Episode 4 in urdu

541 29 38
                                    

آ گیا ہمارا لاہور ۔۔ موحد نے بتیسی نکال کے پُر جوش نعرہ لگایا اور گردن گھما کے بائیں طرف دیکھا تو حسب معمول مینار پوری مویشی منڈی بیچ کر سو رہا تھا موحد اسے سوتا دیکھ کر پھیکا سا ہو گیا ۔۔ بتیسی واپس غائب ہو گئی اور ساری خوشی مصنوعی غصے میں تبدیل ہو گئی ۔۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا اور دی احمدز ہاوس کی طرف دیکھتا رہا جس کا داخلی دروازہ معمول کے خلاف کھلا ہوا تھا موحد کی بتیسی پھر باہر نکل آئی برمودا ٹرائی اینگل میں کسی شرارت نے جنم لیا ۔۔اور پھر کیا تھا موحد نے ایک پر عظم نگاہ ساتھ معزور سے پڑے مینار پر ڈالی مینار کے موبائل پہ لپکا اور پھر گاڑی سے باہر نکل گیا گاڑی کو باہر سے لاک کیا اور
"مانی تو ابھی موحد بلوچ کو جانتا نہیں ہے
سو لے پتر آج کے بعد تو غلطی سے بھی گاڑی میں نہیں سوئے گا ۔۔يسسسسسس."
وہ معنی خیز مسکراہٹ چہرے پر سجائے اب احمد ہاوس کے داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا پیچھے مانی اس بات سے بے خبر کہ اس کا جگری یار اسے گاڑی میں لاک کر کے کہاں غائب ہو رہا ہے پڑا سوتا رہ گیا ۔موحد جب داخلی دروازے پر پہنچا تو پہلے گردن اندر کر کے ایک تفتیشی نگاہ سے پوری جگہ کا جائزہ لیا اور پھر آگے کا منظر دیکھ کر وہ چونک گیا
دی احمدز ہاوس کے چھوٹے مگر خوبصورت سے باغیچے کے پھول پودے سرد ہوا کے زور پر جھول رہے تھے اور پانی کی بوندوں کو جیسے سردی کی شدت کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنے اندر جذب کر رہے تھے اور پاس ہی گول آنکھوں والی لڑکی جس نے تن پر گرے سویٹر اور چہرے کے گرد بلیک شال لپیٹی ہوئی تھی وہ کوئی دھن زیر لب گنگناتی پائپ پکڑے ایک طرف سے دوسری طرف پھیلے پودوں کو پانی دے رہی تھی
"اے لو جی آج لگتا ہے سب پاگلوں کو سبق سکھانے کا دن ہے "۔ موحد اس لڑکی کو دیکھ کر بڑبڑایا ۔۔ پھر خاموشی سے قدم اٹھا کر وہ پورچ کے اندر داخل ہو گیا اس نے بنا کسی آواز کے داخلی دروازہ اتنا ہی کھلا چھوڑ دیا جتنا پہلے تھا وہ جس طرف کھڑا تھا اس طرف لڑکی کی پشت تھی اور لڑکی مسلسل کسی انگریزی گانے کی دھن گنگنا رہی تھی۔۔"ایڈی تو انگریزن ہوں ۔"موحد کے لیے وہ گلے کا پھندا بن چکی تھی اچھا بھلا وہ خاموشی سے مینار کے کمرے میں جا کر سو جاتا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور شام تک مانی گاڑی میں بند خوار ہوتا رہتا کتنا مزہ اتا۔۔وہ وہیں کھڑے کھڑے خیالی پلاؤ پکا رہا تھا کے اچانک شیخ چلّی کے انڈے ٹوٹ گئے۔۔"توبہ ہے موحد یار تو بھی نہ ریئلٹی کو فیس کرنا سیکھ خیالوں میں کچھ نہیں رکھا اس بھوتنی کا انتظام بھی ابھی کرلیتے ہیں ۔۔چلو ایک منصوبہ ناکام ہوا تو دوسرا تو کامیاب ہوگا۔۔۔وہ خود کلامی کرتا خود کو جیمز بونڈ سمجھ رہا تھا۔۔پھر کسی خیال کو جھٹک کر اُسنے ایک تفتیشی نظر سے پانی کے پائپ کو دیکھا بس پھر کیا تھا برمودا ٹرائینگل کے اندر شرارت نے پھر سے تیرنا شروع کردیا ۔۔۔اُسنے جلدی سے اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے اور بنا آواز کے بھاگتا ہوا پورچ کے عقب میں چھوٹی سی گلی کی طرف مڑ گیا لڑکی کے گنگنانے اور پانی کے بہنے کی آواز گلی تک صاف آرہی تھی اُسنے گلی میں لگے پانی کے ٹاپ کو گھما دیا ۔۔۔
"آئیں۔۔پانی ختم۔؟؟۔۔مشکت نے پائپ کو حیرت سے دیکھا جس میں پانی کا پریشر بہت تھوڑا ہوا اور پھر اچانک پانی ختم ہوگیا ۔۔۔موحد نے دیوار سے جھانکا وہ حیرت اور پریشانی سے پائپ کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔پائپ کا منہ مشکت کے چہرے کی طرف تھا۔۔۔موحد منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی زبط کرتے ہوئے واپس ٹاپ کی طرف بھاگا اور جلدی سے ٹاپ الٹا گھما دیا۔۔۔اور پھر ۔۔۔پائپ سے نکلتے پانی کے فوارے نے مشکت کو سر سے پاؤں تک بھیگا دیا اسے لگا جیسے اسکی ساری دنیا گھوم گئی۔ٹھنڈا یخ پانی اسے برف کا مجسمہ بنا گیا۔۔وہ ہڑبڑا گئی اور پائپ ہاتھ سے گر گیا۔پھر بھیگے ہوئے چہرے سے ہکا بکا سی پائپ کو دیکھنے لگی۔پانی ٹپ ٹپ اُسکے ناک اور لبوں سے بہ کر گھاس پر بوندوں کی صورت گر رہا تھا ۔
"اوہ مائی گوڈ۔۔ماما۔۔ما۔۔ماما۔"۔مشقت اندرونی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے چلا رہی تھی۔
"ہائے میں مر گئی۔"صائمہ مشکت کی چیخ و پکار سنتے ڈر کر باہر نکل آئی۔اتنے میں پیچھے سے قہقہہ لگاتا پیٹ پکڑے کھڑا موہد یاجوج ماجوج کی طرح دیوار کے پیچھے سے نمودار ہوا۔۔"آنٹی۔۔(کہکہا)۔۔میری پیاری آنٹی کسی ہیں آپ۔"۔اور يوں موہد نے صائمہ کی توجہ اپنی طرف موڑ لی۔۔صائمہ حیرتِ سے منہ کھولے کبھی بھیگی ہوئی مشکّت کو دیکھتی تو کبھی کہکہے لگاتے موحد کو ۔
"ہائے۔۔میرا بچہ۔۔موحد ۔۔"ساری پریشانی حیرت پتا نہیں کہاں غائب ہوگئی اور وہ موحد کی طرف بڑھ گئیں۔مشکت جو حیرت بھری پھٹی پھٹی گول آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔کچھ ہی سیکنڈز میں اسے اندازہ ہوگیا کے یہ موحد کا کارنامہ ہے۔"ماما۔۔"و غرائی ۔۔گول آنکھیں غصّے اور دکھ سے سرخ ہوگئیں۔
"اس نے ۔۔۔اس نے۔۔۔"وہ غصّے میں ہکلاتی تھی۔"اسکی حرکت ہے یہ"۔انگلی سے موحد کی طرف اشارہ کرتے وہ مسلسل چیخ رہی تھی۔
"موحد میں تمہارا گلا دبا دونگی۔میں تمہارا قتل کر دونگی ۔میں تمہارا سر پھاڑ دنگی۔۔میں تم۔۔۔"اور موحد مسکین صورت بنائے کھڑا مصنوعی حیرت سے کبھی چیختی ہوئی مشکت کو دیکھتا تو کبھی صائمہ کو جو اس سے دو قدم کے فاصلے پر شرمندہ سی کھڑی تھیں۔
"بدتمیز ۔۔بے حیا ۔۔ایسے بات کرتے ہیں مہمان سے ۔۔شرم نہیں آتی تُجھے؟۔۔مر جانیئے اتنی سردی میں باہر کھڑی نہا رہی ہے۔۔اوپر سے میرے بچے پر الزام لگا رہی ہے۔یہ کونسا وقت ہے پودوں کو پانی دینے کا؟"صائمہ کو گویا حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے۔سارا ملبا مشقت پر گرا دیا۔ساتھ کھڑا موہد ٹیڑھے میڑھے منہ بنا بنا کے مشقت کو چڑا رہا تھا اور وہ مزید بھڑک رہی تھی۔
"بہت مزا آرہا ہے دل گارڈن گارڈن ہوگیا۔"موہد نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو شاباش دی۔
"واہ موحد بلوچ تو تو جیمز بونڈ نکلا۔آج دونوں پاگل بہن بھائی کو مزا چکھا دیا۔۔"
"آ آ ۔۔آنٹی میں بہت تھک گیا ہوں ۔۔"موہد نے مسکین صورت بنا کر سر کھجاتے ہوئے کہا جیسے جتانا چاه رہا ہو کے وہ اس چیخ و پکار سے تنگ آگیا ہے۔
"ہائے۔۔میں ابھی چائے بنواتی ہوں تمہارے لیے۔چلو میرے ساتھ اندر اؤ شاباش. یہ تو بے غیرت ہے گھر آئے مہمان کی بھی فکر نہیں کرتی۔۔"وہ مشکت کو مسلسل گھورتی رہیں اور موحد کے کندھے کو نرمی سے تھپتھپاتے ہوئے اسے اندر لے گئیں۔ اس بات سے بے خبر کے اُنکے"موحد بیٹے" نے انکے سگے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ کیا حشر کیا ہے۔مشکت پیچھے ساکت سی کھڑی تھی۔اچانک اسے کچھ یاد آیا۔۔اور وہ بھی اندرونی دروازے کی طرف چلی گئی۔
"ماما ۔۔"موحد اور صائمہ لاؤنچ میں آمنے سامنے صوفوں پر براجمان تھے۔
"کیا ہے۔۔"صائمہ نے ایک ناگوار نظر سر سے پاؤں تک بھیگی اپنی بیٹی پر ڈالی۔
"جاؤ پہلے اپنا حلیہ ٹھیک کر کے آو۔کیا حالت بنائی ہوئی ہے۔مجھے تمہارا کچھ کرنا ہی پڑےگا تم تو پاگل ہوتی جارہی ہو۔"صائمہ مشکت کی حالت دیکھ کر اسے سنا رہی تھیں۔(بےشرم ایسے ہی منہ اٹھا کے آگئی ہے کیا کروں میں اس اولاد کا)۔پھر سرد آه بھر کر واپس موہد کی طرف متوجہ ہوگئیں اور موحد جو مشکت کو چڑانے میں مصروف تھا پھرسے چوکنا ہو کے بیٹھ گیا وہ اس وقت مشکت کو زہر سے زیادہ کڑوا اور ابلیس سے زیادہ منحوس لگ رہا تھا۔
"گھٹیا آدمی"وہ موحد کو گھورتے ہوئے لب بھینچ کر بڑبڑائئ ."جی مما ۔۔پر بھائی کہاں ہیں؟۔۔مشکت نے معصوم صورت بنا کر ماں سے پوچھا تو موحد کے برمودا ٹرائنگل کے چودہ طبق روشن ہو کر بجھ گئے۔۔مصنوعی معصوم مسکراہٹ غائب ہوئی اور ۔۔"لا حول ولا قوۃ۔۔یہ بھوتنی تو میری زندگی برباد کر کے ہی دم لیگی۔۔"موحد کو ہول اٹھنے لگے۔۔
"ہو ہاےے۔۔۔مشکت میں تمہاری فضول باتوں کی وجہ سے اپنے بیٹے کو ہی بھول گئی۔۔توبہ ہے میرے اللّٰہ میرا تو بوڑھاپے سے پہلے ہی یہ حال ہوگیا ہے ۔۔"صائمہ سر پکڑ کر کافی دکھ سے اپنی اتنی سی عمر کی نادانی کا رونا رو رہی تھیں۔۔آخری جملے پر موحد اور مشکت دونوں چونک گئے اور دونوں کی آنکھیں چار بھی ہوئیں تھیں لیکن اگلے ہی سوال پر موحد کو اپنی ہار تسلیم کرنا پڑی ۔۔"کدھر ہے مینار ۔۔؟تمہارے ساتھ گیا تھا نا۔۔۔؟"صائمہ کی پر امید نگھائیں موحد کی طرف تھیں۔۔وہ گہما گہمی میں اپنے سگے بیٹے کو ہے بھول گئیں تھیں۔۔۔بس یاد تھا تو موحد جس نے انکی دونوں اولادوں کو خوار کیا ہوا تھا اور وہ اس بات سے بے خبر اسکی خاطر خدمت میں مصروف تھیں ۔۔ اور پھر کسی نے جھماکے سے دروازہ کھولا مشکت نے آواز سے گھبرا کر پیچھے دیکھا گول آنکھیں باہر نکل کر گرنے والی تھیں ۔۔ صائمہ نے ہائے میرے اللہ کہہ کر سینے پر ہاتھ رکھ لیا ۔۔ اور موحد اسے جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ۔۔ وہ سکتے کی حالت میں ہی بیٹھا تھا
کچھ منٹ قبل ماضی مین چلتے ہیں جب موحد کی دوسری شرارت کامیاب ہوئی تو باہر مىنار کس طرح اسکے قتل کا منصوبہ تیار کر رہا تھا ۔
نیند کی وادیوں میں چلتے چلتے راستے میں کسی پتھر سے ٹکرا کر اچانک اسکی آنکھ کھلی تو وہ گاڑی میں تھا۔۔ گاڑی رکی ہوئی تھی اور برابر میں موحد نہیں تھا ۔۔ اس نے آدھ کھلی نیند کے نشے سے چور آنکھوں سے وانڈ سکرین سے باہر کا منظر دیکھا تو اسے اپنے وجود میں 440 وولٹ کا جھٹکا محسوس ہوا "یہ تو میرا گھر ہے "۔۔ خود کلامی کی حالت میں اس نے جلدی سے دروازے ک ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔ دروازہ لاک تھا ۔۔
"یہ موحد کدھر مر گیا ہے ۔۔ اووفف کیا مصیبت ہے۔"۔ مینار کو بلکل بھی اندازہ یا گمان نہیں تھا کہ موحد اسکے ساتھ کوئی شرارت کر گیا ہے ۔۔ دافتاً اس نے سامنے ہاتھ مارا تو موبائل بھی غائب تھا اس نے بیٹھے بیٹھے ہی پوری گاڑی چھان مار لی مگر موبائل نہ ملا ۔۔ "میرا موبائل بھی لے گیا ۔۔ گاڑی بھی لاک کر گیا گھر سامنے ہے آخر ہو کیا رہا ہے یہ سب" اب غصہ پریشانی میں ڈھل گیا تھا ۔۔ مینار کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات جنم لینے لگے ۔۔ پھر گھٹن محسوس ہونے پر اس نے زور زور سے گاڑی کے شیشے اور دروازے بجانا شروع کردیئے۔۔۔اُسکے گھر کا گیٹ کھلا ہوا تھا ۔ شور سے شائد کوئی آجائے۔۔محلّے میں بھی عجیب سناٹا چھایا تھا لوگ سردی سے بچ کر گھروں میں چھپے بیٹھے تھے ۔۔"کوئی ہے ۔۔۔؟کھولو پلیز ۔۔۔ہیلپ۔کوئی ہے۔۔۔۔!؟۔یہ پاکستانی عوام کا وطیرہ ہے نہیں آئے گا کوئی سوتے رہو تم سب۔۔بندہ مر جائے گھٹن سے۔۔ہوں۔۔"اسے بات بات پر پاکستانی عوام کی کوتھائیان گننے کا شوق تھا اور وہ پورا کر رہا تھا۔۔۔کہ اچانک دو مزدور جو شاید پیچھے کسی عمارت میں کام کر رہے تھے دروازہ بجنے کی آواز سے بھاگ کر آئے۔۔۔انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف باہر سے تفتیشی نگھا ڈالی تو ساتھ بیٹھا ہوا دروازہ بجاتا مینار انہیں نظر آیا۔۔۔اُن دو مزدوروں کو ایک گاڑی کے گرد پریشان کھڑا دیکھ کے کافی لوگ جمع ہوگئے اور دو منٹ میں گاڑی کا لاک کھل گیا مینار ہشاش بشاش باہر کھڑا تھا۔۔۔اور تقریباً پورا محلہ اسے تسلی دینے پانی پلانے چائے کی آفر کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔وہ حیران تھا کے سب لوگ اُسکی مدد کے لیے آخر کب اپنے گھروں سے نکل کر اگئے ۔۔اور ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی پریشان تھا آخر اس کا دوست گیا کہاں۔۔۔عبداللہ صاحب تو مینار کو جانتے بھی تھے ۔۔اگرچہ مینار اور اُسکی فیملی کو ادھر شفٹ ہوئے دو سال ہوئے تھے مگر اُنکا ملنا جولنا محدود تھا وہ لوگ بہت کم ہی باہر نکلتے تھے۔خیر عبداللہ صاحب نے مینار سے کہا کہ وہ پولیس کو اطلاع کردے کیا پتہ اُسکا دوست خطرے میں ہو ۔۔لیکن مینار جانتا تھا کہ موحد بلوچ اور خطرہ ۔۔۔؟۔۔نہیں خطرہ خطرے میں ہوسکتا ہے مگر موحد بلوچ خطرے میں نہیں۔ اس لیے اُسنے سبکو نمٹا کر گھر جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔
"میں آج اس موحد کے بچے کو چھوڑونگا نہیں مجھے بند کر کے کدھر مر گیا ہے۔۔۔"مینار کا غصّہ عروج پر تھا ۔وہ لب بھینچ کے جیسے ہی پورچ میں داخل ہوا تو آگے موحد کے جوتے دیکھ کر رک گیا۔ساری گیم سمجھنے میں اسے صرف چند لمحے لگے تھے۔۔۔اور پھر وہ غصّے سے آندھی طوفان کی طرح گھر کے اندر داخل ہوگیا۔۔۔آگے سب اسے یوں دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔۔۔نادیہ بھابی اور بچے بھی مسلسل شور کی وجہ سے اپنے کمروں سے باہر نکل آئے ۔۔۔
"تاؤ ۔۔۔۔تاؤ ۔۔آگئے۔۔۔۔گڑیا نے زور سے نعرہ بلند کیا ۔۔اور بھاگ کر مینار سے لپٹ گئی۔۔۔حارث بھی خوشی سے ۔۔"تاؤ آئیے (آگئے)۔۔۔تاؤ آئیے (آگئے) ۔۔توتلاتا ہوا ننھے سے چوزے کی طرح مٹکتا مینار کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔مینار بچوں کو دیکھ کر چند سیکنڈ کے لیے غصہ بھول گیا اور گھٹنوں کے بل رہ داری میں ہی بیٹھ گیا اور دونوں کو باری باری پیار کیا۔۔نادیہ سب کے چہروں کو پڑھ چکی تھی اور معاملے کی نزاکت کو سمجھ چکی تھی اس لیے بچوں سمیت واپس اندر چلی گئی۔۔۔مینار ایک گہرا سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا سامنے بیٹھے موحد کی طرف دیکھ کر اسکی آنکھوں میں ایک بار پھرسے خون اتر آیا۔۔"کیا میں جان سکتا ہوں موحد بلوچ کے آپ نے مجھے گاڑی میں گھٹ گھٹ کر مرنے کے لئے کیوں چھوڑ دیا تھا۔۔۔"؟۔۔۔۔بس یہ سننا تھا کے صائمہ کو کو لگا وہ بےہوش ہو جائیں گی۔۔صائمہ بھاگ کر مینار سے لپٹ گئیں۔۔"ہائے اللہ۔۔۔کیا ہوا تھا تم لوگوں کی لڑائ ہوگئی ؟کیوں بند کردیا تھا؟۔۔ہو کیا رہا ہے کوئی مجھے بتائے۔۔۔"وہ کبھی ساکت بیٹھے موحد (جس میں شاید اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی)کو دیکھتیں تو کبھی غصّے سے گہرے سانس لیتے مینار کو۔۔
"آپ اس سے پوچھیں مما جانی جسکو آپ نے لاؤنج میں بٹھایا ہوا ہے۔۔موحد کو اس وقت کچھ بھی نہ سوجا سوائے اٹھ کے بھاگنے کے وہ کچن کی طرف بھاگ گیا جیسے چوہا بلی کے ڈر سے بھاگتا ہے ۔۔مینار جانتا تھا موحد کچن کے پیچھے والے دروازے ( جو گلی میں کھلتا تھا)سے باہر نکل جائے گا اس لیے وہ سیدھا باہر پورچ کی طرف بھاگا تا کہ موحد کو رنگے ہاتھوں پکڑ لے ۔۔صائمہ اور مشکت بس حیران پریشان سی دونوں کو بھاگتا دیکھتی رہیں ۔۔۔کر بھی کیا سکتی تھیں دو جگری یاروں کا معاملہ تھا ۔۔
کسی خیال کے تحت مشکت بھی باہر چلی گئی۔۔"اب مزہ آئیگا موحد تُمہیں۔۔"اس بار مشکت کا دل خوشی سے گارڈن گارڈن ہو رہا تھا۔۔
مینار نے جھٹکے سے گیٹ سے باہر بھاگتے موحد کو کالر سے پکڑ لیا
۔۔اور ایک مکّہ بنا کر اسکے منہ کے قریب لے گیا ۔۔
"کدھر جاؤگے بچ کر میرے گھر سے موحد بلوچ۔۔تم جانتے نہی ہو مینار احمد کو۔۔بہت برا ادمی ہوں میں۔۔۔""۔
"آ"آہ۔۔اااائئئئئ۔۔۔چھوڑ نا یار مانییی۔۔۔دیکھ میں نے تجھ پر کتنے احسان کیے ہیں ۔۔جاب ڈھونڈ کر دی تجھے خود ساتھ لے کر گیا۔۔بھائی تو عین ٹائم پر سوجاتا ہے۔۔اتنی بوریت ہوتی ہے۔ ۔سبق سکھا رہا تھا۔۔۔معاف کردے ۔۔۔"چائنا کے جیمز بونڈ کی تو ڈر سے حالت ہی خراب ہوچکی تھی وہ ہاتھ باندھے مینار سے معافیاں مانگ رہا تھا۔۔مینار کچھ دیر مصنوعی غصّے سے موحد کو گھورتا رہا ۔ ۔۔پھر اُس کا کالر چھوڑ دیا۔""۔چل جا معاف کیا۔۔آئندہ اگر ایسی حرکت کی نا تو واللہ۔"
۔۔"ہاں واللہ پھر تُجھ سے برا میرے لیے کوئی نہیں ہوگا۔۔۔"موحد نے جملہ مکمل کردیا۔۔۔مینار نے ہنسی مشکل سے ضبط کی ۔۔موحد کو اس طرح ڈرتے ہوئے اُسنے پہلی بار دیکھا تھا۔۔وہ کیوں اتنا ڈرتا تھا اس سے۔"کیا میں اتنا خطرناک ہوں"؟۔۔وہ بھی سوچ کر رہ گیا۔۔۔مشکت ایک گہرا سانس لے کر مینار کی طرف بڑھ گئ۔اور صائمہ کو نجانے کیوں چپ سی لگ گئی تھی۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°کیا سوچ رہی ہو نرمل بی بی۔۔؟ائمہ ک سوال پر نرمل خواب نگر سے بہر نکل آئی۔۔
"کچھ نہیں۔"۔
۔"۔۔کیا کچھ نہیں یہ آج کل تمہیں کیا ہوتا جارہا ہے ؟ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچنے میں مصروف رہتی ہو کوئی پریشانی ہے کیا؟انکل کہاں ہیں۔۔؟
"پاپا گاؤں گئے ہیں"۔۔نرمل نے ائمہ کے سارے سوالوں کو نظرانداز کردیا۔
"گاؤں ۔۔اوہ اچھا اسکول کے لیے گئے ہونگے نہ تو تم کیوں نہیں گئی اتنے دن ہوگئے ہیں تمہیں بھی گئے ہوئے بچے مس کرتے ہونگے۔۔ائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
"اگر اسکول کے لیے گئے ہوتے تو ضرور جاتی۔۔لیکن وہ کسی اور چیز کا سودا کرنے گئے ہیں۔۔۔"نرمل کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔۔۔"سودا ؟کیا مطلب ۔نرمل کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ۔۔مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔"؟ائمہ ٹیک چھوڑ کر کرسی پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی ۔۔۔اور پھر دوست تو دوست ہوتے ہیں چہرے بھی پڑھ لیتے ہیں اور دل میں جھانک بھی لیتے ہیں۔۔۔۔
"ارحم "..نرمل بس ایک نکتے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔
اسٹڈی میں سناٹا چھا گیا ۔۔جیسے دیواروں کو بھی نرمل کا یہ انداز نہ گوار گزرا تھا۔۔۔
"ارحم ؟,..ائمہ نے نہ سمجھی سے نرمل کی طرف دیکھا۔۔۔۔
" وہ میرا رشتہ میرے تایا زاد ڈاکٹر ارحم ریاض شیخ سے پکّا کرنے گئے ہیں۔۔۔۔"
"کیا۔۔۔۔۔!؟؟اور آگے سے ائمہ کو لگا جیسے وہ بےہوش ہوجائیگی ۔ارحم۔۔۔۔ممم۔۔۔تو۔۔مم۔۔تم ۔نرمل تم خاندان میں کیسے شادی کر سکتی ہو تم اس ماحول میں کیسے رہو گی۔؟؟تمہیں کوئی اعتراض نہیں ؟؟؟۔۔انہوں نے تم سے پوچھا تک نہیں ۔۔!؟کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔۔ہوش میں آؤ۔۔میں کچھ پوچھ رہی ہوں نرمل۔۔۔"؟؟
ائمہ ایک ہی سانس میں اتنے سوال کر گئی ۔۔مگر نرمل ویسے ہی سن بیٹھی ایک نکتے کی طرف دیکھتی رہی۔۔
"پوچھا نہیں۔۔بتایا تھا انہوں نے صبح جاتے وقت کے میں جارہا ہوں اور اس بار میں نا نہیں کرسکتی کیوں کے گنجائش نہیں ہے ۔ارحم آخری آپشن ہے خاندان میں۔۔ورنہ پھر پھپو کے بیٹے راشد سے کردینگے جو صرف آٹھ پڑھا ہوا ہے۔۔يا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کے مجھے کسی کی دوسری بیوی بنا دیا جاے لیکن خاندان سے باہر نہیں۔۔کبھی نہیں۔۔اور یہ میرے نہیں پاپا کے الفاظ ہیں۔۔۔نرمل اب رولنگ چیئر سے اٹھ کر کتابوں کی شیلف میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی یا پھر شاید اپنے آنسو چھپا رہی تھی۔۔۔جبکہ ائمہ کا چہرہ غصّے سے لال سُرخ ہو رہا تھا۔۔
ائمہ کی طرف نرمل کی پشت تھی ۔وہ اپنی دوست کی آنکھوں میں اپنے لیے آئی نمی اور غصّے کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔
"آج کے دور میں بھی انکل اتنا بیکورڈ کیوں سوچ رہے ہیں۔۔کیا ہوگیا ہے انکل کو۔؟؟؟۔۔
"دور بدلا ہے سوچ نہیں ائمہ"اُسنے پھر ایک ہی جملے میں جواب دیا۔۔۔
"اور تم۔۔۔تم یار۔۔تم کم از کم بولو اپنے لیے کیا تمہاری کوئی خواہش نہیں ہے؟۔۔"مگر ائمہ کہاں سن رہی تھی۔ غصّے میں بولتی ائمہ کے آخری جملے پر نرمل کو جھٹکا لگا۔
"خواہش ۔۔؟۔۔۔میری کیا خواہش ہے؟۔۔میں کیوں سوچتی ہوں کے میری خواہش کی قدر کی جائے جب کے مجھے تو خود پتہ نہیں کہ میری چاہت کیا ہے۔۔میں نے تو اپنے آپکو اللہ کے حوالے کردیا تھا پھر۔۔۔پھر میں۔۔۔میری ایک ہی خواہش تھی۔۔۔وہ پوری نہیں ہوئی تھی مجھے وہ نہیں ملا تھا۔۔میں نے تو سب چھوڑ دیا تھا ۔۔
نرمل دل ہی دل میں خود کلامی کر رہی تھی اور اُسنے وہیں اسی وقت ایک بہت بڑا فیصلہ لے لیا تھا۔۔۔
(اچھی لڑکیاں بغاوت نہیں کرتیں۔۔تم اچھی لڑکی ہو۔۔۔ ہو نہ؟۔۔میں جانتا ہوں ہو۔۔۔اور میں جانتا ہوں تم بغاوت نہیں کرسکتی اسی لیے جب بھی تمہارے ماں باپ کوئی فیصلہ کریں تو خاموشی سے قبول کرلینا)..
کبھی کبھی ایک جملہ بس ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے برسوں کی بھلائی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے۔۔۔
"نرمل میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں ۔۔"ائمہ کی آواز پر سوچوں کا طلسم ٹوٹ گیا نرمل نے آنکھوں کے کونے صاف کیے اور واپس ٹیبل کے گرد آئمہ کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔۔
"میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ائمہ۔ کیوں کے کوئی فائدہ نہیں۔۔سالوں پہلے جب نانا ابو نے خود سعدیہ خالہ کی شادی خاندان سے باہر کی تھی تو سعدیہ خالہ پر خاندان والوں نے بہت گھناؤنے الزام لگائے تھے کہ شاید اُنکا زاہد خالو سے افیئر تھا اسی لیے خاندان سے باہر پسند کی شادی کرلی۔۔پاپا نے میری پڑھائی تک رکوا دی تھی کے کہیں میں بھی پڑھ لکھ کر پسند کی شادی نہ کرلوں اور انکی عزت نفس کو نقصان نہ پہنچا دوں کتنی مشکلوں سے رو رو کر کالج واپس جانے کی اجازت مانگی تھی۔۔اب تک یہی باتیں کرتے ہیں خاندان والے۔۔ میری ماں نہیں سہہ سکتی ۔۔میں بھی نہیں سہہ سکتی۔بیٹیوں کی خوشیاں قربان ہو جائیں مگر ماں باپ کی عزت پر آنچ نہ آئے۔۔بہت دکھ ہوتا ہے ائمہ ۔۔میں نا نہیں کرسکتی۔۔اس بار میں اپنی ماں کے لیے ایک اور طعنہ نہیں بن سکتی ۔۔۔اور اگر ارحم ہی میرا نصیب ہے تو کوئی اسے بدل نہیں سکتا۔۔۔انسان اپنی ناپسندیدہ چیزوں سے دور بھاگ سکتا ہے مگر نصیب سے نہیں ۔۔"نرمل گہرا سانس لے کر اٹھ گئی۔۔اور ائمہ بس وہیں ساکت سی بیٹھی رہ گئی ۔۔۔وہ جانتی تھی ایک بار نرمل شیخ کوئی فیصلہ کرلے تو کسی کی نہیں سنتی۔۔وہ اپنی دوست کو کیسے بچائے۔۔۔؟۔کیا کرے۔۔۔کیا واقعی ارحم ہی نرمل کا نصیب ہے۔۔؟۔۔یہ تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"یہ دیکھو ارحم پُتر تمہارا تحفہ۔۔ودھایا (خاص)تحفہ۔۔۔رحمان شیخ نے ارحم کو کچھ کاغذات تھمائے اور مسکرا کر دیکھا۔۔۔ریاض شیخ کی باچھیں بھائی کے اس جملے پر ایک دم کھل گئیں
"یہ کیا ہے چچا جی۔؟۔۔"ارحم نے معصوم صورت بنائی
" یہ تمہارے اپنے کلینک کے ڈاکومنٹس ہیں۔۔"یہ جملہ رحمان کے لبوں سے ادا ہوا اور سامنے بیٹھی روبینہ کا چہرہ بھی خوشی سے کھل گیا ۔۔ارحم کو لگا جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہو۔۔اپنی سماعتوں پر اسے یقین نہ آیا تو اُسنے سوال دورھایا ۔۔اور جواب میں رحمان زور سے کہکا لگا کر ارحم سے لپٹ گئے ۔۔
"ڈاکٹر ارحم شیخ ۔۔یہ آپکے اپنے کلینک کے ڈاکومنٹس ہیں سائن کریں اور پھر یہ کلینک ہمیشہ کے لیے آپکا۔۔اسے کوئی آپ سے چھین نہیں سکتا ۔۔۔"رحمان شیخ نے ارحم کے ماتھے پر بوسا دیتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا۔۔"آج سے آپ میرے بھتیجے نہیں۔۔۔میرے بیٹے ہو ارحم سائیں۔۔۔مبارک ہو ارحم""۔۔روبینہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ خوشی سے روئے یا ہنسے یہ کیا ہو رہا تھا ۔۔یہ حقیقت تھی یا خواب؟ ۔۔۔جو بھی تھا۔۔۔ارحم کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ چھائی تھی۔۔۔وہ بار بار اُن کاغذات کو دیکھتا اور پھر اپنے خوش ہوتے ماں باپ کو ۔۔۔کون جانتا تھا کہ نرمل کے ہاتھوں کی لکیروں میں ارحم ہی کا نام لکھا تھا۔۔۔تو یہ ارحم ہی تھا جس کے لیے نرمل بنی تھی۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"ہممم تو میری گڑیا مُجھسے ناراض ہے؟؟,"..مینار نے مسکراتے ہوئے مشکت کے ماتھے پر بوسا دیا۔۔۔
"میں آپ پر غصّہ ہوسکتی ہوں پر ناراض نہیں"مشکت پچھلے پندرہ منٹ میں ہونے والا سارا ہنگامہ بھلا چکی تھی ۔۔۔وہ ایسی ہی تھی اوپر سے غصّے کا طوفان اور اندر سے سمندر جیسی گہری۔۔۔موحد بھی غالباً اپنی جان بچا کر اندر بھاگ گیا تھا ۔۔جب کے دونوں بہن بھائی پورچ ہی میں کھڑے تھے۔۔۔
"اچھا چلو اندر مجھے تم لوگوں کو بہت کچھ بتانا ہے،"۔مینار نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔۔۔تو مشکت کا دل لمحے بھر کو دھڑکا ۔۔۔"کیا باتیں ۔۔"؟؟اُسنے پریشانی سے بھائی سے سوال کیا۔۔۔
اسے پریشان دیکھ کر مینار مسکرایا۔۔وہ جانتا تھا اُسکی بہن کے دماغ کو کن شبہات نے گھیرا ہوا ہے۔۔
"ارے اچھی باتیں بتانی ہیں۔۔میری کیٹی ۔۔۔اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجاتی ہو۔"
°°°°°°°°°°′°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
موحد اچھی خاصی بے عزتی کے بعد گھوڑے گھدے بیچ کر مینار کے ہی بستر پر سویا ہوا تھا۔۔مینار نے پہلے تو اسکا کھلا منہ بند کیا ۔۔پھر اسے غور سے دیکھنے لگا ۔۔"خود کیسے مُردوں کی طرح سویا پڑا ہے میں سو جاؤں تو اسکو موت پڑتی ہے۔۔ہوں ہوں۔۔"پھر کچھ سوچ کر اُسنے موحد کے ناک کے نیچے اپنی حتیلی رکھی۔۔۔"واقعی مر تو نہیں گیا ہے عزتی کے صدمے سے"۔۔لیکن شموع قسمت کے وہ سانس لے رہا تھا۔۔۔مینار نے حتیلی ہٹا لی اور کُشن اٹھا کر زور سے موحد کو دے مارا۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔وہ مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔اور پیچھے موحد خواب میں ہی جہنم پہنچ چکا تھا۔۔۔
"تیز بارش ۔۔سرد ہوائیں۔۔کیفے ۔۔اور وہ لوگ کیفے میں کونے والی ٹیبل پر براجمان تھے ۔۔گول آنکھوں والی لڑکی مسلسل مسکرا رہی تھی۔۔شرما رہی تھی۔۔وہ اُسکا ہاتھ تھامے بیٹھا اُسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔"مشکت ۔۔۔موحد بلوچ کو تم سے بے حد محبت ہے۔۔۔پھر اچانک اُسنے اپنے گرے سویٹر کی جیب سے ایک خوبصورت انگھوٹی نکالی اور سامنے بیٹھی لڑکی کو پہنا دی۔۔لڑکی نے شرماتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔۔پھر ویٹر آیا اُنہوں نے کچھ آرڈر کیا ۔۔کچھ دیر میں ویٹر دو ملک شیک کے گلاس لے آیا۔۔دونوں نے مختلف فلیورز آرڈر کیے تھے۔۔لڑکی نے اسٹرابری اور لڑکے نے مکسڈکاکٹیل ۔۔وہ دونوں مزے لے کر شیک پی رہے تھے کہ اچانک لڑکا لڑکی کے گلاس سے چکھنے کے لیے گلاس کی طرف جھکا لڑکی نے اسے تیکھی نظروں سے گھورا مگر وہ straw مزے سے منہ کے اندر لے گیا۔۔۔لڑکی کا غصّہ حد سے تجاوز کر گیا اور اس نے شیک کا گلاس لڑکے کے منہ پر اُچھال دیا اور پورا گلا پھاڑ کر چیخی۔۔""موحدددددد....."")
