آغازِ جستجو ۔۔۔قسط #1

395 23 5
                                    

پیر کے دن کی صبح تھی سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا سردیوں اور گرمیوں کاملا جلا موسم سردیاں آنے والی تھی اور گرمیاں رواں دواں تھیں۔ٹھنڈی ہوائیں اور پتوں کا رقص لان کی خوبصورتی کو اور بڑھا رہا تھا۔اور وہ وہی لان میں کرسی پر بیٹھی ناجانے کِن خیالوں میں گم تھی۔
"شِفا بیٹا کیا سوچ رہی ہو؟ مسز منیر اُس کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھی ۔۔"ناشتے میں بھی کچھ حاص نہیں کھایا.. طبیعت تو ٹھیک ہے؟"مسز منیر نے اُسے ایسے پریشان دیکھا تو پوچھنے لگی۔
"جی امی میں ٹھیک ہوں بس آج شام رزلٹ ہے  نہ تو۔۔۔"
انشاللہ سب بہتر ہوگا پریشان نہ ہو"
"امی آپ توجانتی ہیں نہ کتنی محنت کی ہے میں نے"
"جانتی ہوں ! اور اللّٰہ محنت کرنے والوں کو اُن کی محنت کا صِلہ ضرور دیتا ہے۔"انہوں نے شِفا کا ماتھا چوم کر اُسے تسلی دی۔
"چلو تمہارے بابا بلا رہے ہیں مل لو ان سے پھر وہ آفس کے لیے نکلیں اور چل کر اپنے بھائی کو بھی اُٹھاؤ ابھی تک سو رہا ہے"
مسٹر اینڈ مسز منیر کی دو اولادیں تھیں شِفا منیر اور شفان منیر ۔۔۔شفان سٹڈیز کمپلینٹ کر کے اپنے والد کے ساتھ ہی انکے بزنس میں ہلپ کر رہا تھا ۔اور شفا ایف ایس سی کے دوسرے سال میں تھی جبکہ پہلے سال کا رزلٹ آج آنا تھا۔
"ماما اُن کو بخار ہے اسی لیے تو وہ آفس بھی نہیں گئے۔۔۔"شفا نے ہستے ہوئے ماما کو یاد کروایا۔
"جانتی ہوں اسی لیے تو کہ رہی ہوں جا کر خیر خبر لو اُسکی میں اُس کے کھانے کا بندوست کرتی ہوں۔۔"
"جی ماما آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔"
مسز منیر مسکراتے ہوئے اندر چلی گئی اور اُن کے پیچھے شفا بھی۔
                  °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"ارتضیٰ بھائی یہ کیا آپ نے سارا خراب کر دیا"وہ منہ پھلائے اپنے بھائی سے لڑ رہی تھی جس نے جلدی جلدی میں اسکا سارا stick house خراب کر دیا تھا۔
"اِرحا بچے سوری "وہ اپنی جلدبازی پر معافی مانگنے لگا اسے میٹنگ سے لیٹ ہو رہا تھا ۔
"It's not okay bhai..i am not going to accept your sorry.."وہ رونے والی ہو گئ تھی آخر کو اتنی محنت سے   
بنایا تھا اُس نے اور ارتضیٰ نے  فون پر بات کرتے ہوئے  ٹیبل پر دیکھے بغیر اُس کے Stick house پر اپنا laptopبیگ رکھ دیا... ارتضیٰ کو  اُسے ایسے دیکھ کر اپنی میٹنگ کو سائڈ پر کرنا پڑا کیونکہ اپنی جان سے عزیز بہن کو ناراض کر کے آفس تو نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔
"اب اپنے بھائی سے اس بےجان چیز کے لیے ناراض ہو گی۔؟؟" وہ بھی منہ بناتے ہوئے اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔۔
"سوری" وہ کان پکڑ کر بولا.
بھائییییییییی!آپ کو پتا ہے میں آپسے ناراض  نہیں ہو سکتی" وہ ارتضیٰ کے ساتھ لگ کر بولی۔۔۔
"I know bhai ki jan" ارتضیٰ نے اُس کے سر پر بوسہ دیا
اُسی وقت مصطفیٰ آنکھیں مسلتا ہوا آیا (مسٹر جمال   کی وفات کو دوسال ہو چکے تھےاور بہت کچھ بدل گیا تھا اِرحا سب سے چھوٹی تھی ارتضیٰ اور مصطفیٰ میں دو سال کا فرق تھا  ارتضیٰ بڑا تھا حالات نے اسے بہت ذمہ دار بنا دیا تھا اِرحا میں دونوں بھائیوں  کی جان بستی تھی )
"کیوں بھئی آج صبح صبح ہی بھائی بہن کی محبت جاگ گئی" مصطفیٰ کہتے ہوئے ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا
"بس کیا کریں تمہاری تو محبتیں بھی تمہاری طرح سوئی رہتی ہیں اب آئے گی کوئی قربانی دے کر اور تمہیں ٹھیک کرے گی۔" اِرحا نے اُس کی نیند پر چوٹ کی
"جاگ جائیں گی جاگ جائیں گی میری بھی محبتیں جاگ جائیں گی لیکن اُس سے پہلے ہمارے بھائی صاحب کو محبتیں جگانے کی ضرورت ہے آخر کو بڑے ہیں ان کے بعد ہی ہماری باری آنی ہے۔۔" مصطفیٰ نے دل پر ہاتھ رکھ کر اک ادا سے کہا اس کی نوٹنگی پر کیچن سے آتی مسز جمال نے اُسے مصنوئی غصے سے کمر پہ مارا۔۔
آہ ہ ہ ہ ہ۔ امیییییییییی! مصطفیٰ ایسے چیخا جیسے پتا نہیں کتنا ظلم ہو گیا ہو
"ہاں تو کریں گے نا ہم ارتضیٰ کی شادی سبین کی بھی سٹڈیز کمپلیٹ ہونے والی ہے "اُنہوں نے مسکرا کر کہا تو مصطفیٰ اور اِرحا دونوں نے ارتضیٰ کو دیکھتے ہوئے اوووووووووو کی۔۔سبین سے ایک سال پہلے ہی مسز جمال نے ارتضیٰ کی بات طہ کی تھی کیونکہ وہ اپنی بھانجی کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں جبکہ ارتضیٰ کے دل کے حال سے صرف اللّٰہ ہی واقف تھے۔۔بیشک دلوں کے حال کو اللّٰہ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔۔
"اچھا امی میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے ۔۔"ارتضیٰ اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے بولا۔۔۔
"بیٹا ناشتا تو کرلو" مسزجمال نے کہا
"نہیں امی آفس میں کر لوں گا"وہ کہتا نکل گیا
"امی آپ کا بیٹا شرما گیا ہے سمجھا کریں " مصطفیٰ رازداری کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔
"ہاں اللّٰہ نے تمہارے حصے کی شرم  بھی انہیں دے دی ہے نہ" اِرحا اور اسے چھوڑ دے impossible
"معاف کرو بہن تم سے تو میں باز آیا" وہ منہ بناتا بولا۔۔۔اور مسز جمال ان کی لڑائی سے تنگ آتے ناشتا لگانے چلی گئی۔۔۔
                        °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"بھائی اُٹھ جائیں کب تک سوئیں گے" وہ جو کب سے اسے اُٹھا رہی تھی تنگ آکر کھڑی ہو گئی۔۔۔"میں جا رہی ہوں سوئے رہیں" اور شفان منیر ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔
شفا نے کچھ سوچتے ہوئے زور سے اپنا پاؤں بیڈ کے ساتھ مارا اور آہ آہ کرتے نیچے بیٹھ گئی۔۔۔
شفان کی نیند تو جیسے غائب ہو گئ ۔۔
"شفا گڑیا کیا ہوا آرام سے چلو نہ دیکھ کر اللّٰہ نے آنکھیں کس لیے دی ہیں" وہ رشتوں کے معاملے میں اول درجے کا possessive انسان بہن کو تکلیف میں کہاں دیکھ سکتا تھا
جبکے اس کو فکرمند دیکھ کر شفا نے فوراً اپنا ڈدامہ بند کیا
" بھائی کچھ نہیں ہوا آپ اٹھ نہیں رہے تھے تو۔۔۔۔" سوری " وہ آنکھیں پٹپٹا کر بولی ۔تو شفان کو ہنسی آ گئی ۔۔۔
"اچھا کوئی بات نہیں اٹھو آج رزلٹ ہے تمہارا اللّٰہ اللّٰہ کرو اور مصّلہ بچھا کر بیٹھ جاؤ تمہارے ڈرامے ہی نہیں ختم ہو رہے ۔۔۔"شفان کو اسے تنگ کرنے کا بہانا چاہیے ہوتا تھا۔۔۔
"ہنہہہہہ ! میں ہی پاگل ہوں آپکی طبیعیت پوچھنے آ گئی جا رہی ہوں اور اگر میرا رزلٹ اچھا آیا تو آپ اپنا وعدہ نہیں بھولیں گے"
"کونسا وعدہ"شفان اپنی الماری سے کپڑے نکالنے میں مصروف تھا اسکی بات پر وعدہ یاد نہ ہونے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔۔۔
"بھائی آئسکریم والا آپ لیکر جائیں گے۔۔"شفا منہ بنا کر بولی
ہاہاہا "بھائی کی گڑیا یاد ہے یاد ہے لے جاؤں گا"وہ کہتا واشروم چلا گیا اور شفا کو پھر سے رزلٹ کی فکر ستانے لگی۔۔۔
                      °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ابھی میٹنگ سے فری ہو کر وہ اپنے آفس میں آ کر بیٹھا آج اس نے شفان سے ملنا تھا چار ماہ بعد کام کا برڈن کم ہوتے ہی انہوں نے آج ایک ریسٹورنٹ میں ملنے کا پلین کیا لیکن کیونکہ شفان کی طبیعت خراب تھی تو وہ اس کے گھر جا رہا تھا۔۔وہ آنکھیں موندے اپنی چئیر کے ساتھ ٹیک لگا گیا۔۔اور اسکی آنکھوں کے سامنے چار ماہ پہلے کا وہ منظر آیا جس نے اسے کب سے پریشان کر رکھا تھا۔۔۔وہ سر جھٹکتا اٹھا اور شفان کے گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔
  
                           °°°°°°°°°°°°°°°°°
"آج آج آج بھائی آپ نے وعدو کیا تھا " وہ لائونچ کے صوفے پر بیٹھی اس سے بچوں کی طرح ضد کر رہی تھی۔اس کا رزلٹ آ گیا تھا اور وہ اے پلس گریڈ سے پاس ہوئی تھی
"ہاں گڑیا لیکن ابھی ارتضیٰ آ رہا ہے ملنے ہم کل چلیں گے۔۔" اور شفا کو تو ارتضیٰ کا نام سنتے ہی سانپ سونگھ گیا وہ اچھا ٹھیک ہے کہتی ابھی مڑی ہی تھی کہ ارتضیٰ اندر داخل ہوا ۔وہی محسوس کلون کی خوشبو بال جل لگا کر نفاست سے سیٹ کیے ہلکی بیرڈ ، بڑی بڑی کالی آنکھیں بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ اور کوٹ بازو پر ٹکائے وہ بے شک بہت خوبصورت تھا۔۔
اس نے ایک نظر اسپر ڈالی وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی آنکھوں میں بلا کی معصومیت اور غصہ تھا "اسلام و علیکم" اس نے شفا کو دیکھ کر سلام کیا اور وہ منہ بناتے ہوئے اندر چلی گئی۔۔۔"اسے کیا ہوا" شفان خیرت سے بولا شفان اور ارحا کے نکاح کے بعد ہی شفا اور ارتضیٰ کی پہلی دفع بات ہوئی وہ بھی دعا سلام اور شفا ہمیشہ اچھے سے سلام کا جواب دیتی تھی اور آج ۔۔۔۔۔  اور ارتضیٰ ایک بار پھر اس دن کے بارے میں سوچنے لگا
کیسا ہے جگر؟
وہ کہتا شفان کے گلے لگا اور کچھ لمحے ایسے ہی لگا رہا۔۔
"بس کر دے آج ہی ساری کثر نکالے گا۔" شفان اس کی کمر پر مکا رسید کرتے ہوئے بولا۔۔۔ابھی کہاں کمینے انسان بہنوئی بن کر اکڑ آ گئی تجھ میں کب سے ملاقات نہیں ہوئی اور توں تو بھول ہی گیا ہے..
ارے نہیں یار میں بس کام کام کام یاد ہے نہ قائدِ اعظم کی نصیحت۔۔۔وہ کہتا صوفے پر بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ ارتضیٰ بھی اور اب ان کی وہی باتیں ۔۔۔۔
                     °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ارتضیٰ کو دیکھ کر شفا کا لمحہ میں موڈ خراب ہو گیا تھا ۔۔وہ سوچنے لگی چار ماہ پہلے ۔۔۔۔
آج ڈرائیور نہیں آیا تھا اور وہ سٹاپ پر بس کا ویٹ کر رہی  اکیڈمی ڈے واپس گھر جانا تھا پونی ٹیل بنائے ریڈ اور بلیک کا کومبو کیے شرٹ اور ساتھ بلیک ٹراؤزر میں کندھے پر بیگ لگائے بڑی بڑی پلکیں بھوری آنکھیں گوری رنگت اور ڈر کے مارے لرزتے ہونٹ وہ کوئی پری لگ رہی تھی آج سے پہلے ایسی صورت حال کا کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔  وہ لڑکا مسلسل اسے دیکھ رہا تھا مغرب کا وقت تھا اور بہت خاموش شام اس کے ساتھ ایک عورت تھی یقیناً وہ بھی بس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔وہ دوبارہ شفان کو کال کرتے ہوئے مڑی تو وہ لڑکا ابھی تک اسے ہی گھور رہا تھا اور شفان میٹنگ میں ہونے کی وجہ سے کال نہیں اٹھا رہا تھا فون سائلنٹ تھا۔۔۔وہ عورت جس کی وجہ سے وہ کچھ مطمئن تھی کوئی گاڑی آنے پر اس میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔اور وہ لڑکا تو جیسے انتظار میں تھا اس عورت کے جاتے ہی وہ شفا کے قریب آیا اور اُلٹی سیدھی باتیں کرنے لگا شفا کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے ۔۔۔۔۔اور وہ اسے ڈرتا دیکھ کر اور بتمیزی کرنے لگا۔۔شفا اللّٰہ کو یاد کرتے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر گئی اللّٰہ پاک مدد کر دیں اللّٰہ پاک آپ کے حوالے ہوں میں یا اللّٰہ بھائی کو بھیج دیں وہ دل میں اللّٰہ سی التجا کرتی بابا ، بھائی کی صدائیں لگا رہی تھی ۔۔۔
چلو جانِ من تمہیں اپنے اڈے کی سیر کرواتا ہوں وہ اس سے پہلے شفا کا ہاتھ پکڑ تا کسی نے پیچھے سے اسے گردن سے پکڑا اور اتنی کُٹ لگائی کہ وہ آدھ مرا زمین پر جا گِرا  اور اس سے پہلے وہ شخص اسے اور مارتا وہ مشکل سے لنگڑاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔ "مِس شفا اگر آپ اپنے آپ کو defend نہیں کر سکتی تو اکیلی باہر نکلتی کیوں ہیں؟؟" وہ غصے سے دھاڑا تھا اور وہ جو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی اور سہم گئی "آخر آپ لڑکیاں اتنا ڈرتی کیوں ہیں اپنی خفاظت خود کرنا سیکھیں کیوں مردوں پر depend کرتی ہیں" وہ اسے ڈانٹ رہا تھا "اپنی حالت دیکھیں اس طرح نکلتی ہیں لڑکیاں باہر اور یہ دوپٹہ سر پر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔۔۔اور شاید چادر نام کی چیز سے آپ ناواقف ہیں"۔۔۔وہ بولے جا رہا تھا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس نازک سی جان پر کیا گزر رہی ہے وہ تو خود نہیں جانتا تھا آخر اسے اتنا غصہ کیوں آرہا تھا۔۔۔۔۔وہ چپ ہوا تو اسکی بھیگی ہوئی آواز سنائی دی "مجھے گھر جانا ہے" تو ارتضیٰ کو جیسے ہوش آیا وہ گاڑی کی طرف بڑھا جو کہ تھوڑے فاصلے پر تھی اور وہ چپ سی اس کے ساتھ چل دی ۔۔
اس رات ارتضیٰ خود اپنی حرکت پر حیران تھا اسنے کیوں اسے اتنا ڈانٹا کیوں وہ تو اسے own  نہیں کرتا تھا؟ کیوں وہ اتنا غصہ کر گیا شاید وہ شفان کی بہن تھی اس لیے۔  وہ خود ہی اپنی سوچوں کو جھٹکتا آنکھیں بند کر گیا۔۔۔
                °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جاری ہے۔۔۔۔
امید ہے آپ سب کو پسند آئے ۔۔۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔۔۔۔❣️

آغازِ جستجو(Completed)✔️Where stories live. Discover now