عائلہ کو بہت پریشانی ہو رہی تھی اس نے مسز جمال کو وہی کہا کہ جو اسے مصطفیٰ نے بتایا لیکن اسے ان کے دوست کی طبیعت خراب ہونا صرف ایک بہانہ لگ رہا تھا ۔ مصطفیٰ نے عائلہ کی طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں بتایا تھا اور کھانا کھا کر سو جانے کا کہا کیونکہ اس کے مطابق وہ اور ارتضیٰ رات اپنے دوست کے پاس ہسپتال میں رہیں گے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
پولیس کے مطابق ارتضیٰ کو بابر شاہ کی بتائی ہوئی جگہ پر بظاہر اکیلے جانا تھا۔جبکہ پولیس اس جگہ کو چاروں طرف سے گھیر لے گی ارتضیٰ پیپرز پر دستخط نہیں کرے گا اور پولیس موقع ملتے ہی اندر داخل ہو گی۔شفان اور واصف نے اسکے ساتھ جانے کا ارادہ کیا جبکہ مصطفیٰ گھر پر لڑکیوں کے ساتھ تھا انہیں اکیلا چھوڑنا مناسب نہ تھا اب تو سبین اور ایشال کی والدہ بھی آ گئی تھی۔ ارتضیٰ اکیلے گاڑی میں روانہ ہوا جبکہ واصف اور شفان پولیس کے ساتھ پیچھے تھے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°ارتضیٰ دروازے سے اندر داخل ہوا تو یہ ایک بہت بڑا تاریک کمرہ تھا ارتضیٰ نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو اسے ایک طرف ہلکی روشنی دیکھائی دی اسنے جیسے جیسے قدم آگے بڑھائے تو اسے ایک کرسی پر شفا دیکھائی دی اسکے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ وہ بے ہوش معلوم ہو رہی تھی۔ ارتضیٰ اسکا نام پکارتے ہوئے آگے بڑھا تو دو لوگوں نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا ۔
"اتنی بھی کیا جلدی ہے ارتضیٰ جمال" اسے بابر شاہ کی آواز سنائی دی ۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو بابر شاہ کے پیچھے سات آٹھ اور گھنڈے موجود تھے۔
"لے آیا ہوں کاغذات چھوڑ دو میری بیوی کو" ارتضیٰ نے آرام سے بات کی تھی۔
"کاغذات لائے ہو صرف ابھی دستخط کرنا باقی ہے" بابر شاہ نے چالاکی سے کام۔لیتے ہوئے کہا اور ارتضیٰ کو بھی ایک کرسی پر بیٹھا کر اسکے ہاتھ باندھ دیے۔
"کمینے انسان چھوڑ مجھے " ارتضیٰ چیخا تھا۔
"آرام سے ارتضیٰ جمال آرام سے یہ مت بھولو کہ تمہاری پیاری بیوی اس وقت یہیں موجود ہے" بابر شاہ اسے دھمکا کر چلا گیا اور اب عالم یہ تھا کہ ارتضیٰ شفا کے سامنے ہی کرسی پر بندھا تھا۔ سامنے وہ اپنے ارد گرد سے بے خبر بے ہوش پڑی تھی ۔ ارتضیٰ اسی کو دیکھ رہا تھا کہ اسنے آنکھ کھولی تو ارتضیٰ نے اسے پکارا۔
"شفا۔۔۔۔۔" ارتضیٰ کی آواز پر وہ متوجہ ہوئی تھی اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ بابر شاہ ڈھاڑتا ہوا اندر داخل ہوا اور ارتضیٰ پر مکوں کی برسات کر دی۔
"توں کمینے انسان تجھے بکواس کی تھی کہ اکیلے آنا اور توں ساتھ پولیس لے آیا " بابر شاہ اسے مار رہا تھا اور وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا تھا ۔
"چھوڑو انہیں نہ مارو۔۔۔۔" شفا روتے ہوئے چِلائی تھی اور اسکی آواز پر بابر شاہ کا دیھان اُدھر گیا اور وہ شفا کو دیکھ کر کمینگی سے مسکرایا ۔
"تجھے واقع ہی اپنی بیوی کی جان نہیں عزیز اور اس بات کا اندازہ مجھے ہو گیا " بابر شاہ شفا کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا ۔
"خبردار جو اس کی طرف ایک اور قدم بڑھایا۔" ارتضیٰ بپھرے ہوئے شیر کی طرح بول رہا تھا ۔
"تمہارے شوہر کو خود تمہارا خیال نہیں ہے ۔لیکن تم فکر مت کرو کیونکہ مجھے نہ تمہارے حُسن کی بہت قدر ہے " بابر شاہ اسکے چہرے کے سامنے ہوتے ہوئے بولا تو شفا نے اسکے منہ پر تھوکا اور اسکے بدلے میں بابر شاہ کا بھاری ہاتھ اسکے نازک رخسار پر پڑا ۔
"بابر شاہ میں تیرا خون پی جاؤں گا" ارتضیٰ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا قتل کر دے۔ اور اسکے کہنے پر بابر شاہ نے ایک نہیں دو نہیں چار دفع اسکے گال پر تھپڑ مارے شفا تو بلکل نڈھال ہو گئی اسکا ہونٹ پھٹ گیا تھا اور خون نکل رہا تھا ۔ ارتضیٰ کو اسکی تکلیف اپنے گال پر محسوس ہوئی ۔
"بابر شاہ میں ابھی اور اسی وقت دستخط کرنے کو تیار ہوں اس کو چھوڑ دو" ارتضیٰ نے کہا تو بابر شاہ نے اسے دیکھا
"تجھے کیا لگتا ہے میں پاگل ہوں توں پولیس کے کر آیا ہے ساتھ اور اب اگر توں دستخط کر بھی دے تو بھی میرے پر کیس بن جائے گا اب میں سوچ رہا ہوں گرفتار تو میں نے ہو ہی جانا ہے لیکن اگر تجھے سکون میں چھوڑ کر گرفتار ہوا تو مجھے سکون نہیں ملے گا" بابر شاہ نے کہتے ہوئے شفا کر رسی کھولی اور اسکو بالوں سے پکڑ کر پورے زور سے اسکا سر دیوار کے ساتھ مارا اور شفا کی چیخ کے ساتھ ساتھ گولی چلنے کی آواز آئی پولیس نے بابر شاہ کے بازو پر گولی ماری تھی اور باری باری کر کے سب کو گرفتار کیا شفان بھاگتا ہوا شفا کے پاس گیا جبکہ واصف نے ارتضیٰ کی رسی کھولی ۔
ارتضیٰ نے شفا کا سر گود میں رکھا اور شفان نے اسکے سر سے بہنے والے خون پر ہاتھ رکھا تا کہ ذیادہ خون نہ بہے ۔واصف نے ایمبولینس کال کی اور شفا کو ہسپتال لے کر گئے°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ارحا سبین اور مصطفیٰ ہسپتال آ گئے تھے جبکہ ایشال اپنی والدہ کے ساتھ گھر تھی۔ڈاکٹر کے مطابق شفا کا خون بہت بہہ گیا تھا اور وہ اسکے ہوش میں آنے پر ہی کچھ بتا سکتے تھے۔
ارحا کبھی شفان کو دیکھتی جس کے آنسو روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے تو کبھی ارتضیٰ کو جس کے ٹینشن کی وجہ سے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔ واصف ارتضیٰ کے پاس جا کر بیٹھا۔
"ارتضیٰ پریشان نہ ہو دعا کرو انشاء اللّٰہ گڑیا بلکل ٹھیک ہو گی" واصف کے کہنےپر ارتضیٰ نے اسے دیکھا ۔
"میں اسکی حفاظت نہیں کر سکا وہ ۔۔۔۔۔۔وہ میری آنکھوں کے سامنے شفا کو مار رہا تھا اسے تکلیف دے رہا تھا اور میں ؟۔ میں کچھ نہیں کر سکا میں بہت برا ہوں بہت برا" ارتضیٰ اپنے آپ کو کوس رہا تھا ۔ اور واصف صرف اسے دلاسہ دے سکتا تھا۔ ارحا کو خود پر غصّہ آ رہا تھا کاش وہ کسی سے کچھ نہ چھپاتی تو آج شفا اس حال میں نہ ہوتی۔ وہ لوگ دعا ہی کر رہے تھے کہ ڈاکٹر آئی۔
"پیشنٹ اب ٹھیک ہیں انہیں ہوش آ گیا ہے اور خون بھی رک کیا ہے آپ لوگ تھوڑی دیر میں ان سے مل سکتے ہیں ۔" ڈاکٹر کہہ کر چلی گئی ارتضیٰ اسی وقت اسی جگہ اللّٰہ کے آگے سجدہ ریز ہوا سب نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا۔°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
سب شفا سے مل چکے تھے سوائے ارتضیٰ کے وہ نجانے کیوں شفا سے ملنے سے کترا رہا تھا ۔ شفان اسکو شفا کے روم کے باہر کھڑے دیکھ کر اسکے پاس آیا۔۔۔
"مل کیوں نہیں لیتے اس سے ؟" شفان کے پوچھنے پر وہ متوجہ ہوا۔
"ہمت نہیں ہے شفا کو اس حال۔ میں دیکھنے کی ۔" ارتضیٰ کی طرف سے سیدھا جواب آیا۔
"مل لو ارتضیٰ اگر مل لو گے تو تسلی ہو جائے گی " شفان کے کہنے پر اسنے لمبا سانس خارج کیا ۔ اور شفا کے کمرے کا دروازہ کھولا۔
شفا آنکھیں بند کیے ہوئے تھی ارتضیٰ آہستہ سے قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس آیا ۔شفا کے گال پر تھپڑ کا نشان اور سر پر بندھی پٹی دیکھ کر اسکے صبر کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی۔اور اسکی آنکھیں برسنا شروع ہو گئی۔ ارتضیٰ نے ہلکے ہاتھوں سے اسکا رخسار سہلایا ۔شفا کی آنکھ کھلی تو اسنے ارتضیٰ کی طرف دیکھا ۔
"ارتضیٰ۔۔۔۔" شفا کے لبوں سے ارتضیٰ کو اپنا نام سن کر لگا جیسے اسکا نام دنیا کا سب سے خوبصورت نام ہو۔
"جی ارتضیٰ کی جان میں یہیں ہوں تمہارے پاس" ارتضیٰ نے نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ تو وہ مسکرائی۔
"تم دیکھنا شفا اب میں کبھی بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا کبھی بھی نہیں بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ " ارتضیٰ کےہاتھ پر رسی کے گہرے نشان دیکھ کر شفا کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے۔
"مجھے پتا ہے آپ مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے" شفا مشکل سے بول رہی تھی۔
"انشاء اللّٰہ " ارتضیٰ اسکے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے کہا۔۔۔۔°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Duaon mei yad rakhiye ga or vote b kr dejiye ga❤️
YOU ARE READING
آغازِ جستجو(Completed)✔️
Romanceزندگی ایک طویل سفر ہے اور اس سفر میں بہت سے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں ۔انجام سے بے خبر آغاز کرنا ہوتا ہے اور اس سفر کے انجام کو حسین بنانے کے لیے جستجو کرنی ہوتی ہے۔۔۔۔