ناول: سکون قلب قسط نمبر:04

34 3 2
                                    

ناول: سکون قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:04

گھر پہنچتے ہی اُس نے زینب کی تمام چیزیں سائرہ بیگم کے حوالے کیں اور اُن سے زویا کے متعلق پوچھتے خود سیڑھیوں کی جانب بڑھتے دستک دیتے اُس کے کمرے میں داخل ہوا جس کا دروازہ پہلے سے کھلا تھا۔
”شاہ آپ اس وقت یہاں؟ میرا مطلب آپ آفس نہیں گئے؟“اُسے اپنے کمرے میں دیکھ زویا کے اوسان خطا ہوئے تب ہی ہڑبڑاتے ہوئے اُس نے جلدی سے بیڈ سے دوپٹہ اُٹھاتے اپنے گرد لپیٹا۔
”کیا ہوا؟ سب خیریت ہے نا؟“اُس کے چہرے کے سخت تاثرات کو دیکھ کچھ سیکنڈز کے لیے اُس کے جسم پہ کپکپی طاری ہوئی مگر جلد ہی خود کو سنبھالتے اُس نے انجان بننے کی کوشش کی۔
”کس کی اجازت سے پہنا ہے تم نے یہ واہیات لباس؟“مال کے باہر اُس کے گھومنے والی بات کو پس پشت ڈالتے زیان کا غصہ اب اُسے جینز اور نا مناسب سی شرٹ میں دیکھ کر آسمان کو چھونے لگا۔
”ش...شا...ہ...و....ہ....میں نے.... ایسے ہی.... چیک کرنے کے لیے پہنا تھا“، اُس کی سرخ آنکھوں کو دیکھ زویا نے اپنی گھبراہٹ پہ قابو پاتے اٹکتے ہوئے وضاحت دی۔
”کیا چیک کرنا چاہتی تھیں تم؟یہ کہ اس بے ڈھنگے لباس میں تم کیسی لگتی ہو؟“ اپنے جبڑوں کو مضبوطی سے بھینچتے زیان نے نظروں کے ساتھ ساتھ اپنا رخ بھی پھیرا۔
”دو منٹ کے اندر کپڑے تبدیل کر کے میرے کمرے میں آؤ“،اُس کے آدھے ادھورے لباس کی وجہ سے مزید ایک سیکنڈ بھی وہاں رکنے کی بجائے زیان نے اُس کے اگلے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی حکم دیا اور تیز قدم اُٹھاتے وہاں سے نکلتے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو زویا نے حرکت میں آتے لپک کر دروازہ لاک کیا۔
”اُففف قسمت ہی خراب ہے میری“،دروازہ کھلا چھوڑنے پہ خود کو کوستے اُس نے غصے سے اپنے گرد لپیٹا ہوا دوپٹہ اُتار کر بیڈ پہ پھینکا۔
”پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں خود کو،کسی ڈریکولا کی طرح آتے ہیں اور حکم صادر کر کے فوراً ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ بس دو دانتوں کی کمی ہے باقی تو تمام عادتیں ہی کسی خونخوار بھیڑیے جیسی ہی ہیں“،زیان کے غصے سے خائف وہ اب مسلسل اُس کی شان میں قصیدے پڑھتے الماری سے اپنے لیے ایک مناسب سی شلوار قمیض نکال چکی تھی۔
”اُففف اب پھر سے مجھے ایک لمبا لیکچر سننے کو ملے گا“،صبح والی زیان کی نصیحتوں کو یاد کرتے اُس نے جھرجھری لی اور مزید وقت ضائع کیے بغیر کپڑے تبدیل کرنے کے لیے واش روم میں گھس گئی۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریباً دس منٹ بعدساری ہمتیں جمع کرکے اُس نے زیان کے کمرے کے باہر رکتے دروازے پہ دستک دی تھی۔
”آجاؤ...“،سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اندر سے اجازت ملی تو اُس نے جلدی سے جتنی بھی سورتیں یاد تھیں پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے اندر قدم رکھا۔
”بیٹھ جاؤ...“،کچھ فاصلے پہ کھڑکی کے پاس کھڑے اپنی نظریں باہر لان میں جمائے اُس نے آہٹ پر پلٹے بغیر ہی حکم دیا۔
”ش...ا...ہ س...وری...وہ بس....میں نے ایسے ہی پہن لیے تھے وہ کپڑے“،اس سے پہلے کہ وہ اُسے کوئی سخت سست سناتا زویا نے بیٹھنے کی بجائے اُس کے قریب آتے باقاعدہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے معذرت کی۔
”ٹھیک ہے کپڑے تم نے ویسے ہی پہن لیے تھے، مان لیتا ہوں مگر کیا تم کالج کے بعد بغیر کسی کو بتائے اپنی سہیلی کے ساتھ شاپنگ کرنے کے لیے بھی ویسے ہی چلی گئی تھیں؟“اپنا رخ اُس کی جانب کرتے زیان نے حتی الامکان اپنے لہجے کو ہموار رکھنے کی کوشش کی۔
”کیا....کیا مطلب؟ میں کیوں کسی سہیلی کے ساتھ شاپنگ پہ جاؤں گی“،وہ جو اب تک صرف زیان کو کپڑوں کی وجہ سے ناراض سمجھ رہی تھی اُس کی بات سنتے ایک دم بوکھلائی۔
”جھوٹ بول کر خود کو میری نظروں میں مزید مت گراؤ، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ہی تمہیں ایک لڑکی کے ساتھ مال کے باہر روڈ پہ کھڑا دیکھا تھا“،اُس کے یوں صاف مکرنے پہ زیان جو اپنا غصہ ضبط کیے کھڑا تھا ایک دم ہی بھڑکا۔
”شاہ.... وہ مجھے اپنے لیے کچھ سامان لینا تھا اس لیے گئی تھی اور میں نے امی کو بتایا تھا“،نظریں چراتے اُس نے ایک بار پھرسے جھوٹ کا سہارا لیا۔
”کون سی امی کو بتایا تھا؟ چاچی تو کہہ رہیں تھیں کہ تم اُنہیں ایکسٹرا لیکچر کا بول کر گئیں تھیں“،دونوں بازو اپنے سینے پہ باندھے وہ آج اچھی طرح اُس کی طبیعت صاف کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
”نہیں، میں نے امی کو بتایا تھا کہ میں نے آج اپنی دوست ساتھ کچھ چیزیں خریدنے جانا ہے، ہوسکتا ہے وہ بھول گئی ہوں“،خوف کے مارے چہرے پہ آئی پسینے کی ننھی ننھی بوندوں کو ہاتھ سے صاف کرتے اُس نے چوری پکڑے جانے پہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”مائیں بے وقوف نہیں ہوتیں جو بیٹیوں کے جوان ہونے پہ اُن کی کچھ گھنٹے پہلے کی ہوئی بات بھول جائیں۔ زویا کس راستے پہ چلنے کی کوشش کر رہی ہو تم؟ کون ہے جو تمہیں اس قدر بغاوت پہ اکسا رہا ہے؟“ اُس کے مسلسل جھوٹ بولنے سے تنگ آتے زیان نے اب کی بار لہجے میں نرمی لاتے استفسار کیا۔
”میں کیوں کسی کے کہنے پہ چلوں گی؟ میں صبح بھی آپ کو بتا چکی ہوں کہ میرا اپنا دماغ ہے جس سے میں اپنے بارے میں ہر اچھے برے عمل کا فیصلہ کر سکتی ہوں“،اُس کے نرم پڑتے ہی زویا نے پھرتی سے زبان چلائی۔
”ٹھیک، وہ آدھے ادھورے کپڑے پہننے کا فیصلہ بھی تم نے اپنے ہی دماغ سے کیا تھا؟“اُس کی بات پہ طنز کرتے زیان نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔ ”ج...ی... مجھے اچھے لگتے ہیں ویسے کپڑے اور آج کل تو سب لڑکیاں ہی پہنتی ہیں“،اُس کے لہجے میں عجیب سے چبھن محسوس کرتے زویا نے نظریں جھکائے کمزور سی مزاحمت کی۔
”اگر انسان کو برائی دلکش اور اچھائی بوجھ لگنے لگے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا ایمان کمزور ہو رہا ہے“،اُس کی جھکی ہوئی نظروں کو دیکھتے زیان نے افسوس سے کہا۔
”میرا ایمان اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ ایسے کپڑے پہننے یا میک اپ کرنے سے ڈگمگا جائے اور آپ بات کو غلط رخ دے رہے ہیں“،زیان کی بات اُسے بری طرح سے تلملا چکی تھی تب ہی بغیر لحاظ کیے اُس نے زیان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جواب دیا۔
”میں بات کو غلط رخ نہیں دے رہا بلکہ تمہارا دماغ غلط راستے پہ چل رہا ہے، کیا سمجھتی ہو تم ایسے لباس میں جب تم باہر جاؤ گی تو تمہارا ایمان مضبوط رہے گا؟ جب تم غیر محرموں کو اپنے جسم کی نمائش کر کے دکھاؤ گی تو تمہیں کوئی گناہ نہیں ملے گا؟ تمہارے ایسے لباس کو دیکھ کر لوگ نظریں جھکا لیں گے؟“ اُس کے دماغ اور سوچ میں آزادی کے نام پہ بے حیائی بھرتی دیکھ زیان نے اُس کی عمر کا لحاظ کیے بغیر ہی سوال کیا۔
”ہاں تو کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے میری طرف دیکھنے کی“،اُس کا سوال سمجھے بغیر ہی زویا نے کندھے اچکاتے بے فکری ظاہر کی۔
”اگر کسی کو ضرورت نہیں پڑی تو تم کیوں کسی کی ضرورت بننا چاہتی ہو؟ کیوں چاہتی ہو کہ تمہارے اس  پہنے ہوئے گھٹیا لباس کو لوگ گندی نظروں سے دیکھیں؟ زویا، عورت کی جیت یہ نہیں ہے کہ وہ خود کو کس طرح سے سب کی نظروں کا مرکز بنائے بلکہ اُس کی حاصل کامیابی یہ ہے کہ وہ کس طرح سے خود کو دوسروں سے چھپاکر رکھے۔ اس وقت جو تمہاری عمر ہے نا تمہیں یہ سب صرف فیشن لگ رہا مگر وقت گزرنے کے ساتھ تمہیں یہی چیز بے حیائی لگے گی اس لیے پلیز خود کو اُس وقت سے بچا لو جب تمہیں اپنے ماضی پہ پچھتانا پڑے“،اُس سے فاصلہ برقرار رکھتے زیان نے اپنی بات مکمل کرتے اُس کی طرف دیکھا۔
”پتا نہیں شاہ آپ کو کیا ہوتا جا رہا ہے؟ آپ اب میری ہر بات سے  اختلاف کرنے لگے ہیں۔ مطلب کیا میں آپ کو اتنی بری لگنے لگی ہوں؟“آنکھوں میں نمی لیے زویا نے اُس کی باتوں پہ شرمندگی سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ استفسار کیا۔
”میں تمہاری باتوں سے اختلاف نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے تم بُری لگتی ہو، بس میں چاہتا ہوں کہ تم کسی برائی میں پڑ کر اپنی زندگی برباد نہ کرو اسی لیے بار بار تمہیں ٹوکتا ہوں“،اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ بے چین ہوا۔
”ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی کہ دوبارہ آپ کو شکایت کا موقع نہ دوں“، اتنی بے عزتی کے بعد زویا نے مختصراً اُسے تسلی دی اور مزید کچھ بولے بغیر کمرے سے نکلی تو زیان کی خاموش نظروں نے بے بسی کے ساتھ اُس کا تعاقب کیا۔

سکونِ قلبWhere stories live. Discover now