قسط نمبر 7

23 3 0
                                    

کمرے کی کھڑکیاں کھلی تھیں  اور ان سے پردے ہٹے ہوۓ تھے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کمرے میں داخل ہو رہے تھے جس سے کمرے کا ماحول خاصا خوشگوار ہو رہا تھا بیڈ سے تھوڑے فاصلے پر جاۓ نماز بچھائے انابیہ مغرب کی نماز پڑھ کر اب دعا مانگ رہی تھی کہ اچانک دروازے پر ہلکی ہلکی دستک سنائی دی آجائیں انابیہ نے  دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرتے ہوۓ کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی ہاشم صاحب کمرے میں داخل ہوۓ تو انابیہ ہاتھ میں جاۓ نماز لیے سامنے کھڑی تھی

آپ چچا جان؟؟؟ انابیہ نے مسکراتے ہوۓ کہا جی میں ہوں بیٹا جی ۔۔۔ہاشم صاحب اب چل کر بیڈ کے ایک کنارے پر بیٹھ گئے اور بولے ایسے کھڑی کیوں ہو بیٹا ؟؟ آؤ یہاں بیٹھ جاؤ انابیہ نے جاۓ نماز میز پر رکھی اور انکے ساتھ آ کے بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔
ہاشم صاحب کچھ دیر توقف کے بعد بولے
دیکھو بیٹا ماں باپ کی جو کمی ہوتی ہے نا وہ دنیا کی کوئی ہستی پوری نہیں کر سکتی جو خلا ماں باپ چھوڑ جاتے ہیں اسے کوئی پورا نہیں کر سکتا قدرت کے فیصلوں پر کس کا بس چلتا ہے ؟؟
وہ جب چاہتا ہے جسے چاہتا ہے اپنے پاس بلا لیتا ہے آخر کو ہم اسی کے بندے جو ہیں اور اسی کے پاس ہی لوٹ کر جائیں گے
میں تمہیں یہاں اپنی بیٹی بنا کر لایا تھا تمہیں زندگی کی ہر خوشی دینے کے لیے مگر تم نے سب سے برے دن بھی اسی گھر میں گزارے میں بہت شرمندہ ہوں تم سے اپنے مرحوم بھائی سے میں اسکی پھول جیسی بچی کی کانٹوں سے حفاظت نہیں کر سکا ایسا مت کہیں چچا جان انابیہ نے بھرائ ہوئی آنکھوں سے کہا
نہیں بیٹا آج کہ لینے دو تم نے تو کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا مگر تمہاری آنکھوں کی نمی سب بیان  کر دیتی تھی آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں جب دل غمگین ہوتا ہے نا تو سوگواریت آنکھوں میں ڈیرے ڈال لیتی ہے میں سب جانتے ہوۓ بھی کچھ نہیں کر پاتا تھا
ایک آنسو ٹوٹ کر انابیہ کی گود میں جا گرا اور اسکی ہچکی بند گئی ۔۔۔
نہیں بیٹا ایسے نہیں روتے ہاشم صاحب نے انابیہ کو چپ کراتے ہوۓ کہا روتے تو وہ ہیں جو مشکلات سے ڈرتے ہیں مگر جو لوگ مشکلات سے لڑتے ہیں انھیں پھر رونا نہیں آتا بس مشکلات کو مات دینا آتا ہے اب وہ انابیہ کے آنسو صاف کر رہے تھے مگر آنسو تھے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے
میں تو یہاں بہت ہی ضروری بات کرنے آیا تھا اپنی بیٹی کو رلانے نہیں ہاشم صاحب نے انابیہ کو دیکھتے ہوۓ کہا تو اس نے سر اٹھا کر ہاشم صاحب کو دیکھا اور بولی مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے چچا جان آپ کے بغیر تو میری زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں وہ آپ ہی تو ہیں جنہوں نے مجھے جینا سکھایا میرے سر پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا آپ نا ہوتے تو میں آج کہاں ہوتی ؟؟ مجھے اس گھر میں کسی سے کوئی گلہ نہیں جو ہوا سب بھول چکی ہوں اور اب آپ بھی خود کو کوسنا چھوڑ دیں آپ ہی تو ہیں جس میں مجھے اپنے بابا کا چہرہ دکھائی دیتا ہے آپ میرے بابا کی پر چھائی ہیں اور میرے لیے دنیا کی اس تپتی دھوپ میں چھاوُں
