ولیمے کی وجہ سے ارحا اور شفا دونوں تھکے تو ہوئے تھے لیکن ان کا رات کو سونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔آخر ارحا اتنی منتیں کر کے شفا کو ساتھ لائی تھی انکا بہت enjoy کرنے کا ارادہ تھا کل کے تو بہت plan تھے لیکن عائلہ کے ساتھ ابھی تو وہ آپس میں بہت enjoy کرنے کا سوچ رہی تھی۔
وہ دونوں چینج کر کر کھانے پینے کے لیے سنیکس اور جوس وغیرہ۔لے کر بیڈ پر بیٹھیں شفا نے ارحا کے ہی کپڑے پہن لیے تھے۔
"اچھا تو بھابھی کیا سین ہے؟" شفا نے نمکو کا پیکٹ کھولتے ہوئے ارحا سے پوچھا۔
"بھابھی کی جان سب سے پہلے ہم وہ ناول discuss کریں گے جو ابھی میں نے ختم کیا ہے اور پھر ہم اچھی سی مووی دیکھیں گے" ارحا اس سے نمکو کا پیکٹ لیتے ہوئے بولی۔
"کیا کیا کونسا جو ہم نے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا؟" شفا حیران ہوتے ہوئے بولی
"ہاں ختم کر لیا میں نے" ارحا ہستے ہوئے بولی
"واہ کیا سپیڈ ہے بھابھی" شفا اسکو داد دیتے ہوئے بولی۔
"شکریہ شکریہ بس کبھی غرور نہیں کیا " ارحا فرضی کالر جھاڑتے ہوئے بولی۔
"جی جی اور جس سپیڈ سے شفان بھائی رخصتی کی فرمائشیں کر رہے نہ اللّٰہ ہی خیر کرے" شفا اپنی ہنسی روکتے ہوئے بولی۔
"اوہوو! ایک تو تمہارا بھائی بھی نا۔" ارحا ناک چڑھاتے ہوئے بولی تو شفا کا قہقہہ سننے والا تھا اور ارتضیٰ جو ارحا کو اسکا موبائل دینے کے لیے دروازہ نوک کرنے لگا تھا وہی رک گیا ۔
"شفا چپ کرو اور مجھے ایک بات بتاؤ۔" ارحا شفا کو کشن مارتے ہوئے بولی۔
"جی جی بھابھی جان پوچھئیے " شفا شرارتی انداز میں بولی اور اسکے اس انداز پر باہر کھڑے ارتضیٰ کی مسکراہٹ دیکھنے والی تھی جو کہ گرل کے ساتھ ٹیک لگائے مسز جمال بخوبی دیکھ رہی تھیں۔
"تم محبت اور اعتماد میں سب سے زیادہ کس چیز کو اہمیت دیتی ہو؟"وہ اب سنجیدہ ہو کر اس سے پوچھ رہی تھی۔اور اسکے سوال پر شفا مسکرائی تھی۔اور ارتضیٰ اور الرٹ ہوا تھا جیسے ارحا نے اسکی مرضی کا سوال پوچھا ہو۔
"میرے لیے محبت اور اعتماد دونوں ایک ہی سِکے کے دو رُخ ہیں۔ جہاں اعتماد ہوتا ہے محبت بھی وہیں ہوتی ہے ۔ جس محبت میں اعتماد نہ ہو تو وہ صرف نام کی محبت کہلاتی ہے۔
دو فریقین اعتماد کا پُل پار کر کے ہی محبت کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اور اگر یہ پُل مضبوط نہ ہو تو کچھ باقی نہیں رہتا محبت بھی نہیں۔!"
ارحا تو حیران تھی شفا کی بات پر۔
"شفا اتنی گہری باتیں کیسے کر لیتی ہو۔" ارحا نے اس سے ہوچھا تو وہ مسکرا دی۔
"آپ نے سوال پوچھا اور میں نے جواب دیا بسسس!"
