قسط نمبر 8

25 2 0
                                    

کمرے کی فضا پھولوں کی خوشبو سے بوجھل ہو رہی تھی
انابیہ گھونگٹ اوڑھے بیڈ پر بیٹھی تھی کہ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور حدید مناسب قدموں کے ساتھ چلتا بیڈ تک آیا اور بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا اُس نے ایک نظر انابیہ پر ڈالی پھر نظریں دوسری جانب پھیر لیں کچھ دیر توقف کے بعد وہ انابیہ سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں انابیہ ۔۔۔۔۔ انابیہ نے ذرا کی ذرا نگاہ اٹھا کر حدید کے چہرے کو دیکھا مگر یہاں سے وہ اسکے چہرے کا ایک ہی رخ دیکھ سکتی تھی اور گھونگٹ کے باعث چہرہ واضح دکھائی نہیں دیا تو اس نے نظریں جھکا لیں ۔۔۔۔۔۔۔  میں جو کہوں گا آپکو سن کر دکھ تو ہوگا مگر سچ جتنا بھی کڑوا سہی جھوٹ سے لاکھ درجے  بہتر ہوتا ہے جھوٹ کی مٹھاس اکثر زہر بن جاتی ہے اور سچ کا کڑوا گھونٹ ہمیشہ شفایاب کرتا ہے ۔۔۔۔
میں آپکو کسی قسم کے دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا  ۔۔۔ اس شادی کی حقیقت میرے نزدیک صرف ایک سمجھوتے کی ہے کیوں کہ میں نے یہ شادی دادو کی خوشی کے لیے کی ہے اس دنیا میں اگر کوئی ایسا انسان  ہے جو میرے برے وقت میں ہمیشہ ڈھال بن کر میرے سامنے کھڑا رہا تو وہ دادو ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی خوشی پر انکی خوشی کو فوقیت دیتا ہوں اور دیتا رہوں گا وہ میری فکر میں بیمار رہنے لگی تھیں وہ چاہتیں تھیں کہ میں شادی کر کہ ایک خوشحال زندگی گزاروں گو کہ ایسا ممکن نہیں ہے مگر انکی خواہش کا احترم کرتے ہوۓ میں نے آپ سے شادی کر لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے ایک دن سب ٹھیک ہو جاۓ ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔ اس گھر میں آپ آرام سے رہیں آپکو کسی قسم کی کوئی تنگی ہو مجھ سے بلا جھجھک کہ سکتی ہیں مگر دادو کا خیال رکھیئے گا پلیز انکو ان سب باتوں کا بلکل پتہ نا چلے ۔۔۔۔۔ آپ تھک گئی ہونگی ریسٹ کریں یہ سب کہ کر وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا انابیہ نے کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور نا ہی وہاں کوئی اسکے جواب کا منتظر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تو بے یقینی کے سمندر میں غوطہ زن تھی زندگی بار بار کیوں مذاق کر رہی تھی اسکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ وہ یقین ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ ایک بار پھر اسے آزمائشوں کے دور سے گزرنا ہوگا اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں حدید فریش ہو کر آ گیا اور ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا بال سنوار کر اسٹڈی ٹیبل سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گیا

انابیہ نے اپنا گھونگٹ اونچا کیا پھر بیڈ سے نیچے اتری وارڈروب کھول کر کپڑے نکالے اور  واش روم میں چلی گئی وہاں اس کی نظر آئینے پر پڑی تو وہ کافی دیر اس چہرے کو دیکھتی رہی جو کچھ دیر پہلے خوشی سے دمک رہا تھا مگر اب وہاں صرف اداسی تھی اسکی آنکھیں کسی خشک سمندر کی مانند لگ رہی تھی پھر وہ نل کھول کر چہرے پر ٹھنڈے پانی چھینٹے مارنے  لگی ۔۔۔۔۔۔
انابیہ واش روم سے باہر آئ تو اسکی نظر گھڑی پر گئی جہاں ایک بج رہا تھا لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر اسکا چہرہ اب پر سکون لگ رہا تھا وہ ایسی ہی تھی ٹھہرے مزاج کی حامل وقت اور حالات کے ساتھ جلدی سمجھوتہ کر لینے والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ایک 
سرسری  سی نگاہ کمرے میں دوڑائی
ہر چیز قاعدے قرینے سے سجی تھی
وہ بوجھل قدموں کے ساتھ چلتی بیڈ تک آئ تو اسکی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے فریم پر گئی جہاں حدید کی تصویر تھی اسکی نظر وہیں ٹھہر گئی ۔۔۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟؟ وہ فریم اٹھا کر بیڈ پر بیٹھ گئی
یہ تو وہی ہیں جن سے اسد کی منگنی میں ٹکرائی تھی مطلب کہ یہی حدید ہیں ؟؟؟
اوہ میرے خدایا! اب کیا ہوگا ؟؟؟
میں نے کافی برے لہجے میں بات کی تھی ۔۔۔۔۔میں کیا کرتی ؟؟ وہ بھی تو اپنی غلطی مجھ پر ڈال رہے تھے سامنے سے وہ آ رہے تھے انکو دیکھنا چاہئے تھا مگر وہ الٹا مجھے ہی سنانے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔۔ پر اب کیا ہو سکتا ہے ؟؟؟ جب وہ مجھے دیکھیں گے تو پہچان جائیں گے کیا سوچیں گے میرے بارے میں ؟؟؟ انابیہ خود ہی سوال کر رہی تھی خود ہی جواب دے رہی تھی اسکے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایاں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے فریم کو الٹا کر کے میز پر رکھ دیااورتکیہ سہی کر کے لیٹ گئی مارے خفت کے اسے تصویر سے بھی گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر انہوں نے کوئی بات کی تو میں معافی مانگ لوں گی چھت کو گھورتے ہوۓ انابیہ نے دل ہی دل میں سوچا مگر میری غلطی نہیں تھی اگلے ہی لمحے اسکے اندر سے آواز آئ ۔۔۔۔۔۔ اسکا دل کچھ اور ذہن کچھ اور بول رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟ یہ شادی انکے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔۔۔۔ تو وہ بات بھی انکے لیے کوئی معنی نا رکھتی ہو ایسا بھی تو ہو سکتا ہے
وہ خود کو تسلی دیتے ہوۓ بولی لیکن یہ بات اسے تکلیف دے گئی کہ اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے اس انسان کے سامنے جسے خدا نے اسکا شریکِ حیات  بنایا ہے ۔۔۔۔۔۔ آنسو اسکی پلکوں کو بھگونے لگے تو اس نے  آنکھیں بند کر لیں اور نیند کی آغوش میں چلی گئی

 قفسTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang