ناول: سکون قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:20”آپی، بھائی کب کشف کو لے کر آئیں گے؟“سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو فاطمہ نے دعا کی گود میں بیٹھتے بے چینی سے پوچھا۔
”ہاں بس جلدی آ جائیں گے،تمہیں بھوک لگی ہے تو میں روٹی بنا دوں؟“اُس کی پیشانی پہ بوسہ دیتے دعا نے نرمی سے پوچھا۔
”نہیں،کشف آجائے پھر میں اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گی۔ میں نے ابھی تک اپنی چیز بھی نہیں کھائی وہ بھی میں اُسی کے ساتھ کھاؤں گی۔ آپی آپ کو پتا ہے جو میں نے دکان سے پاپڑ لیے تھے نا وہ کشف کو بھی بہت پسند ہیں“،نیند سے بھری آنکھوں کو با مشکل کھولتے فاطمہ نے اپنی عمر کے مطابق دعا کو ایک ضروری اطلاع دی تھی۔
”ٹھیک ہے، بس بھائی جلدی لے آئیں گے کشف کو“، اُس کی معصوم باتوں پہ دعا کی آنکھیں نم ہوئیں تو اُس نے فاطمہ کو اپنے حصار میں مضبوطی سے قید کیا۔
”آپی، ہادیہ آپی تو روئے جا رہی ہیں، میں نے اُنہیں کافی دفعہ چپ کروانے کی کوشش کی ہے مگر وہ میری بات ہی نہیں سن رہیں“،کچھ منٹ بعد ردا نے باہر برآمدے میں آتے اُسے ہادیہ کے متعلق بتایا جو شام سے ہی کمرے میں بند تھی۔
”اچھا میں دیکھتی ہوں، تم فاطمہ کے اوپر کمبل لا کر ڈالو“،اُسے نیند کی وادی میں اُترتا دیکھ کر دعا نے آہستگی سے اُسے اپنی گود سے نکال کر چارپائی پہ لٹایا اور خود وہاں سے اُٹھتے کمرے میں آئی۔
”ہادیہ؟ کیا ہو گیا ہے پاگل ہو گئی ہو کیا؟“کمرے میں داخل ہوتے ہی ہچکیوں کی آواز سنتے دعا نے اپنے قدم کچھ ہی فاصلہ پہ بیٹھی بہن کی طرف بڑھائے جو گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔
”بھائی گئے ہیں نا بس وہ جلد ہی کشف کو لے آئیں گے“،اُس کی لاپروائی پہ خفا ہونے کے باوجود بھی دعا نے بڑے ہونے کا فرض نبھاتے اُسے اپنے ساتھ لگایا۔
”میں پہلے ہی کشف کی وجہ سے بہت پریشان ہوں پلیز یوں رو کر مجھے مزید پریشانی میں مت ڈالو“،اُس کی ہچکیوں میں آتی تیزی کو دیکھ کر دعا نے بے بسی سے اُس کی پشت پہ ہاتھ پھیرا۔
”آپی پلیز مجھے معاف کر دیں“،ہادیہ جو سست ہونے کے ساتھ ساتھ کافی حساس طبیعت کی مالک تھی اُس نے کشف کی گمشدگی کا قصوروار خود کو ٹھہراتے دونوں ہاتھ اُس کے سامنے جوڑے۔
”معافی مانگنے سے صرف بے جان چیزوں کا ازالہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا نعم البدل اس دنیا میں موجود ہے پر انسان اور گزرے وقت کا کوئی متبادل نہیں، اس لیے بس دعا کرو کہ کشف خیریت سے گھر آجائے“،اپنا ہاتھ اُس کے جڑے ہوئے ہاتھوں پہ رکھ کر اُنہیں نیچے کرتے دعا نے ایک گہری سانس لیتے اپنے آنسوؤں پہ ضبط کرنے کی کوشش کی۔
”اسی دن کے خوف سے میں تمہیں تمہاری لاپروا طبیعت پہ ٹوکتی تھی“،آنسوؤں کا پھندا اُس کے گلے میں اٹکا تو اُس نے کچھ سیکنڈز کے لیے رک کر اپنی بات کا پھر سے آغاز کیا۔
”بیٹیوں کی ساری لاپروائیاں اور اُن کی آزادی ماں باپ کا سایہ سر سے اُٹھنے پہ ختم ہو جاتی ہے، اوربعد میں تو بس قید بچتی ہے جس میں رہ کر وہ اپنے اردگرد موجود درندوں سے اپنی حفاظت کر سکتی ہیں اور کشف بہت چھوٹی ہے میں اُسے اس قید کے تحفظ کا مطلب نہیں سمجھا سکتی مگر تم تو سمجھدار ہو نا؟ تو پھر کیسے تم اُس کی غیر موجودگی میں سکون سے گھر بیٹھی رہیں؟ کیا تم نہیں جانتی تھیں کہ پرندے کے بچے گھونسلے سے نکل جائیں تو باہر دوسرے جانور اُس کا شکار کرنے میں دیر نہیں لگاتے“،اُسے اُس کی غلطی کا احساس دلاتے دعا نے اپنی ضبط سے جلتی آنکھوں کو زور سے بند کیا۔
”نہیں، اللہ نہ کرے، کشف کو کچھ نہیں ہوگا“،اُس کے خاموش ہوتے ہی ہادیہ نے دل میں موجود خوف کو دباتے جلدی سے نفی میں سر ہلایا تو دعا نے آمین کہتے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کیے اور مزید کچھ کہنے کے بجائے ٹیبل سے موبائل اُٹھایا تاکہ زارون کو کال کرسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