"تم کل کیوں نہیں آئی اگر ایک میسج کر دیتی تو کیا بل آ جاتا؟۔۔" عائلہ ارحا سے یونی نہ آنے کی وجہ سے ناراض تھی۔ اور اب ارحا اسے وضاحتیں دے رہی تھی۔
"یار میں کال کرنے والی تھی اور ذہن سے نکل گیا i am sorry" وہ اسکو کب سے منا رہی تھی لیکن عائلہ اس کی کوئی بات نہیں سن رہی تھی۔ اب ارحا نے اسکو شانوں سے پکڑ کر اپنی طرف کیا اور پریشان رہ گئی ۔
"عائلہ تم رو رہی ہو ؟ کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ ؟" ارحا نے اسکے انسو صاف کرتے ہوئے اسے پوچھا۔
"ارحا میں ٹوٹ گئی ہوں بکھر گئی ہوں ۔مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میری ایک ایک سانس مجھ پر بوجھ ہے " عائلہ رو رہی تھی اور ارحا اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے اسے چپ کروائے۔
"عائلہ میری جان نہیں بولتے ایسا مجھے بتاؤ تو ہوا کیاہے؟"
عائلہ نے اپنے انسو صاف کرتے ہوئے اسے بتانا شروع کیا۔
عائلہ ابرار کے والد نے دو شادیاں کیں تھی عائلہ ان کی پہلی بیوی سے تھی جن کی وفات عائلہ کی پیدائش سے تین سال بعد ہی ہو گئی تھی عائلہ نے بچپن سے ہی سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کی مار پیٹ اور ان کی سختیاں برداشت کیں تھیں اور اسکا باپ ہمیشہ ہی اسکی ذات کو فراموش کرتا آیا تھا.جب تک اسکے والد زندہ تھے اسنے بہت منت کر کے اپنی پڑھائی کی اور ان کی وفات کے بعد اب وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنی فیس دیتی تھی کیونکہ اسکے بھائی نے اسکی کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
__________________
"امی آپ ظلم کر رہی ہیں آپ اچھے سے جانتی ہیں ارتضیٰ بھی میری طرح زبردستی اس بندھن میں بندھا ہوا ہے۔۔"
وہ کب سے اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن انکا کہنا تھا کہ اگر اسکی شادی ہوئی تو ارتضیٰ سے ہی ہو گی ۔
"امی آپی بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں رشتے ایسے تو نہیں بنتے صرف آپ اور حالہ کے ایسا چاہنے سے تو ضروری نہیں کہ یہ رشتہ کامیاب ہو"
اب کی بار ایشال نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔"تم لوگ آخر چاہتے کیا ہو مجھ سے ؟ارتضیٰ کے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے آپا چاہتیں ہیں کہ سبین انکی بہو بنے اور رہی بات ارتضیٰ کی تو شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا"
وہ تو کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی سبین اور ایشال نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کوئی فائدہ نہیں تھا انہیں سمجھانے کا۔۔اب سبین نے سوچ لیا تھا وہ خود ہی کچھ کرے گی ایسے کیسے وہ کسی کے بھی سر پر زبردستی مسلط ہو جاتی ۔ اور ارتضیٰ اس کی تو کوئی غلطی نہیں وہ تو بلکل اسی کی طرح بے بس تھا ۔۔ آج تک ارتضیٰ کے کسی انداز سے اسے اپنے لیے محبت جھلکتی دکھائی نہیں دی ۔۔اور نہ ہی اسکو اسکی ضرورت تھی ۔۔۔
___________________" تمہاری دوست کیوں رو رہی تھی" مصطفیٰ اور ارحا یونی سے ساتھ واپس جا رہے تھے عائلہ اور ارحا یونی سے نکلتے وقت تک ساتھ تھی مصطفیٰ نے عائلہ کو دیکھ لیا تھا اسی لیے ارحا سے پوچھا ارحا بھی اسے پریشان لگ رہی تھی۔
"ہاں اپنی ندنصیبی پر رو رہی تھی" ارحا کی آواز بولتے ہوئے بھیگ گئی تھی ۔
مصطفیٰ نے گاڑی روڈ کےسائد پر لگائی اور اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔۔
"مصطفیٰ....! عائلہ کے بھائی نے کسی پکی عمر کے آدمی کے ساتھ اسکی شادی طے کر دی ہے کچھ دنوں بعد اگر یہ کہوں کہ اسکو بیچ دیا ہے تو غلط نہیں ہوگا وہ صرف اسے جان چھڑانے کے لیے پیسوں کی لالچ میں یہ سب کر رہے ہیں"
وہ رو رو کر اسے بتا رہی تھی _اور مصطفیٰ اسکا ذہن تو بلکل مفلوج ہو گیا تھا۔ وہ شیرنی جیسی لڑکی جسے وہ بہت بہادر سمجھتا تھا اسکی زندگی میں تو دکھوں کا انبار لگا پڑا تھا۔
"ارحا بچے۔۔! بھائی تو اپنی بہنوں کا مان ہوتے ہیں یہ کیسے ۔۔۔۔۔۔۔؟" وہ اب بھی خیران تھا۔۔
"وہ اسکا سوتیلا بھائی ہے اسی لئے تو اسکی بربادی سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا میں اسکے لیے کچھ نہیں کر سکتی مصطفیٰ میں کیا کروں؟۔" ارحا کا رو رو کر برا حال ہوگیا تھا تو نہ جانے عائلہ پر کیا گزر رہی ہو گی۔
مصطفیٰ نے اسے مشکل سے چپ کروایا تھا اور اسے گھر چھوڑ کر گاڑی بے مقصد روڈ پر دوڑانے لگا اب سکون تو جیسے خفا ہو گیا تھا۔
____________________
ارتضیٰ شفان اور واصف ایک ساتھ بیٹھے تھے ملک
واصف کل ہی کراچی سے واپس آیا تھا اور آج وہ لوگ کافی دنوں بعد ارتضیٰ کے آفس میں ساتھ تھے
"بابر شاہ بہت ذلیل قسم کا آدمی ہے ہم نے اسے پنگا لے تو لیا ہے لیکن اب ہمیں بہت اختیاط کرنی ہو گی" واصف ان دونوں کو تاکید کر رہا تھا
"ٹھیک کہ رہا ہے توں ہمیں ہر وقت الرٹ رہنا ہو گا اور ہم سے زیادہ ارتضیٰ تجھے الرٹ رہنا ہو گا۔" شفان نے ارتضیٰ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ اور ارتضیٰ نے اثبات میں سر ہلایا۔
بابر شاہ ایک کرپٹ انسان تھا ملک واصف ارتضیٰ کا بزنس پارٹنر ہونے کے ساتھ ساتھ ارتضیٰ اور شفان کا بہت اچھا دوست بھی تھا۔ ان دونوں نے بابر شاہ کے ساتھ ایک بہت بڑا معاہدہ ختم کیا تھا اور شفان کی کمپنی نے بھی اسے بائکوٹ کر دیا تھا جس کی وجہ سے اسے بہت بھاری نقصان ہوا تھا۔اور اب وہ ان سب سے دشمنی پر اتر آیا تھا ۔
_______________________
آج کا دن ارحا کے لیے بہت تھکا دینے والا تھا اس نے یونی سے واپس آ کر کسی سے بات نہیں کی تھی ۔۔۔۔ رات ہو گئی تھی اور اب اسے یاد آیا تھا کہ اسنے شفان سے بات نہیں کی۔۔۔ اسنے فوراً سے شفان کو کال کی جو اسنے نہیں اٹھائی وہ سمجھ گئی کہ وہ ناراض ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ اسی وقت اسنے شفا کو کال کی شفا اور شفان ساتھ ہی تھے ان کی روزانہ کی عادت تھی رات کو ساتھ بیٹھ کر چائے پینا ۔۔ شفا کا فون رنگ کیا تو وہ نام دیکھ کر سمجھ گئی کہ ابھی شفان نے ارحا کی کال ignore کی ہے۔۔۔اسنے کال کاٹ دی اور شفان سے پوچھا کہ کیوں نہیں اٹھائی بھابھی کی کال اور شفان کا کہنا تھا کہ تمہاری بھابھی کو صبح سے مجھے یاد کرنے کی فرصت نہیں ملی اب اچھی بیویوں کی طرح تھوڑا انتظار کرے۔۔اور شفا سر جھٹکتی رہ گئی اور ارحا کو میسج کیا۔
Bhabhi he is just teasing you ..will call u later. Love u❤️
ارحا نے شفا کا میسج پڑھا اور مسکرا کر شفان کو "ظالم شوہر" کا خطاب دیا اور دنر کے لیے چلی گئی۔۔
________________
بھائی جان مجھے امید ہے آپ اپنی بہن کو مایوس نہیں کریں گے آپ یقین کریں میں شفا کو اپنی بیٹی بنا کر رکھوں گی عمارکو تو آپ اچھے سے جانتے ہیں "
وہ التجاء کر رہی تھیں شروع سے ہی شفا کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں اور عمار کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔
"شبانہ شفا ابھی چھوٹی ہے میں نے ابھی اسکے بارے میں کچھ نہیں سوچا"
مسٹر منیر جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے
"تو میں کونسا شادی کا کہ رہی ہوں آپ ہاں کریں ہم منگنی کی چھوٹی سی تقریب کر لیں گے" وہ ابھی بھی ضد کر رہی تھی
"اچھا میں شفان سے مشورہ کر کے ہی تمہیں جواب دوں گا"
مسٹر منیر نے ان سے کچھ وقت مانگا تھا۔۔۔
"جی ٹھیک ہے لیکن فیصلہ میرے حق میں ہو۔"
___________________جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔❤️
امید ہے آپ کو پسند آئے۔۔۔۔۔۔۔ دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔۔۔۔۔❤️
YOU ARE READING
آغازِ جستجو(Completed)✔️
Romanceزندگی ایک طویل سفر ہے اور اس سفر میں بہت سے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں ۔انجام سے بے خبر آغاز کرنا ہوتا ہے اور اس سفر کے انجام کو حسین بنانے کے لیے جستجو کرنی ہوتی ہے۔۔۔۔