قسط نمبر 12

27 2 1
                                    


مارچ کے اوائل دن چل رہے تھے ۔
سردیاں بہار میں ڈھل چکی تھیں ۔
درختوں نے پھر سے سبز لباس پہن لیا تھا ۔  ہر سو پھول کھل رہے تھے ۔
ایسے ہی ایک دن جب شام کے دھندلے سائے پھیل رہے تھے تو حدید آفس سے تھکا ہارا گھر لوٹا مگر لاؤنج سے آنے والی آوازیں سن کر وہ لاؤنج کی طرف بڑھ گیا ۔ سامنے صوفے پر ہاشم صاحب براجمان تھے جب کہ انکی اہلیہ مسز ہاشم بی جان کے برابر بیٹھی کسی بات پر مسکرا رہی تھیں ۔
"السلام و علیکم !" حدید نے اندر داخل ہوتے ہی بلند آواز میں کہا ۔
"ارے حدید بیٹا! وعلیکم السلام !" ہاشم صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے تو حدید آگے بڑھ کر ان سے بغل گیر ہوا  اور انکے ساتھ ہی صوفے کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا ۔
" کیسے ہیں آپ سب ؟؟اور کب آئے ؟؟" حدید نے مسکراتے ہوۓ پوچھا ۔
"اللّه کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں ۔ بس ابھی آئے ہیں بیٹا تھوڑی دیر ہوئی ہے ۔" ہاشم صاحب نے جواب دیا ۔
"تم اور انابیہ تو چکر ہی نہیں لگاتے ہماری طرف ۔" مسز ہاشم حدید سے مخاطب ہوئیں ۔
" آپ کو تو پتہ ہے آفس میں کتنا کام ہوتا ہے اس لیے کہیں جانے کا وقت ہی نہیں ملتا لیکن انابیہ اور میں آپ کی طرف ضرور چکر لگائیں گے۔" حدید نے پر تکلف لہجے میں کہا تو مسز ہاشم نے مسکراتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔
اسی اثناء میں انابیہ اندر آئ تو اسکے پیچھے ملازمہ بھی لوازمات سے سجی ٹرالی گھسیٹی اندر داخل ہوئی ۔
انابیہ نےحدید کو دیکھ کر نظر انداز کر دیا اور بی جان کے دائیں طرف پڑے صوفے پر بیٹھ کر مسز ہاشم کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی ۔
جب کہ حدید ہاشم صاحب سے بات کرتے دوران بھی گاہے بگاہے انابیہ کو دیکھ رہا تھا اسے انابیہ کا رویہ عجیب سا لگا تھا وہ اتنے دنوں سے اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ اس سے بہت کھچی کھچی رہنے لگی تھی ۔
"آج ہم یہاں انابیہ کو لینے آئیں ہیں ۔" ہاشم صاحب نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ اچانک سے کہا تو حدید نے کچھ نا سمجھی کے عالم میں ہاشم صاحب کو دیکھا اور بولا ۔
"انابیہ کو ؟؟  سب خیریت تو ہے ؟؟ " حدید نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا ۔
"کیوں کہ اسد کی شادی کی تاریخ پکی ہو گئی ہے اور شادی کی تیاریوں میں انابیہ میرا ساتھ دے گی اور ساتھ ہی ساتھ ہم رمشا کی بھی منگنی کر رہے ہیں تو بہت سارا کام ہے جو ظاہر سی بات ہے میں اکیلے نہیں سنبھال سکتی اس لیے یہ ھمارے ساتھ چل رہی ہے اگر تمہاری اجازت ہو تو ۔" جواب مسز ہاشم کی طرف سے آیا تھا ۔
"ماشاءاللّه! بہت بہت مبارک ہو آپ سب کو ۔ آپ یہ خوشی کی خبر اب سنا رہی ہیں ۔" بی جان نے خوش ہوتے ہوۓ کہا تو مسز ہاشم کی توجہ بی جان کی طرف مبذول ہو گئی ۔
حدید نے سکون کا سانس لیا ورنہ اسے تو لگا تھا کہ انابیہ نے اپنے چچا چچی کو سب بتا دیا ہے اور وہ اسے لینے آئیں ہیں ۔
