آغازِ جستجو قسط #21

82 15 2
                                    

سبین واصف سے ملاقات کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ کتنے حدشات کتنے وسوسے تھے اس کے دل میں۔۔ اگر واصف شادی سے انکار کرنے کیلئے بلا رہا ہوا تو؟؟ یہ سوال اسے پریشان کیے ہوا تھا۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے اپنی چادر شانوں پر  پھیلائے  اس سے ملاقات کیلئے چل دی۔
واصف اسی ریسٹورنٹ میں اسی ٹیبل پر بیٹھا سبین کا انتظار کررہا تھا جہاں پہلی بار ان کی ملاقات ہوئی تھی۔۔ اس کے چہرے پر عجیب سا سکون عجیب سی خوشی تھی۔ سبین کو دیکھتے ہی واصف اُٹھ کھڑا ہوا۔
"اسلام و علیکم" واصف نے کہتے ہوئے اس کیلئے کُرسی پیچھے کی۔ سبین سلام  کا جواب دیتے ہوئے بیٹھ گئی۔
کافی دیر دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔
"میں چاہتا تھا کہ نکاح سے پہلے تم سے کچھ باتیں کلیئر کرلوں" واصف نے بات کا آغاز کیا اس کے کہنے پر سبین نے اس کی طرف دیکھا وہ اچانک سے "آپ " سے "تم" پر آگیا تھا۔
"جی بولیں میں سن رہی ہوں" سبین نے سیدھا جواب دیا۔
"سبین۔۔۔۔۔۔۔۔" واصف جیسے کسی تمہید کی تلاش میں تھا۔۔۔اس نے ایک لمبا سانس خارج کیا
"میں سیدھا مدعے پر آتا ہو ں میں وہ بات کرنا چاہتا ہوں جو میرے دل میں ہے اور تم چپ کر کے سنو ۔۔۔۔" واصف نے اسے کیا تو وہ اور گھبرا گئی
"سبین تم میری زندگی میں کسی معجزہ کی طرح آئی ہو۔ میں نے اپنی زندگی سے محبت جیسے باب کو ہمیشہ کیلئےبند کردیا تھا!(وہ ایک لمحے کے لیے رکا )میں بچپن سے سنتا آرہا تھا کہ واصف ملک صرف زارا کیلیۓ بنا ہے۔ میری خالہ اور والدہ نے بچپن سے یہی کہانی سنائی جس کو میں نے حقیقت تسلیم کیا۔ زارا سے محبت کی "
واصف کا کہنا تھا کی سبین کی آنکھ سے موتی گِرا واصف اس کی حالت سمجھتا تھا اسی لیے چُپ کروانے کی کوشش نہ کی۔
"لیکن زارا نے میری محبت پر اپنے کیریئر کو ترجیح دی اس نے میری محبت ٹھکرا کر چلے جانا مناسب سمجھا۔ آج سے تین سال پہلے وہ لندن چلی گئی میں نے اسی دن کے بعد اس سے رابطہ رکھنا ضروری نہیں سمجھا"
واصف بول رہا تھا اور سبین سُن رہی تھی بلکل ساکت ہوکر۔
"مجھے لگتا تھا میں اُسے بُھلا نہیں سکتا اور اسکے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ نہیں سکتا"۔۔۔
یہ وہ الفاظ تھے جس سے سبین کا دل نا جانے کتنے ٹکڑوں میں بکھر گیا تھا۔ سبین اپنی جگہ سے اُٹھ گئی۔ واصف کی بات ادھوری تھی۔
"سبین میں بات کررہا ہوں تم سے" واصف نے اُسے اچانک اُٹھ جانے پر ٹوکا۔
"سُن لیا میں نے ۔۔۔۔۔ آپ فکر نہ کریں سمجھ گئی میں"۔
سبین کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے ۔
" کیا سمجھ گئی ہو تم؟ " واصف نے سر جھٹکتے ہوۓ اس سے سوال کیا۔۔
"یہی کہ آپ زارا سے محبت کرتے تھے اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ان باتوں کا یہی مطلب ہوا ہے کہ آپ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے"
سبین بولے گئی اور واصف نے اپنی مسکراہٹ دبائی ۔۔
"میں ایسا سوچتا تھا لیکن غلط تھا" واصف نے تھا پر زور دیا اس کے کہنے پر سبین نے اس کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں نم تھی واصف نے اسے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور وہ بیٹھ گئی۔
"سبین ارتضیٰ کہتا ہے کی کسی کو کھو دینے کا ڈر آپ کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ وہ ٹھیک کہتا ہے میں نے بیت دیر کردی یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کہ تم میری زندگی کا وہ حصہ ہو جس کے بغیر میری زندگی بلکل بے معنی ہے میں نے ایک پَل کو سوچا کہ اگر انکار کر دوں، دور ہو جاؤں تم سے تو؟"
واصف کہتے ہوئے رُکا تھا اس کی آنکھیں نَم ہوگئی تھی۔
"تو"؟ سبین نے سوال کیا۔
"تو جان نکل جائے گی سبین مرجاؤنگا میں" واصف کے اقرار پر سبین کے رونے میں روانی آگئی تھی۔ واصف کو اپنا دل ڈوبتا ہُوا محسوس ہوا تھا۔ وہ خاموش ہو گیا اور اسکے چپ ہونے کا انتظار کرنے لگا
"بس کردو سبین کتنا روؤگی ؟" واصف نے اسکے چپ نہ ہونے پر اسے ٹوکا۔۔
"آپ بہت بُرے ہیں ملک صاحب جان نکال کر رکھ دی ہے میری اور کہتے ہیں کتنا روؤگی"۔۔
سبین کے انداز میں دنیا جہاں کا سکون محسوس ہُوا تھا واصف کو اس کے ملک صاحب کہنے پر تو وہ دل ہار بیٹھا تھا۔ کتنا وقت لگا تھا اُسے اپنی محبت کا اظہار کرنے میں کتنا غلط تھا وہ محبت کے احساس کو  جھٹلاۓ چلا جا رہا تھا۔ لیکن اب یہ سوچ کر وہ پُرسکون تھا کہ دو دن بعد وہ سبین کا محرم بننے جارہا ہے
           ..................................................

عائلہ کو آجکل گارڈن میں والک کرنے کا شوق چڑھا تھا ابھی بھی وہ مصطفی سے ضد کرکے رات کے اس پہر والک کرنے آئی تھی۔ پریگننسی کی وجہ سے اسکا جسم بھاری ہوگیا تھا اس لیے دو قدم بعد ہی تھک جاتی۔۔ گارڈن کا ایک چکر لگانے کے بعد وہ تھک گئی اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑی ہوگئی  جبکہ اس کو دیکھ کر مصطفی بھی کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا جیسے وہ بھی تھک گیا ہے۔۔
"مصطفی میں تو ماں بننے والی ہوں آپ کو کیا ہوا ہے "؟
عائلہ نےحیرت سے پوچھا
" ہاں تو میں بھی باپ بننے والا ہوں ایسی کیا بات ہے"
مصطفی کے کہنے پر عائلہ کا قہقہہ بلند ہوا ۔ آجکل وہ عائلہ کی ہر بات کا الٹا جواب دے رہا تھا۔ مصطفی سے بات کرکے اسے ہنسی ہی آتی تھی۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مصطفیٰ نے عائلہ کو خوش رکھنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔
"مصطفیٰ آپ کو سرکس میں ہونا چاہیے سب کو خوب ہنسائیں گے آپ "
عائلہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
" مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں میری وجہ سے میری بیگم کھِلکھِلا کر ہنستی ہے یہی بہت ہے میرے لیے۔"
مصطفیٰ نے اسے اپنے حصار میں لے کر کہا تو وہ دل و جاں سے مسکرائی اور ان دونوں کو دیکھ کر چاند کی چاندنی اور رات کے چمکتے ہوئے ستاروں نے بھی ان کی دائمی خوشی کے لیے دعا کی تھی۔۔۔
۔❤️

                ...........................

جاری ہے۔۔۔۔۔

Duaon mei yad rakhiye ga 🌼

آغازِ جستجو(Completed)✔️Where stories live. Discover now