قسط نمبر 11

32 1 0
                                    


حدید کی حالت پہلے سے بہتر ہے اور بخار بھی کافی حد تک کم ہے ۔

میں کچھ دوائیاں لکھ کے دے رہا ہوں وہ آپ نے باقاعدگی سے دینی ہیں جب تک حدید پوری طرح ٹھیک نہیں ہو جاتا ۔" ڈاکٹر نے نسخہ انابیہ کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا ۔
"جی سہی ہے ۔ مگر انکی اس حالت کی کیا وجہ ہے؟؟ اچانک سے اتنا تیز بخار کیسے ہو گیا تھا انہیں ؟؟؟" انابیہ نے شکریے کے ساتھ نسخہ  تھامتے ہوۓ فکر مند لہجے میں پوچھا ۔
"آپ فکر نا کریں سب ٹھیک ہو جاۓ گا انکے ذہن پر کسی بات کا گہرا اثر ہوا ہے آپ اتنی کوشش کریں کہ انھیں کوئی ٹینشن نا دیں ۔" ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں تسلی دیتے ہوۓ کہا ۔
انابیہ نے ملازم کو آواز دی کہ وہ ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑ آئے اور خود کچن کی جانب بڑھ گئی ۔
کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھلا اور انابیہ دونوں ہاتھوں میں ٹرے اٹھاۓ  اندر داخل ہوئی ۔
اور ایک نظر حدید پر ڈالی جو آنکھیں موندے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا ۔
وہ دو دن سے بخار میں پھنک رہا تھا۔ اورنشہ آور دوائیوں کے زیرِ اثر سوتا رہا تھا ۔ آج جا کے اسکا بخار قدرے کم ہوا تھا ۔ ہمیشہ تروتازہ رہنے والے چہرے پر نقاہت نمایاں تھی ۔
بی جان کا تو پریشانی سے برا حال تھا جب کہ انابیہ نے کافی ہمّت دکھائی تھی یہ تو اسکےصبر اور خدمت کا ہی نتیجہ تھا کہ حدید اب  کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا ۔
"حدید! اٹھیں سوپ پی لیں پھر دوائی بھی لینی ہے آپ نے ۔"
انابیہ نے دھیمے لہجے میں حدید کو مخاطب کیا ۔
حدید کی پلکوں میں ہلکی سی جنجش ہوئی اور پھر اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں ۔
اسکی شہد رنگ آنکھوں میں عجیب سا خالی پن تھا انابیہ کا دل کٹنے لگا اس سے حدید کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی ۔
انابیہ نے ٹرے سے سوپ کا پیالہ اٹھایا اور حدید کے قریب ہی  بیڈ پر بیٹھ گئی ۔
حدید سہارا لے کر اٹھا اور تکیہ سہی کر کے بیڈ کراوُن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
انابیہ نے چمچ حدید کی طرف بڑھایا تو حدید نے بلا تامل سوپ پی لیا ۔
کچھ چمچ پینے کے بعد حدید نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا ۔
انابیہ نے پیالہ واپس ٹرے میں رکھ دیا وہ جانتی تھی حدید نے یہ تھوڑا سا سوپ بھی صرف دادو کی وجہ سے پیا ہے کیوں کہ اس نے دادو سے  وعدہ کیا تھا کہ وہ جلدی سے ٹھیک ہو جاۓ گا ورنہ بخار میں کہاں کچھ اچھا لگتا ہے ۔
"انابیہ! دادو کہاں ہیں ؟؟" حدید نے مدھم لہجے میں پوچھا ۔
"دادو اپنے کمرے میں ہیں بہت مشکل سے دوائی دے کے سلایا ہے  وہ تو یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں بہت پریشان تھیں وہ آپ کی وجہ سے ۔" انابیہ نے ٹرے اٹھاتے ہوۓ کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"تم کہاں جا رہی ہو ؟؟" حدید نے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ سوال کیا ۔
"کہیں نہیں بس یہ رکھنے جا رہی تھی کچن میں ۔" انابیہ نے ٹرے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بتایا تو حدید
نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
انابیہ کچن میں برتن رکھ کر واپس آئ تو حدید کمرے میں موجود نہیں تھا ۔
وہ حدید کو ڈھونڈتی ہوئی نیچے تک آئ تو ملازمہ سے پتہ چلا کہ حدید لان کی طرف گیا ہے اور وہ بھی وہیں چلی آئ ۔
لان میں بچھی کرسیوں میں سے ایک پر حدید بیٹھا تھا اور اسکی نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں ۔
انابیہ حدید کو دور سے دیکھتی ہوئی اس تک آئ اور اسکے سامنے آ کے رک گئی ۔
"آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟؟ باہر بہت ٹھنڈ ہے ۔ آپ کی حالت اتنی بھی سہی نہیں ہوئی ابھی ۔ آپ جانتے ہیں ذرا سی لاپروائ سے پھر بخار ہو سکتا ہے آپ کو ۔" انابیہ نے برہمی سے  بولتے ہوۓ ایک ہی سانس میں ساری بات کہ ڈالی ۔
" بیٹھ جاؤ انابیہ ۔" حدید نے آنکھوں سے کرسی کی طرف اشارہ کیا ۔
انابیہ بنا کچھ کہے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گئی اسے حدید پہ
بے حد غصہ آ رہا تھا آخر وہ اپنے بارے میں اتنے غیر ذمےدار کیسے ہو سکتے ہیں ۔
"میرا کمرے میں دم گھٹ رہا تھا اسی لیے تازہ فضا میں آ گیا دو دن سے بستر پر پڑے پڑے اکتا گیا ہوں ۔"
حدید نے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ باہر آنے کی وجہ بتائی ۔
انابیہ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
"اب تک ناراض ہو؟؟ میں جانتا ہوں میں نے بہت اونچی آواز میں بات کی تھی جو کہ مجھے نہیں کرنی چاہئے تھی مگر مجھے خود بھی اس وقت پتہ نہیں تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں ۔" انابیہ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر حدید نے سنجیدگی سے پوچھا اور پھر اس پر چلانے کی وضاحت دینے لگا ۔
انابیہ نے حیرانگی سے حدید کو دیکھا اور پھر نظریں اپنی گود میں رکھے ہاتھوں پر جما دیں ۔
"ناراض وہاں ہوا جاتا ہے جہاں اس بات کا یقین ہو کہ کوئی ہمیں منا لے گا اور ہمارے درمیان تو روٹھنے منانے کا سلسلہ کبھی نہیں رہا۔" انابیہ نے سر جھکائے جواب دیا ۔
حدید کو سمجھ نہیں آیا کہ انابیہ کے لہجے میں دکھ ہے یا شکوہ ۔
"سہی کہہ رہی ہو جب کوئی منانے والا نا ہو تو روٹھنا بیکار ہوتا ہے ۔" حدید اپنے ماضی کی تلخ یادوں میں جھانکتے ہوۓ بول رہا تھا ۔
"میں ہمیشہ سے انتظار کرتا تھا کہ ابھی بابا آئیں گے اور مجھے منا لیں گے مگر ایسا نہیں ہوتا تھا میں ہر روز امید کرتا تھا اور بابا بھی روز امید توڑ دیتے تھے ۔" حدید آسمان پر قطار در قطار اڑتے پرندوں کو دیکھتے ہوۓ بول رہا تھا جب کہ انابیہ سراپا سماعت بنی بیٹھی تھی ۔ اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ حدید اس کے سامنے اپنی ذات کو کبھی بیان بھی کرے گا ۔
"آپ خود چلے جاتے انکے پاس ۔ ضروری تو نہیں کہ آپ ہمیشہ اس انتظار میں رہیں کہ خوشیاں آپ کے  دروازے پر دستک دیں کبھی کبھی خوشیوں کو ڈھونڈنے خود بھی نکلنا پڑتا ہے ۔" انابیہ نے حدید کو دیکھتے ہوۓ کہا جو ابھی تک آسمان کو دیکھ رہا تھا۔
حدید نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ الٹا سوال کر ڈالا ۔
"تم نے کبھی آسمان پر اڑتے ان پرندوں کو دیکھا ہے ؟؟" حدید نے انابیہ سے کہا تو اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا ۔
"انہیں کون نہیں دیکھتا انسانوں کے دل میں بلندیوں پر جانے کی خواھش انکو دیکھ کر تو ہوتی ہے ۔" انابیہ نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا مگر حدید اسے دیکھ ہی کب رہا تھا ۔
"یہ ہمیشہ غول کی صورت میں اڑتے ہیں کبھی اکیلے نہیں اڑتے کیوں کہ یہ جانتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی طاقت ہیں جینے کے لیے انھیں ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے مگر انسان کی فطرت میں انا ہے وہ رشتوں کو تو توڑ سکتا ہے مگر اپنی جھوٹی انا کو نہیں ۔" یہ سب کہتے ہوۓ حدید کے چہرے پر کرب تھا مگر لبوں پر مدھم سی مسکان تھی ۔
انابیہ نے زندگی میں پہلی بار کسی کی باتوں میں اتنا درد محسوس کیا تھا ۔
اس نے اب تک حدید کو یا تو مسکراتے دیکھا تھا یا پھر خاموش مگر اس حدید کو وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی جو کرب میں بھی مسکراتے ہوۓ بول رہا تھا ۔
یہ تو کوئی اور ہی حدید تھا اور وہ اس سے ناآشنا تھی ۔
"کیا ہوا ؟؟ کہاں کھو گئی ؟؟" حدید نے انابیہ کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوۓ کہا ۔
انابیہ کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو اس نے چونک کر حدید کو دیکھا ۔
" کہیں نہیں۔ یہیں ہوں ۔" انابیہ نے اپنے ذہن سے سوچوں کو جھٹکتے ہوۓ کہا ۔
"حدید!" انابیہ نے آہستہ سے اسے پکارا ۔
"ھمم ۔" حدید نے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ کہا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
"میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ آپ کی زندگی میں جو خلا آپ کے والدین نےچھوڑا ہے اسے پورا کر دوں گی کیوں کہ ماں باپ جیسا کوئی نہیں ہوتا یہ بات مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے ہاں لیکن میں اپنے رشتے کو بہ خوبی نبھاوُں گی آپ کی طرف آنے والی ہر مشکل کو خود پر تو نا لے پاؤں کیوں کہ میں نا ممکن باتیں کرنے کی عادی نہیں ہوں مگر ہر اچھے برے وقت میں آپ کا ساتھ ضرور دوں گی ہماری خوشی اور غم آدھا آدھا ہوگا خوشی اور غم دونوں میں ہم ساتھ ساتھ ہوں گے جس وفا کی آپ کو تلاش ہے وہ آپکو بے پناہ ملے گی۔" انابیہ نے رک کر سانس لیا اور دوبارہ بولی ۔
"مگر آپ کو مجھ پر یقین کرنا ہو گا چلیں یقین نا سہی گمان ہی کر لیں میں خود ہی اسے یقین میں بدل دوں گی ۔" انابیہ نے اپنی بات پوری کر کے سر جھکا لیا تھا مگر حدید اسکے لہجے کی نمی محسوس کر چکا تھا اور جانتا تھا کہ وہ اب سر جھکائے رو رہی ہے اور اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے مگر وہ حدید ہی کیا جو روتے لہجے نا سن سکے ۔
"انابیہ چپ ہو جاؤ ۔" حدید کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔
آج اسکی وجہ سے کسی کی آنکھوں  میں آنسو تھے بلکہ آج ہی کیوں دو دن پہلے بھی وہ اسکی وجہ سے ہی  روئی تھی ۔
اچانک سے انابیہ اپنی جگہ سے اٹھی اور تیز تیز چلتی وہاں سے چلی گئی حدید نے اسے نہیں پکارا ۔۔۔۔۔۔اُسے جاتے ہوۓ کو پکارنے سے نفرت تھی کہ کسی جاتے ہوۓ  کو پکارنا۔۔۔۔۔ صرف پکارنا نہیں ہوتا بلکہ التجا ہوتی ہے کہ ٹھہر جاؤ ۔۔۔۔۔۔اپنی کمزوری کو عیاں کرنا پڑتا ہے کسی جاتے ہوۓ کو روکنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ حدید کو اب کمزور لمحوں سے شدید  نفرت تھی وہ لمحے جو خوشیوں کی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیں ۔
وہ چپ چاپ انابیہ کو جاتے دیکھتا رہا اس نے انابیہ کی آنکھوں میں آئی نمی کو نہیں دیکھا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ آنسو کیسے آنکھوں میں درد بھرتے ہیں ۔
حدید نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں ۔
مغربی افق پر شام کی لالی پھیل رہی تھی ۔ سورج کی سلطنت پر تاریکی کا راج ہونے کو تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
______________

 قفسDonde viven las historias. Descúbrelo ahora