قسط نمبر 1

134 5 1
                                    

از قلم : صباءخان

رات کا تیسرا پہر تھا
ہر طرف تاریک خاموشی تھی
آسمان پر تارے ٹمٹما رہے تھے
دور وہاں آسمان پر چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔۔۔۔۔
گھڑی کی ٹک ٹک پورے کمرے میں گونج رہی تھی
جیسے ہی گھڑی نے تین بجایا الارم بج اٹھا
تہجد کی نماز کا وقت ہو چلا تھا
وہ جیسے کچی نیند میں تھی فوراً اُٹھ بیٹھی
الارم بند کر کے میز پہ واپس رکھا اور جوتا پاؤں میں ڈالتی واش روم میں گھس گئی ۔۔۔۔
اور جب واپس آئ تو سفید دو پٹے کے ہا لے میں اسکا چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا
پلکیں وضو کرنے سے گیلی تھیں
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ تک آئ اور مصلیٰ بچھا کے نماز پڑھنے لگی
وہ ایسی ہی نماز پڑھتی تھی طویل نماز...
پھر اس نے دُعا مانگ کے ہاتھ چہرے پر پھیر لیے اور اٹھ کھڑی ہوئی
مصلیٰ لپیٹ کے رکھ دیا اور شیلف سے اپنا قرآن پاک اٹھا لائی
سورہ یٰسین کی تلاوت کے بعد اُس نے اپنی پسندیدہ سوره کھولی "سوره العنکبوت"۔۔۔
وہ ہمیشہ یہی سوره کھول کے بیٹھ جاتی تھی حالانکہ اُس نے پڑھنا کوئی اور سپارہ ہوتا تھا
معمول کے مطابق آج بھی اُس نے یہی سوره کھولی سوره العنکبوت ( مکڑی ) ۔۔۔۔
اِس سوره میں مکڑی کا ذکر ہے کہ کس طرح مکڑی اپنا گھر بناتی ہے جبکہ اُس کا گھر تمام گھروں میں سب سے کمزور ہوتا ہے اسی طرح انسان بھی دنیا کو فانی نہیں سمجھتا اور دنیا کی محبّت دل میں بسا لیتا ہے اور عقبیٰ کی فکر چھوڑ کے دنیا کی زندگی کو دائمی سمجھ لیتا ہے۔۔۔۔۔
وہ یہ پڑھ کہ ہمیشہ سوچتی کہ اِس کے پاس تو مکڑی کے جتنا کمزور گھر بھی نہیں وہ تو بچپن سے اپنے چچا کے گھر پل رہی ہے کیا اسکا اپنا بھی کبھی کوئی گھر ہوگا مگر پھر فوراً خیال آتا کے دنیا فانی ہے جسکے پاس گھر ہے اُس نے بھی جانا ہے اور جسکے پاس نہیں اُس نے بھی جانا ہے ۔۔۔۔
بس پھر اُسے ذرا تسلی ملتی کہ جنکے پاس گھر ہیں اُنہوں نے کونسا ہمیشہ یہیں رہنا ہے
اب وہ قرآن پاک کو رکھ کر فجر کی نماز پڑھنے لگی گئی ہے کیوں کہ فجر کی اذانیں آ رہی ہیں ۔۔۔۔
نماز سے فراغت کے بعد وہ نیچے کچن میں چلی آئ کیوں کہ سب کا ناشتہ اُسی نے ہی تو بنانا ہوتا ہے
اُس نے چائے کے لیے برتن چولہے پر رکھا اور خود فریج سے آٹا نکال کے پراٹھے بنانے لگ گئی
پراٹھے بنانے کے بعد وہ آملیٹ بنا رہی تھی کہ یکا یک لاوُنج سے آواز آئ انابیہ ناشتہ لے آؤ جلدی سے ۔۔۔۔
یہ مسز ہاشم یعنی چچی کی آواز تھی
ناشتہ تیار ہے بس لا رہی ہوں انابیہ نے کچن سے ہی جواب دیا
اور پھر انابیہ ناشتے کی ٹرالی کو گھسیٹتے ہوے ڈانئنگ ھال میں داخل ہوئی
میز کی سربراہی کرسی پر کوئی پچپن سال کے لگ بھگ ایک شخص بیٹھا ہوا تھا آنکھوں پر عینک لگی تھی اور دونوں ہاتھوں میں اخبار تھامے ہوے تھا اور اُس کے دائیں ہاتھ کی کرسی پر ایک عورت بیٹھی تھی جس کے چہرے پر انابیہ کو دیکھتے ہی ناگواریت کے تاثرات اُبھرے اور اُس نے چاےُ کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا اور بولی جاہل لڑکی ابھی تک چاےُ بنانا بھی نہیں آئ تمہیں ؟؟
انابیہ کے چہرے پر برسوں کا فسوں اُ بھرا ۔۔۔
اِس سے پہلے کہ انابیہ کچھ بولتی چچا جان بول پڑے
بھائی! مجھے تو صرف انابیہ کے ہاتھ کی ہی چاےُ اچھی لگتی ہے
اور عین اُسی وقت انابیہ کی ہی عمر کی لڑکی کالج یونیفارم پہنے اور بیگ اٹھاۓ سیڑھیاں اترتی آ رہی تھی اپنے گھونگرالے بالوں کی اونچی پونی باندھے وہ تیکھے نقوش کی حامل تھی اور خوش شکل تھی ۔۔۔۔
میز تک آئ اور چچی کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی
رمشا بیٹا آج تم لیٹ اٹھی ہو؟
چچی نے اپنی بیٹی کو مخاطب کیا مگر وہ جواب دیے بنا ہی ایک سلائس اٹھا کہ اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگی اور خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔
بھلے ہی دیر سے اٹھی ہو مگر ناشتہ پورا کر کے جانا پھر سے چچی نے رمشا کو مخاطب کیا تو رمشا نے پلیٹ زور سے پرے کی اور کرسی دھکیلتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
اور کالج کے لیے نکل گئی
اسکے جاتے ہی ہاشم صاحب بیوی سے بولے اسے کیا ہوا ہے ؟؟
ناراض ہے مجھ سے کل رات آئ تھی میرے پاس کہ مجھے موبائل لے دیں میں نے انکار کیا تو ناراض ہوگئی ، چچی نے جواب دیا
انابیہ اب بھی بدستور اسی طرح کھڑی تھی کسی نے اُسے بیٹھ کہ ناشتہ کرنے کا نہیں کہا اور نا ہی کوئی کہتا تھا اِس گھر میں اُسکی پرواہ کیسے تھی ۔۔۔۔۔
انابیہ میرے لیے دوسرا پراٹھا لے آؤ یہ ٹھنڈا ہوگیا ہے چچی نے گم سم کھڑی انابیہ سے کہا
جی لےآتی ہوں انابیہ نے سیڑھیوں کی طرف دیکھتے ہو ےُ جواب دیا جہاں سے قریباً پچیس برس کا لڑکا آ رہا تھا نائٹ سوٹ میں ملبوس تھا بال بکھرے ہوے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں جیسے رات جاگتا رہا ہو ۔۔۔
اس نے ہاشم صاحب کے بائیں جانب کی کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا
جب کہ انابیہ اب کچن میں تھی
ہاشم صاحب نے کڑ ے تیوروں کے ساتھ اُس لڑکے کو دیکھا جو اب چاےُ پی رہا تھا
اور غصّے سے بولے تمہاری عمر کے لڑکے اپنے باپ کا بزنس سنبھال رہے ہیں اور ایک تم ہو کے صبح جلدی بھی نہیں اٹھ سکتے ۔۔۔
کیا ہوگیا ہے آپکو کیوں ڈانٹ رہے ہیں سعد کو ؟؟؟ چچی نے ہاشم صاحب کو ٹوکا
لو جی آ گئے سعد کے ہمایتی، اب کے ہاشم صاحب نے بھی جل کے جواب دیا اور اپنا فون اٹھا کے چل دیے آفس کیلئے ۔۔۔۔
ناشتہ کر لینے کے بعد انابیہ اب ناشتے کے برتن سمیٹ کر دھو رہی تھی
چچا اور چچی کے تین ہی بچے تھے ایک بڑا بیٹا تھا اسد جو اپنی تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک گیا ہوا تھا پھر اس سے چھوٹا سعد اور ان دونوں سے چھوٹی رمشا۔
سعد ابھی اپنے بی _اے کے امتحانات سے فری ہوا تھا جب کہ رمشا نے تو ابھی فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تھا
رہ گئی صرف انابیہ جسکو میٹرک بھی مشکل سے کرنے دی تھی چچی نے
یہ تو انابیہ کو بہت شوق تھا ورنہ چچی کا بس چلتا تو اسکول کی شکل تک نا دکھاتی انابیہ کو۔۔۔۔
وہ تو بس اِس گھر کے کام کے لیے بنی ہے یہی لگتا تھا چچی کو
زندگی خراماں خراماں گزر رہی تھی کہ ایک دن ہاشم صاحب کا بڑا بیٹا اسد تعلیم مکمل کر کے واپس آ گیا بس اُس دن سے انابیہ کی زندگی اور بھی بدتر ہوگئی
چچا جان بہت خوش تھے کہ اب انکا بوجھ انکا بیٹا اسد بانٹ لے گا اور ہوا بھی ایسا کم وقت میں اسد نے سارا کاروبار سنبھال لیا ۔۔
مگر آگے کیا ہونے والا تھا کوئی نہیں جانتا تھا
ایک رات جب انابیہ رمشا کو کھانا دینے اسکے کمرے میں گئی کیوں کہ رمشا نے خود کہا تھا کہ اسکا کھانا اوپر بھجوا دیا جاۓ تو دروازے پر ہی اسکے قدم ٹھٹھک گئے اندر سے باتوں کی آواز آ رہی تھی ۔۔
ہاں! ہاں! ہم کل ملیں گے کالج کے بعد لیکن تم ناراض نا ہونا اب مجھ سے
یہ رمشا کی آواز تھی جو اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی
انابیہ کا دماغ شل ہوگیا اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے اس نے دروازے کو دھکا دیا تو تھوڑی سی چرچراہٹ کہ ساتھ دروازہ کھلتا چلا گیا
انابیہ کو دیکھتے ہی رمشا نے فون کان سے ہٹا دیا اور بولی دستک دے کر کے نہیں آ سکتی تھی کیا ؟؟
جب دیکھو منہ اُٹھاۓ چلی آتی ہو
انابیہ نے کوئی جواب نا دیا اور کھانا میز پے رکھ کے آ گئی
اپنے کمرے میں آ کے وہ سوچنے لگی کہ یہ بات اُسے کس کو بتانی چاہیے یا پھر اُسے چپ رہنا چاہیے کیوں کہ اُسکا یقین کون کرے گا اِس گھر میں
جب چچا نے خود اُسے موبائل لے دیا ہے تو وہ جانیں اور رمشا جانے
مگر ایک عجیب ہی ہلچل تھی کہ کہیں کچھ غلط ہونے والا ہے مگر وہ سب اندیشوں کو نظر انداز کر کہ سو گئی اسے صبح جلدی اٹھنا تھا
رات کی سیاہی چھٹ چُکی تھی
اور صبح کا سورج پوری دنیا کو روشن کرنے کے لیے تیار تھا
صبح کے آٹھ بج چکے تھے انابیہ میز پر ناشتہ لگا چکی تھی چچا سربراہی کرسی پر براجمان تھے چچی بھی ساتھ ہی کرسی پر موجود تھیں
انابیہ اب چا ےُ کپ میں ڈ ال کہ چچا کو دے رہی تھی
تبھی رمشا آتی دکھائی دی
اور چچی کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی
کالج کے بعد میں اپنی ایک دوست کے گھر جاؤں گی مجھے اُس سے نوٹس لینے ہیں
اُس نے اجازت نہیں مانگی صرف اطلاع دی
ہوں! اچھا! چچی نے بس اتنا جواب دیا
انابیہ کو رات والی بات یاد آئ
اُس نے سوچا کہ وہ چچی کو بتا دے کہ
رمشا جھوٹ بول رہی ہے
انابیہ یہ پلیٹ مجھے پکڑاو ذرا
تبھی چچی کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرای
وہ جو اپنی سوچوں میں گم تھی جوں ہی اس نے پلیٹ اٹھائی پلیٹ اسکے ہاتھ سے پِھسلی
اور اسکے پاؤں پر لگ کر زمین پر گری اور ٹوٹ گئی
چچی اُٹھی انابیہ کے قریب آئیں اور ایک
زناٹے دار تھپڑ اسکے گالوں پے رسید کیا
پاگل لڑکی یہ ڈنر سیٹ میں نے پرسوں الماری سے نکلوایا ہے اور پھر جو منہ میں آیا کہتی گئیں
گرم گرم آنسو انابیہ کی آنکھوں سے نکل کر اسکے رخساروں پر بہ رہے تھے
اور چہرہ باعث ذلت سرخ ہو رہا تھا
مگر زبان سے ایک لفظ بھی اپنی حمایت میں نہیں بول سکی وہ
رمشا تو بیگ اٹھاتی باہر نکل گئی
مگر چچا اٹھے انابیہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور چلے گئے
امی! یہ کیا طریقہ ہے ؟؟؟
انابیہ کے عقب سے ایک بھاری آواز گونجی
چچی نے اس سمت دیکھا تو انکا بیٹا اسد اسی طرف آ رہا تھا اور اس نے سب دیکھ لیا تھا
تھری پیس میں ملبو س گلے میں ٹائ باندھے
سادہ نقوش کاحامل
چہرے پے متانت اور سنجیدگی لیے وہ انابیہ کے ساتھ آ کھڑا ہوا
چچی نے حیرت سے بیٹے کو دیکھا اور پھر انابیہ کو جو ابھی تک رو رہی تھی
اور پھر بولی اسد یہ گھر کے معملات ہیں انہیں دیکھنا میرا کام ہے تمہارا نہیں
اتنا کہ کر چچی اوپر جانے لگی
انابیہ اب کچن کی جانب بڑھ رہی تھی
کچن میں جا کر انابیہ نے نل کھول کے اپنا منہ دھویا اور دوپٹے سے اپنا چہرہ خشک کرنے لگی
اور اسد ناشتہ کیے بنا ہی دفتر چلا گیا
ایک رات انابیہ کی آنکھ کھلی تو اس نے پانی پینے کے لیے جگ اٹھایا مگر جگ خالی تھا
اب اسے باہر سے پانی لانے جانا ہوگا اس احساس نے اسے بہت کوفت دلائی
خیر وہ اٹھی اور اپنے لمبے بالوں کا جوڑا بناتی نیچے آئ
لاونُج کی لائٹ آن تھی
اسے حیرت ہوئی کا اِس وقت کون ہے اندر
جب وہ اندر آئ تو اس نے دیکھا کہ اسد ِادھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر چکر لگا رہا تھا
اسے دیکھتے ہی رک گیا اور بولا تم؟؟
اس وقت ؟؟
جی وہ میں پانی لینے آئ تھی لائٹ آن دیکھی تو اندر آ گئی انابیہ نے جگ کی طرف اشارہ کرتے ہوے بتایا
اوہ! اچھا! ٹھیک ہے
اسد نے کہا
لکین آپ کیوں جگ رہے ؟؟؟ سب ٹھیک تو ہے ؟؟؟
انابیہ نے ِسر سری سا سوال کیا ۔۔
ہاں سب ٹھیک ہے وہ امریکا میں میرا ایک دوست ہے ابھی مجھے پتا چلا کے اسکا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے
بس اسی لیے پریشان ہوں۔
اسد نے جاگنے کی وجہ بتائی
آپ پریشان نا ہوں سب ٹھیک ہوگا اللہ کرے گا
میں آپکے دوست کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا کروں گی کہ وہ جلد ٹھیک ہو جایں
آمین! اسد نے اداسی سے کہا
انابیہ کچن میں گئی پانی کا جگ بھرا اور ایک گلاس میں پانی ڈال کہ اسد کے پاس آئ
لیں پانی پی لیں اور پریشان نا ہوں
اسد نے چہرہ اٹھا کے اوپر دیکھا تو گول چہرہ چاند کی طرح روشن بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جیسے گہرا کاجل لگا ہوا ہو
ستواں ناک جس میں سونے کی لونگ دمک رہی تھی
باریک لب جیسے گلاب کی کلیاں
اپنی مخروتی انگلیوں میں گلاس تھامے کھڑی تھی
اسد ایک لمحے کے لیے ہر چیز بھول گیا یہاں تک کہ خودکو بھی
پھر جیسے ہوش میں آتے ہی گلاس اسکے ہاتھ سے لیا
شکریہ انابیہ! جاؤ تم سو جاؤ میں اب ٹھیک ہوں
اسد نے جیسے انابیہ کو وہاں سے بھیجنا چاہا
انابیہ جی اچھا کہ کر سونے چلی گئی
اگلی صبح جب انابیہ فجر کی نماز پڑھ رہی تھی تو کسی نے دروازے پر دستک دی
جب انابیہ نے دروازہ کھولا تو سامنے اسد کھڑا تھا رات کی نسبت اب وہ کافی فریش لگ رہا تھا
میں یہ کہنے آیا تھا کہ میرا دوست اب ٹھیک ہے اللہ کا بہت کرم ہوا اسد نے اندر کمرے میں دیکھتے ہوے کہا جہاں جاۓ نماز ابھی بھی بچھی ہوئی تھی یہ تو بہت اچھا ہوا بہت خوشی کی بات ہے یہ انابیہ نے مسکرا کے جواب دیا
اسد ابھی بھی دروازے پر کھڑا تھا مگر انابیہ واپس کمرے میں چلی گئی اور جاۓ نماز لپیٹنےلگی
اسد کچھ کہے بنا ہی واپس اپنے کمرے میں آ گیا ایک ہفتے بعد اسد اپنے دوست کی عیادت کے لیے امریکا چلا گیا.

 قفسWhere stories live. Discover now