قسط نمبر 4

25 2 1
                                    


اسد جیسے ہی گھر کے لیے آفس سے نکلا تو کار میں بیٹھتے ہی اچانک اسکا موبائل بج اٹھا   
اسکرین پر ایک نام جگمگا رہا تھا
اس نے عجلت میں فون رسیو کر کے کان سے لگایا اور بولا سناؤ جہانزیب کیسے کال کی ؟؟ نہیں  میں اس وقت تو نہیں آ سکتا کیوں کہ اب تو میں گھر جا رہا ہوں کل ملتے ہیں پھر ۔۔۔۔
دوسری طرف کی بات سننے کے بعد اسد نے اتنا کہا اور کال کاٹ کے کار اسٹارٹ کی اور گھر کے راستے سے پہ دوڑا دی ۔۔۔۔
پتا نہیں انابیہ نے کیا جواب دیا ہوگا جب امی نے اس سے رشتے کی بات کی ہوگی اسد کا  ذہن مسلسل یہی بات سوچ رہا تھا
انہی سوچوں میں گھر آ گیا اس نے کار کھڑی کی اور  سیدھا اپنے کمرے میں  چلا گیا ۔۔۔
رات کے نو  بج رہے تھے جب انابیہ کی آنکھ کھلی وہ آنکھیں مسلتی اٹھ بیٹھی اسے سر میں شدید درد محسوس ہوا اس نے اپنا سر پکڑ لیا یا اللہ! میں کیا کروں ؟؟ انابیہ جو رو رو کر سو گئی تھی اب اٹھ کے دوبارہ رونے لگی تھی
آج رات کے کھانے پر چچی نے مجھے بلایا ہی نہیں پتا نہیں کھانا کس نے بنایا ہوگا وہ تو میری شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہیں اب۔۔۔ میرا کیا قصور ہے ؟؟؟ کیوں کرتی ہیں وہ مجھ سے اتنی نفرت ؟؟؟ لیکن انابیہ کو ان سب سوالوں کے جواب کون دیتا ؟؟؟
وہ بے بسی کی آخری انتہا پر تھی لیکن اللہ نے اسے  بہت مظبوط بنایا تھا وہ ٹوٹ کے بکھر نے والوں میں سے نہیں تھی اسے تو بس بے گھر ہونے کا خوف کھاۓ جا رہا تھا وہ کہاں جاۓ گی اگر اسے چچی نے نکال بھی دیا گھر پر تو چچی کا ہی کنٹرول تھا چچا وہی کرتے تھے جو چچی کہتی تھی اسی لیے انابیہ جانتی تھی اگر چچی نے اسے گھر سے نکالنے کی  ٹھان لی تو وہ کس کے پاس جاۓ گی ؟؟؟
وہ بیڈ سے اتری اور جوتا پاؤں میں ڈال کر واش روم چلی گئی واپس آئ تو چہرہ دھلا ہوا تھا مگر آنکھیں ابھی بھی روئی روئی لگ رہی تھیں اس نے چہرہ خشک کیا اور بیڈ پہ آ کے بیٹھ گئی سائیڈ ٹیبل پہ پڑا پانی کا جگ اٹھایا اور گلاس میں پانی انڈیلنے لگی پانی پی کہ خالی گلاس واپس اسکی جگہ رکھ دیا ۔۔۔۔
اسے اب وہی کرنا تھا جسکا وعدہ اس نے چچی سے کیا تھا مگر وہ ہمّت نہیں کر پا رہی تھی بھلے ہی اسکے دل میں اسد کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں تھی نا ہی وہ اس سے شادی کی خواھش مند تھی وہ تو بس مجبوریوں میں گھری ایک بے بس لڑکی تھی لیکن وہ اتنی بے باک اور پتھر دل نہیں تھی کہ کسی مرد سے اس طرح کی بات کھلم کھلا کرتی یا وہ اپنے لفظوں سے کسی کا دل توڑتی ۔۔۔ وہ تو دلوں کو جوڑنے والی لڑکی تھی سب کا دکھ اپنا دکھ سمجھنے والی مگر اسکا دکھ باٹنے والا کوئی نہیں تھا وہ اکیلی تھی اس بھری دنیا میں ۔۔۔
اے میرے پاک پروردگار ! میری مدد فرما! میرا تیرے سوا کوئی مددگار نہیں ہے مجھے بس تیرا ہی سہارا ہے ! اتنا کہ کے وہ اٹھی اور اسد کے کمرے کی طرف چل دی ۔۔۔۔
اسد جو اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا اچانک دستک پر چونکا اور بولا آ جائیں۔۔۔۔۔ انابیہ دروازہ کھول کر اندر آ گئی
اسد نے انابیہ کو دیکھا تو حیرت سے اٹھ کھڑا ہوا انابیہ تم ؟؟ جی میں ۔۔۔۔ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے انابیہ نے نظریں زمین  پر جھکائے کہا اسد کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی آخر انابیہ کو کیا بات کرنی تھی ؟؟۔
ٹھیک ہے تم بیٹھ جاؤ بیٹھ کے بات کرتے ہیں اسد خود بیڈ پر بیٹھ گیا اور انابیہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی کچھ دیر کے توقف کے بعد انابیہ نے بات کا آغاز کیا
اسد کو اس جواب کی امید نہیں تھی وہ سمجھتا تھا کہ انابیہ اس سے بھلے ہی محبّت نہیں کرتی مگر شادی سے انکار نہیں کرے گی آخر اسکے پاس انکار کا کوئی جواز ہی نہیں تھا لیکن یہاں سب اسکی سوچ کے بر عکس تھا
وہ صاف صاف انکار کر رہی تھی
اسد کا جواب نا پا کر انابیہ دوبارہ  مخاطب ہوئی آپ خاموش کیوں بیٹھے  ہیں ؟؟ آپ سن رہے ہیں نا میں کیا کہ رہی ہوں ؟؟؟ اسد نے انابیہ کی طرف دیکھا اور بولا
کیا میں انکار کی وجہ جان سکتا ہوں ؟؟ اسد کے چہرے پر دکھ نمایاں تھا انابیہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔ لیکن کیوں ؟؟؟؟ تم شادی سے انکار کا حق رکھتی ہو لیکن انکار کی وجہ جاننے کا حق مجھے بھی ہے انابیہ ۔۔۔۔
میں آپکو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں انابیہ نے بہ مشکل آنسو ضبط کرتے ہوۓ کہا وہ اتنی کڑوی باتیں کرنے کی عادی نہیں تھی لیکن آج اسے یہ سب کہنا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے جب تک تم انکار کی وجہ نہیں بتاؤ گی بات ختم نہیں ہوگی تم جا سکتی ہو جب انکار کی وجہ بتا دوگی میں خود انکار کروں گا امی سے اسد نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا ۔۔۔
اسد کو لگ رہا تھا کہ اسکا دم گھٹ جاۓ گا وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا ٹیرس کی جانب بڑھ گیا
انابیہ کی ہمّت جواب دے گئی تھی اسکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے میں کیسے انکار کی وجہ بتاؤں ؟؟؟
انابیہ نے آنسو صاف کیے اور وہ بھی اسد کے پیچھے ٹیرس کی طرف چلی گئی اسد دونوں ہاتھ ریلنگ پر رکھے انابیہ کی طرف پشت کیے کھڑا تھا ۔۔۔۔
اگر یہی بات میں آپ سے  پوچھوں تو ؟؟؟ اسد کے عقب سے انابیہ کی آواز ابھری
اسد نے پیچھے مڑ کر انابیہ کو  دیکھا۔۔۔۔۔۔
کیا مطلب ؟؟؟ اسد نے پوچھا
مطلب آپ مجھ سے ہی کیوں شادی کرنا چاھتے ہیں ؟؟؟
اسد نے رخ دوسری طرف موڑ لیا
اور لمبی سانس خارج کی۔۔۔۔ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں
اسد نے انابیہ کی طرف منہ کر کے کہا
مجھے تم سے محبّت ہو گئی ہے انابیہ میں اپنی ساری  زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ ۔۔۔
یہ سنتے ہی انابیہ کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا جسے وہ اپنا مسیحا سمجھ رہی تھی اور اسکا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی وہ تو اسکی محبّت کا دعوے دار نکلا
اب سب سمجھ آ گیا تھا اسے وہ بھی دوسروں کی طرح ایک خود غرض انسان تھا جو  ہمدردی میں نہیں بلکہ اپنی محبّت کی خاطر اس سے شادی کرنا چاہتا تھا
انابیہ کو اپنی سوچ پر دکھ ہو رہا تھا آخر اسد چچی کا ہی بیٹا تھا وہ یہ کیسے بھول سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
اس نے اسد کی طرف دیکھا جو اسکے جواب کا منتظر تھا اور بولی آپ جانتے ہیں پسّند کرنے اور محبّت میں کیا فرق ہے ؟؟؟؟
‏پسند کرنے میں اور محبت کرنے میں بہت فرق ہے اگر آپ کو کوئی پھول پسند آۓ تو آپ اسے توڑ لو گے اور محبت ہوگی تو روز اسے پانی دو گے۔۔۔۔
آپکو مجھ سے محبّت نہیں ہے آپ صرف مجھے پسّند کرتے ہیں۔۔۔
اسد کی آنکھوں میں کرب واضح دیکھا جا سکتا تھا
میں اظہار کرنا نہیں جانتا مجھے لمبے لمبے فلسفے نہیں آتے  میں نہیں جانتا کسی کو اپنی بے پناہ محبّت کا یقین کیسے دلایا جاتا ہے میں بس اتنا جانتا ہوں کہ محبّت لفظوں سے نہیں آنکھوں سے عیًاں ہوتی ہے کیا ۔۔۔۔
اسد نے بے بسی سے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ کہا
مجھے یقین دلانے کی ضرورت نہیں ہے آپکو کیوں کہ یہ محبّت آپکی ہے اور مسئلہ بھی آپکا ہے میرا نہیں۔۔۔۔ اور یہ ضروری تو نہیں کہ شادی اسی سے کی جاۓ جس سے محبّت ہو ؟؟؟ انابیہ نے سوالیہ نظروں سے اسد کو دیکھا
میں بس اتنا جانتی ہوں کہ آپ چچی کو خود انکار کریں گے میرا نام نہیں لیں گے انابیہ نے بات ختم  کرتے ہوۓ کہا اور جانے ہی لگی تھی کہ اسد کی آواز اسکے کانوں میں گونجی ۔۔۔۔۔روکو انابیہ میں متفق ہوں تمہاری بات سے سہی کہا تم نے شادی کے لیے محبّت کا ہونا ضروری نہیں ہے تمہیں مجھ سے محبّت نہیں ہے تو کیا ہوا شادی تو کر سکتی ہو نا اسد نے انابیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔۔نہیں تو مجھے انکار کی وجہ بتاؤ
بلکل ہو جاتی ہے محبّت کے بغیر شادی ۔۔۔  مگر میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی
آپ نے کبھی قفس دیکھا ہے ؟؟؟کبھی رہے ہیں اس میں ؟؟؟؟؟ انابیہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا  میں نے دیکھا ہے  کیوں کہ یہ گھر میرے لیے ایک قفس ہے اور میں اس سے آزادی چاہتی ہوں میں تو کیا بے زبان پرندے بھی قفس میں دکھی ہوتے ہیں وہ اس وقت کو یاد کر کے روتے ہیں جب وہ آزاد تھے میں تو پھر ایک انسان ہوں  لیکن میں تو برسوں سے اس قفس میں قید ہوں  ایک لمحہ بھی میں نے آزادی کو محسوس نہیں کیا اب دم گھٹتا ہے میرا یہاں ایسا لگتا ہے مزید یہاں رہوں گی تو میری  سانسیں میرا ساتھ دینے سے انکار کر دیں گی اس لیے میں اب اس قید سے آزادی چاہتی ہوں آپ سے شادی کر کے میں ہمیشہ کے لیے اس قفس میں مقید نہیں ہونا چاہتی ۔۔۔ اگر کسی سے سچی محبّت ہو تو اسے قید نہیں کرتے نا اپنے گھر میں اور نا اپنی زندگی میں اگر آپکی محبّت سچی ہے تو ثابت کریں مجھے مقید نہیں آزاد کر کے ۔۔۔۔۔۔
اسد چپ چاپ بت بنا کھڑا اسے جاتے ہوۓ دیکھتا رہا اپنی زندگی کی تلخ حقیقت وہ پل بھر میں اسے سمجھا گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

 قفسDonde viven las historias. Descúbrelo ahora