قسط نمبر 13

56 2 1
                                    

لان میں گہما گہمی تھی ۔

فضا میں ملی جلی خوشبوئیں چکرا رہی تھیں ۔
ہر کوئ  شاد و مسرور گھوم رہا تھا ۔
وسیع و عریض سر سبز لان میں مہندی کی تقریب کا انتظام کیا گیا تھا ۔
عقبی پارک کے درختوں کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا ۔
انابیہ بھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے لان میں چلی آئ جہاں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔
باٹل گرین کلر کے گھیرے دار فراک میں اسکا سراپا بہت جچ رہا تھا ۔
کانوں میں لمبے آویزے جھول رہے تھے ۔
ہلکے ہلکے میک اپ میں اسکے چہرے پر معصومیت جھلک رہی تھی ۔
دائیں کلائی میں لباس کی ہم رنگ کانچ کی چوڑیاں ڈال رکھی تھیں ۔
بلاشبہ وہ خطرناک حد تک خوبصورت لگ رہی تھی ۔
"انابیہ! یہاں آؤ بیٹا ۔"مسز ہاشم نے انابیہ کو پکارا تو انابیہ اِس طرف چلی آئ ۔
"ان سے ملو یہ شہیر کی ممی ہیں ۔"مسز ہاشم نے رمشا کی ہونے والی ساس سے انابیہ کا  تعارف کرایا ۔
"السلام علیکم !" انابیہ نے سامنے کھڑی معمر خاتون کو سلام کیا ۔
"وعلیکم السلام!" خاتون نے بہت پیار سے جواب دیا ۔
اب مسز ہاشم انابیہ کا تعارف کرا رہی تھیں اور وہ خاتون مسکرا کر کچھ کہہ رہی تھیں ۔
حدید سیاہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس آئینے کے سامنے کھڑا تھا ۔
پھر اُس نے خود پر پرفیوم کا اسپرے کیا اور چلتا ہوا بیڈ سائیڈ ٹیبل تک آیا وہاں سے اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔
******************
اسد اور صائقہ اس وقت اسٹیج پر موجود تھے اور دونوں ہی بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔
رسم ہو چکی تھی اور اب ناچ گانے کا دور چل رہا تھا ۔
سب کزنز جوڑے بنا بنا کر کسی گانے پر پرفارمنس دیتے تو باقی سب انکو خوب ہی داد دیتے ۔
انابیہ ہجوم سے ذرا ہٹ کر کھڑی خوب انجوائے کر رہی تھی ۔
حدید بھی پیچھے سے چلتا ہوا اِس تک آیا اور اسکے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا تھا ۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا اسے انابیہ سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا لیکن اب وہ ہاشم صاحب اور انکے جاننے والوں کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزار کر یہاں موجود تھا ۔
انابیہ نے چہرہ موڑ کر حدید کو دیکھا جو سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا تو وہ بھی دوبارہ سامنے دیکھنے لگی جہاں کسی گانے پر پرفارمنس جاری تھی ۔
" بہت پیاری لگ رہی ہو ۔" حدید نے نظریں سامنے جمائے کہا ۔
"جانتی ہوں ۔" انابیہ نے آہستہ آواز میں جواب دیا بظاہر تو اس نے کافی پراعتمادی سے جواب دیا تھا مگر اندر سے وہ اس تعریف پر کافی حیران ہوئی تھی اسکے لئے یہ سب کافی غیر متوقع تھا حدید کو تو اُس دن کی بات پر غصہ ہونا چاہیے تھا مگر یہ تعریف تو اسکے برعکس تھی ۔ بلکہ وہ تو کافی دنوں سے اُسکے بدلے ہوۓ رویے پر بہت حیران تھی ۔
"یہ کیسا جواب ہے ؟؟ تم کس طرح جانتی ہو یہ بات ؟؟" حدید نے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا ۔
"کیوں کہ ہر خوبصورت لڑکی جانتی ہے کہ وہ خوبصورت ہے ۔" انابیہ نے حدید کو دیکھتے ہوۓ جواب دیا ۔
"ہاہاہا! آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں نے یہ بتانے کے لئے تعریف نہیں کی کہ آپ خوبصورت ہیں بلکہ آپ کی خوبصورتی میں اضافے کے لئے کی ہے کیوں کہ میں نے سنا ہے لڑکیاں جھوٹی تعریف سن کر بھی کھل اٹھتی ہیں ۔" حدید نےپہلے قہقہ لگایا اور پھر شرارتی لہجے میں ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔
انابیہ نے ذرا کی ذرا نگاہ حدید پر ڈالی وہ حدید سے اپنے اُس دن کے رویے پر معافی مانگنا چاہتی تھی مگر اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح بات کرے لیکن حدید کے رویے سے اُسے ہمّت ملی تھی وہ خاصے اچھے موڈ میں لگ رہا تھا ۔
"مجھے اُس دن ریسٹورنٹ میں اِس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا مگر میرے سر میں بہت درد تھا جسکی وجہ سے میں اس دن جلدی گھر جانا چاہتی تھی تبھی کھانے سے منع  کیا تھا ۔ میں بہت شرمندہ ہوں ۔" انابیہ نے نظریں جھکائے تاسف کے ساتھ ساری بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی تھی اور اب وہ حدید کے جواب کی منتظر تھی ۔