انابیہ کے آنسووُں میں اب روانی آ چکی تھی اور وہ ہچکیوں کے درمیان رو رہی تھی ہاشم صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے گلے سے لگا لیا
ارے وہ بات تو پھر بیچ میں رہ گئی ہاشم صاحب نے کہا تو انابیہ آنسو صاف کرتی انکی طرف دیکھتے ہوۓ بولی چچا جان کیا بات ہے جو آپ کرنا چاھتے ہیں ؟؟
بیٹا بہت ہی ضروری بات ہے
آپ تو جانتی ہی ہیں کہ بی جان نے اپنے پوتے کے لیے آپکا ہاتھ مانگا ہے میں نے کب سے ان سے سوچنے کا وقت لے رکھا ہے  دیکھو بیٹا حدید بہت ہی اچھا لڑکا ہے بہت ہی شریف النفس انسان ہے پچھلے تین سالوں سے وہ ھمارے ساتھ کام کر رہا ہے اس سے پہلے اسکے والد صاحب حیات تھے تو وہ ڈیل کرتے تھے مگر انکی وفات کے بعد سے ہر ڈیل حدید ہی کرتا ہے میں نے اس میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی ہر انسان اسے پسسند کرتا ہے کیوں کہ وہ سب سے بہت ہی مہذب طریقے سے پیش آتا ہے چاہے وہ پھر ملازم ہی کیوں نا ہوں ہر دوسرا بندا اسکی تعریف کرتے نظر آتا ہے مجھے تو بہت خوشی ہے تمہارے لیے اتنے قابل انسان کا رشتہ آیا آخر میری بیٹی بھی لاکھوں میں ایک ہے انابیہ سر  جھکائےسب کچھ خاموشی سے سن رہی تھی
تمہاری چچی کو بھی رشتہ بہت پسسند ہے اور مجھے بھی بلکہ اسد بھی کہ رہا تھا کہ انابیہ کے لیے حدید سے بہتر انسان کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا لیکن بیٹا آخری فیصلہ تو تمہارا ہی ہوگا آخر کو زندگی تو تم نے گزارنی ہے تمہیں اپنے شریک حیات کے انتخاب کا پورا پورا حق ہے تم چاہو تو وقت لے لو اور سوچ کر جواب دینا مگر ایک بات یاد رکھنا بیٹا فیصلہ اپنے دل سے کرنا تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے تم آزاد ہو اپنے ہر فیصلے میں اور ہم سب بھی تمہاری خوشی میں خوش ہیں اگر چاہو تو ہم حدید کو کھانے پر بلا لیں گے تم بات کرنا چاہو اس سے تو وہ بھی ہو جاۓ گا ہاشم صاحب نے اپنی رائے دیتے ہوۓ کہا تو انابیہ جو اب تک خاموش تھی ہاشم صاحب سے مخاطب ہوئی
چچا جان آپ کا ہر فیصلہ میرے لیے قابلِ احترم ہے آپ میرے بابا کی جگہ ہیں جو فیصلہ آپ کا ہوگا وہی میرا ہوگا مجھے آپ سب کی پسسند پر پورا اعتماد ہے آپ نے میرے لیے یقیناً کسی بہترین انسان کا انتخاب ہی کیا ہوگا
ہاشم صاحب انابیہ کا جواب سن کے کھل کر مسکرا اٹھے اور بولے  میری سعادت مند بیٹی مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے لیکن بیٹا اگر تم ایک بار حدید سے ملنا چاہو تو ہمیں کوئی اعترض نہیں ہاشم صاحب نے خوش دلی سے مسکراتے ہوۓ کہا
نہیں چچا جان میں ایسا کچھ نہیں چاہتی اتنا کہ کر انابیہ نے سر جھکا لیا شرم سے اسکے گلابی  گال اور بھی گلابی ہو گئے تھے مگر اس گلابی رنگ میں حیا کا رنگ بھی شامل تھا
ہاشم صاحب اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اٹھے اور بولے میں نیچے سب کو یہ خوشی کی خبر سناتا ہوں اور کمرے سے باہر چلے گئے ۔۔۔۔
ہاشم صاحب نے بی جان کو کال  کر کے اپنی طرف سے رضا مندی ظاہر کر دی تھی اور بی جان تو جیسے خوشی سے نہال ہی ہو گئی تھی اور انہوں نے شادی کی تاریخ بھی ایک ہفتے بعد کی کہ دی ہاشم صاحب کو کیا اعترض ہو سکتا تھا انہوں نے بھی خوشی خوشی حامی بھر لی
گھر میں کافی چہل پہل تھی انابیہ کی بات پکی کی مٹھائی بھی پورے خاندان میں تقسیم ہو چکی تھی بی جان بھی دو بار گھر پر آ چکی تھیں اور باقاعدہ طور پر منگنی کی رسم بھی کر چکی تھیں مگر وہ الگ بات ہے کہ حدید اس رسم میں شامل نہیں تھا  اور اب نکاح میں صرف دو دن باقی تھے انابیہ کو تو  مسز ہاشم کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھی ۔۔۔
آج شام میں ہاشم صاحب نے گھر پر مہندی کا فنکشن رکھا تھا اور اس فنکشن میں عزیز و اقارب کو  مدعو کیا تھا
انابیہ لڑکیوں کے جھرمٹ میں پیلا جوڑا پہنے بنا میک اپ کے چہرے لیے بیٹھی تھی ایک لڑکی اسے مہندی لگا رہی تھی اور  باقی لڑکیاں ڈھولکی بجا کر گانے گا رہی تھیں خوب ہلا گلا ہو رہا تھا رمشا بھی ان میں شامل تھی 
مسز ہاشم اور ہاشم صاحب مہمان نوازی میں مصروف تھے۔۔۔۔۔
مہندی کی رسموں کے بعد فنکشن اپنے اختتام کو پہنچ گیا تو سب مہمان رخصت ہو گئے
رات کے تین بج رہے تھے سب فنکشن سے تھک ہار کر اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تھے جب کہ انابیہ خدا کے حضور سجدہ ریز تھی جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ تو آنکھوں سے  آنسو بہنے لگے اور وہ اٹک اٹک کر  اللّه سے باتیں کرنے لگی
"اللّه پاک! آج آپ نے مجھے میری حثیت سے زیادہ نواز دیا ہے میں ہمیشہ آپ سے اپنے دکھوں کا گلہ کرتی تھی مگر میں یہ بھول گئی تھی کہ میرا رب برداشت سے زیادہ مشکلات نہیں دیتا اور مشکل حالات میں اپنے بندے کو اکیلا نہیں چھوڑتا" یہ تو ہم انسان ہوتے ہیں جو دنیاوی زندگی میں کھو کر اپنے حقیقی خالق کو بھول جاتے ہیں مگر میرا رب "تو بڑا مہربان ہے تیری ذات ہر شے پر قادر ہے" اس مختصر سے وقت میں جو محبّت سب گھر والوں سے مجھے ملی ہے اس نے میرے تمام پچھلے زخم بھر دیے ہیں یہ خوشی کے تھوڑے سے لمحے میرے دکھوں کے ہزار لمحوں پر بھاری ہیں میرا دامن ان خوبصورت لمحوں کو سمیٹنے کے لیے نا کافی ہو رہا ہے میں تیری رحمت کی بارش میں بھیگ رہی ہوں جس سے میرے دل کی زمین نکھر گئی ہے میں کن الفاظ میں تیرا شکر ادا کروں میرے رب "بیشک تو بڑا ہی کارساز ہے"
اور اسی طرح رب سے باتیں کرتے کرتے نجانے کب اسکی آنکھ لگ گئی ۔۔۔۔
پھر نکاح کا دن آن پہنچا ۔۔۔۔
وہ مکمل تیار آئینے کے سامنے کھڑی تھی اسکن کلر کے غرارہ شرٹ میں اسکا نازک سراپا بہت جچ رہا تھا سونے کے سیٹ کا نازک سا گلوبند اسکی اٹھی ہوئی گردن کی زینت بنا ہوا تھا اور سونے کے لمبے آویزے اسکے کانوں میں جھول رہے تھے نفاست سے کیے گئے میک اپ نے اسکی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا تھا اور لمبے بالوں کا ایک زبردست جوڑا بنا ہوا تھا مہندی رنگے ہاتھوں میں سکن کلر کی چوڑیاں تھیں وہ بلا شبہ بیحد خوبصورت اور دلکش نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اور اب وہ مسز ہاشم اور رمشا کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر ہال کی جانب روانہ ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
ہال مہمانوں سے بھرا تھا ہاشم صاحب اور اسد انتظامات کی دیکھ بھال میں لگے تھے جب کہ مسز ہاشم دلہن بنی انابیہ کو برائیڈل روم میں بیٹھا کر رمشا اور صائقہ کو اسکے پاس بیٹھنے کی تلقین کر کے اب مہمانوں کو ریسیو کر رہی تھیں
برات مقررہ وقت پر ہال میں پہنچ گئی حدید آف وائٹ شلوار قمیض اور سیاہ ویسٹ کوٹ میں ملبوس اپنی شاندار پرسنلیٹی کے ساتھ چند دوستوں کے ہمراہ چلتا ہوا اسٹیج پر پہنچ کر بیٹھ گیا اور بی جان مسز ہاشم سے ملنے ملانے کے بعد اب سب مہمانوں سے دعا سلام کر رہی تھیں
-------------------------
"انابیہ صفدر بنت محمّد صفدر ملک آپکو حدید سکندر ولد محمّد سکندر قریشی بعوض حق مہر پچیس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے نکاح میں دیا جاتا ہے ۔
کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے"۔ قاضی صاحب اس سے مخاطب تھے۔
انابیہ کپکپاتی آواز میں بولی" جی قبول ہے" ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ہی آنسو کسی ریلے کی صورت میں اسکی آنکھوں سے بہ نکلے تھے۔ قاضی صاحب نے یہی سوال دو بار پھر سے دہرایا اور اس نے بہتے آنسووُں کے ساتھ "قبول ہے" کا عندیہ دے دیا تھا
ہاشم صاحب نے نکاح کا رجسٹر اسکے سامنے کر کے اسے پین تھمایا اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ دستخط کیے ہاشم صاحب نے نم آنکھوں کے ساتھ اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور قاضی صاحب اور گواہان کے ہمراہ چلے گئے
انکے جاتے ہی انابیہ مسز ہاشم کے گلے لگ کر رونے لگی ایک روایتی سا منظر بن گیا تھا چھوٹے سے برائیڈل روم میں موجود سبھی عورتوں کی آنکھیں نم تھیں تبھی بی جان نے آگے بڑھ کر مسز ہاشم کو تسلی دی کچھ دیر تک رونے کا یہ سلسلہ چلتا رہا پھر رمشا اور صائقہ انابیہ کو چپ کرانے لگیں
پھر اسد نے آ کر نکاح مکمل ہونے کی اطلاع دی تو مبارکباد کی آوازیں گونج اٹھیں ۔۔۔۔۔
مسز ہاشم نے روایت کے مطابق سرخ رنگ کا ایک زرتار دوپٹہ انابیہ کو گھونگٹ کی طرح اوڑھا دیا اور پھر انابیہ کو ہال میں لایا گیا رمشا اور صائقہ انابیہ کے دائیں بائیں تھیں جب کہ باقی لڑکیاں بھی ساتھ ساتھ تھیں اور اسے اسٹیج پر بٹھا دیا گیا حدید نے شہد رنگ آنکھوں سے گھونگٹ میں چھپے انابیہ کے چہرے کی طرف دیکھا مگر گھونگٹ کے باعث چہرہ چھپا ہوا تھا حدید نے چہرے کا رخ موڑ لیا اسٹیج کے قریب خاصا رش لگ چکا تھا ارے دلہن کا چہرہ تو دکھائیں مجمعے سے ایک نسوانی آواز ابھری
ہمارا خاندانی رواج ہے کہ دلہن گھونگٹ میں ہی رخصت ہوتی ہے اس لیے معذرت کے ساتھ کہ گھونگٹ رخصتی سے پہلے نہیں اٹھے گا مسز ہاشم نے سب کو تفصیلاً چہرہ نا دکھانے کی وجہ بتائی تو بی جان بول اٹھیں کوئی بات نہیں ہے جسے چہرہ دیکھنا ہو وہ کل ولیمے پر دیکھ لےگا پھر ضروری رسموں کے بعد رخصتی کا وقت آ گیا انابیہ سب سے ملی اور دعاوُں کے سائےاور آنسووُں کے ساتھ رخصت ہو گئی اس نے اپنی اگلی زندگی میں قدم رکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

 قفسWhere stories live. Discover now