قسط نمبر 10

25 1 0
                                    

شام کے سات بج رہے تھے ۔

انابیہ تیار ہو کر آئینے کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کا جائزہ لے رہی تھی ۔
کہ اچانک سے کمرے کا دروازہ کھلا اور حدید اندر داخل ہوا ۔
حسبِ عادت انابیہ نے سلام میں پہل کی ۔
حدید نے میکانیکی انداز میں سلام کا جواب دیا ۔
کیوں کہ اُس کی نظریں سامنے کھڑی انابیہ پر جا کے ٹھہر گئی تھیں ۔
وہ آف وائٹ کلر کے فراک میں ہم رنگ دوپٹہ شانوں پر پھیلائے کھڑی تھی ۔ لمبے سنہری بال پشت پر کھلے ہوۓ تھے ۔
کانوں میں پہنے جھمکوں کی چمک انابیہ کے روشن چہرے کے سامنے مانند پڑ رہی تھی ۔
اسکی سفید رنگت میں گلابیاں دوڑ رہی تھیں ۔
سیاہ آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی جس نے حدید کو سحر زدہ کر دیا تھا ۔
وہ یک ٹک انابیہ کو دیکھے گیا ۔
"آپ تیار ہو جائیں۔ میں دادو کو دیکھتی ہوں اگر انکو کسی چیز کی ضرورت ہے تو ۔"
انابیہ نے حدید کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرتے ہوۓ جلدی سے بات بنائی اور تیز تیز چلتی باہر نکل گئی۔
انابیہ کی آواز پر حدید بے طرح چونکا پھر سر جھٹک کر تیار ہونے چلا گیا ۔
"حدید تیار نہیں ہوا ابھی تک ۔" انابیہ بی جان کے پاس آئ تو انہوں نے استفسار کیا ۔
"ابھی آئے ہیں بس تیار ہو رہے ہیں ۔"
انابیہ نے پانی کا گلاس بی جان کو تھماتے ہوۓ جواب دیا ۔
"ارے بیٹا! میں نے کہا ہے نا کہ میں وقت پر کھا لوں گی دوائی۔ تم پریشان مت ہو ۔ تم اور حدید پہلی بار کہیں ساتھ جا رہے ہو اچھا وقت گزارنا ۔" بی جان نے گولی پانی کے ساتھ نگلتے ہوۓ کہا ۔
"ایسے کیسے فکر نا کروں ۔ آپ کا خیال رکھنا میری اولین ترجیح ہے ۔"
انابیہ نے گلاس بی جان کے ہاتھ سے لے کر واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گئی ۔
وہ بی جان کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھی جب حدید کمرے میں داخل ہوا ۔
"ماشااللّه ! میرا بیٹا کتنا پیارا لگ رہا ہے ۔ " بی جان نے حدید کو دیکھتے ہی کہا تو بلاارادہ انابیہ کی نظریں بھی حدید کی طرف اٹھ گئیں ۔
وہ نیوی بلیو تھری پیس سوٹ میں ملبوس بہت ہی شاندار لگ رہا تھا ۔
اسکی شخصیت مردانہ وجاہت اور کشش سے بھرپور تھی ۔
"پیارا کیوں نہیں لگوں گا میں تو پیدا ہی پیارا ہوا تھا ۔" حدید نے شرارتی لہجے میں جواب دیا تو بی جان نے مسکراتے ہوۓ ہلکی سی چپت حدید کے سر پر لگائی ۔
"اوکے دادو! اپنا خیال رکھیے گا ۔" حدید نے یہ کہتے ہوۓ بی جان کے ہاتھ چومے گھر سے نکلتے ہوۓ ہمیشہ سے اسکا یہی عمل رہا تھا۔
"ٹھیک ہے بیٹا خیریت سے جاؤ ۔"
بی جان نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔
"چلیں۔" حدید نے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ کہا ۔
انابیہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔
وہ دونوں آگے پیچھے چلتے کمرے سے باہر نکل گئے ۔
حدید نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور انابیہ برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی تو حدید نے گاڑی سڑک پر دوڑا دی ۔
دونوں کے درمیان مکمل خاموشی تھی ۔
چند لمحے گزرنے کے بعد انابیہ نے حدید کی طرف دیکھا تو وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا انابیہ نے نظریں پھیر لیں ۔
"یہ اتنے خاموش کیسے رہ لیتے ہیں۔
میں تو سمجھتی تھی کہ میں کم گو ہوں مگر یہ تو مجھ سے بھی زیادہ نکلے ۔" انابیہ نے دل ہی دل میں سوچا ۔
"لیکن یہ میرے ساتھ ہی ایسے ہو جاتے ہیں ۔ دادو کے ساتھ تو اچھی خاصی گفتگو کرتے ہیں ۔" انابیہ نے اپنی پہلی بات کو رد کرتے ہوۓ سوچا اور ایک نظر حدید پر ڈال کر دوسری جانب دیکھنے لگی ۔
" کیا بات ہے ؟؟ " کچھ کہنا چاہتی ہیں آپ ؟؟" حدید نے سامنے دیکھتے ہوۓ دھیمے لہجے میں پوچھا ۔
"مم ۔۔۔ میں ؟؟؟ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔" انابیہ نے بمشکل اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوۓ کہا ۔
"لیکن ایسا لگتا تو نہیں ہے آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ جھوٹ بول رہی ہیں ۔" حدید نے اب کی بار انابیہ کا چہرہ دیکھتے ہوۓ کہا ۔
"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ مجھے کچھ کہنا ہے ؟؟ " انابیہ نے حدید کو دیکھتے ہوۓ معصومیت سے پوچھا تو حدید بے اختیار مسکرا دیا ۔
حدید کے اس طرح مسکرانے پر وہ حیران ہوئی کہ اس نے تو کوئی مذاق نہیں کیا ۔
مگر جو بھی ہو اسے حدید کا مسکرانا بہت پسسند تھا ۔
"وہ اس لیے کہ آپ بار بار میری طرف دیکھ رہی تھیں جیسے آپ کو کچھ کہنا ہو ۔" حدید نے وضاحت دی ۔
"آپ مسکراتے ہوۓ بہت اچھے لگتے ہیں۔ " انابیہ جو ابھی تک حدید کی مسکراہٹ کے سحر میں گم تھی بے اختیار ہی بول اٹھی ۔
حدید نے رخ موڑ کر انابیہ کو دیکھا جو یہ بات کر کے شرمندہ ہو گئی تھی اور سر جھکا لیا تھا ۔
"آپ بھی بہت معصوم لگتی ہیں جب آپ چھپ چھپ کر مجھے دیکھتی ہیں ۔" حدید نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دباتے ہوۓ کہا ۔
انابیہ جو پہلے ہی اپنی بات پر شرمندہ تھی اس پر حدید کا یہ انکشاف بجلی کی طرح گرا ۔
"کون میں ؟؟ "میں تو نہیں دیکھتی آپ کو ۔ بھلا میں کیوں دیکھوں گی آپ خود سوچیں ۔" انابیہ نے بظاہر مظبوط مگر کمزور لہجے میں کہا ۔
"سہی کہ رہی ہیں آپ ۔ آپ مجھے نہیں دیکھتی اور بھلا دیکھیں گی بھی کیوں؟؟ " حدید نے سنجیدگی سے کہا تو انابیہ کی سانس میں سانس میں آئ ۔
"شکر ہے۔ یہ ایسے ہی بول رہے تھے بھلا انکو کیسے پتہ کہ میں انھیں دیکھتی ہوں ۔" اس نے خود کو تسلی دیتے ہوۓ سوچا ۔
"وہ تو آپ کی آنکھیں ہیں جنہیں ہمیشہ میں نے اپنی طرف دیکھتے پایا ہے ۔" حدید نے آرام سے انابیہ کے سر پر بم پھوڑا ۔
اب کی بار تو انابیہ کی ہمّت ہی نہیں ہوئی کچھ بولنے کی وہ خاموش بیٹھی رہی ۔
اسے حدید کی تعریف کرنا بہت مہنگا پڑا تھا ۔
باقی کا راستہ خاموشی سے کٹ گیا۔

 قفسDonde viven las historias. Descúbrelo ahora