قیامت۔۔۔جہنممممم۔۔۔یا اللہ ۔۔۔مجھے بچا لے۔۔۔اس چوڑیل سے۔۔۔ہائے یہ میں کیا دیکھ رہا تھا۔ وہ چیختا ہوا ایک جھٹکے سے بیڈ پر سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔اوہ میرے خدایا۔۔میں کہاں ہوں۔۔میں جہنم میں ہوں؟..وہ و بوکھلایا ہوا تھا اور نہ سمجھی سے کمرے کے دائیں بائیں طرف دیکھ رہا تھا۔۔بال بکھرے ہوئے ۔ پسینے سے شرابور ۔۔وہ کانپ رہا تھا۔۔کچھ لمحے بعد اسے ہوش آگیا۔۔وہ نیند سے جاگا تھا۔۔اوہ میرے اللّٰہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ صرف ایک خواب تھا ۔۔لا حول ولا قوۃ۔۔۔ضرور اس مینار اور بھوتنی کی بددعائیں لگی ہیں مجھے۔۔"موحد یار تو نے بھی حد کردی ۔۔اس بھوتنی پر خواب میں بھی اتنا خرچہ کرنا حرام ہے تُجھ پر۔۔توبہ"۔۔وہ خود ہی شکر کر کہ دعائیں پڑھ کر پھر سے سونے کے لیے لیٹ گیا ۔۔۔اس بات سے بے خبر کہ ۔۔قیامت واقعی انے والی ہے۔۔اور اس بار بھوتنی جہنم میں نہیں ۔۔دنیا میں ہی اس پر نازل کردی جائے گی۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"مما جانی میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں بہاولپور ہی رہونگا اگر جاب مل گئی تو ۔۔۔"وہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے جب مینار نے لکمہ چباتے ہوئے بات شروع کی۔۔
"ہمم"صائمہ پانی کا گھونٹ بھر کر بس ہمم کر کہ واپس اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔۔وہ اُداس تھیں۔۔یا خوش۔۔کیا بات تھی۔۔مینار سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
"اچھا ہے تم بھی اب کچھ کام دہندہ کرو پہلے ہی خرچے بڑھتے جا رہے ہیں۔۔خالد کی پڑھائی کا زمہ تم لینا مانی ۔۔میں تھک گیا ہوں خرچے پورے کرتے کرتے۔عاصم نے بھی رضامندی ظاہر کی۔۔۔ظاہر سی بات ہے وہ یہی تو چاہتا تھا ۔۔کہ اسکے کندھے پر سے گھر کہ خرچوں کا آدھا بوجھ اتر جائے گا۔۔کب تک وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پورے کنبے کو پالے گا ۔؟مشکت کی تنخوا بھی بس اتنی ہی تھی کہ وہ اس میں اپنا خرچہ پورا کرتی تھی۔۔
"ماما جانی عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ اتنی جلدی انٹرویو ہوجاے اور سب معاملے طے ہو جائیں۔۔موحد کے چچا کے بہت پرانے دوست ہیں سیٹھ ابراہیم صاحب اسی لیے انہوں نے میرے لیے رضامندی ظاہر کی ہے ۔۔فلحال پکّی نہی ہوی جاب وہ cv اور باقی ڈاکومنٹس دیکھیں گے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ جاب مجھے مل جائے گی۔۔"وہ مسکراتے ہوئے صائمہ اور باقی گھروالوں کی طرف دیکھ کر ان سب کا اطمینان حاصل کر رہا تھا۔۔
"مگر بھائی ۔۔آپ وہاں کیسے رہیں گے اکیلے۔؟۔۔۔ہم کیسے رہیں گے آپ کے بغیر ۔۔؟یہ کیا بات ہوئی ۔۔مجھے نہیں پتہ آپ یہاں لاہور میں بھی تو جاب ڈھونڈ سکتے تھے نا۔۔کیا ضرورت ہے اتنی دور جانے کی ۔۔پہلے پاپا ہمیں چھوڑ گئے اور اب آپ بھی دور جا رہے ہیں۔۔۔"مشکت کھانا چھوڑ چکی تھی ۔ آنسو اُبل اُبل کر آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔مینار اٹھ کر اُس کے برابر والی کُرسی پر جا بیٹھا موحد مزے سے کھانے میں مصروف تھا لیکن جیسے ہی مشکت نے رونا شروع کیا ۔۔"اے لو ہوگیا شروع میلو ڈراما تو محترمہ تم لگوا دو نا جاب۔۔اتنے سالوں سے تمہارا بھائی خوار پھر رہا تھا لاہور میں تب تو خیال نہیں آیا ۔۔لاہور میں جاب ڈھونڈ لے ۔۔ہوں ہوں ۔کسی حال میں خوش نہیں ۔۔اللہ ہی اس بیچارے کا حافظ ہوگا جسکی قسمت میں یہ بھوتنی لکھی ہوگی۔۔"وہ لوگوں سے شاید کم لیکن خود سے زیادہ باتیں کرتا تھا ۔۔۔کوئی بھی اثر لیے بنا سر جھٹک کر وہ پھرسے کھانے میں مصروف ہوگیا ۔۔
"میری گڑیا۔۔۔میں آیا کرونگا نا ملنے ہر ویک اینڈ پر اور ویسے بھی بہاولپور بہت دور نہیں ہے ۔جیسے ہی میرے پاس پیسے آئینگے میں سب سے پہلے گاڑی لونگا تا کہ آرام سے آ جا سکوں۔۔" بڑے بھائی نعمت سے کم تو نہیں ہوتے نا ؟۔۔ایک سایہ دار شجر اور بہترین محافظ۔۔جن کے دل بہنوں کی محبت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔جنکو اپنی چھوٹی گڑیا سے بہت پیار ہوتا ہے۔وہ کیسے اپنی چھوٹی سی گڑیا کی گول گول آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ سکتا تھا ۔۔۔؟..وہ اُسے اسے بھی اپنی کیٹی سے بہت پیار تھا۔۔وہ کیسے اپنی چھوٹی سی گڑیا کی گول گول آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ سکتا تھا؟۔وہ اب کچھ کرنا چاہتا تھا ۔اپنی زندگی بدلنا چاہتا تھا ۔مگر صائمہ کچھ کیوں نہیں بولتیں ؟؟کیا وہ بھی نہیں چاہتیں کہ مینار بہاولپور جا کر رہے؟؟,۔۔یا پھر انھیں کوئی اور خیال تنگ کر رہا ہے؟؟۔۔مینار اپنی گڑیا کو ماتھے پہ بوسا دے کے کھانے کی ميز سے اٹھ گیا۔۔باقی سب واپس کھانے میں مصروف ہوگئے۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"ایک حسرت تھی ایک چاہ تھی۔
میری محبت ہی میری سزا تھی۔
دل کو سمجھا لیا جیسے تیسے۔
مگر روح کو زخم سہنے کی عادت کہاں تھی۔
اعتبار کر لیا اپنی تقدیر پر ہی۔
ورنہ مقدر بدلوانے کی ہمت کہاں تھی۔
کیا ہے راز مسلسل درد کے پیچھے؟
کس جرم کی ہے سزا؟
اے خدا کیا میں اتنی گنہگار تھی؟؟؟۔ ۔۔
عشاءکی نماز پڑھنے کے بعد مرون شال والی لڑکی اب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ بیٹھی تھی۔ "اے میرے اللہ اے میرے رحمان۔ اے میرے پیارے الله میں تیری بندی ہوں اور تجھ سے ہی مانگتی ہوں اور بیشک تو عطا کرنے والا بڑا کریم ہے۔ ۔۔وہ ہی انداز مختلف الفاظ۔ ۔ ۔
"اے میرے اللہ تو تو ہر شے سے با خبر ہے تو نے میری تقدیر بنائی ہے۔ ۔۔اور مجھے یقین ہے اگر ارحم میری تقدیر ہے تو میرے لیے بہترین ہے۔ کیوں کے میرا نصیب تو نے لکھا ہے۔ ۔۔مگر ۔۔۔مگر میرے دل کو سکون نہیں؟۔۔۔۔۔مجھے عجب خوف ہے۔ ۔۔پھر سے گر جانے کا خوف۔۔۔یا پھر یہ میرا وہم ہے۔ ۔۔ یہ کیا ہے؟ ۔۔اور اگر ارحم ہی میری تقدیر ہے تو۔ ۔یہ دل؟ ۔۔۔یہ دل آج تک ماضی کی یادوں میں کیوں قید ہے؟ میں نے تو اللہ !کیا نہیں کیا۔اپنے ماضی کو بھلانے کے لیے۔ ۔۔مگر پھر بھی ہر بار جب مجھے اپنا حال رلاتا ہے۔ تو میں اپنے ماضی میں چلی جاتی ہوں۔ ۔کیوں یہ مرض ختم نہیں ہوتا۔ ۔کیوں میرا دل پچھتاتا ہے؟ ۔۔کب سکون ملے گا میرے دل کو؟ ۔۔۔آخر کب؟ اور کیا کروں سکون پانے کے لیے؟ ؟۔۔اور کیا کروں سب کچھ بھول جانے کے لیے۔ ۔۔؟ """۔۔۔دنیا کے اگے اللہ سے گلے شکوے کرنا نا شکری اور بے صبری میں شمار ہوتا ہے۔ ۔۔لیکن اللہ کے اگے رونے سے شکوہ اور سوال کرنے سے دل ہلکا ہوتا ہے۔ ۔۔عجب طاقت ہے دعا میں بھی کوئی سب کچھ حاصل کر کے روتا ہے ۔ ۔تو کوئی سب کچھ قربان کر کے۔ ۔۔مگر اللہ نہیں ٹھکراتا، دونوں کو قبول فرماتا ہے اپنی بارگاہ میں۔۔۔اور وہ بھی سیکھ چکی تھی۔ ۔ک اللہ ہمیشہ سنے گا۔ ۔دعا میں چاہے اس سے شکوہ ہو یا شکر وہ سنے گا۔ ۔دعا پر آمین کے بعد۔ اس نے جاۓ نماز لیپٹی اور بستر پر سیدھی لیٹ گئی۔ آنکھوں پر بازو رکھ کر۔ پھر اسی امید کے ساتھ ک صبح امید کا سورج پھر سے نکلے گا۔ ۔اور زندگی میں پھر سے روشنی آجاۓ گئی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"اچھا صائمہ انٹی میں چلتا ہوں،اجازت دیں۔۔صائمہ لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں،جب منار اور موھد ایک ساتھ نیچے لاؤنج میں آئے۔۔
"کہاں جارہے ہو بیٹا؟ "صائمہ نے عینک کے اوپر سے تفتیشی نگاہ سامنے کھڑے موھد پر ڈالی۔ جو کہ شام کی با نسبت کپڑے تبدیل کر چکا تھا۔ اور کافی فریش بھی لگ رہا تھا۔ ۔لیکن گرے سویٹر میں اس کی جان تھی،وہ گرے سویٹر ہمیشہ زیب تن کر کے رکھتا۔۔
"جی میں زرا گھر دیکھ آؤں،کیا ہورہا ہے۔ ۔اور بابا بھی بلا رہے ہیں،کچھ ضروری کام ہیں، سب نپٹا کے کل دوپہر تک آؤنگا اور پھر ہم دوبارہ لاہور کے لیے نکل جاینگے۔ ۔اپنی گاڑی بھی نہیں ہے۔ ۔ظفر چچا کی گاڑی پر ہی ہم آئے ہیں۔تو۔"موحد کی تفصیل جاری تھی کہ مینار اکتا گیا۔ ۔۔
"ہاں نا بس بھی کرو تم تو شروع ہی ہو جاتے ہو،محلے کی انٹیوں کی طرح، دے دی ہے، اجازت مما جانی نے، اب نکلو میرے گھر سے۔ ۔ویسے بھی تم کوئی پرائم مینسٹر نہیں ہو جو تمہے پروٹکول دے کر رخصت کیا جاۓ۔ ۔"منار موہد کو گھورتے ہوئے بول رہا تھا۔ ۔،شاید دوپہر کو ہو نے والے سارے واقعہ کا بدلہ اب موہد کو ساری عمر چکانا پڑے گا۔ (موہد ایک بہت اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس نے ایم بی اے کیا ہوا تھا، اس کا شوق تھا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ ان کا ٹریول ٹورزم کا بزنس سمبھالے اور وہ یہ شوق با خوبی پورا کر رہا تھا،اس نے مینار کو اپنے بزنس میں شامل ہونے کی پیشکش بھی کی تھی، مگر مینار نے پتا نہیں کیوں یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی۔ ۔۔ دی احمدذ اور دی بلوچ آپس میں فیملی فرینڈز تھے۔ ۔
مرحوم جواد احمد (منار کے والد) اور موہد کے ابا آصف بلوچ بچپن کے دوست تھے۔ لیکن جواد صاحب سعودی عرب چلے گئے اور وہیں سیٹل ہوگئے،جواد کی بیوی بچوں نے بس آصف بلوچ کا ذکر سنا تھا۔ مگر ان لوگوں سے ملاقات پاکستان آنے کے بعد ہوئی۔ منار اپنی باقی فیملی کی بہ نسبت پہلے پاکستان آگیا تھا،اور انہی دنوں ہی اسے آصف بلوچ اور ان کے بیٹے موہد بلوچ کو جاننے کا موقعہ ملا۔ ۔،منار کو موہد بہت اچھا لگا تھا۔ ۔وہ باقی لوگوں کی طرح نہیں تھا، یا پھر شاید منار کی اپنے ملک سے نفرت ہی اسے پاکستان میں دوست بنانے سے روکتی تھی اور موہد کیوں ک جواد احمد کے دوست کا بیٹا تھا تو شاید اس لیے منار اس پہ بھروسہ کر سکتا تھا) ۔۔
صائمہ حسب ے معمول دونوں کو ایک دوسرے کی ٹا نگ کھینچتے ہوئے خاموشی سے دیکھتی رہیں اور پھر تنگ آکر واپس ٹی وی سکرین کی طرف متوجہ ہو گئیں،
"اچھا اب جاؤ بھی تم دونوں۔ ہٹو میرا ڈرامہ بھی تم لوگوں کے ان تماشاوں کی وجہ سے آدھا مس ہوگیا۔ ہونہہ ۔۔اور سنو لڑکے اپنے والدین کو سلام کہنا(انھیں تن فن کرتے یاد آیا ک موھد کا بھی ایک عدد خاندان ہے) لڑتے ہی رہتے ہیں 24گھنٹے"وہ بڑ بڑائیں،وہ پریشان تھیں مگر کیا پریشان ہو نے سے اور ڈرامے کی قسط مس کر دینے سے زندگی سہی ہوجاتی ہے؟ ۔نہیں نا تو؟ ۔جب منار موحد کو رُخصت کر کے واپس لاؤنج میں آیا تو صائمہ نے اسے روک لیا۔ ۔۔سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ ۔وہ اس وقت منار سے بات کر سکتی تھیں۔
"ادھر آؤ میرے پاس، یہاں بیٹھو،انہو نے سامنے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منار کو بیٹھنے کا کہا۔ ۔تو وہ مسکراتے ہوئے صوفے کی بجاۓ نیچے زمین پر ہی انکے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ گیا۔ ۔
"چلیں اب بولیں، میں جانتا ہوں۔ آپ پریشان ہیں" وہ جن سے محبت کرتا تھا انکی آنکھیں بھی پڑھ لیتا تھا ،اور انکے دلوں میں بھی جھانک لیتا تھا ،صائمہ افسردگی سے مسکرائیں "میرا بچہ اور نرمی سے منار کے ماتھے پر بوسہ دیا پھر کچھ لمحوں کی خاموش کے بعد صائمہ نے بات شروع کی ۔۔۔
"مینار میرے بچے ۔تمہاری خالہ نے رشتے کے لیے منع کر دیا ہے ۔ارسا کے لیے کوئی بہت اچھا رشتہ آگیا ہے اور بقول ہاجرہ کے وہ ارسا کو مزید نہیں بٹھا سکتیں ۔۔اُسکی عمر بڑھ رہی ہے ۔صائمہ کے ضبط کرنے کے باوجود انکی آنکھوں سے آنسوں اُبل اُبل کر بہہ رہے تھے۔۔مینار کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا۔۔یہ اُسکی دوسری منگنی تھی جو ٹوٹ گئی تھی۔۔پہلی منگنی سات سال پہلے اُسکی ماموں زاد ساجدہ سے ہوئی تھی اور مینار کی جاب نہ ہونے کی وجہ سے ساجدہ کی مرضی کے خلاف اُسکا رشتہ بھی کہیں اور ہوگیا تھا۔۔اور اب ارسا ۔۔اس رشتے سے کوئی بھی واقف نہیں تھا یہ بس ایک تسلّی تھی جو بہن ہونے کے ناطے ہاجرہ نے صائمہ کو دی تھی کہ شاید صائمہ کہ دکھوں میں کمی آئے۔۔مگر نہ جانے قدرت کو کیا منظور تھا ۔۔۔
"میری پیاری مما جان۔۔۔آپ اسی لیے پریشان ہیں کہ یہ رشتہ ہاتھ سے نکل گیا۔۔؟اور آپکو لگتا ہے کہ مجھے یہ سن کر دکھ ہوگا ۔۔؟نہیں مما جانی۔۔۔آپ تو خود کہتی ہیں نا کہ یہ فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔۔اللہ پاک نے کوئی بہتری رکھی ہوگی ۔اور ویسے بھی ابھی آپکا بیٹا جاب کریگا اُمید ختم نہیں ہوئی مجھے پکہ یقین ہے سیٹھ صاحب مجھے جاب دے دینگے۔۔"وہ اب اپنی ماں کے آنسو صاف کر رہا تھا۔۔۔
"پتہ نہیں بیٹے ہم سے کیا غلطی ہوئی جسکی سزا تمہیں مل رہی ہے۔۔۔میں تو مشکت کہ رشتے کے لیے پریشان تھی کہ یہ خبر آگئی۔"۔وہ ٹھندی سانس بھر کر رہ گئیں ۔۔
"۔۔مما جانی۔۔میں آپکو کیسے بتاؤں کہ یہ آپکے نہیں میرے اپنے گنہاؤں کی سزا ہے۔اور شاید آپکا یہ بدنصیب بیٹا تا عمر اپنے گنہاؤں کی سزا بھکت تا رہے گا ۔۔"مینار بظاھر مضبوط ہونے کا دکھاوا کر رہا تھا تا کہ صائمہ سنبھل جائیں۔۔لیکن اسکے دل سے تو بس اللہ ہی واقف تھا ۔اسے محبت نہیں ہوئی تھی نہ ساجدہ سے نہ ارسا سے۔۔۔لیکن کہیں دل کہ اندر جہاں زندگی کے ساتھی کا نام خون سے نقش ہوتا ہے ۔۔اُسکے دل کے اندر بھی کوئی نام تو تھا جو نقش کیا گیا تھا ۔۔۔مگر وہ اس نام سے ہمیشہ دور بھاگتا رہا۔۔۔
"(آپ کتنے دل توڑتے ہیں آپکو ڈر نہیں لگتا کبھی کوئی آپکا بھی دل توڑ دے تو۔۔۔"؟.."ہہہہ۔۔نہیں مینار احمد کو کوئی ڈر نہیں لگتا۔۔کہ کون اُسکا دل رکھتا ہے اور کون توڑتا ہے۔۔اور ویسے بھی میں نے تو نہیں کہا نہ کہ مجھ سے دل لگاؤ۔۔؟؟؟تو میں کیوں ڈروں؟؟")
ماضی ۔۔۔مرض ۔۔۔پرانا مرض ۔مرض مستمر۔۔۔۔کبھی کبھی ایک جھٹکا بس ایک جھٹکا کافی ہوتا ہے برسوں کی بھلائی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ۔۔"اچھا مما جان اب آپ سو جائیں اور میرے لیے بس دعا کریں میں جانتا ہوں آپ مجھے بہاولپور جانے سے نہیں منع کرینگی۔۔اور مشکت کے لیے کیوں پریشان ہو رہی ہیں۔"۔وہ مسکرایا۔۔اور صائمہ اُسکی مسکراہٹ کہ پیچھے چھپی بات سمجھ گئیں۔۔کسی گہری سوچ کو جھٹک کر وہ مسکراتے ہوئے اٹھ گیا ۔۔صائمہ کی بے بس نظروں نے اپنے بدنصیب بیٹے کا تعاقب دور تک کیا ۔۔۔
"اللہ تمہیں وہ دے جسکی تمہیں ضرورت ہے.. آمین".اور اولاد کے حق میں ماں کے دل سے نکلی ہوئی دعا بھی کبھی رد ہوئی ہے۔۔۔؟؟؟

Mera Marz e MustamirTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang