قسط نمبر 3

47 2 1
                                    

رات کے آٹھ بج رہے تھے اور مسز ہاشم تیار ہو کر صوفے پر بیٹھیں اپنی چھوٹی بہن سدرہ کا انتظار کر رہی تھیں انابیہ کچن میں کھانے کا اہتمام کر رہی تھی تبھی باہر گاڑی کا ہارن سنائی دیا لگتا ہے وہ لوگ آ گئے مسز ہاشم خود سے  ہم کلامی کرتے ہوےاٹھ کھڑی ہوئیں 
اور تبھی ایک خاتون ایک لڑکی کے ہمراہ اندر داخل ہوئیں ملنے ملانے کے بعد وہ لوگ صوفے پر بیٹھ گئے بھائی صاحب کیوں نہیں آئے؟ ؟؟ مسز ہاشم نے پوچھا
بابا آنا چاھتے تھے مگر انکی ایک ضروری میٹنگ تھی تو وہ نہیں آ سکے ساتھ بیٹھی لڑکی  نے مسز ہاشم کو دیکھتے ہوے جواب دیا  تو مسز ہاشم نے  سر ہلا کر جواباً اچھا کہا اور سر تا پاؤں اسے دیکھا وہ ایک خوش شکل اور خوش مزاج لڑکی تھی  یہی میری بہو بننے کے لائق ہے وہ دل ہی دل میں خوش ہوئیں
السلام و علیکم!کی آواز پر سب نے  دروازے کی طرف دیکھا تو اسد مسکراتے چہرے کے ساتھ کھڑا تھا آگے بڑھ کر وہ سدرہ خالہ سے ملا اور پھر صائقہ کی طرف متوجہ ہوا کیسی ہو ؟؟ ٹھیک ہوں
صائقہ نے مسکرا کے جواب دیا
تم سناؤ سنا ہے کے تم نے بزنس جوائن کر لیا ہے ؟؟ اسد اب بیٹھ چکا تھا اور  اس کی بات سن رہا تھا
تبھی انابیہ نے کھانا میز پر لگا دیا اور سب کھانے کی میز کی جانب بڑھ گئے
کھانے سے فراغت کے بعد اب سدرہ خالہ گھر واپس جا رہی تھیں مسز ہاشم آج بہت خوش تھیں خوشی انکے چہرے انکی آنکھوں انکے ہر انداز سے جھلک رہی تھی اسد ماں کو خوش دیکھ کر بہت خوش تھا پر وہ مسز ہاشم کی خوشی کی وجہ سے نا واقف تھا ۔۔۔۔
صائقہ مسز ہاشم کی بھانجی تھی اور اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی وہ شکل و صورت ہر لحاظ سے اچھی تھی تعلیم یافتہ تھی مسز ہاشم کو اور کیا چاہئیے تھا وہ تو ابھی سے اسے اپنی بہو کے روپ میں دیکھنے لگی تھیں ۔۔۔۔۔ آپ کو صائقہ کیسی لگی ؟؟
آئینے کے سامنے کھڑی مسز ہاشم نے اپنے شوہر  سے پوچھا
اچھی بچی ہے ہاشم صاحب نے بیوی کی بات کا مطلب سمجھے بغیر جواب دیا
اب کے مسز ہاشم چل کر ہاشم صاحب کے پاس آئیں اور انکے سامنے  بیٹھ گئیں مجھے صائقہ
پسّند ہے اسد کے لیے آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟؟
یہ تو اچھا سوچا تم نے ماشاللہ سے صائقہ ہے بہت ہی اچھی بچی مجھے تو کوئی اعتراض نہیں بس ایک بار اسد سے ضرور پوچھ لینا آخر کو زندگی تو اسی کی ہے نا وہ کیا چاہتا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے ہاشم صاحب نے مسکراتے ہوے کہا ۔۔۔
جی جی میں بات کرلوں گی اسد سے مسز ہاشم نے خوش ہوتے ہوۓ جواب دیا
اگلی رات جب مسز ہاشم اسد سے بات کرنے اسکے کمرے میں گئیں تو وہ لیپ ٹاپ پر کسی کام میں مشغول تھا مسز ہاشم اسکے قریب  بیٹھ گئیں کیا کر رہے  ہو ؟؟ انکے سوال پر اسد نے سر اٹھا کے انھیں دیکھا اور تھکن زدہ چہرے کے ساتھ جواب دیا آفس کا کام رہ گیا تھا وہی کر رہا تھا  اسد یہ کیا بات ہوئی ؟؟ ایسے تو تم بیمار ہو جاؤ گے مسز ہاشم نے فکر مندی سے کہا کچھ نہیں ہوتا آپ سنائیں آپ جاگ رہی تھیں ابھی تک ؟؟؟ اسد نے لاپرواہی سے جواب دیا مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے انہوں نے ذرا سوچتے ہوے کہا
مجھ سے ؟؟ مجھ سے کیا بات کرنی ہے ؟؟؟ اسد نے نظریں سکرین پر جمائے پوچھا
میں چاہتی ہوں تم شادی کرلو میں تمہاری خوشی دیکھنا چاہتی ہوں
شادی ؟؟؟ اسد نے حیرانگی سے دہرایا
آپکو آج کیسے خیال آیا میری شادی کا ؟؟؟ آج تو نہیں آیا میں تو کب سے اسی انتظار میں تھی کہ کب تمہاری پڑھائی مکمل ہو تم   آفس بھی جوائن کرلو تو تمہاری شادی کروں مسز ہاشم نے بیٹے کو پیار سے دیکھتے ہوے جواب دیا
اسد نے لیپ ٹاپ بند کر کے رکھ دیا اور اپنی ماں کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر بولا مجھے بھی آپ سے اسی سلسلے میں بات کرنی تھی میں سہی وقت کا انتظار کر رہا تھا مگر آپ نے ذکر کیا ہے شادی کا تو میں آپکو کچھ بتانا چاہتا ہوں مسز ہاشم نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کو دیکھا اسد نے کچھ دیر سوچا اور پھر ماں سے گویا ہوا میں انابیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اسد نے اتنے آرام سے مسز ہاشم کے سر پر بم پھوڑا
جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا تھا انکو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا مگر پھر خود کو سنبھال کے بولیں
مگر میں نے تمہارے لیے صائقہ کو پسّند کیا ہے بلکہ مجھے تو وہ بچپن سے ہی پسّند تھی تمہارے لیے تمہارے نزدیک میری پسّند کی کوئی اہمیت نہیں ؟؟ مسز ہاشم نے   آنکھوں میں آنسو لاتے ہوے کہا وہ جانتی تھیں انکا بیٹا انھیں روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا
امی میرے لیے آپکی پسّند قابلِ احترم ہے مگر میں انابیہ سے محبّت کرنے لگا ہوں مجھے بھی پتا نہیں چلا کہ کب کیسے میں اسے چاہنے لگا ہوں اور یہ میرے اختیار میں نہیں ہے  صائقہ بہت اچھی لڑکی ہے اگر مجھے انابیہ سے محبّت نا ہوئی ہوتی تو صائقہ سے شادی کرنا میرے لیے باعثِ فخر تھا مگر اب سوال میری محبّت کا ہے میں جانتا ہوں ہر ماں چاہتی ہے کہ اسکی بہو اسکی پسّند کی ہو مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کے ایک ماں کو اپنے بچے کی خوشی ہر بات سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اسد نے ماں کو پُر امید نظروں سے دیکھا
ماں! ۔۔۔۔ جب مسز ہاشم کافی دیر تک کچھ نا بولیں تو اسد نے انھیں مخاطب کیا
اسد کی آواز پر انہوں نے چونک کر اُسے دیکھا اُنکی آنکھیں خالی تھیں اسد ان خالی آنکھوں کو پڑھنے سے قاصر تھا
خود پر بڑی مشکل سے ضبط کر کے وہ اسد سے بولیں
بیٹا تم نے ٹھیک کہا ماں کی خوشی صرف اولاد کی خوشی میں ہے جہاں تم خوش وہیں میں خوش ۔۔۔
اسد نے خوشی سے ماں کے ہاتھ چوم لیے
کیا انابیہ بھی تم سے ؟؟ مسز ہاشم نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا
نہیں میرا نہیں خیال کہ وہ بھی   مجھ سے محبّت کرتی ہے کیوں کہ ھمارے درمیان ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور میں نے تو اس سے ابھی تک اظہارِ محبّت بھی نہیں کیا دراصل میں نہیں چاہتا تھا کہ میری یک طرفہ محبّت اسکے لیے کسی بھی پریشانی کا سبب بنے اسد نے ماں کو وضاحت دی
اب کہ مسز ہاشم نے اطمینان سے گہری سانس لی
اچھا تم سو جاؤ رات بہت ہو گئی ہے انہوں نے اٹھتے ہوۓ اسد سے کہا اور اپنے کمرے میں آ گئیں
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندے گہری سوچ میں تھیں انکی نیند اڑ چکی تھی اور پھر ساری رات انہوں نے سوچتے ہوۓ گزار دی ۔۔۔
انابیہ جاۓ نماز پر بیٹھی تھی اور ہاتھ دُعا کے لیے اٹھا رکھے تھے دُعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیر لیے ۔۔۔۔۔۔۔ سورج کی کرنیں کھڑکی کے ذریعے چھن چھن کر اندر آ رہی تھی انابیہ کو یہ روشنی بھلی لگ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ آج کا دن اسے کیا دکھانے والا تھا وہ چچی اور اسد دونوں کے ارادوں سے بے خبر تھی ۔۔۔۔
انابیہ جب ناشتے کے برتن سمیٹ کر دھو رہی تھی تبھی مسز ہاشم  کچن میں داخل ہوئیں 
یہاں سے وہ انابیہ کے چہرے کا ایک رخ دیکھ سکتی تھیں تم بھلے جتنی بھی کوشش کرلو تم اس گھر کی بہو کبھی نہیں بن سکتی انہوں نے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ حقارت سے سوچا
