قسط نمبر 6

26 2 0
                                    


آج کی صبح بہت ہی روشن تھی
گھر کے سب افراد ناشتے کی میز پر موجود تھے سواۓ اسد کے وہ ابھی تک اپنے کمرے میں تھا  انابیہ ناشتہ میز پر لگا کر جا ہی رہی تھی کہ چچی نے اسے پکارا
انابیہ کہاں جا رہی ہو ؟؟
ادھر آؤ اور یہاں بیٹھ کے ناشتہ کرو انابیہ کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا اور وہ گھبرائی سی بس چچی کو دیکھے گئی بھلا چچی اُسے کیوں بلانے لگی ناشتے کے لئے ؟؟؟ اور صرف انابیہ ہی نہیں وہاں بیٹھے سب افراد کے چہرے پر حیرت نمودار ہوئی جب انابیہ اپنی جگہ پر ہی کھڑی رہی تو مسز ہاشم  اپنی کرسی سے اٹھی اور انابیہ کے قریب جا کر کھڑی ہو گئیں اور شفقت سے بولیں انابیہ بیٹا میں جانتی ہوں کچھ زخم اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ انکا بھرنا نا ممکن ہوتا ہے وقت بھی کچھ زخموں اور دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتا ۔۔۔۔
میں نے تم پر جتنی بھی نا انصافیاں کی ہیں   میں بہت نادم ہوں میں جانتی ہوں میری ندامت تمہارے غموں کو کم نہیں کر سکتی ہو سکے تو مجھے معاف کر دو  مسز ہاشم نے انابیہ کے آگے ہاتھ جوڑ دیے......
نہیں نہیں چچی ایسا مت کیجیۓ انابیہ نے مسز ہاشم کے جڑے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا میرے لئے آپ بہت ہی قابل احترام ہیں آپ اور چچا نے ہی تو  مجھے پناہ دی تھی جب امی ابو اس بھری دنیا میں مجھے اکیلا کر گئے تھے میں چاہ کر بھی آپکے احسان نہیں اتار سکتی ۔۔۔
اور آپکو مجھ سے معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے چچی
میرا دل صاف ہے آپ سب کے لئے اور زخم جتنے بھی گہرے ہوں رشتے انکی گہرائی سے کہیں زیادہ مظبوط ہوتے ہیں
یہ سب کہتے ہوۓ انابیہ کی آنکھیں آنسووُں سے بھری تھیں
مسز ہاشم نے آگے بڑھ کر انابیہ کو گلے لگا لیا ۔۔۔
سیڑھیوں سے اترتے اسد نے سب سن لیا تھا سکون کی ایک لہر اسکے رگ و پے میں سرایت کر گئی وہ مسکراتا ہوا مسز ہاشم تک آیا اور محبّت سے مسز ہاشم کے دونوں ہاتھ چوم لئے پھر انابیہ کی طرف متوجہ ہوا
مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ تم نے ہمیں معاف کر دیا ہے ایک بوجھ تھا دل پر جو اب نہیں ہے تمہیں زندگی کی یہ نئی شروعات مبارک ہو
اسد نے انابیہ کی سیاہ گہری آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا
جواباً انابیہ نے مسکرا کر سر ہلایا
ہاشم صاحب نے بھی انابیہ کے سر پر ہاتھ رکھا وہ اس تبدیلی پر تہ دل سے خوش تھے اب وہ سب ایک فیملی کی طرح ناشتہ کرنے میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔
محبت قربانی مانگتی ہے اور اسد اپنے حصّے کی قربانی دے چکا تھا
مسز ہاشم ہاتھ میں موبائل پکڑے تیز تیز قدم اٹھاتی لاوُنج میں داخل ہوئیں جہاں ہاشم صاحب اور اسد کسی موضوع پر بات کر رہے تھے وہ انکے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں اور بولیں
اسد تمہاری خالہ کی کال آئ تھی میں نے ان سے تمہارے اور صائقہ کے رشتے کی بات کی تھی جواباً انہوں نے کچھ وقت مانگا تھا اور  آج انہوں نے ہاں کر دی ہے یہ تو خوشی کی خبر سنائی آپ نے  ہاشم صاحب نے اسد کو دیکھ کر مسکراتے ہوے کہا تو اسد بے دلی سے مسکرا دیا
میں نے تو اگلے ہفتے منگنی کا بھی کہ دیا ہے ان سے آپ کی کیا رائے ہے ؟؟  مسز ہاشم سے تو بلکل بھی صبر نہیں ہو رہا تھا
ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے دولہا آپکے سامنے ہے جو پوچھنا ہے اسی سے پوچھیں ہاشم صاحب نے خوشی سے جواب دیا اس بات سے بے خبر انکا بیٹا تو انابیہ کو چاہتا ہے ۔۔۔۔
اسد نے انابیہ سے محبّت کے  متعلق ہاشم صاحب کو کچھ نہیں  بتایا تھا اور نا ہی کبھی بتانے کا ارادہ رکھتا تھا وہ جانتا تھا انھیں یہ بات دکھی کر دے  گی کہ انابیہ نے شادی سے انکار کر دیا اور وہ اس بات کو مزید طول دینا نہیں چاہتا تھا
اس لئے منگنی کے لئے اپنی رضامندی کا اظہار کر کے وہاں سے اٹھ آیا
جب سعد اور رمشا کو یہ بات پتا چلی تو وہ خوشی سے پاگل ہونے لگے ھمارے بھائی کی شادی ہونے والی ہے کتنا مزہ آئے گا نا رمشا نے خوش ہوتے ہوے کہا
گھر میں آج کل منگنی کی تیاریاں چل رہی تھیں اور ہر کام میں انابیہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہی تھی مسز ہاشم انابیہ اور رمشا کے ساتھ بازار کے چکر لگا رہی تھیں
رمشا نے تو اپنے لئے بہت سی شاپنگ کی تھی مگر انابیہ نے بس  مختصر شاپنگ کی۔۔۔۔
اور آخر کار منگنی کادن آن پہنچا
ہال مہمانوں سے بھرا تھا عورتیں اور لڑکیاں زرق برق لباس پہنے ادھر ادھر گھوم رہی تھیں سامنے اسٹیج پر بیٹھے اسد اور صائقہ سب نفوس کی توجہ کا مرکز تھے اسد تھری پیس میں ملبوس تھا جب کہ صائقہ نے آف وائٹ کلر کی شرٹ اور غرارہ زیب تن کیا ہوا تھا دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگ رہی تھی صائقہ کوئی بات کر رہی تھی اور اسد مسکرا کر جواب دے رہا تھا تبھی رمشا سلور کلر کی میکسی پہنے کانوں میں آویزے ڈالے بالوں کو نفاست سے ایک کندھے پے ڈالے اسٹیج پر آئ اور اسد کے ساتھ بیٹھ کے کیمرہ میں ان حسین لمحوں کو قید کروانے لگی
جب کہ ہاشم صاحب اور مسز ہاشم مہمانوں سے مل رہے تھے اور مبارکباد وصول کر رہے تھے انکی یہ پہلی خوشی تھی اس لئے ہر کسی کو مدعو کیا تھا انہوں نے
سعد لڑکوں کے ساتھ کھڑا خوش گپیوں میں مصروف تھا
اور رہ گئی انابیہ وہ اپنی ٹیبل ہی سے سب کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی اس نے پنک کلر کا فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہن رکھا تھا لمبے بالوں کو ایک جوڑے میں مقید کر رکھا تھا ناک میں سونے کی ننھی سی لونگ دمک رہی تھی  ہلکے ہلکے میک اپ کے ساتھ نفیس سی جیولری پہن رکھی تھی وہ تو اس سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی کوئی ایک بار دیکھتا تو پلکیں جھپکنا بھول جاتا ۔۔۔۔۔
انابیہ کو مسز ہاشم نے بلایا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور  عجلت میں مڑی تو کسی سے ٹکرا گئی انابیہ کو تو کوئی چوٹ نہیں لگی تھی مگر ٹکرانے والے کا فون گر کر اسکے قدموں میں آ گیا اس نے سامنے دیکھا تو سفید شلوار قمیض اور سیاہ ویسٹ کوٹ میں  ملبوس ایک بے حد خوبصورت انسان اسکے سامنے کھڑا تھا دراز قد ۔۔۔۔۔۔۔اور شہد رنگ آنکھیں اسکے سرخ و سفید چہرے کا حُسن دوبالا کر رہی تھیں بلا شبہ وہ کسی شہزادے سے کم نہیں تھا انابیہ نے نظریں جھکا کر سوری بولا
دیکھ کر نہیں چل سکتی کیا محترمہ؟؟؟
اس انسان نے بجاےُ
