ناول: سکون قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:09”جی بی بی جی میں نے زینب بی بی کو ابھی کچھ دیر پہلے ہی آپ کے چوکیدار کے ساتھ دوسرے بلاک کی طرف جاتے دیکھا ہے“،کبیر صاحب کے چوکیدار نے سائرہ بیگم کے پوچھنے پہ اُنہیں سہولت کے ساتھ آگاہ کیا۔
”کیا مطلب؟ کون ساچوکیدار؟“ ناسمجھی سے اُس کی جانب دیکھتے سائرہ بیگم نے تصدیق چاہی۔
”بی بی جی آپ کا چوکیدار رفیق، وہ ہی زینب بی بی کو لے کر گیا ہے۔ وہ شاید کسی چیز کے لیے ضد کر رہی تھیں“،شاہد نے کچھ دیر پہلے آنکھوں دیکھا حال سنایا تو اُس کی بات سنتے ہی سائرہ بیگم کا رنگ فق ہوا۔
”کیا مطلب؟ رفیق کے ساتھ گئی ہے؟ اُسے تو زیان رات کو ہی کام سے فارغ کر چکا تھا وہ یہاں دوبارہ کیا کرنے آیا تھا اور زینب وہ اُسے کیوں ساتھ لے کر گیا ہے“،مقابل کی بات سنتے سائرہ بیگم نے ٹوٹے الفاظ میں اپنی بات ادھوری چھوڑی اور ہوش میں آتے ہی جلدی سے دوسرے بلاک کا رخ کیا تو چوکیدار نے پریشانی سے اُن کی پشت کو دیکھا۔
”ماڑا لگتا ہے وہ رفیق کا بچہ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کے زینب بی بی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے“،سائرہ بیگم کے جاتے ہی شاہد نے اپنے سر پہ ہاتھ مارتے اپنی کم عقلی پہ ماتم کیا اور گھر کے اندر جاکے کبیر صاحب کو آواز دینے لگا جو آج طبیعت خرابی کی وجہ سے کام پہ نہیں گئے تھے۔
”شاہد کیا ہوگیا ہے؟ کیوں اتنی زور زور سے آوازیں لگا رہے ہو؟“کبیر صاحب جن کے تعلقات دائم شاہ سے دوستی کی وجہ سے شاہ فیملی کے ساتھ کافی مضبوط تھے اُنہوں نے شاہد کی آواز پہ ہاتھ میں پکڑا اخبار ایک سائیڈ پہ رکھتے باہر کا رخ کیا۔
”صاحب جی وہ وجاہت صاحب کی چھوٹی بہو آئیں تھیں زینب بی بی کا پوچھ رہیں تھیں....“کسی بھی وضاحت کے بغیر شاہد نے چہرے پہ پریشانی لیے اُنہیں سائرہ بیگم سے ہونے والی تمام باتوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
”تم پاگل ہو تم نے بچی کو اُس چوکیدار کے ساتھ جانے سے روکا کیوں نہیں؟ بس باتیں چھوڑو جلدی جاؤ اور زینب کو ڈھونڈو“،اُس کی بات سنتے ہی کبیر صاحب کے ماتھے پہ بل پڑے مگر اپنے غصے کو ضبط کرتے اُنہوں نے شاہد کو جانے کا بولا اور خود بھی جلدی سے باہر کی جانب بڑھے تاکہ مین گیٹ پہ موجود لوگوں کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج مائرہ کے جھوٹ بولنے والی حرکت پہ زویا کو بلاوجہ ہی غصہ آرہاتھا تب ہی اُس نے کالج آکر بھی اُس سے ٹھیک سے بات نہیں کی اور سر درد کا بہانہ کرتے جلدہی گھر کے لیے نکل پڑی۔
”پتا نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو ایسے بھلا انسان کسی کو دھوکے سے کہیں لے کر جاتا ہے“اُس ویران جگہ کا خوف تھا یا پھر اُن مردوں کی نظروں کا اثر کہ زویا کو مائرہ کے ساتھ ساتھ عمر پہ بھی غصہ آنے لگا۔
”دوبارہ میں کبھی بھی مائرہ کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی اور عمر کو بھی سختی سے کہہ دوں گی کہ شادی سے پہلے ہم ایسے اکیلے میں نہیں ملیں گے“،منہ میں بڑبڑاتے زویا نے بے دھیانی میں کھڑکی سے باہر دیکھا۔
”چچا گاڑی روکیں“،کالونی کے باہر ہی کچھ فاصلے پہ زینب کو کسی شخص کے ساتھ ایک بائیک کے قریب کھڑا دیکھ کر زویا نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہا۔
”بی بی جی کیا ہوا ہے آپ کو کچھ لینا ہے؟“اپنے دھیان میں گاڑی چلاتے ڈرائیور نے اُس کے کہنے پہ بریک لگاتے سوال کیا تو زویا نےکوئی بھی جواب دینے کے بجائے جلدی سے اُترنے کے لیے دروازہ کھولا۔
”کہاں لے کر جا رہے ہو تم میری بہن کو؟“رفیق کے سر پہ پہنچتے ہی زویا نے زینب کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا جو ہاتھ میں کھانے پینے کی چیزوں کا شاپر پکڑےخوشی خوشی اُس کے ساتھ بائیک پہ بیٹھنے والی تھی۔
”بی بی جی....میں تو بس...“اس سے پہلے کہ رفیق اُسے کوئی وضاحت دیتا زویا نے آگے بڑھتے ایک زوردار تھپڑ اُس کے گال پہ رسید کیا۔
”تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری معصوم بہن کو لالچ دے کر اپنے ساتھ لے جانے کی۔ میں تمہارا منہ توڑ دوں گی“،پاؤں سے جوتا اُتار کر کوئی بھی لحاظ کیے بغیر زویا نے اُسے مارنا چاہا مگر ڈرائیور نے بروقت وہاں پہنچتے ہی اُسے ایسا کرنے سے روکا۔
”بی بی جی آپ زینب بی بی کو لے کر گاڑی میں بیٹھیں میں اسے دیکھ لیتا ہوں“، وہ مزید کوئی پیش رفت کرتی ڈرائیور نے مداخلت کرتے رفیق کو گریبان سے پکڑتے بائیک سے نیچے اُتارا۔
”دیکھ بشیر مجھے چھوڑ دے ورنہ اچھا نہیں ہوگا“،اس سے پہلے کہ اور لوگ اُن کی جانب متوجہ ہوتے رفیق نے اُس کا ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتے بھاگنا چاہا۔
”تمہیں چھوڑ کر میں نے زیان صاحب کے شر کو دعوت نہیں دینی اور تمہیں رات کی حرکت پہ سبق نہیں حاصل ہوا جو تم نے پھر سے اُن کی عزت پہ ہاتھ ڈال کر اپنی زندگی کو مشکل بنا لیا ہے“، مضبوطی سے اُس کے گریبان کو تھامے بشیر نے زویا کو خاموشی کے ساتھ زینب کو لے کر گاڑی میں بیٹھتا دیکھتے رفیق کو جھنجھوڑ کر اُس کی غلطی کا احساس دلایا۔
”بشیر مجھے معاف کر دے میں دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا، مہربانی کر مجھے جانے دے“،اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتے رفیق جو رات زیان کی طرف سے پڑی گئی مار کے بدلے زینب کو گھر سے غائب کرنے کے چکر میں تھا، ایک دم سے نرم پڑتے التجاء کرنے لگا۔
”نہیں، چپ کر کے میرے ساتھ چلو“،پچھلے بیس سال سے شاہ فیملی کا وفادار ڈرائیور ہونے کے ناطے بشیر نے نفی میں سر ہلاتے اُسے ویسے ہی گریبان سے پکڑ کر کالونی کے گیٹ پہ موجود لوگوں کے حوالے کرتے کچھ دیر اپنی نگرانی میں رکھنے کا بولا اور واپس پلٹا تاکہ پہلے زینب اور زویا کو باحفاظت گھر پہنچا سکے۔