آغازِ جستجو۔۔قسط ۔4

124 22 8
                                    

تھوڑی ہی دیر میں اس کا نکاح تھا کیا کچھ نہیں کیا تھا اس نے یہ شادی روکنے کے لیے یہاں تک کہ اپنے بھائی سے مار بھی کھائی  لیکن کچھ نہیں وصول ہوا اب تو وہ بھی ہمت ہار گئی تھی ۔
ارحا بار بار کال کر رہی تھی لیکن عائلہ نے فون بند کر دیا تھا۔
اب وہ ہار گئی تھی اسنے اپنا آپ حالات کے سپرد کر دیا تھا ۔
ارحا سے  بات کر کے اسے اور پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اسکی بھابھی نے اسے زبردستی سرخ رنگ کا جوڑا پہنایا تھا۔اسنے کیا کچھ نہیں سوچا تھا اپنی زندگی کو لے کر کتنی خواہشات تھی اسکی اور اسکو زبردستی ایک پکی عمر کے مرد کے ساتھ رخصت کیا جا رہا تھا صرف پیسوں کی لالچ میں بیچا جا رہا تھا سوتیلی ہی سہی بہن تو تھی  نہ وہ۔۔۔۔ کیوں اسکے ساتھ بچپن سے یہ ظلم ہوتا آ رہا تھا؟۔۔
وہ اپنے آنسو ضبط کیے بیٹھی تھی اسے بتایا گیا تھا کہ کچھ دیر میں نکاح خواں آئے گا نکاح کے لیے۔۔۔
نکاح خواں آیا اور نکاح پڑھانا شروع کیا۔
"عائلہ ابرار ولد ابرار مجید  آپ کو مصطفیٰ جمال ولد جمال وسیم حق مہر پانچ لاکھ روپے  اپنے نکاح میں قبول ہے"
مولوی صاحب نے پوچھا تھا اور عائلہ وہ تو ساکت ہو گئی
اسے لگا اسکا وہم ہے لیکن مولوی صاحب کے دوبارہ پوچھنے پر وہ سمجھی کہ یہ وہم نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
""عائلہ ابرار ولد ابرار مجید  آپ کو مصطفیٰ جمال ولد جمال وسیم حق مہر پانچ لاکھ روپے  اپنے نکاح میں قبول ہے" دوبارہ پوچھا گیا ۔۔۔۔
"قبول ہے"  آنسو گال پہ آ گرا تھا۔۔
"آپکو قبول ہے؟"
"قبول ہے" اسے لگ رہا تھا جیسے اسکی آواز کسی کھائی سے آئی ہو۔۔
"آپکو قبول ہے؟" مولوی صاحب نے آخری دفع پوچھا ۔۔۔
عائلہ نے آنکھیں بند کی آنسو روکنے کی اب کوشش بھی نہیں کی تھی
"قبول ہے"
نکاح ہو گیا تھا عائلہ کو باہر لایا گیا مہمان تو تھے نہیں اسکی سوتیلی ماں اور انکے ایک دو رشتے دار ،بھائی اور بھابھی ۔  وہ اسکے بھائی کے ساتھ بیٹھا تھا اسکو دیکھ کر کھڑا ہوا
"ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں " وہ کہتا ہوا عائلہ کی طرف بڑھا
"ضرور مصطفیٰ صاحب لیکن اپنا وعدہ مت بھلائیے گا" عائلہ کا بھائی پیچھے سے بولا۔۔۔
"آپکو آپ کی مطلوبہ چیز کل صبح ہی مل جائے گی " مصطفیٰ نے دل میں اسکو اسکی  لالچ پر  کوسا تھا۔
"مجھے انتظار رہے گا"اسنے بھی اسی کے انداز میں بولا تھا
اور مصطفیٰ عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر نکل گیا۔
        عائلہ نے گاڑی کے پاس پہنچ کر اس سے ہاتھ چھڑوایا
"کیا بتمیزی ہے یہ  ہاتھ چھوڑو کس وعدے کی بات کر رہے تھے وہ" وہ اس سے ہاتھ چھڑوا کر اسکے پیچھے ہی رکی
" ڈئیر مسز یہ بتمیزی نہیں حق ہے میرا " مصطفیٰ دوبارہ اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر مسکراتے ہوئے بولا۔۔