معافی مانگنے کے الٹا اسے سنا دی
ٹکر آپکی وجہ سے لگی ہے آپ سامنے سے آ رہے تھے میں نہیں انابیہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا
سامنے والے شخص کے چہرے پر نا گواری کے تاثرات ابھرے مگر اس نے کچھ بھی کہے بنا جھک کر انابیہ کے قدموں سے اپنا موبائل اٹھایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہال سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔
انابیہ! ان سے ملو یہ ہیں بی جان ہاشم اور انکے بیٹے دوست تھے  اور وہ ہاشم کے ساتھ بزنس پارٹنر بھی رہے ہیں مسز ہاشم نے بی جان کا تعارف کرایا السلام و علیکم! انابیہ نے انھیں سلام کیا وعلیکم السلام بیٹا! بی جان نے بہت شفقت سے جواب دیا بی جان نے کچھ دیر انابیہ سے باتیں کیں اور پھر وہ مسز ہاشم سے اجازت لے کر چلی گئیں ۔۔۔۔
تقریب کے ختم ہوتے ہی سب مہمان رخصت ہو گئے اور ہاشم صاحب کی فیملی بھی گھر آ گئی
سب بہت تھک چکے تھے تبھی اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے سواۓ انابیہ کے وہ سجدے میں پڑی رو رہی تھی اور رو رو کر اللّه کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اب اسکی زندگی میں سب ٹھیک ہو گیا تھا اسکی زندگی اب نئے راستے کی تلاش میں نکل پڑی تھی اسکی زندگی میں چھایا اندھیرا اب ختم ہو کر  روشنی میں بدل رہا تھا اسکے حصّے کی بارش اس پر برسنے کو بے تاب تھی بہار کے موسم میں کھلنے والے شگوفے بھی اسکی خوشی میں جھوم رہے تھے
چاند اب بھی تاریک راتوں میں اجالا کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔۔
زندگی معمول کی طرح گزر رہی تھی جب ایک دن مسز ہاشم ٹی وی کے سامنے بیٹھی چینل گھما رہی تھی اور انابیہ کچن میں دوپہر کا کھانا بنانے میں ماسی کی مدد کر رہی تھی پچھلے ہفتے مسز ہاشم نے گھر کے ہر کام کے لئے ماسی رکھ لی تھی اور انابیہ کو کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں مگر بقول انابیہ کے اسے کام کرنا اچھا لگتا تھا اور وہ فارغ بیٹھتی تو بور ہو جاتی تھی تبھی وہ کوئی اضافی ڈش بنا لیتی تھی  رات یا دوپہر کے کھانے میں اور ساتھ ساتھ ماسی کی ہلکی پھلکی مدد بھی کر دیتی۔۔۔
تبھی رحمان بابا نے اندر آ کر کسی مہمان کے آنے کی اطلاع دی تو مسز ہاشم ریموٹ میز پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں تو لاوُنج کے دروازے سے ایک معمر سی بزرگ اندر آ گئیں السلامُ علیکم! بی جان مسز ہاشم نے آگے بڑھ کر گرم جوشی سے انکا استقبال کیا تو انہوں نے بھی بہت محبّت سے سلام کا جواب دیا مسز ہاشم انکے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئیں
کیسی ہیں آپ بی جان؟؟؟ مسز ہاشم نے بات کا آغاز  کیا اللّه کے  کرم سے میں بلکل ٹھیک ہوں بی جان نے شفقت بھرے انداز میں جواب دیا بہت خوشی ہوئی آپ ھمارے گھر تشریف لے آئیں بی جان مسز ہاشم نے اپنی خوشی کا اظہار کیا
مجھے بھی بہت خوشی ہوئی آپ
سے مل کر بی جان کی نظریں اب اِدھر اُدھر کسی کو تلاش رہی تھیں باقی سب کہاں ہیں ؟؟؟ بی جان نے پوچھا
اسد اور ہاشم آفس ہیں رمشا کالج ہے اور انابیہ گھر پر ہے میں ابھی اسے بُلا لاتی ہوں مسز ہاشم تفصیلاً جواب دیتے اٹھ کھڑی ہوئیں بی جان نے سر کے اشارے سے اچھا کہا تو  مسز ہاشم کچن کی جانب بڑھ گئیں انابیہ بیٹا! مسز ہاشم کی آواز پر انابیہ نے مڑ کر پیچھے دیکھا اور جی چچی کہ کر جواب دیا تو مسز ہاشم بولیں  بیٹا تم ذرا فریش ہو کر لاوُنج میں آ جاؤ بی جان آئ ہوئی ہیں جی اچھا! انابیہ نے دو لفظی جواب دیا  اور کچن سے چلی گئی
تم چائے اور دوسرے لوازمات تیار کر کے لے آؤ مسز ہاشم ماسی کو ہدایت کرتی باہر نکل گئیں
انابیہ لاوُنج میں داخل ہوئی تو بی جان بولتے بولتے ٹھہر گئیں انابیہ نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دے کر اسے اپنے پاس بیٹھنے کا کہا تو انابیہ انکے پاس بیٹھ گئی
کیسی ہو بیٹا؟؟ بی جان نے پوچھا ٹھیک ہوں اس نے نظریں جھکائے جواب دیا وہ بڑوں کے سامنے نظر اٹھا کر بات نہیں کرتی تھی
ماسی چاۓ اور دوسرے لوازمات ٹرالی میں سجائے اندر آئ تو انابیہ اٹھ کر چاۓ کپ میں ڈالنے  لگی پھر ایک کپ بی جان اور دوسرا مسز ہاشم کو تھما کر وہ پھر سے بی جان کے ساتھ بیٹھ گئی
میں یہاں آپ سے بہت امید لے کر آئ ہوں بی جان نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا تو مسز ہاشم نے حیرت سے انھیں دیکھا
میں سمجھی نہیں آپکی بات مسز ہاشم نے بی جان کو دیکھتے ہوۓ کہا بی جان نے انابیہ کی طرف دیکھا اور بولیں میں آپ سے انابیہ بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئ ہوں جب سے اسے دیکھا ہے میرے دل میں اسی کو ہی اپنے پوتے کی دلہن بنانے کی خواھش پیدا ہوئی ہے میں چاہتی ہوں آپ اپنے آنگن کے اس پھول کو ہمارے گھر رخصت کر دیں ہم اسے بہت محبّت سے رکھیں گے بس انکار مت کیجئے گا بی جان نے انابیہ کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا اور پانچ ہزار کا نوٹ بیگ سے نکال کر اسکے ہاتھ میں رکھا تو انابیہ نے لینے سے انکار کر دیا لیکن بی جان کے اصرار اور مسز ہاشم کے کہنے پر پیسے رکھ لئے  بی جان! یہ تو بہت خوشی کی بات ہے مسز ہاشم نے خوش ہوتے ہوۓ کہا جب کہ انابیہ اب اٹھ کر جا چکی تھی مسز ہاشم اور بی جان دونوں مسکرا کر اسے جاتے ہوۓ دیکھ رہی تھیں
ہمیں بہت خوشی ہوگی بی جان آخر کو حدید اپنا ہی بچہ ہے اور اس جیسا لائق اور سعادت مند بچہ آج کل کہاں ملتا ہے مگر آخری فیصلہ تو ہاشم کا ہی ہوگا نا وہ اس گھر کے سربراہ جو ٹھہرے مسز ہاشم نے اپنی بات مکمل کی
ٹھیک ہے ہاشم سے بات کر لینا وہ میرے بیٹے جیسا ہی ہے اگر ضرورت پڑی تو میں خود بھی اس سے بات کروں گی مگر آپ پوری کوشش کرنا کے جواب ہاں ہی ہو میری یہ آنکھیں کب بند ہو جایئں نہیں پتا بس میرا اللّه مجھے میرے حدید کی خوشی دیکھنے کی مہلت دے دے بی جان نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوۓ کہا
اللّه سب خیر کرے گا مسز ہاشم نے تسلی آمیز انداز میں کہا بی جان مسز ہاشم سے اجازت طلب کرتی اٹھیں اور چلی گئیں ۔۔۔۔
انابیہ اپنے کمرے میں بیٹھی مستقبل کے خواب دیکھنے میں مگن تھی اور سوچ رہی تھی کہ کون ہوگا وہ شخص کیسا ہوگا ؟؟؟
نا محسوس طور پر وہ اس رشتے کے لئے خوش ہو رہی تھی
جب انسان کا دل مطمئن اور پر سکون ہوتا ہے تو چھوٹی سے چھوٹی خوشی بھی اسے سرشار کر دیتی ہے پھر یہ تو اسکی زندگی کی نیا موڑ تھا جو شروع ہونے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 قفسTahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon