس ایمان کو کہہ دیجیے گا کہ زیان سر نے کہا ہے کہ وہ ابھی تین، چار دن آفس نہ آئیں۔ میں نے کل سر کو اُن کی طبیعت کا بتایا تھا تو اسی لیے اُنہوں نے صبح کال کر کے مجھے یہ پیغام دیا“،اُس کے تاثرات دیکھ بلال نے بات سنبھالتے ہوئے وضاحت دی۔
”میں نے اُن کے نمبر پہ کافی بار کال کی تھی مگر اُنہوں نے ریسیو نہیں کی، اس لیے پلیز آپ انہیں بتا دیجیے گا“،اس سے پہلے کہ حرا کوئی جواب دیتی بلال نے ایک بار پھر سے اُسے تاکید کی۔
”ٹھیک ہے میں بتا دوں گی“،اثبات میں سر ہلاتے حرا نے اُسے تسلی دی تو وہ مطمئن ہوتے دائم شاہ کے کمرے کی جانب بڑھا جو زیان کی غیر موجودگی میں کام سنبھالے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”السلام علیکم سر“،دروازے پہ دستک دیتے وہ اندر داخل ہوا تو دائم شاہ نے فائل سے نظر اُٹھاتے اُسے دیکھا۔
”وعلیکم السلام، احتشام آگیا ہے تو اُسے کہو کہ میٹنگ کی تیاری کرے۔ ہمیں بس کچھ دیر میں نکلنا ہے“،واپس نظریں فائل پہ جمائے دائم شاہ نے مصروف سے انداز میں اُسے کہا۔
”سر، احتشام سر تو ابھی نہیں آئے، میں دو، تین بار کال بھی کر چکا ہوں مگر اُن کا نمبر بند جا رہا ہے“،ٹیبل سے چائے کا خالی کپ اُٹھاتے بلال نے اُنہیں اطلاع دی۔
”کیا مطلب ابھی نہیں آیا؟ میں نے کل اُس سے کہا بھی تھا کہ وقت پہ آجانا۔ تم دوبارہ اُسے کال کرو“،احتشام کی غیر موجودگی کا سنتے ہی اُن کے ماتھے پہ بل پڑے۔
”ٹھیک ہے سر میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں“،اُنہیں غصے میں دیکھ کر مزید کچھ کہنے کے بجائے بلال نے وہیں کھڑے کھڑے دوبارہ سے احتشام کا نمبر ملانے لگا۔
”سر ابھی بھی بند ہے“،تین چار بار مسلسل کوشش کرنے کے بعد بلال نے اُنہیں آگاہ کیا۔
”اُففف یہ احتشام بھی نا، عین وقت پہ کوئی نا کوئی گڑ بڑ کر دیتا ہے اورتم جاؤ اُس کے آفس میں دیکھو شاید آگیا ہو“،کچھ سوچتے ہوئے اُنہیں نے بلال سے کہا اور اپنا موبائل اُٹھاتے خود احتشام کا نمبر ڈائل کرنے لگے جس کا آج کی میٹنگ میں ہونا بہت ضروری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”کیا بنا پھر؟ گھر سے اجازت مل گئی؟“کالج پہنچتے ہی مائرہ نے اُسے گھیرا۔
”نہیں“،سائرہ بیگم سے ہوئی بد مزگی کی وجہ سے زویا نے مختصرسا جواب دیتے کلاس کا رخ کیا۔
”کیا مطلب نہیں؟ تم نے رات کو کال پہ کہا تھا کہ تم آؤ گی؟“اُس کا جواب سنتے ہی مائرہ کا رنگ ایک دم سے پھیکا پڑا۔
”ہاں تو آنا ہی ہے“،بیگ ایک سائیڈ پہ رکھتے وہ خود بھی کرسی پہ بیٹھتے لاپروائی سے بولی۔
”اجازت نہیں ملی، تو! آؤ گی کیسے؟“ناسمجھی سے اُس کے چہرے کی جانب دیکھتے مائرہ نے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
”گاڑی میں آؤں گی ڈرائیور کے ساتھ اور کیسے آنا ہے“،غیر سنجیدہ سے لہجے میں کہتے اُس نے مائرہ کو غصہ دلایا۔
”یار پلیز ٹھیک سے بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟“اپنے غصے کو ضبط کرتے اُس نے حتی الامکان اپنے لہجے کو نرم رکھتے استفسار کیا۔
”کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس میں بول رہی ہوں نا کہ آجاؤں گی تو بس پھر کیا پریشانی ہے تمہیں“،شرٹ کی جیب سے موبائل نکالتے زویا نے چڑتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے آجانا مجھے کیا ضرورت پڑی ہے پریشان ہونے کی“،اُس کے نخرے دکھانے پہ لاپروائی سے کندھے اچکاتے مائرہ نے مزید کچھ پوچھے بغیر ساتھ والی کرسی سنبھالتے بیگ سے رجسٹر نکالا۔
”ہونہہ بس منہ بنا لیا کرو، حد ہے یار میں تو ویسے ہی تمہیں تنگ کر رہی تھی“،اُسے خفا دیکھ کر زویا نے موبائل واپس جیب میں ڈالا اور اُس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”تو اور کیا کروں؟ یہاں میں صبح سے تمہارے لیے پریشان ہوں اور ایک تو تم لیٹ آئی اوپر سے آتے ہی ایسی فضول باتیں شروع کر دیں“،دانت پیستے مائرہ نے کوئی بھی لحاظ رکھے بغیر غصے سے کہا۔
”اچھا نا سوری، وہ بس مجھے امی پہ غصہ تھا“،دونوں ہاتھوں سے کان پکڑتے زویا نے اصل بات پہ آتے اُسے سچائی بتائی۔
”کوئی بات نہیں اور آنٹی پہ کس بات کا غصہ ہے؟“بنی بنائی بات خراب ہونے کے ڈر سے مائرہ نے اپنے جذبات میں قابو پاتے خود کو نارمل کیا۔
”کچھ نہیں یار، بس شام کی پارٹی کے لیے اجازت مانگی تھی پر ہمیشہ کی طرح وہی پرانی باتیں کہ تمہارے دادا جان نہیں مانیں گے، اُنہیں لڑکیوں کا شام کے وقت باہر جانا پسند نہیں۔ مطلب کہ حد ہے، یہ میری زندگی ہے اسے میں دادا جان کے بنائے ہوئے اصولوں سے کیوں گزاروں۔ پتا نہیں کیوں امی ہر وقت سب سے ڈرتی رہتی ہیں، کبھی نہ کھل کر خود سانس لیا ہے اور نہ ہی مجھے لینے دیں گی“،نظروں میں شکوہ لیے اُس نے مائرہ کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔
”تو پھر تم کیسے آؤ گی؟ مطلب آنٹی نے تو منع کر دیا ہے“،اُس کی ساری بات سننے کے بعد مائرہ نے پریشانی سے پوچھا۔
”تو کرتی رہیں منع، میں کسی کی غلام نہیں ہوں کہ جو وہ کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی اورمیں نے امی سے بول دیا ہے کہ میں پارٹی میں ضرور جاؤں گی“، مائرہ کو افسردہ دیکھ کر زویا نے اُسے اپنا کارنامہ بتاتے تسلی دی۔
”پر تمہارے دادا؟ اُنہیں پتا چل گیا تو؟ اور وہ تمہارا کزن؟“ساری تفصیل جاننے کی غرض سے مائرہ نے چالاکی سے اُسے کریدا۔
”دادا جان کی خیر ہے، وہ تو شام چھ بجے ہی اپنے کمرے میں بند ہو جاتے ہیں اور شاہ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے وہ بھی آج کل گھر میں ہی ہیں۔ اسٹیچز کی وجہ سےزیادہ چل پھر نہیں سکتے تو اُن کی طرف سےبھی مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ بس تم ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ تم نے سارے انتظامات کر لیے ہیں؟ اور کہاں کیے؟ گھر یا ہوٹل میں؟“اپنی طرف سے مطمئن کرتے زویا نے اب اُس سے سوال کیا جو پرسکون ہوکے اُسے پارٹی کی تیاری کے متعلق بتانے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