شفا نمکو کھاتے ہوئے بولی۔ ارتضیٰ تو اسکی بات میں کہیں کھو گیا تھا ہوش تو اسے تب آیا جب مسز جمال نے اسے پکارا۔
"ارتضیٰ بیٹا کیا کر رہے ہو۔" وہ ایک دم سے بوکھلا گیا۔
"نہیں امی کچھ نہیں وہ ارحا کا فون اسنے مجھے دیا تھا وہی دینے آیا تھا۔" ارتضیٰ نے فوراً سے وضاحت دی
"جی بیٹا دیکھ رہی ہوں یقیناً فون دینے آئے تھے اور دِل دے بیٹھے" مسز جمال نے اس کا کان کھنچتے ہوئے اسے کہا۔
اور ارتضیٰ تو شرمندہ ہو کر رہ گیا۔
"امی میں وہ۔۔۔۔" اس سے پہلے وہ کچھ کہتا مسز جمال نے اسے ٹوکا۔
"کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ فون مجھے دو اور سو جاؤ جا کے تھک گیا ہو گا میرا عاشق بیٹا" مسز جمال پیار سے اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے بولی۔
اور ارتضیٰ فون انہیں تھما کر ان کی پیشانی پر بوسہ دے کر مسکراتا ہوا چلا گیا۔ مسز جمال نے دل ہی دل میں اسکی نظر اتاری تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°شفان فریش ہو کر بیڈ پر لیٹا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ ایک دم سے کچھ یاد آیا تو اٹھ کر بیٹھ گیا اپنا فون اٹھایا اور اسکی اور اپنی تصویر کھولی جو کچھ دیر پہلے ہی شفا نے اسے سینڈ کی تھی۔ اس کے ساتھ کھڑی وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی شفان منیر کی ذات ارحا کے ساتھ مکمل لگ رہی تھی بلکل پرفیکٹ۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°"امی آپ کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی نہیں کرنی مجھے شادی اور آپ نے مجھ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کر لیا۔" وہ غصے میں تھا اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کی کیا کرے اب اپنی ماں سے تو اس نے کبھی اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی تھی۔
"کب تک اس لڑکی کے لیے اپنی ذات کو اپنی خوشیوں کو فراموش کرو گے واصف ملک کب تک اسکا دکھ مناؤ گے؟" اب وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
"میں کسی کا دکھ نہیں منا رہا امی میرا محبت اور اعتماد ان سب چیزوں سے یقین اٹھ گیا ہے میرے لیے اور میری خوشیوں کے لیے آپ کافی ہیں" اب وہ تنگ آ کر بولا
"تو میرے لیے کر لو یہ شادی سبین بہت اچھی اور سلجھی ہوئی بچی ہے کزن ہے ارتضیٰ کی۔" اب کی بار وہ بہت تحمل سے بولی تو واصف تھکے ہوئے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا۔
"ٹھیک ہے پھر وہ میری بیوی نہیں صرف آپ کی بہو ہو گی"
وہ کہ کر چلا گیا تھا اور مسز ملک نے دعا کی تھی کہ سبین انکے بیٹے کی زندگی میں پھر سے رنگ لے آئے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°"آپی اب کیا ہو گا امی کو میں نے آپ نے اتنا کہا ہے وہ نہیں مان رہی " ایشال اور سبین کی بہت کوشش کے باوجود انکی والدہ نہیں مان رہی تھی اور تو سبین نے ارتضیٰ کو بھی انکار کر دیا تھا اس بات پر بھی وہ بہت ناراض ہوئی تھیں۔ اور اب انکا کہنا تھا کہ۔وہ واصف کی والدہ کو رشتے کے لیے ہاں کر دیں گی۔
"ایشال اب کیا ہو سکتا ہے "۔ سبین ایشال کو پریشان دیکھ کر بولی۔
"آپی حق ہے آپکا ! استعمال کریں نہ!" ایشال اب بھی غصے سے بول رہی تھی۔
"ارتضیٰ کے لیے انکار کیا نہ خالہ کو اپنا حق استعمال کر کے اور امی کو کب سے کہ رہی کہ ابھی نہیں کرنی شادی لیکن اب وہ بات بھی نہیں سن رہی۔ کتنا ناراض ہیں وہ"
"اب آپ کیا کریں گی امی تو کل ڈنر پر ہاں کر دیں گی" ایشال اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔
"اللّٰہ کی رضا میں راضی ہو جاؤں گی ۔ ایسا نہیں کہ آپ اپنا حق استعمال نہ کریں لیکن اگر بہت کوشش کے بعد بھی وہ نہ ہو جو آپ چاہتے ہیں تو سمجھ جائیں کہ اس میں ضرور اللّٰہ کی کوئی مصلحت ہے"۔
سبین کی آنکھوں میں نمی آئی تھی جو وہ بہت مہارت سے چھپا گئی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤️
Duaon mei yad rakhiye ga ....❤️
YOU ARE READING
آغازِ جستجو(Completed)✔️
Romanceزندگی ایک طویل سفر ہے اور اس سفر میں بہت سے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں ۔انجام سے بے خبر آغاز کرنا ہوتا ہے اور اس سفر کے انجام کو حسین بنانے کے لیے جستجو کرنی ہوتی ہے۔۔۔۔