"میں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ جب تک مجھے بتاؤ گے نہیں" عائلہ پھر اس سے  ہاتھ چھڑوانے لگی۔
وہ اسکی ضد کے آگے ہار مان کر بولا۔ "اچھا گاڑی میں بیٹھو میں بتاتا ہوں"
وہ چپ ہو کر گاڑی میں بیٹھ گئی اور مصطفیٰ نے بتایا ۔۔
"مجھے ارحا نے بتایا تھا کہ تمہارا بھائی زبردستی نکاح کروا رہا ہے ۔ میں اسی لیے آیا تھا اسے سمجھانے ۔۔" وہ آرام سے اسے بتا رہا تھا۔
"ہاں سمجھانے آیا تھا اور مجھ سے نکاح کا شوق چڑھ
گیا ہے نا۔" وہ مصطفیٰ کو گھورتے ہوئے بولی
"تو کیا اس بڈھے کے ساتھ تمہارے نکاح میں گواہ بنتا؟" وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔
"جو پوچھا ہے وہ بتاؤ میرا بھائی کس وعدے کہ بات کر رہا ؟" عائلہ نے پھر وہی سوال کا۔
اور مصطفیٰ نے لمبا سانس لیا ۔
"تمہارا بھائی اس آدمی کے ساتھ تمہارا نکاح  روکنے کو تیار نہیں تھا  اس لیے میں نے اسے اسکی فطرت کے مطابق  پیسوں کی لالچ دی اور وہ میرے اور تمہارے نکاح کے لیے بھی مان گیا۔" وہ اسے بتا رہا تھا اور عائلہ کے لیے آنسو روکنا محال ہو گیا۔۔۔
"اس کا مطلب تم نے مجھے خریدا ہے  ؟" عائلہ اس سے  سوال کرتے ہوئے بولی۔
"نہیں بلکل نہیں  !میں نے تم سے نکاح کیا ہے تمہیں اپنی عزت بنایا ہے !" وہ اسکی طرف دیکھ کر بولا۔
"نہیں تم نے مجھ پر احسان کیا ہے!" وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔۔
مصطفیٰ اسکی حالت کو سمجھ سکتا تھا اسی لیے چپ کر کے گاڑی سٹارٹ کی اور گھر کے رستے پر ڈال دی۔
                °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
شفا کو پتہ چلا تھا کہ پھوپھو نے عمار بھائی کے لیے اسکا رشتہ مانگا ہے ۔۔اسے خوشی نہیں ہوئی تھی۔ عمار تو اسے شروع سے ہی ناپسند تھا اسکی نظریں اسے ہمیشہ ہی تنگ کرتی تھیں ۔لیکن اسے یقین تھا اسکے بابا اور بھائی اسکے لیے بہتر فیصلہ کر یں گے ۔۔۔
                  °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
شفان اور ارتضیٰ ساتھ بیٹھے کافی پی رہے تھے اور ان کا ایک پروجیکٹ تھا جو وہ ساتھ کرنے لگے تھے وہی discuss کر رہے تھے۔ واصف اندر داخل ہوا۔۔۔
"ابے  توں کیا ہر دوسرے دن یہاں پہنچا ہوتا ہے کوئی اور کام نہیں ہے یا اپنے سالے پر ڈورے ڈال رہا ہے؟ "وہ کیتے ہوئے اس کے ساتھ بیٹھا اور اسکو گردن کے پیچھے سے پکڑا
" مجھے کوئی ضرورت نہیں اس پر ڈورے ڈالنے کی یہ پہلے ہی میری محبت میں بری طرح  گرفتار ہے"  شفان آنکھ ونک کرتے ہوئے ارتضیٰ مو دیکھ کر بولا
" اتنی توں ظالم حسینہ"ارتضیٰ منہ کے زاویے بناتے ہوئے بولا
اور شفان نے ایسی شکل بنائی جیسے ارتضیٰ نے نہیں بلکہ ارحا نے کہا ہو۔
اور اب واصف اور ارتضیٰ کا قہقہ سننے والا تھا ۔
"اچھا اچھا بس کر ایک کام ہے تجھ سے" شفان واصف کو دیکھتے ہوئے بولا.
"ہاں بول کیا ہے  کل پارلر کی بوکنک کرواؤں فیشل کے لیے"
واصف  ارتضیٰ کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔۔
"کمینے natural beauty ہے مجھے نہیں ضرورت فیشل کی اور serious کام ہے۔۔۔"شفان اسے گھورتے ہوئے بولا ۔
"اوووووووووو!"  واصف نے لمبا سا اوو کیا ۔۔۔
"واصف وہ کہ رہا ہے نا سیریس بات ہے سن لے۔" ارتضیٰ نے اسے ٹوکا ۔۔
"اچھا بول کیا ہے؟" واصف اب سنجیدگی سے بولا
"وہ میرا کزن ہے عمار اسکی انفورمیشن نکلوانی ہے۔" شفان واصف کو دیکھ کر بولا۔
"تیرا کزن ہے توں نہیں جانتا کیا" اب کی بار ارتضیٰ بولا۔
"جانتا ہوں لیکن اسکی سوشل ایکٹیویٹیز سے زیادہ واقف نہیں ہوں " شفان نے ارتضیٰ کو بتایا ۔
"اچھا وجہ کیا ہے ؟" واصف نے پوچھا ۔
"پھوپھو نے رشتہ مانگا ہے اسکے لیے شفا کا " شفان نے ارتضیٰ کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے ایک دو دن میں بتاتا ہوں۔" واصف نے کہا تھا
ارتضیٰ کے دل میں جو امید جو آس تھی وہ تو کہیں غائب ہو گئی تھی۔ اسکو اپنا آپ کمپوز کرنا۔مشکل ہو گیا تھا  اسلیے ضروری کام کا کہ کر گھر کے لیے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
                  °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ارحا عائلہ کی کال نہ اٹھانے کے وجہ سے پریشان تھی  لائونچ میں اِدھر اُدھر چکر لگا رہی تھی۔۔
"ارحا بیٹا بیٹھ جاؤ اللّٰہ سب بہتر کرے گا "مسز جمال اسے اپنے پاس بیٹھا کر بولی
ارتضیٰ پہلے ہی پریشان تھا اور گھر آ کر ارحا کو پریشان دیکھا تو پوچھنے لگا مسز جمال کو ارحا نے وجہ بتائی تھی اور وہ خود اس بچی کے لیے پریشان تھی ۔
ارحا کی نظر لائونچ کر دروازے پر گئی اور اس نے بے اختیار پکارا۔
"عائلہ " وہ بھاگتے ہوئے اسکے گلے لگی اور رونے لگی
ارتضیٰ اور مسز جمال سوالیہ نظروں سے مصطفیٰ کو دیکھ رہے تھے ۔
"مصطفیٰ بیٹا میں پوچھ سکتی ہوں۔۔۔۔؟" ۔سز جمال بولی ۔
"ماما بھائی یہ عائلہ ہے مسز مصطفیٰ جمال" اسنے مسز جمال کو دیکھ کر کہا
مسز جمال سمجھ گئ اسلئے  اور سوال کئے بغیر بولیں
"ارحا بیٹا جاؤ عائلہ کو مصطفیٰ کے کمرے میں چھوڑ آؤ باقی بات ہم صبح کریں گے ۔اور عائلہ بیٹا یہ اب آپ کا بھی گھر ہے ریلیکس رہو اور پریشان نا ہونا" وہ عائلہ  کو دیکھ کر بولی ۔ اور ارحا نے عائلہ کو مصطفیٰ کے کمرے میں چھوڑ دیا
"کافی رات ہو گئی ہے ابھی آرام کرو ہم صبح بات کرتے ہیں" مسز جمال کہتے ہوئے چلی گئی ۔۔
"توں مجھے صبح مل " ارتضیٰ نے مصطفیٰ کو گھوری سے نوازا۔
"اوکے برو " وہ کہتا ہوا کمرے کی جانب بڑھا۔
عائلہ کب سے  کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی اسکے آتے ہی اس پر گرجنے لگی۔۔
"تم لوفر لفنگے انسان مجھے کسی دارلامان چھوڑ آؤ میں نہیں رہوں گی یہاں وہ بھی تمہارے ساتھ" وہ بولے جا رہی تھی اور مصطفیٰ ڈھیٹھ بنا بیڈ پر بیٹھ کر شوز اتار رہا تھا۔۔۔
"دیکھو وائفی رہنا تو اب تمہیں اسی لوفر کے ساتھ ہے اب جیسے مرضی manage کرو ۔۔" مصطفیٰ اسکے سامنے آ کر بولا۔
"نو وے " وہ غرائی تھی اور مصطفیٰ اس کے اسی انداز پر تو فدا تھا وہ اسکے قرہب ہوا اور اسکے گال پر اپنے لب رکھے جس پر تھپڑ کا نشان واضح تھا۔ عائلہ کی تو سانس رک گئی تھی۔
"دور ہو مجھ سے جان لے لوں گی تمہاری۔" وہ اسے اپنی شہادت کی انگلی دکھاتے ہوئے بولی ۔۔اور مصطفیٰ کے اگلے عمل سے اسکی چیخ نکل گئ اس نے عائلہ کی انگلی کو اپنے دانتوں سے دبایا۔
"اہ ہ ہ ہ ہ ! جنگلی انسان" عائلہ نے کہتے ہوئے اسکے ہاتھ پر اپنے ناخن مارے۔۔
مصطفیٰ اسکے انداز پر مسکرایا تھا۔۔
"واؤ مسز تم بھی جنگلی میں بھی جنگلی مزہ آئے گا "وہ کہتے ہوئے واشروم چلا گیا اور عائلہ سر پکڑ کر رہ گئی۔
                  °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

جاری ہے۔۔۔۔۔۔💖
Dua mei yad rakhiyee ga.....💕

آغازِ جستجو(Completed)✔️Where stories live. Discover now