سنو انابیہ ذرا کام سے فار غ ہو کر  میرے کمرے میں آنا ضروری بات کرنی ہے تم سے ۔۔۔۔ جی اچھا چچی ۔۔۔انابیہ نے گردن موڑ کر جواب دیا مجھ سے کیا بات کرنی ہے چچی نے ؟؟ انابیہ نے سوچا
گھر پر صرف مسز ہاشم اور انابیہ تھے ۔۔۔۔۔
جب انابیہ کمرے میں آئ مسز ہاشم اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھیں  چچی آپ نے بلایا تھا مجھے انابیہ نے چچی کو دیکھتے ہوے کہا جو اب صوفے پر بیٹھ چکی تھیں
بیٹھو یہاں چچی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کا کہا ۔۔۔۔
انابیہ چپ چاپ انکے پاس بیٹھ گئی
تم جانتی ہو جب تمہارے ماں باپ اس دنیا سے چلے گئے تھے تمہیں اکیلا اور بے سہارا چھوڑ کر تب  تمہیں کس نے سہارا دیا تھا کون تھا جس نے تمہیں رہنے کو چھت اور کھانے کو کھانا دیا چچی نے انابیہ سے سوال کیا
آپ نے اور چچا نے انابیہ نے نظریں جھکائے جواب دیا
اور اگر اب ہم تمہیں اس گھر سے بے گھر کر دیں چھت چھین لیں تمہارے سر سے تو کہاں جاؤ گی بولو ؟؟ بولو انابیہ
چچی کی آواز اب بلند ہو چکی تھی انابیہ نے گھبرا کر انھیں دیکھا
مم ۔۔۔مم  میں کہاں جا سکتی ہوں کون ہے میرا آپ لوگوں کے سوا
انابیہ کے اس جواب پر چچی طنز سے مسکرائیں
جب تم اچھی طرح اپنی حثیت جانتی ہو تو کیوں کوشش کرتی ہو ھمارے قد کے برابر آنے کی ؟؟؟
میں نے کیا کیا ہے ؟؟ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں مافی مانگتی ہوں انابیہ نے بھری ہوئی آنکھوں سے کہا
تم سے غلطی نہیں گناہ ہوا ہے یہ سن کر انابیہ کے اوسان خطا ہو گئے ۔۔۔۔۔گناہ ؟؟؟؟ آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں نے کچھ نہیں کیا انابیہ کے آنسؤوں میں روانی آ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد تم سے شادی کرنا چاہتا ہے چچی نے انابیہ کو نفرت سے دیکھتے ہوۓ کہا
بس اتنا سننا تھا کہ انابیہ پتھر کی بن گئی اور وہ حیرت کا بت بنے چچی کودیکھے گئی
ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟انابیہ اپنے ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی
لیکن اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے چچی میں نہیں جانتی انہوں نے ایسا کیوں کہا ؟؟؟
یہی تو میں تم سے پوچھ رہی ہوں کہ اس نے ایسا کیوں کہا ؟؟
چچی کی گرج دار آواز گونجی
اور انابیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔۔
چپ کرو انابیہ چچی نے روتی ہوئی انابیہ سے کہا تو انابیہ نے آنکھیں اٹھا کے چچی کو دیکھا
ہم نے تم پر ترس کھا کر تمہیں اس گھر میں رکھا تھا لیکن تمہیں یہ چھت راس نا آئ اس لیے تم آج سے جہاں چاہو جا سکتی ہو چچی نے اپنا فیصلہ سنایا
نن ۔۔۔۔نہیں پلیز چچی خدا کے لیے ایسا مت کریں
میں کہاں جاؤں گی ؟؟؟ انابیہ نے چچی کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوۓ کہا
اگر تم چاہتی ہو کہ تمہارے پاؤں کے نیچے سے زمین اور سر سے آسمان نا کھینچے تو وہی کرو جو میں کہتی ہوں
اگر تم ایسا کرو گی تو تمہیں کوئی اس گھر سے نہیں نکالے گا ورنہ تم اپنا دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈو ۔۔۔۔۔۔
آپ جو کہیں گی وہی کروں گی لیکن مجھے گھر سے مت نکالیں
انابیہ نے اب بھی چچی کے سامنے ہاتھ جوڑ رکھے تھے۔۔۔۔۔۔
تو پھر ٹھیک ہے تم وہی کرو گی جو میں کہوں گی مسز ہاشم نے سکون سے کہا انابیہ کو گھر سے نکالنے کی دھمکی کام کر گئی تھی ۔۔۔۔
اور اب انابیہ مسز ہاشم کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کو تیار تھی

 قفسWhere stories live. Discover now