ناول: سکون قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:08”یہ تم آج کس کے ساتھ کالج آئی ہو؟“اُسے ڈرائیور کی بجائے ایک شاندار سے بندے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا دیکھ کے مائرہ نے اُس کی جانب بڑھنے کی بجائے جلدی سے اپنا رخ پھیرنے کے ساتھ ہی کسی خدشے کے تحت گیٹ کی جانب قدم بڑھائے اور وہیں اندر کھڑے ہو کر اُس کا انتظار کرنے لگی۔
”نہ کوئی سلام نہ دعا، آتے ہی جاسوسی شروع“،اُس کی بات سنتے ہی زویا نے فوراً سے جواب دینے کے بجائے تھوڑا نخرہ دکھایا۔
”اُففف یار سلام دعا بعد میں کر لیں گے پہلے تم یہ بتاؤ کہ میں جو سمجھ رہی ہوں وہ سچ ہے کیا؟“اُس کے یوں اترانے پہ مائرہ نے اپنا غصہ ضبط کرتے بات ادھوری چھوڑی۔
”اب مجھے کیا خبر کہ تم کیا سمجھ رہی ہو؟“انجان بنتے زویا نے اُسے پھر سے تنگ کیا۔
”یہی کہ یہ تمہارا کزن تھا؟ زیان شاہ؟“اُسے سیدھے طریقے سے کچھ بھی بتاتا نہ دیکھ کے مائرہ نے باقاعدہ نام لے کر اُس سے تصدیق چاہی تو زویا نے مزید اُسے پریشان کرنے کی بجائے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”مطلب تمہاری اُس سے لڑائی ختم ہو گئی؟“اُس کے چہرے پہ بکھری مسکراہٹ دیکھتے ہوئے مائرہ نے ایک بار پھر سے سوال کیا۔
”ہاں، میں نے بالکل ویسے ہی کیا جیسا تم نے مجھ سے کہا تھا، یعنی تھوڑی نرمی اور رونا دھونا۔ یار سچ میں شاہ کا غصہ ایک سیکنڈ میں جھاگ کی طرح بیٹھ گیا“،اُس کے سوال پہ زویا نے مختصراً اُسے زیان کے ساتھ ہونے والی باتوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
”بہت اچھا کیا، کہتے ہیں ضرورت پڑنے پر دشمن کو بھی دوست بنا لینا چاہیے اور بس ابھی تمہیں بھی اپنے کزن کی چاپلوسی کی ضرورت ہے تاکہ تم آسانی سے عمر کو اپنی زندگی میں شامل کر سکو“،زویا کے منہ سے تمام روداد سننے کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیابی پہ مکاری کے ساتھ مسکرائی اور اُس کے ساتھ ہی کالج کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احتشام کی طرف سے بلاوے پہ ایمان حرا اور ساتھ بیٹھی کولیگ کو دکھانے کے لیے بلڈنگ کے دوسرے حصے کی جانب آگئی تھی مگر اب آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہیں کھڑی وقت گزرنے کا انتظار کرنے لگی۔
”مس ایمان؟ آپ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہیں؟“تقریباً دس منٹ بعد ایک مردانہ آواز اُس کے عقب سے ابھری تو ایمان نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔
”سس..ر وہ.... میں... میں....کچھ نہیں...“احتشام کی جگہ زیان کو اپنے سامنے دیکھتے اُس نے ڈر کے مارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بات کرنے کی کوشش کی۔
”کوئی مسئلہ ہے آپ کو؟“اُس کی یوں غیر ہوتی حالت کو دیکھتے مقابل کے ماتھے پہ بل پڑے۔
”ن۔۔۔نہیں...سر کوئی مسئلہ نہیں، میں بس احتشام سر کی بات سننے آئی تھی“، بلا مقصد ہی اپنی عینک ٹھیک کرتے ایمان نے پھر سے ہکلاتے اُس کی بات کا جواب دیا۔
”نہیں آپ کو اُن کی بات سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جائیں جا کر اپنا کام کریں“،اُس دن احتشام کو دیکھ کر ایمان کے اُڑتے رنگ اور اب اُس کی بے تکی باتوں کے سبب زیان نے کسی نقطہ پہ غور کرتے اُسے منع کیا۔
”جی سر تھینک یو“،اُس سے نظریں ملائے بغیر ایمان نے نم لہجے میں اُس کا شکریہ ادا کیا اور مزید وقت ضائع کیے بغیر جلدی سے وہاں سے نکلتے اپنے کیبن کی جانب بڑھی۔
”السلام علیکم سر، پراجیکٹ کے سلسلے میں جن لوگوں نے آنا تھا وہ آچکے ہیں“، بلال نے کانفرنس روم سے نکلتے سامنے ہی اُسے کھڑا دیکھ کر آگاہ کیا۔
”ٹھیک ہے میں بس پانچ منٹ میں آتا ہوں۔ تم جب تک اُنہیں چائے وغیرہ پلاؤ،“اپنی سوچ سے نکلتے زیان نے اُس کی بات کا جواب دیا اور موبائل پہ آتی دائم شاہ کی کال ریسیو کرتے اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