"بلکل کیوں نہیں انابیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ شادی کی تیاریوں میں آپکی مدد کرے ۔ اور اجازت کی کیا ضرورت ہے آپ ہی کی بیٹی ہے آپ جب چاہے اسے اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں ۔" حدید نے طمانیت بھرے لہجے میں جواب دیا ۔
"ہمیں تم سے اسی بات کی ہی امید تھی جیتے رہو بیٹا ۔" ہاشم صاحب نے خوش ہو کر حدید کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا تو اس نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا ۔
انابیہ وارڈروب کھولے کھڑی تھی اور اس میں سے اپنے کپڑے نکال نکال کر بیگ میں رکھ رہی تھی ۔
جب حدید کمرے میں داخل ہوا تو انابیہ بیگ پر جھک کر زپ بند کر رہی تھی قدموں کی چاپ پر انابیہ نے سر اٹھا کر اُسے دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
"ایک ہفتہ کچھ زیادہ نہیں ہے ؟؟" حدید نے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی انابیہ کو مخاطب کیا جو دراز کھول کر کچھ ڈھونڈ رہی تھی ۔
انابیہ نے چہرہ موڑ کر حدید کو دیکھا اور بولی ۔
"اگر آپ کو کوئی ایشو ہے تو آپ خود  بات کر لیں چچا جان سے ۔" انابیہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا ۔
"مجھے کیا ایشو ہو سکتا ہے میں تو اس لیے کہہ رہا تھا کہ ایک ہفتے تک میں اکیلا کیسے رہوں گا ۔" حدید نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ دل کی بات کر دی ۔
دراز بند کرتے انابیہ کے ہاتھ لمحے بھر کو رکے اور پھر وہ دراز بند کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اور حدید کو دیکھتے ہوۓ بولی ۔
"پچھلے ایک مہینے سے مجھے ایسے لگتا ہے جیسے اس گھر میں دادو اور میرے علاوہ کوئی نہیں رہتا ۔ آپ کے اکیلے پن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آپ میرے ساتھ رہے ہی کب ہیں جو میرے بغیر اکیلا محسوس کریں گے ۔" انابیہ اپنی بات مکمل کر کے حدید کو لا جواب چھوڑتی بیڈ کی جانب بڑھ گئی ۔
"سہی کہا تم نے ۔" حدید نے شرمندہ ہوتے ہوۓ کہا ۔
"اچھا کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو میں ایک دن آفس سے چھٹی لے کر وہاں آ جاؤں گا تب شاپنگ پر چلیں گے تمہیں جو چاہئے ہو گا لے لینا ۔" حدید نے سنجیدہ ہوتے ہوۓ کہا ۔
انابیہ کو حدید کے اس رویے سے شدید حیرت ہو رہی تھی کیوں کہ وہ حدید کے اس رویے کی عادی تھی ہی کب ۔
"مجھے زیادہ تو نہیں بس چند کچھ چیزوں کی ضرورت ہے ۔" انابیہ نے سیاہ چادر اوڑھتے ہوۓ کہا ۔
"ٹھیک ہے ۔" حدید نے دو لفظی جواب دیا ۔
انابیہ بیگ اٹھانے کے لیے آگے بڑھی ہی تھی کہ حدید نے جلدی سے آگے بڑھ کے بیگ اپنے مظبوط ہاتھوں میں اٹھا لیا ۔
"رہنے دیں میں خود اٹھا لوں گی ۔" انابیہ نے بیگ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔
"میرے ہوتے ہوۓ تمہیں اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔" حدید نے انابیہ کے بڑھے ہوۓ ہاتھ کو مظبوطی سے تھامتے ہوۓ کہا ۔
انابیہ نے گڑ بڑا کر تیزی سے اپنا ہاتھ حدید کے ہاتھ سے نکال لیا اور کمرے سے نکل کر سیڑھیاں اترنے لگی حدید بھی مسکراتے ہوۓ اسکے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اتر گیا ۔

 قفسTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang