آغازِ جستجو قسط۔9

99 18 4
                                    

بابر شاہ کی طرف سے بھیجے گئے پھول اور کارڈ سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ان لوگوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے ۔اور اس بات نے انہیں مزید پریشان کر دیا تھا۔
"آج اس نے شفا کا نام لیتے ہوئےاس بات کو واضح کیا ہے کہ وہ ہمارے گھر والوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے مجھے زیادہ فکر تمہاری طرف سے ہے شفان" واصف نے شفان سے کہا۔
"کیوں میری طرف سے کیوں؟" شفان نے واصف سے سوال کیا تھا اور واصف نے ارتضیٰ کی طرف دیکھا تھا
"شفان تمہارا کزن عمار بابر شاہ کے خصوصی بندوں میں سے ایک ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ہمارے معاملات اس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔"ارتضیٰ نے شفان کو بتایا تھا
"تم ٹھیک کہ رہے ہو ہمیں بہت احتیاط کرنی ہو گی ۔" شفان افسوس سے  کہا تھا۔
"شفان۔۔! ارحا اور سبین سمجھدار ہیں وہ اپنا خیال رکھنا جانتی ہیں مجھے شفا کی فکر ہے وہ بہت معصوم ہے ۔"ارتضیٰ نے کسی خدشے کے تحت اپنی پریشانی بتائی ۔اور اس بات نے شفان کو سچ میں پریشان کیا تھا ۔
"بلکل ٹھیک کہ رہا ہے ارتضیٰ ہمیں بابر شاہ کو بلکل ہلکا نہیں لینا چاہیے"واصف نے ان دونوں کو کہا تھا۔
                    °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

مصطفٰی اور ارتضیٰ مسز جمال کے ارد گرد بیٹھے تھے جبکہ ارحا اور عائلہ کیچن میں چائے بنا رہے تھے کل انہوں نے  شفا اور ارتضیٰ کی شادی کی ڈیٹ فکس کرنے  کے لیے جانا تھا۔عائلہ اور ارحا کیچن سے چائے لے کر آئی تھی۔ ابھی دونوں آ کر بیٹھیں ہی تھیں کہ مصطفیٰ صاحب کی زبان کو کھجلی ہونے لگی۔

"امی میں کہ رہا تھا کہ کل ارتضیٰ بھائی کے ڈیٹ فکس کرنے جا ہی رہے ہیں تو احا اور شفان کی ڈیٹ بھی فکس کر دیں۔" مصطفیٰ کے ایسا کہنے پر ارحا نے چائے کا کب ٹیبل پر رکھ دیا ۔
"جی نہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا ابھی میری گریجویشن کا ایک سال پڑا ہے" ارحا لڑنے کے انداز میں بولی۔
"او ہیلو تم سے کون پوچھ رہا ہے ہم جائیں گے اور ڈیٹ فکس کر دیں گے " مصطفیٰ چائے پیتے ہوئے بولا۔
"ہاہا ویری فنی شفان خود ہی ابھی انکار کر دیں گے" ارحا اتراتے ہوئے بولی۔تو جہاں ارتضیٰ اور عائلہ نے اپنی ہنسی دبائی وہاں مصطفیٰ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"واہ میری پیاری بہن کونسا تعویذ پلایا ہے شفان بھائی کو کونسا دم درود کیا ہے جو وہ تمہاری ہر بات پر لبیک کہتے ہیں؟ ۔مجھے بھی بتاؤ میری بیوی مجھے گھانس نہیں ڈالتی میں بھی  کچھ پڑھ کر پھونکوں ۔" مصطفیٰ بے چارگی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا تو عائلہ تو سب کے سامنے شرمندہ ہو کر رہ گئی۔
"جناب کچھ پڑھ کر نہیں پھونکا محبت کہتے ہیں اسے۔" ارحا اپنے بال پیشانی سے پیچھے کرتے ہوئے بولی۔
"محبت نہیں اسے رن مریدی کہتے ہیں"مصطفیٰ کہاں باز آنے والوں میں سے تھا۔
"عائلہ سنبھالو اپنے شوہر کو نہیں تو پٹے گا مجھ سے " اس بار  ارحا نے عائلہ سے کہا ۔
"ہاں بیگم سنبھالیں مجھے" مصطفیٰ عائلہ کو دیکھتے ہوئے شریر انداز میں بولا ۔ عائلہ کا دل کر رہا تھا کہ مصطفیٰ کا گلا گھونٹ دے جو کب سے سب کے سامنے اسے شرمندہ کر رہا تھا
"نہیں ارحا میں تمہارے ساتھ ہوں جتنا مرضی پیٹو اپنے بھائی کوبلکہ میری طرف سے بھی دو ہاتھ لگانا " عائلہ دانت پیستے ہوئے بولی تو سب کا قہقہہ سننے والا تھا جبکہ مصطفیٰ کا تو منہ ہی کھل کر رہ گیا۔ مصطفیٰ نے عائلہ کو ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو تمہیں تو میں بتاتا ہوں ۔ اور عائلہ اسکو مکمل نظر انداز کر گئی۔
"اچھا ارحا بچے اب میری بات سنو ۔ مصطفیٰ نے کچھ غلط نہیں کہا اگر  ارتضیٰ اور شفا کے ساتھ آپ کی اور شفان کی شادی ہو جاتی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے"مسز جمال نے ارحا کو مخاطب کر کے کہا۔تو وہ سر جھکا گئی۔
جی امی آپ بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں ۔اگر تو کل انہوں نے اس طرح کی خواہش کا اظہار کیا تو مجھے نہیں لگتا کہ  اور دیر کرنے کی کوئی وجہ ہے ۔ لیکن اگر ارحا نہیں تیار تو کوئی زبردستی نہیں ہے" ارتضیٰ نے بہت نرمی سے کہا ۔
نہیں بھائی زبردستی کی کوئی بات نہیں ہے اور نہ ہی مجھے رخصتی سے کوئی اعتراض ہے میں بس چاہ رہی تھی کہ میری گریجویشن کمپلیٹ ہو جائے۔ ارحا نے فوراً سے اپنا مدعا پیش کیا۔
"ارحا بیٹا شفان اور اس کے گھر والے بہت مرتبہ کہ چکے ہیں کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔  تم اپنی سٹڈیز شادی کے بعد بھی کمپلیٹ کر سکتی ہو ۔ایک سال ہی تو رہتا ہے تمہاری گریجویشن کا عائلہ بھی تو کر رہی ہے نہ اور شفا بھی تو شادی کے بعد اپنی پڑھائی جاری رکھے گی۔ "  مسز جمال نے ارحا کوپیار سے سمجھایا ۔
"جی امی آپ سب کو جو مناسب لگے وہ کریں مجھے کو مسئلہ نہیں ہے۔" ارحا مسکرا کر بولی تو سب نے اسے محبت سے دعائیں دی ۔مسز جمال کیونکہ بہت تھک چکی تھی اس لیے سونے چلی گئیں۔
"اللّٰہ معاف کرے آجکل کی لڑکیوں میں تو شرم ہی نہیں پائی جاتی یہ نہیں کہ  تھوڑا شرما لو  ۔ میڈم کی مسکراہٹوں کو ہی بریک نہیں لگ رہی۔"  مصطفیٰ ارحا کی مسکراہٹ پر چوٹ کرتے ہوئے بولا۔
"ارتضیٰ بھائی چپ کروا دیں اسکو نہیں تو میں۔۔۔۔۔۔" ارحا غصے سے ارتضیٰ کو شکایت لگاتے ہوئے بولی۔
"مصطفیٰ نہ تنگ کرو بہن کو۔" ارتضیٰ اسے گھورتے ہوئے بولا ۔ جبکہ دل سے تو وہ خود ان کی میٹھی میٹھی تکرار انجوائے کر رہا تھا۔
"ارتضیٰ بھائی آپ آج کچھ نہ بولیں؛ بتاؤ بی بی نہیں تو تم کیا ؟ کیا بگاڑ لو گی میرا؟۔"
مصطفیٰ ارتضیٰ کو چپ کروا کر ارحا سے مخاطب ہوا۔
"مسٹر مصطفیٰ آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے  کہ آپکی بیگم آج میرے ساتھ میرے کمرے میں سوئے گی کیونکہ ہم نے اسائنمنٹ بنانی ہے۔" ارحا عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھتے ہوئے بولی۔اور مصطفیٰ کی تو بولتی بند ہوگئی۔جبکہ عائلہ مصطفیٰ کی حالت کو انجوائے کر رہی تھی۔
"اللّٰہ کو مانو ارحابہن میں تو چھوٹا سا مزاح کر رہا تھا معاف کر دو"۔ مصطفیٰ مظلوم شکل بناتے ہوئے بولا ۔ارحا اسکو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے عائلہ کا ہاتھ  پکڑ کر اوپر چلی گئی۔جبکہ ارتضیٰ کا اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تھا
"بھائی ہنس لیں آپکی بھی شادی ہونے والی ہے ۔ میں تو صرف دعا دوں گا کہ اللّٰہ آپ پر ایسا وقت نہ لائے۔" مصطفیٰ رونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔
"میں اپنی بیوی کو اپنی ایسی عادت ڈالوں گا کہ وہ میرے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرے گی " ارتضیٰ اسے دیکھتےہوئے پر اعتماد لہجے میں بولا تو مصطفیٰ نے اسکو مکمل آنکھیں کھول کر دیکھا۔
"بھائی جان مجھے ارادے بہت خطرناک معلوم ہو رہے ہیں آپکے۔ اللّٰہ ہی رحم کرے شفا بھابھی پر ۔" مصطفیٰ پریشان ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔
"ہاں اب تو اسے صرف اللّٰہ ہی بچا سکتے ہیں ۔" ارتضیٰ نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
"ویسے بات نہیں ہوئی آپ کی ان سے۔۔؟"مصطفیٰ نے سوال کیا۔
"نہیں ابھی کس حق سے بات کروں اس سے؟" ارتضیٰ نے اسی کے انداز میں سوال کے بدلے سوال کیا۔
"ہاں تو رشتہ طہ ہو گیا ہے آپ کا."مصطفیٰ کے کہنےپر  ارتضیٰ مسکرایا تھا ۔
"میں نہیں مانتا رشتہ اور منگنی وغیرہ جس دن وہ میرے نکاح میں آئے گی تو پورے حق سے بات بھی کروں گا اور ملوں گا بھی۔"
ارتضیٰ کے کہنےپر مصطفیٰ نے اسے فلائنگ کس کی اور ارتضیٰ مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ مصطفیٰ کا تو کمرے میں جانے کا دل ہی نہیں تھا ۔کیونکہ نیند تو اسے آنی نہیں تھی۔
                 °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

شفا سے اسکے والدین اور شفان نے گھر آکر بھی پوچھا تھا ۔ وہ نہیں چاہتے تھے  اسکے دل میں یہ بات آئے کہ اتنے بڑے فیصلے میں اسکی رضامندی نہیں لی گئی۔شفا نے انہیں یہی کہا تھا کہ وہ ان کی خوشی میں خوش ہے۔
شفا کمرے میں آئی تو نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل پر نوٹیفکیشن چیک کیے اور  پھر اپنا مطلوبہ نوٹیفکیشن نہ پا کر موبائل رکھ کر فریش ہونے چلی گئی۔
رات کو سونے سے پہلے بھی کتنی دفع اس نے میسجز چیک کیے ناجانے کیوں لیکن اسے امید تھی کہ ارتضیٰ اس سے کونٹیکٹ کرے گا ۔ لیکن ایسا نہ ہوا
"ان کے پاس میرا نمبر بھی تو نہیں ہو گا۔؟ " وہ خود سے کلام کرتے ہوئے بولی ۔
"تو ارحا بھابھی عائلہ بھابھی ان سب کے پاس تو ہے نا۔" وہ پھر اداس ہوئی تھی۔
"کہیں ایسا تو نہیں وہ اس رشتے سے خوش ہی نہ ہوں ۔انہوں نے اپنی ماما کے کہنے پر ہاں کی ہو۔" بہت سی فضول سوچیں آئی تھی اس کے ذہن میں ۔ پھر بہت دیر بعد  اسکی آنکھ لگ گئی۔
              °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
سبین لیمپ کی روشنی میں کتاب پڑھ رہی تھی جبکہ ایشال ہر چیز سے بے خبر سو رہی تھی۔ سبین کے فون  پر کسی نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ سبین نے نا سمجھی سے کال اٹھائی۔
اسلام و علیکم! سبین نے سلام کیا جبکہ مقابل اسکی آواز میں موجود نرمی اور معصومیت میں کہیں کھو گیا تھا۔
"جی آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟" سبین نے آگے سے کوئی جواب نہ آنے پر پوچھا۔
"واصف ملک بات کر رہا ہوں۔" اسنے بہت سخت لہجے میں بولا تھا۔اور سبین کو اسکی آواز سن کر سانپ سونگھ گیا۔
"ہیلو سبین آپ سن رہی ہیں" واصف  نے دوبارہ بولا تو سبین ہوش میں آئی۔
"جججج جی۔۔۔!" سبین بوکھلا کر رہ گئی تھی
"میں ملنا چاہتا ہوں آپ سے اور میں آپ سے پوچھ نہیں رہا آپ کو بتا رہا ہوں۔ یقیناً اگر آپ نے رشتے کے لیے ہاں کر دی ہے تو اتنا بھروسہ تو ہو گا ہی مجھ پر کہ اکیلے مل سکیں۔" واصف کا لہجہ بہت سخت تھا ۔ سبین کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا اگر انکار کرتی تو امی ناراض ہو جاتی اس لیے ملنے کے لیے ہاں کر دی۔
واصف نے اسے لوکیشن بتا دی جہاں کل اسے ملنا تھااور مزید کچھ کہے بغیر فون بند کر دیا۔
سبین کو پہلے ہی لگ رہا تھا کہ واصف اس رشتے سے خوش نہیں ہے اور آج اسے واصف کے لہجے سے اس بات کا یقین ہو گیا تھا
کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ وہ کسی پر بھی زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتی تھی ۔اس نے تو ارتضیٰ کو بھی اسی کیے انکار کیا تھا ۔ ایک آزمائش ختم نہیں ہوتی تھی اور دوسری تیار کھڑی اسکا انتظار کر رہی ہوتی تھی۔وہ اپنے آپکو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی۔
لیکن اللّٰہ تو ہے نہ جو اَل٘مُھَی٘مِنُ (نگہبان) ہے جو اَل٘عَزِی٘زُ(سب پر غالب) ہے۔وہ ہر وقت ہر لمحہ اپنے بندوں کے ساتھ ہوتا ہے کبھی اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا اگر اللّٰہ  نے اسے اس آزمائش میں ڈالا تھا تو اللّٰہ اَل٘فَتَّا٘حُ(سب سے بڑا مشکل کشا) ہے وہ ہی اسکی مدد  کرے گا۔ 
واصف ملک بھی اللّٰہ کی طرف سے اسکے لیےامتحان تھا ۔ اسے  بہت صبر و تحمل سے کام لینا  تھا۔اسنے سوچتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں۔
                °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Duaon mei yad rakhiye ga..💖

آغازِ جستجو(Completed)✔️Where stories live. Discover now