"تمہیں شرمندہ ہونے کی بلکل ضرورت نہیں ہے ۔ میں نے گھر جا کر تسلی سے سوچا تو مجھے اندازہ ہوا کہ غلطی تمہاری نہیں میری تھی ۔ تمہاری جگہ اگر میں بھی ہوتا تو وہی کرتا جو تم نے کیا ۔" حدید نے نرمی سے مسکراتے ہوۓ بات کو ختم کرنا چاہا اور یہ سچ تھا کہ گھر جا کر اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اور اب وہ انابیہ سے بلکل بھی خفا نہیں تھا ۔
"آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے نا ؟؟" انابیہ نے دوبارہ سوال کیا ۔
"دیکھو جب تمہاری غلطی ہی نہیں تھی تو معافی کس بات کی ۔" حدید نے سنجیدگی سے جواب دیا تو انابیہ کو کچھ اطمینان ملا ۔
"آپ نے پھر چکر ہی نہیں لگایا یہاں کا ؟؟ بہت مصروف تھے کیا ؟؟" انابیہ کے دل کی بات زبان پر سوال بن کر آ ہی گئی تھی کیوں کہ اُس دن کے بعد ہر دن اس نے حدید کے انتظار میں گزارے تھے وہ بہت ڈر گئی تھی کہ کہیں حدید اس سے بہت ناراض تو نہیں ہو گئے ۔
"میں آنا چاہتا تھا مگر وقت ہی نہیں ملا ۔ آفس کا بہت سارا کام تھا اسی میں بزی تھا بس اور کچھ نہیں ۔" حدید نے تفصیلاً جواب دیا ۔
حدید کے جواب میں انابیہ نے محض سر اثبات میں ہلایا ۔
"مجھے اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ کوئی میرا منتظر ہے تو میں ہر کام چھوڑ کر پہلے یہاں آتا ۔ اتنا مس کرتی ہو مجھے ؟؟" حدید نے شرارتی لہجے میں سوال کیا ۔
انابیہ اس سوال پر جھینپ سی گئی ۔
"نہیں وہ گھر پر سب آپکا بار بار پوچھتے تھے اس لئے ۔" انابیہ نے حدید کو دیکھے بنا ہی کہا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ حدید مسکراتے ہوۓ اُسے ہی دیکھ رہا ہے ۔
"دادو نہیں آئیں ؟؟ کیسی تھیں وہ ؟؟" انابیہ نے یاد آتے ہی پوچھا ۔
"ٹھیک تھیں ۔ وہ کل آئیں گی آج انکی طبیعت ذرا ٹھیک نہیں تھی تو میں بھی چاہتا تھا کہ ریسٹ کریں وہ ۔" حدید نے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ سنجیدگی سے جواب دیا ۔
"کیا ہوا ہے انکی طبیعت کو ؟؟ اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں ؟؟"  انابیہ نے خفا ہوتے ہوۓ کہا ۔
"وہ کل آئیں گی انشااللہ تب تم مل لینا بلکل ٹھیک ہیں وہ ۔ میں نے ان سے ساتھ چلنے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانی میں نے یہاں سب سے یہی کہا ہے کہ انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی لئے تمہارے سامنے بھی بھول کہ یہی کہہ دیا۔" حدید نے انابیہ کی خفگی سے گھبراتے ہوۓ جلدی سے اپنی صفائی پیش کی ۔
"اوہ شکر ہے میں تو ڈر ہی گئی تھی ۔" انابیہ نے سکون کا سانس لیتے ہوۓ کہا ۔
"انابیہ!" حدید نے سنجیدہ ہو کر اسے پکارا ۔
"جی۔" انابیہ نے بے دھیانی سے جواب دیا لیکن جب حدید کچھ نا بولا تو اس نے چہرہ موڑ کر حدید کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ بھی نا سمجھی کے عالم میں حدید کو دیکھنے لگی ۔
"کچھ کہہ رہے تھے آپ ؟؟" انابیہ نے کچھ دیر حدید کے بولنے کا انتظار کیا اور پھر خود ہی بول پڑی ۔
"کچھ خاص نہیں ۔" حدید نے مختصر جواب دے کر نظریں سامنے کی طرف کر لیں ۔
انابیہ حدید کو دیکھ رہی تھی وہ ہمیشہ ہی اسے اُلجھن میں ڈال دیتا تھا ۔ مگر اب وہ خود کو یہ سب سوچنے نہیں دیتی تھی اس لئے اپنی سوچوں کو جھٹک کر وہ بھی سامنے دیکھنے لگی ۔
باقی کا سارا وقت وہ دونوں ہلکی پھلکی گفتگو کرتے رہے اور پھر جب فنکشن ختم ہوا تو حدید واپس گھر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔
یکے بعد دیگرے سارے فنکشن ہی خوش اسلوبی سے نمٹ گئے تھے ۔
اسد کے ولیمے والے دن ہاشم صاحب نے رمشا کی نسبت شہیر کے ساتھ  طے کر دی تھی جس پر رمشا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔
اس دوران حدید ہر فنکشن میں انابیہ کی تعریف کرنا نہیں بھولا تھا اس نے اپنی طرف سے انابیہ کے لئے یہ لمحے یادگار بنانے کی بہت کوشش تھی اور اپنی اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوا تھا ۔
لیکن انابیہ نے خود کو جس خول میں بند کر لیا تھا وہ اس سے باہر نہیں نکلی تھی ۔ وہ اسکی ہر بات کا اچھے سے جواب دیتی رہی تھی مگر وہ جانتا تھا وہ اب بھی وہ انابیہ نہیں تھی جیسی وہ پہلی تھی جیسا اسے ہونا چاہئے تھا ۔
مگر اسے یقین تھا وہ سب ٹھیک کر لے گا ۔
*************

Kamu telah mencapai bab terakhir yang dipublikasikan.

⏰ Terakhir diperbarui: Dec 09, 2018 ⏰

Tambahkan cerita ini ke Perpustakaan untuk mendapatkan notifikasi saat ada bab baru!

 قفسTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang