Third Episode

254 14 3
                                        

#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#تیسری_قسط

وہ ابھی باتوں میں ہی مگن تھیں کہ کوئی اچانک ابریش کی کرسی سے ٹکرایا اور سوری کہتا ہوا بنا مڑے تیزی سے چلتا ان کی ٹیبل سے دور چلا گیا

جب کے ابریش ایک دم ساکت ہوگئی تھی جیسے وہ سانس بھی لے گی تو....
" رمشہ ابریش کا ہاتھ " کھانا بھول کر الماس ایک دم پوری جان سے چیخی تھی
رمشہ جس کی نظریں اس شخص کا پیچھا کررہی تھیں فوراً ابریش کی طرف متوجہ ہوئی

اور اسنے دیکھا ابریش کے ہاتھ کی آستین خون سے لال ہوتی جا رہی ہے اور ابریش.....
ابریش ساکت ہے ..... کسی بت کی طرح .....

" ابریش... ابریش یہ کیا ہوا ہے اچانک_ " الماس کی آواز پہ وہ جیسے کسی ٹرانس سے جاگی تھی اور فوراً ابریش کی طرف بڑھی

" مجھے نہیں پتہ کیا ہوا ہے بس مجھے تکلیف ہورہی ہے_ " ابریش نے اپنے بازو کو دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا ، زرا سا ہلنے سے بھی ہاتھ میں شدید تکلیف ہورہی تھی
اس کا بازو کَٹا تھا جیسے کسی نے تیز دھار آلے سے کاٹا ہو
" یار یہ ہوا کیسے ایک دم ، ابھی تو سب ٹھیک تھا ، ابریش یہاں بیٹھی کھانا کھا رہی تھی اور پِھر وہ .... _ " اور الماس اپنا جملہ مکمل کرتے ٹھٹک کر رکی

" ہاں ... پِھر وہ بندہ اِس سے ٹکرایا ... اور ... اور وہ اس سے غلطی سے نہیں ٹکرایا تھا رمشہ . . . . " الماس کے کہتے ہی رمشہ نے فوراً اس سمت دیکھا جہاں سے اسنے اُس شخص کو جاتے دیکھا تھا لیکن وہاں اب کوئی نہیں تھا... اسکا چہرہ ہڈ سے ڈھکے ہونے کے باعث وہ اسے دیکھ نہیں سکی تھی

فوڈ کورٹ میں بیٹھے سب لوگ اپنی باتیں بھول کر ان تینوں کی طرف ہی متوجہ تھے ، لیکن کوئی جانتے بوجھتے بھی اس شخص کے پیچھے نہیں گیا تھا ( عجیب لوگ ہیں ) الماس صرف غصے سے سوچ کر رہ گئی . . .

جب کہ تبھی سامنے کی ٹیبل سے ایک شخص اٹھا اور انکی ٹیبل تک آیا
" سب ٹھیک ہے ؟ کیا ہوا ہے _ " اس شخص نے ابریش کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جسکی آنکھیں نم تھی اور ناک رونے کی وجہ سے لال تھی۔۔۔۔۔ اسے اس طرح بیٹھی وہ پیاری اور معصوم سی لڑکی بہت پیاری لگی تھی

" پتہ نہیں کیا ہوا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا اس کا ہاتھ شاید کسی چھری وغیرہ سے کٹا ہے_ " رمشہ نے پریشانی سے آنے والے شخص کو بتایا

" میں ڈاکٹر ہوں ، اگر آپکی اِجازَت ہو تو میں آپکا زخم دیکھ سکتا ہو ؟" اس شخص نے ابریش سے اِجازَت مانگی
تو ابریش محض ہاں میں سَر ہلا کے رہ گئی ، وہ اور کہہ بھی کیا سکتی تھی کوئی اور وقت ہوتا تو وہ کسی مرد کو خود کو ہاتھ بھی لگانے نا دیتی مگر اِس وقت مجبوری تھی

رمشہ نے ابریش کے پاس سے اَٹھ کر اس شخص کو بیٹھنے کی جگہ دی تو وہ ابریش کے برابر چیئر پہ بیٹھ گیا اور اُس کا زخم چیک کرنے لگا ، اس کے بیٹھتے ہی اس کے پرفیوم کی خوشبو ابریش کے آس پاس پھیل گئی تھی لیکن اِس وقت اسے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا نہ سامنے بیٹھا وہ شخص نہ اسکی یہاں موجودگی ...

" زخم زیادہ گہرا نہیں ہے ، کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائےگا ، وہاں میری ٹیبل پر میرا بیگ پڑا ہے اگر آپ مجھے لا دیں میں بینڈیج کر دیتا ہو _ " اسنے ابریش کا ہاتھ تھامے پریشان کھڑی الماس سے کہا تو وہ اس کا بیگ لینے چلی گئی
جب کہ رمشہ ابریش کے چہرے پہ تکلیف کے آثار دیکھتی اس کا ہاتھ تھپ تھپانے لگی 
" یہ میرا کارڈ ہے کوئی ضرورت ہو تو مجھے کانٹیکٹ کر سکتے ہیں آپ لوگ_ " رمشہ نے اس کے ہاتھ سے کارڈ تھاما اور نام پڑھا
* ڈاکٹر شہریار حسن *

*Hubun* (On Pause)Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz