ناول: سکونِ قلب
مصنف: زارون علی
قسط نمبر:07”بھائی نوکری کا کچھ بندوبست ہوا یا نہیں؟“اُس کے گھر آتے ہی دعا نے اپنے حصے کا کھانا گرم کر کے اُس کے سامنے رکھا۔
”نہیں پر امید ہے کہ ایک دو دنوں میں کہیں مل جائے گی“،رومال میں لپیٹی ایک روٹی اور پلیٹ میں موجود تھوڑا سا سالن دیکھ کر اُس نے تھکے ہوئے انداز میں بہن کو تسلی دی۔
”ان شاءاللہ، بس آپ پریشان نہ ہوں اللہ پاک بہت جلد آپ کو کامیاب کرے گا“،اُسے یوں مایوس دیکھ کر دعا نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”کیوں نہ پریشان ہوں؟ میں جانتا ہوں تم اور ہادیہ سارا دن اُن پرائیویٹ اسکول والوں کی کتنی باتیں برداشت کر کے اس گھر کا بوجھ اُٹھاتی ہو، اور ایک میں ہوں کہ تعلیم ہونے کے باوجود بھی چھ مہینوں سے نوکری کے لیے دھکے کھا رہا ہوں“،ماں باپ کی وفات کے بعد پانچ بہنوں کا اکلوتا وراث ہونے کے ناطے زارون کی پریشانی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی مگر یہ بہنوں کے صبر اور ہمت کا نتیجہ تھا کہ وہ اب تک مسلسل ناکامی کے باوجود بھی ہمت نہیں ہارا تھا۔
”ایسا نہ سوچا کریں، اللہ پاک آپ کے حق میں بہتر فیصلہ کرے گا اور باقی رہی ہماری بات تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ میڈم بہت اچھی ہیں اُنہوں نے ہماری تنخواہ کے ساتھ ساتھ ردا، کشف اور فاطمہ کی فیس بھی معاف کر دی ہے“،اُس کے قریب ہی چارپائی پہ بیٹھتے دعا نے اپنی چھوٹی تینوں بہنوں کا حوالہ دیتے زارون کو مطمئن کیا۔
”جو بھی ہو مگر حالات دن گزرنے کے ساتھ بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے اورایسے میں مجھے کوئی اچھی جاب کا نہ ملنا تم لوگوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنے گا“،نوالہ توڑتے زارون نے آج بھی جاب نہ ملنے کا غصہ بے بسی سے اپنے ہی اوپر نکالا۔
”نہیں ہوتے ہم پریشان بس آپ صبر سے کام لیں، اللہ پاک بے نیاز ہے وہ بہت جلد آپ کے لیے کسی بہترین روزی کا انتظام کرے گا“،اُسے بار بار خود کو کوستا دیکھ دعا نے نرمی کے ساتھ اُس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی۔
”بھائی آپ آج پھر میرے لیے برگر نہیں لائے؟ آپ نے کل مجھ سے وعدہ کیا تھا“،فاطمہ جو کب سے دور کھڑی زارون کو خالی ہاتھ گھر آتا دیکھ چکی تھی اُس نے اُن دونوں کو اپنی جانب متوجہ ہوتا نہ دیکھ کر خود ہی آگے بڑھتے شکوہ کیا۔
”فاطمہ، بھائی صبح سے اب آئیں ہیں، اُنہیں تنگ مت کرو اور جاؤ جا کر سکون سے سو جاؤ صبح اسکول بھی جانا ہے“،زارون کے کچھ بولنے سے پہلے ہی دعا نے اُسے غصے سے گھورا۔
”نہیں، میں نہیں جاؤں گی۔ مجھے بس ابھی برگر کھانا ہے“،بہن کی ڈانٹ کے باوجود بھی پانچ سالہ فاطمہ جو اُن کی مجبوری سمجھنے سے قاصر تھی ضد کرنے لگی۔
”اچھا ٹھیک ہے میں لا دیتا ہوں، بس میری گڑیا اداس نہ ہو“،اس سے پہلے کہ دعا اُسے مزید کچھ کہتی زارون نے ہاتھ میں پکڑا نوالہ واپس رکھا اور چارپائی سے اُٹھتے اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
”سچ میں بھائی؟“زارون کی بات سنتے ہی فاطمہ کا موڈ ایک دم سے بحال ہوا اور اُس نے خوشی سے اچھلتے ہوئے اپنی سے بڑی کشف کو بتانے کے لیے اندر کی جانے دوڑ لگائی۔
”بھائی آپ کھانا کھائیں میں خود ہی فاطمہ کو سمجھا لوں گی“،اُسے اپنی جیب کو ٹٹولتا دیکھ دعا نے اُس کے قریب آتے تسلی دی۔
”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ایک دوست کے ساتھ شام کو کھانا کھایا تھا۔ تم کھا لو میں فاطمہ کے لیے برگر لے کر آتا ہوں“،جھوٹ کا سہارا لیتے زارون نے مسکراتے ہوئے باہر کی جانب قدم بڑھائے تو دعا مہینے کے اختتام کی وجہ سے اُسے کچھ پیسے بھی نہ دے پائی کہ وہ آسانی سے برگر خرید لاتا۔
”آپی کیا ہوا؟ یہ بھائی اس وقت کہاں گئے ہیں؟ میرا مطلب اُنہیں جاب مل گئی ہے؟ ہادیہ جو اسکول سے آنے کے بعد بخار کی وجہ سے سرشام ہی سوگئی تھی اب فاطمہ کے شور کی وجہ سے اُٹھی تو اُس کے منہ سے برگر کا نام سنتے ایک امید لیے باہر آئی۔
”نہیں ابھی نہیں ملی پر جلد مل جائے گی“،رومال میں رکھی روٹی کو بے بسی سے دیکھتے دعا نے اُس سے نظریں چراتے جواب دیا۔
”اچھا تو پھر فاطمہ کے لیے برگر کہاں سے لائیں گے؟ میرا مطلب آج تو آپ کے پاس بھی پیسے نہیں تھے“،اُس کی بات سنتے ہادیہ نے اُس کے قریب بیٹھتے پریشانی سے پوچھا۔
”پتا نہیں یہ فاطمہ بھی بلاوجہ ہی ہر بات کے لیے ضد کرنے لگی ہے۔ پہلے ہی آج کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے بھائی نے پتا نہیں کتنے دھکے کھائے ہوں گے“،روٹی کو واپس ویسے ہی رومال میں لپیٹتے دعا نے چھوٹی بہن کی حرکت پہ غصے کا اظہار کرتے برتن اُٹھائے اور ہادیہ کو وہیں گم صُم چھوڑتے برآمدے میں ہی موجود چھوٹے سے کچن کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