قسط نمبر 2

43 3 1
                                    


لاوُنج سے رمشا اور سعد کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں جب انابیہ مغرب کی نماز پڑھ کے نیچے آئ
اندر آئ تو دیکھا کہ اسد صوفے پر بیٹھا تھا سعد اور رمشا اسکے پاس ہی بیٹھے تھے اور ان دونوں کے ہاتھوں میں گفٹس تھے اسد امریکا میں دو ہفتے رہ کر رات کی فلائٹ سے ابھی گھر پہنچا تھا
ارے! انابیہ وہاں کیوں کھڑی ہو ادھر آؤ اسد کی آواز پر انابیہ چونک گئی السلام و علیکم اسد! انابیہ نے فورا سلام کیا
وعلیکم اسلام! اسد نے مسکراتے ہوے جواب دیا اور پھر اپنے بیگ پر جھک کر کچھ نکالنے لگا اور پھر اس نے بیگ سے ایک ڈبہ نکالا اور اسے انابیہ کی طرف بڑھاتے ہوے بولا یہ لو انابیہ تمہارا گفٹ ۔۔۔
مم۔۔میرا گفٹ ؟؟ مگر مجھے نہیں چاہیے انابیہ نے چچی کو دیکھتے ہوے کہا جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں انابیہ جانتی تھی چچی کو  بہت برا لگ رہا تھا اسد کا  اُسکے  کے لیے گفٹ لے کر آنا اس لیے اس نے گفٹ لینے سے انکار کر دیا
کیوں نہیں چاہیے گفٹ ؟؟ اسد نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔
کیوں کہ اسے جو چاہیے ہوتا ہے وہ  مجھ سے مانگ لیتی ہے انابیہ کی جگہ چچی نے جواب دیا ۔
لیکن میں سب کے لیے گفٹس لایا ہوں اور سب نے لے لیے ہیں اس لیے آپ انابیہ سے کہیں کہ وہ بھی لے لے اسد نے الٹا اپنی ماں سے درخواست کی کیوں کہ اسد جان گیا تھا کہ  جب تک اسکی امی کی اجازت نہیں ہوگی انابیہ گفٹ نہیں لے گی ۔۔۔
مسز ہاشم اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتی تھیں کیوں کہ اسد انکی پہلی اولاد تھا اس لیے اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر انابیہ کو مخاطب کرتے ہوے بولیں لے لو انابیہ اپنا گفٹ ۔۔۔
انابیہ نے چپ چاپ ڈبہ اسد کے  ہاتھ سے لے لیا اور شکریہ کہ کر اوپر اپنے کمرے کی جانب چل دی۔
اپنے کمرے میں جا کر انابیہ نے دروازہ بند کیا اور گفٹ لے کر بیڈ پے آ بیٹھی اور جب اس نے ڈبہ کھولا تو اس میں ایک خوبصورت سی بریسلٹ تھی جس پر چھوٹے چھوٹے موتی موتی لگے تھے انابیہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے بریسلٹ اٹھائی اور اپنے ہاتھ میں پہننے لگی
اسکی خوبصورت کلائی میں آتے ہی جیسے بریسلٹ بھی  خود پر ناز کرنے لگی ۔۔۔
اور پھر انابیہ کی آنکھوں کے سامنے ایک دھندلا سا منظر چھا گیا ایک چھوٹی سی پیاری سی بچی گھاس پر بیٹھی رو رہی تھی اسکے رونے کی پرواہ کیے بغیر تین بچے اسکے ارد گرد کهیلنے میں مگن تھے ۔۔۔
کیا ہوا انابیہ ؟؟؟ کیوں رو رہی ہو ؟؟
چچا جو اچانک وہاں سے گزر رہے تھے انکی نظر روتی  ہوئی انابیہ پر پڑی تو اس سے رونے کی وجہ پوچھ بیٹھے ۔۔۔
چچا کی آواز پر انابیہ نے سر اٹھا کر آنسووُں سے بھری ہوئی آنکھوں سے چچا کو دیکھا اور روتے ہوے بولی کہ رمشا نے میری گڑیا چھین لی جو آپ میرے لیے لاے تھے جب کہ اسکے پاس بہت سی گڑیاں ہیں مگر پھر بھی اس نے میری گڑیا چھین لی اتنا کہ کر انابیہ پھر سے رونے لگ گئی ۔۔۔
چچا اٹھے اور رمشا کو ڈانٹ کر اس سے انابیہ کی گڑیا واپس لے آےُ  اور انابیہ اپنی گڑیا دوبارہ حاصل کر کہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ۔۔۔
ماضی کی تلخ یادیں سوچ کر انابیہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تو اسکی یادوں کا  حصار ٹوٹا اور وہ اپنے حال میں واپس آ گئی ۔۔۔
آنسو اسکی آنکھوں سے نکل کر اسکے گالوں میں جذب ہو گئے
اس نے بریسلٹ اتاری اور ڈبے میں واپس رکھ دی بچپن کی اُس گڑیا کے بعد اسکے لیے اس گھر میں کوئی گفٹ نہیں آیا تھا پر آج اتنے سال بعد اسد اسکے لیے یہ بریسلٹ لایا تھا  اُسے اِس بات پے خوش ہونا چاہیے یا نہیں وہ اتنا بھی نہیں جانتی تھی مگر یہ تو طے تھا کہ اسد کا رویہ اب اسکے ساتھ بہت اچھا تھا وہ بچپن والا اسد نہیں تھا جو اسے مارا کرتا تھا وہ بہت بدل چکا تھا
وہ چھوٹی سی تھی جب اسکے ماں باپ ایک کار ایکسیڈنٹ میں چل بسے تھے اور چچا چچی اسے اپنے گھر لے آے تھے اسے تو ٹھیک سے اپنے ماں باپ کے چہرے تک یاد نہیں تھے ۔۔۔۔
بس اب اسکے سر میں درد ہونے لگا تھا یہ سب سوچ کر۔۔۔
اس نے تہجد کی نماز کے وقت کا الارام  لگایا اور تکیہ ٹھیک کر کہ سو  گئی...
تہجد اور صبح کی نماز سے فراغت کے بعد انابیہ نے ناشتہ تیار کر کے  میز پر لگایا سب ناشتے کی میز پر موجود تھے سواےُ اسد کے وہ اپنے کمرے میں سو رہا تھا جب سب نے ناشتہ کر لیا تو انابیہ نے برتن سمیٹ کر دھو دیے ۔۔۔
اب وہ کچن میں کھڑی کچن کی صفائی کر رہی تھی جب اسد کچن میں داخل ہوا اور کہا
مجھے چاۓ کا ایک کپ مل سکتا ہے ؟؟ لمبے سفر اور تکان کے باعث اسد نے آج آفس سے چھٹی کی تھی انابیہ نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو وہ کچن کے دروازے میں کھڑا تھا
جی اچھا! میں ابھی چاۓ بنا دیتی ہوں اور ناشتہ کریں گے آپ ؟؟ انابیہ نے گردن گھما کر اسد کو دیکھا جو میز کی کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ رہا تھا ۔۔۔
آپ یہاں کیوں بیٹھ رہے ہیں ؟؟ یہاں تو بہت گرمی ہے آپ اپنے کمرے میں جایں میں وہیں ناشتہ دے جاؤں گی انابیہ نے فکرمندی سے کہا
میں یہیں ٹھیک ہوں اور تم بھی تو کھڑی ہو یہاں اتنی گرمی میں اسد نے اپنی دونوں کہنیوں کو میز پر ٹکاےُ اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ گراےُ انابیہ کو دیکھتے ہوے جواب دیا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی  انابیہ نے چاۓ کا برتن چولہے پر رکھتے ہوے کہا اور جب چاۓ بن گئی تو کپ میں ڈال کر اسد کو دی اسد نے چاۓ کا کپ اٹھا لیا اور چاۓ کا ایک گھونٹ بھرتے ہوے بولا انابیہ تمہیں گفٹ پسّند آیا ؟؟؟
جی بہت اچھا تھا انابیہ نے آملیٹ بناتے ہوے جواب دیا
تو پھر تم نے وہ بریسلٹ پہنی کیوں نہیں ؟؟اسد نے دوبارہ سوال کیا ۔۔۔
کیوں کہ میں گھر کے کام کرتی ہوں نا تو خراب ہوجاۓ گی اور اگر کوئی گفٹ دے تو اسکی حفاظت کرتے ہیں انابیہ نے ناشتے کی پلیٹ اسد کے سامنے رکھتے ہوۓ جواب دیا ۔۔
لیکن اگر تم وہ بریسلٹ پہنو گی تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا اسد نے سلائس کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوے کہا
انابیہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ چچی کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ اسد تم کب اٹھے بیٹا؟؟؟
چچی نے کچن میں داخل ہوتے ہوے کہا
بس امی کچھ دیر پہلے اٹھا ہوں اسد نے ماں کو دیکھتے ہوے جواب دیا اور نیند پوری ہوگئی تمہاری ؟؟ چچی نے دوبارہ سوال کیا جی امی! ہوگئی اسد نے کھڑے ہوتے ہوے جواب دیا اسد کو  کھڑے ہوتے دیکھ کر چچی بھی کھڑی ہوگئیں بیٹا ناشتہ تو مکمل کرو نہیں امی بس کافی ہے اتنا آپ کیا چاہتی ہیں کہ میں کھا کھا کر موٹا ہو جاؤں ؟؟ اسد نے مسکراتے ہوے مسز ہاشم سے کہا جواباً مسز ہاشم بھی مسکرا دیں
اور بیٹے کے  ساتھ باتیں کرتے کرتے سیڑھیاں چڑھنے لگیں ۔۔۔۔
اور پھر کچھ دن اسی طرح آرام سے گزر گئے اور ایک صبح انابیہ نے کپڑے نکالنے کے لیے الماری کھولی تو اسکی نظر بریسلٹ والے ڈبے پر پڑی تو اسے اسد کی بات یاد آ گئی اور اس نےبریسلٹ نکال کے پہن لی ناشتے کی میز پر چچا چچی موجود تھے سعد اپنی پرانی عادت سے مجبور تھا اس سے صبح صبح نہیں اٹھا جاتا تھا اور رمشا پتا نہیں کن سوچوں میں گم تھی تبھی تو سلائس پر مکھن لگائے جا رہی تھی رمشا دھیان کہاں ہے تمہارا بیٹا؟؟ چچا نے رمشا کو مخاطب کیا تو وہ بری طرح چونکی اور کہا کہیں نہیں یہیں دھیان ہے لیکن ایسا لگتا نہیں ہے اب کی بار مسز ہاشم نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا تو رمشا نے غصہ کرنے کے بجائے مسکراتے ہوئے کہا آج کل کالج میں ٹیسٹ ہو رہے ہیں نا تبھی ذرا دماغ الجھا رہتا ہے وہیں ہاشم صاحب بھی بیٹی کو مسکراتا دیکھ کر مطمئن ہو گئے
اچانک اسد آتا دکھائی دیا ۔۔۔
رمشا نے اپنی غائب دماغی کو چھپانے کے لیے تاکہ  اسکے امی ابو کو شک نا ہو اپنا دھیان اُن سب کی طرف لگا دیا
بھائی آج آپ لیٹ اٹھے ہیں ؟؟
رمشا  نےایسے ہی بولنے کی غرض سے اسد سے پوچھا نہیں تو میں تو ٹائم پے اٹھا ہوں مگر آپ شایدآج  جلدی اٹھی ہیں محترمہ اسد نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا رمشا مزید ہڑبڑا گئی اور گھبراہٹ میں اسکے منہ سے نکلا نہیں میں اتنی جلدی تو نہیں اٹھی تمہارا بھائی سہی کہ رہا ہے تم واقعی بہت صبح اٹھ گئی آج ہاشم صاحب نے توصیح کی عین اسی وقت انابیہ ہاتھوں میں چاۓ کی کیتلی ٹرے میں رکھے میز تک آئ رمشا ابھی بھی ہاشم صاحب کی ہی طرف دیکھ رہی تھی جب انابیہ نے چاۓ کپ میں ڈال کر چچا کے سامنے رکھی تو رمشا کی نظر اسکے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی اسکی کلائ میں جھولتی بریسلٹ  پر ٹھہر گئی واوُ! کتنی خوبصورت بریسلٹ ہے رمشا تعریف کیے بنا نا رہ سکی رمشا کی آواز پر چچی اور اسد نے بیک وقت دیکھا کہاں سے آئ تمہارے پاس ؟؟؟ رمشا نے بیتابی سے پوچھا یہ وہی گفٹ ہے جو اسد میرے لیے لائے تھے انابیہ نے چچی کے بدلتے تیوروں کو دیکھتے ہوۓ جواب دیا
یہ بھائی تمہارے لیے لاۓ تھے ؟؟ رمشا نے حیران ہوتے ہوۓ کہا بھائی آپ میرے لیے وہ عام سی گھڑی لے آئے اور انابیہ کے لیے اتنی خوبصورت بریسلٹ؟؟
یہ تو سراسر ناانصافی ہے میرے ساتھ رمشا نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوۓ کہا ارے رو کیوں رہی ہو ؟؟ میں تمہارے لیے بھی ایسی ہی بریسلٹ لاؤں گا تم رونا تو بند  کرو اسد نے رمشا کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا نہیں مجھے نہیں چاہیے اور بریسلٹ مجھے یہی چاہئیے رمشا کے آنسوئوں میں مزید روانی آ چکی تھی ۔۔۔
چچی جو اب تک خاموش بیٹھی تھیں آخر بول پڑیں انابیہ تم رمشا کو یہ والی بریسلٹ دے دو اسد تمہارے لیے اور لے آے گا تم جانتی تو ہو رمشا کو بچوں جیسی عادت ہے جو چیز پسّند آجاۓ وہ لے کے ہی چھوڑتی ہے تم تو سمجھدار ہو اس لیے تم یہ اسے دے دو ورنہ یہ روتی رہے گی اور چپ بھی نہیں ہوگی چچی نے بظاہر میٹھا لہجہ استعمال کیا مگر اس بریسلٹ کو انابیہ کی کلائ میں دیکھ کر انکا منہ تک کڑوا ہو چکا تھا پر وہ اسد کے سامنے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتیں تھیں جس سے اسد انکے خلاف ہو کر انابیہ کی حمایت کرتا ۔۔۔
انابیہ نے آنسو اپنے اندر اتارے اور کچھ بھی کہے بنا اپنی کلائ سے بریسلٹ اتارنے لگی تو اسد اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور بریسلٹ اتارتے انابیہ کے ہاتھ کو اپنے مظبوط ہاتھ سے پکڑ کر روک دیا یہ کیا کر رہی ہو انابیہ ؟؟۔۔
یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔۔۔
اگر رمشا کو گھڑی پسّند نہیں آئ تھی تو مجھ سے کہتی میں اسے کچھ اور دلا دیتا لیکن رمشا کو انابیہ کی بریسلٹ دیکھ کر یاد آیا کے وہ گھڑی عام سی تھی اور اسے پسّند نہیں میرے بارے میں یہ سوچا بھی کیسے رمشا نے کہ میں اسکے لیے عام سا تحفہ لاؤں گا اسد نےیہ بات اپنی ماں سے  کہتے ہوۓ دکھ سے رمشا کو دیکھااور کہا ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا رمشا انسان کو ہمیشہ اپنے نصیب پر شکر کرنا چاہئیے اور دوسروں کے نصیب سے حسد نہیں کرنا چاہئیے کیوں کہ ہر انسان کو اپنا نصیب ملتا ہے یہ تو ہم انسان شکر نہیں کرتے ورنہ ہمارا رب ہمیں  ہماری حثیت سے زیادہ نوازتا ہے  اسد بیٹا رمشا ابھی بچی ہے وقت کے ساتھ سمجھ جاۓ گی ابھی تو بچپنا ہے اسکا ہم سے فرمائشیں نہیں کرے گی تو کس سے کرے گی مسز ہاشم نے رمشا کی حمایت میں بولتے ہوۓ کہا پر اسد نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔۔
اور انابیہ کی طرف گھوم کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا تم یہ بریسلٹ رمشا کو نہیں دوگی لیکن اگر رمشا کو یہ بریسلٹ چاہئیے تو وہ  گھڑی تمہیں دے کر رمشا یہ بریسلٹ لے سکتی ہے ورنہ نہیں ۔۔۔
اتنا کہ کر اسد رکا نہیں اور ناشتہ کیے بنا ہی آفس چلا گیا
چچا بھی خاموشی سے اٹھے اور اسد کے پیچھے چلے گئے ۔۔۔
انابیہ بھی جلدی سے کچن میں چلی گئی وہ جانتی تھی کہ چچی اب سارا غصہ اس پر نکالیں گیں۔۔۔  رمشا جس نے یہ ڈرامہ صرف بریسلٹ حاصل کرنے کے لیے کیا تھا اب اپنی توہین محسوس کر رہی تھی تبھی مسز ہاشم نے پیار سے رمشا کو پکارا رمشا بیٹا تمہیں بھائی کے سامنے بریسلٹ مانگنے کی کیا ضرورت تھی مجھ سےکہتی میں لے دیتی تمہیں انابیہ سے وہ بریسلٹ لیکن رمشا ہنوز خاموش بیٹھی تھی اور پھر کچھ یاد آنے پر وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھی اور اپنا بیگ اٹھا کے کالج کے لیے چل دی ۔۔۔۔
مسز ہاشم ابھی تک وہیں بیٹھیں تھیں آج جو  ہوا وہ بلکل بھی ہضم نہیں ہو رہا تھا ان سے۔۔۔
اب انکی چھٹی حِس کام کر رہی تھی انھیں اسد کا انابیہ کی طرف داری کرنا سمجھ آ رہا تھا نہیں میں ہرگز ایسا نہیں ہونے دونگی انہوں نے خود سے ہم کلامی کرتے ہوۓ کہا میں اسد کی شادی انابیہ سے کبھی نہیں ہونے دونگی مسز ہاشم نے چاۓ کا آخری گھونٹ ختم کرتے ہوے خالی کپ میز پر رکھ دیا اور ذہن میں ایک مکمل لائحہ عمل ترتیب دیتے ہوے اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں ۔۔۔
گھنٹی جا رہی تھی مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا آخرکار  چوتھی گھنٹی پر فون ریسیو کر لیا گیا اور ایک نسوانی آواز گونجی ہیلو!
السلام و علیکم!
دوسری طرف سے مسز ہاشم کی رعب دار آواز میں جواب آیا
  وعلیکم اسلام!
کیسے یاد کیا آپا آپ نے ؟؟ بڑے دنوں بعد فون کیا آپ نے دوسری طرف سے شکوہ کیا گیا ۔۔۔۔۔
میں ذرا مصروف تھی اب وقت ملا تو فون ملایا تمہیں مسز ہاشم نے تحمل سے جواب دیا
حال احوال اور کچھ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد مسز ہاشم نے صائقہ کا پوچھا تو آگے سے جواب آیا کہاں آپا وہ کہاں فارغ ہوتی ہے ہر وقت پڑھائی پڑھائی میں تو چاہتی ہوں کہ اب اپنے گھر کی ہو جاۓ مگر کوئی اچھا رشتہ آئے تو شادی کروں نا اسکی ۔۔۔
مسز ہاشم کو اپنا راستہ صاف دکھائی دے رہا تھا ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا
لیکن کل آپکی پوری فیملی نے ھمارے گھر ھمارے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانا ہے اور میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی اور صائقہ کو بھی ضرور ساتھ لائے گا میں آپ سب کا کل کھانے پے انتظار کروں گی  مسز ہاشم نے خاص طور پر تاکید کرتے ہوے کہا اور اللہ حافظ کہ کر فون رکھ دیا.


 قفسTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang