آغازِ جستجو ۔قسط_20

74 12 0
                                    


"میں ملنا چاہتا ہوں آپ سے سبین " سبین نے کال اٹینڈ کی تو بغیر کسی تمہید کے واصف گویا ہوا۔۔
"جی وہ کیوں ؟" سبین نے نا سمجھی کے عالم میں سوال کیا۔
"کیونکہ کچھ دنوں میں آپ میری ہمسفر بننے جا رہی ہیں اور اس بات سے واقف بھی ہیں کہ میں یہ شادی اپنی والدہ کے کہنے پر کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور ان سب باتوں کا مختصر یہ کہ میں ہمارے نکاح سے پہلے آپ سے کچھ باتیں کلیر کرنا چاہتا ہوں" واصف نے اپنی بات مکمل کی اور اب وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔
"جی جیسے آپ کو مناسب لگے" ایک گہری خاموشی کے بعد اس نے جواب دیا اور کال کاٹ دی واصف کال کاٹنے کے بعد کافی دیر موبائل کی سکرین کو دیکھنے لگا۔ اور پھر اس کو ملنے کی جگہ ٹیکسٹ کی ۔۔۔۔
سبین کو اپنا آپ کسی اندھے کنویں میں محسوس ہوا جس دن سے وہ ڈر رہی تھی وہ آ گیا تھا۔
کہیں واصف اس سے شادی سے انکار نہ کر دے اسے وہ وقت یاد آیا جب اس نے واصف سے شادی پر انکار کیا تھا اسے اپنی ماں کے جڑے ہوئے ہاتھ یاد آئے۔
"نہیں اللّٰہ پاک ایسا نہ کیجئے گا میں نے خود کو آپ کے حوالے کیا ہے آپ تو بہت الرحمن ہیں نہ میری مدد کریں پلیز " وہ اپنے رب سے مخاطب ہوتے ہوئے رو دی ۔۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے رب نے اس کے لیے بہترین سوچ رکھا ہے ۔۔۔۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
عائلہ اور شفا ناجانے کتنی ہی دیر سے لائونچ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھی مسز جمال تو کب کی دوا لے کر سونے چلی گئی۔
"اسلام علیکم بھابھی۔۔۔!" مصطفیٰ نے شفا کو سلام کیا تو عائلہ اور شفا دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔
"کیا بات ہے دیور جی یہ کوئی چوتھی بار آپ مجھے سلام کر رہے ہیں پہلے آفس سے آ کر پھر جب میں اور عائلہ آپی کیچن میں تھے تب پھر جب ہم امی سے باتیں کر رہے تھے تب اور ابھی۔۔۔"شفا نے اس سے پوچھا ۔۔
"میں بتاتا ہوں نہ بیگم" اس سے پہلے مصطفیٰ کوئی جواب دیتا ارتضیٰ لاؤنچ میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
"دیکھیں ہم دونوں کو آفس سے آئے ہوئے کتنا ٹائم ہو گیا ہے ؟" ارتضیٰ شفا کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا وہ خود شفا کا انتظار کرتے ہوئے آخر تھک کر آیا تھا مصطفیٰ کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ عائلہ کو بھی ابھی تک اپنے شوہر کی یاد نہیں آئی
"شام 6 بجے آئے تھے آپ لوگ" شفا نے جواب دیا تو مصطفیٰ ایک دم سے شفا کے پاؤ میں نیچے بیٹھ گیا۔
"یہ دیکھیں بھابھی میرے جڑے ہاتھ ہم 6 بجے آئے تھی اب 10 بج رہے ہیں میری بیوی کو تو کوئی بندہ چاہیے جس سے وہ باتیں ہی کرتی رہے آپ تو مجھ غریب کا کچھ خیال کر لیں جب سے آفس سے آیا ہوں آپ دونوں بریک لگائے بغیر باتیں کیے جا رہے ہیں اب تو بس کر دیں" مصطفیٰ ہمیشہ کی طرح اوور ایکٹنگ کرنے لگا اس کی حرکت پر پہلے تو شفا گھبرا گئی لیکن پھر اس کی بات سن کر اس کو اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو گیا عائلہ تو شرمندہ سی مصطفیٰ کے ڈرامے دیکھ رہی تھی اور ارتضیٰ وہ اپنی عزیزِ جان کا کھلکھلاتا ہوا چہرہ۔۔۔۔
"مصطفیٰ صاحب آپ اپنی بات کر رہے ہیں آپ کی بھابھی کو ابھی تک میرا خیال بھی نہیں آیا" ارتضیٰ نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے کہا تو شفا نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں پھیر گئی۔۔۔۔
"او تو ادھر ناراضگیاں چل رہی ہیں " مصطفیٰ نے شفا کی کاروائی دیکھتے ہوئے کہا۔
"دیور جی یہ بات چھوڑیں اور اوپر بیٹھیں مجھے اچھا نہیں لگ رہا" شفا اسکی بات اگنور کر گئی۔
"نہیں مجھے نہیں بیٹھنا بس مجھے اجازت دیں تو میں اپنی بیگم کو لے جاؤں"
"ارے دیور جی میں کون ہوتی ہوں روکنے والی جائیں لے جائیں" شفا نے احسان کرنے کے انداز میں کہا ارتضیٰ کو اندازہ ہو رہا تھا کہ شفان سہی کہتا ہے اسکی بہن بہت بڑا ڈرامہ ہے۔۔
"چلیں بیگم؟ یا اٹھا کے لے جاؤں؟" مصطفیٰ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔
"مصطفیٰ" عائلہ نے اسکے طرف دیکھا اور آنکھیں نکالی۔
"اللّٰہ اللّٰہ دیور جی کچھ تو خیال کریں پبلک پلیس ہے" شفا بھی کھڑی ہو گئی تھی کیونکہ ارتضیٰ مسلسل سخت نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا مطلب وہ اسے غصّہ دلا چکی تھی۔
شفا کے کہنے پر مصطفیٰ نے آنکھ ونک کی جس پر شفا اور مصطفیٰ نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جبکہ عائلہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کمرے کی طرف چل دی مصطفیٰ بھی اسکے پیچھے آیا۔
شفا کمرے کی راہ لینے کے لیے مڑی تو ارتضیٰ سینے پر ہاتھ باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا اور شفا اسے مکمل اگنور کرتے ہوئے اس کے پاس سے گزر گئی ۔
"یہ کیا تھا شفا ؟" شفا لوشن لگاتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی تو ارتضیٰ نے اس سے سوال کیا۔
"کیا ؟" شفا نے پوچھا تو ارتضیٰ نے لمبا سانس خارج کیا اور اسکے مقابل بیٹھا۔
"ناراض ہو مجھ سے؟" ارتضیٰ نے بہت پیار سے پوچھا تھا۔
"میں کون ہوتی ہوں آپ سے ناراض ہونے والی؟" شفا نے مذید ناراضگی کا اظہار کیا
"کیا مطلب کون ہوتی ہو بیوی ہو میری" ارتضیٰ کو اس کا سوال عجیب لگا تھا۔
"جی وہی بیوی جس کو صبح سے آپ نے ایک میسج کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا" ا ب شفا نے اپنی ناراضگی کی وجہ ظاہر کی۔
"یا خدا لڑکی پہلے مجھ سے وجہ پوچھ لیتی پھر ہوتی نا ناراض ۔۔۔۔میرا موبائل خراب ہو گیا ہے ابھی آفس سے واپسی۔پر ہی ریپیرنگ کے لیے دے کر آیا ہوں" ارتضیٰ اسکو اپنے حصار میں لیتے ہوئے بولا۔
"ہاں تو آپ مجھے کسی بھی طرح بتا سکتے تھے میں انتظار تو نہ کرتی نہ ....پتا نہیں کیا کیا سوچ کر بیٹھی تھی میں" شفا نے اسے بتایا تو وہ ہنس دیا۔
" عزیزِ جان مجھے کیا پتا تھا کہ تمہیں میری یاد ستا رہی ہے اور کیا سوچ کر بیٹھی تھی ؟" ارتضیٰ کو اسکا دھکا چھپا اقرار اچھا لگا تھا۔
"یہی کہ اب میری آپ سے شادی ہو گئی ہے تو میری قدر نہیں رہی۔" شفا نے اس کے سینے پر سر رکھ کر اس سے اپنے خدشات سے آگاہ کیا
"آئیندہ ایسے نہ سوچنا شفا تمہاری بہت قدر ہے مجھے اور ہمیشہ رہے گی تم بہت قیمتی ہو میرے لیے ۔۔۔" ارتضیٰ کے کہنے پر شفا نے مسکراہٹ دبائی کیونکہ ارتضیٰ کے دماغ سے اسکی عائلہ آپی سے باتیں اور روم میں لیٹ آنے کی بات اپنی ناراضگی سے نکال چکی تھی اسکے فون کی خرابی کا تو اسے مصطفیٰ پہلے ہی بتا چکا تھا۔۔وہ سچ میں بہت بڑی ڈرامے باز تھی ۔۔۔۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ارحا اور شفان ابھی ہی مسز اور مسٹر منیر کے ساتھ لڈو کھیل کے آئے تھے جب سے ارحا آئی تھی وہ لوگ روز ہی رات کو لڈو کی گیم کھیلتے تھے ۔۔۔۔
شفان نے لیپ ٹاپ اٹھایا تو ارحا نے اسے ٹوکا
"شفان کیا ہو گیا ہے آپ کو سارا دن کام ہی کر کے آئیں ہیں نا اور اب پھر ۔۔۔۔"ارحا کے کہنے پر اس نے لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھا اور اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"اچھا نہیں کر رہا اور کوئی حکم ؟" شفان نے کہا تو ارحا نے اثبات میں سر ہلایا
"جی ایک اور حکم بھی ہے" ارحا نے مسکراتے ہوئے کہا
"وہ کیا؟ " شفان نے تجسّس سے پوچھا۔
"وہ یہ کہ سو جائیں صبح فجر نہیں پڑھنی میں نے دیکھا ہے آپ کو روز فجر کی نماز قضا کر دیتے ہیں " ارحا اسے ڈانٹنے کے انداز میں بولی۔
"یار میں کیا کروں آنکھ ہی نہیں کھلتی باقی چار نمازیں پڑھ لیتا ہوں فجر اکثر قضا ہو جاتی ہے" شفان نے کہا تو ارحا ہلکا سا مسکرائی ۔
"شفان اگر آپ کوئی عمارت تعمیر کریں اور اس عمارت کی بنیاد ڈالیں ہی نہ تو پھر اس عمارت کی دیواروں اور چھت کا کیا فائدہ ؟ " ارحا نے بہت خوبصورتی سے اسے فجر کی نماز کی اہمیت بتائی تھی شفان نے مسکراتے ہوئے اسکی گود میں سر رکھا اور اسے دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا؟۔" ارحا نے پوچھا
"کچھ نہیں سوچ رہا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں سچی محبت وہ ہوتی ہے جو آپ کو اپنے رب کے قریب کر دے" شفان نے اسکی گہری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"سچ کہتے ہیں۔۔۔؟" ارحا نے شرارت سے پوچھا۔
"جی جناب بلکل سچ " شفان کے کہنے پر دونوں ہی ہنس دیے۔۔۔
"اٹھا دینا صبح مجھے نماز کے لیے " شفان نے کہا تو ارحا نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔اور شفان نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"مصطفیٰ آپ میں شرم نام کی چیز ہی نہیں ہے شفا اور ارتضیٰ بھائی کا ہی خیال کر لیتے " عائلہ کب سے مصطفیٰ کو سنا رہی تھی۔
"بیگم کس بات کی شرم تم بیوی ہو میری" مصطفیٰ عائلہ کا بلڈ پریشر چیک کرنے کی نیت سے اپریٹس لے کر اس کے پاس آیا
"نہیں کروانا مجھے چیک" عائلہ اپنی طبیعت کی وجہ سے آج کل بچوں کی طرح ضد کر رہی تھی اور اس کا بلڈ پریشر بھی ہائی رہتا تھا۔۔
"اچھا بیگم آئندہ کوئی ایسی بات نہیں کرونگا اب چیک کروا لو " مصطفیٰ نے کہا تو وہ سیدھی ہوئی ۔
"اچھا پھر آپ آئسکریم لا کر دیں گے" عائلہ کے کہنے پر مصطفیٰ نے اپنی ہنسی دبائی۔
"کیا ہے ہنس کیوں رہے ہیں" عائلہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
"نہیں بیگم بس ایسے ہی " مصطفیٰ کے کہنے پر عائلہ منہ پھیر گئی ایسی ہی ہو گئی تھی وہ بچوں کی طرح روٹھ جاتی اور پھر ایک دم سے مان جاتی اور مصطفیٰ کو اس کا خیال رکھتے ہوئے بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

سبین ٹیرس پر کھڑی اپنی سوچوں میں گم تھی کل اسے واصف سے ملنے جانا تھا بہت سے وسوسے تھے اس کے ذہن میں ۔۔۔
"کیا سوچ رہی ہیں آپی...؟" ایشال نے سبین سے ہوچھا جو کب سے رات کے اس پہر نا جانے آسمان پر کیا تلاش کر رہی تھی
"کچھ نہیں بس ایسے ہی" سبین نے مختصر سا جواب دیا۔
"وقت کتنی جلدی بدل جاتا ہے نا۔۔۔۔" ایشال نے سبین کے ساتھ ہی ٹیرس کی گرل کے ساتھ ٹیک لگا کر کہا۔۔۔۔
"نہیں ایشال وقت کہاں بدلتا ہے دراصل ہم بدل جاتے ہیں ۔۔ہمارا وقت کو گزارنے کا انداز بدل جاتا ہے ۔۔ ہمارا نظریہ ، ہماری سوچ بدل جاتی ہے وقت تو ویسا ہی ہے اسی طرح صبح ہوتی ، دن ہوتا اور اسی طرح شام" ۔۔۔۔
سبین کی آنکھوں میں نمی آئی تھی جو وہ بڑی مہارت سے چھپا گئی۔ ۔۔۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جاری ہے۔۔۔

Sorry late ho gai epi lykin dei to di na vote or cmnt zroor kejiye ga❤️ duaon mei yad rakhiye ga 🌼

آغازِ جستجو(Completed)✔️Where stories live. Discover now