ناول: سکونِ قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:13”زارون باؤ آجاؤ کھانا کھاتے ہیں“،دوپہر کے وقت سب مزدور کھانے کے لیے قریبی ٹھیلے کی جانب بڑھے تو تنویر نے اُسے بھی آواز دی۔
”نہیں تنویر بھائی مجھے بھوک نہیں ہے آپ جائیں میں یہ کام ختم کر کے کھاؤں گا“،سیمنٹ کی بوری اُٹھاتے زارون نے جیب میں بس کرائے کے پیسے ہونے کی وجہ سے بہانہ بنایا۔
”جب کھانا سامنے آئے گا تو بھوک خود بخود لگ جائے گی بس یہ کام چھوڑو اور چلو میرے ساتھ مجھے تم سے ایک ضروری بات بھی کرنی ہے“،اُسے دوسری بوری اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھاتا دیکھ کر تنویر نے روکتے ہوئے بازو سے پکڑتے اپنے ساتھ ہی کچھ فاصلے پہ موجود ریڑھی کا رخ کیا جہاں اور بھی مزدور کھانا کھانے میں مصروف تھے۔
”جی کیا بات کرنی تھی؟“ہاتھ دھونے کے بعد اُس کے ساتھ ایک لکڑی کی میز پہ بیٹھتے زارون نے مدعے کی بات پہ آتے سوال کیا۔
”بات بھی کر لیتے ہیں پر پہلے کھانے کا بول آؤں“،مسکراتے ہوئے تنویر نے اُس سے کہا اور وہاں سے اُٹھ کے ریڑھی کی جانب بڑھا۔
”ہاں بھائی پانچ روٹیاں اور ایک سالن کی پلیٹ دے دو“،جیب سے پیسے نکالتے ہوئے تنویر نے ریڑھی والے سے کہا تو اُس نے جلدی سے اُس کا بتایا ہوا سامان تیار کرکے ٹرے میں رکھا۔
”بہت شکریہ“،کھانے کے پیسے اُسے تھماتے تنویر نے ٹرے پکڑی اور زارون کی طرف آیا۔
”لو باؤ کھانا شروع کرو“،ٹرے اپنے اور اُس کے درمیان میں رکھتے تنویر نے اُسے بھی پیشکش کی۔
”نہیں،تنویر بھائی آپ کھائیں مجھے سچ میں بھوک نہیں ہے“،زارون جو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنے لیے کھانا لینے گیا ہے اُس نے بھوک ہونے کے باوجود بھی اُسے منع کیا۔
”کھانا شروع کرو خود ہی بھوک لگ جائے گی اور یہ کھانا آج میری طرف سے ہے“،اُس کی خود داری کو جانتے ہوئے تنویر نے روٹی توڑ کے آدھی اُس کی جانب بڑھائی۔
”کیوں؟ میرا مطلب آج کوئی خاص بات ہے کیا؟“ صبح سے کام کرنے کی وجہ سے زارون جو بھوک کے مارے نڈھال ہو رہا تھا اُس نے منع کرنے کے بجائے روٹی اُس کے ہاتھ سے لی۔
”ہاں باؤ وہ میرا بیٹا کلاس میں پہلے نمبر پہ آیا ہے“،اُسے نوالہ بنا کر اپنے منہ میں رکھتا دیکھ کر تنویر نے صفائی سے جھوٹ بولا۔
”ماشاءاللہ، بہت مبارک ہو آپ کو اللہ پاک اُسے مزید کامیابی عطا کرے“،اُس کی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے زارون نے اُسے دل سے دعا دی۔
”آمین، بس کل سے سوچ رہا تھا کہ تمہارے لیے مٹھائی لاؤں گا مگر جیب نے اجازت نہیں دی اس لیے ابھی اس کھانے کو ہی میری طرف سے مٹھائی سمجھ کے کھا لو“،اُسے کسی بھی شرمندگی میں ڈالنے کے بجائے تنویر نے خود شرمندہ ہوتے ہوئے معذرت کی۔
”کوئی بات نہیں تنویر بھائی، یہ کھانا مجھے کئی مٹھائیوں سے زیادہ پسند آیا اور آپ کا خلوص بھی۔ آپ مجھے کچھ نہ کھلاتے تو بھی میں آپ کی خوشی میں خوش ہوتا“،اُسے یوں پشیمان دیکھ کر زارون نے نرمی سے مسکراتے ہوئے اُس کا دل بڑا کرنے کی کوشش کی۔
”چلو ٹھیک ہے مگر مٹھائی میری طرف ادھار ہے وہ تو میں تمہیں ضرور کھلاؤں گا“،اُس کی بات پہ مسکراتے ہوئے تنویر نے جذبے سے کہا اور اُسے کھانا کھانے کا بولتے خود بھی پرسکون سے انداز میں نوالہ بناتے اپنے منہ میں رکھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