#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#تیرھویں_قسطبڑے معصوم جذبوں سے
وہ اپنے شوخ ہاتھوں پر، وفا کی سرخ مہندی سے
اسی کا نام لکھتی ہےجسے وہ پیار کرتی ہے
مگر وہ ناسمجھ لڑکی ابھی تک یہ نہیں سمجھی
سپنے ٹوٹ جائیں تو، بہت برباد کرتے ہیں
یہ اجلے رنگ ہاتھوں پر، کبھی ٹہرا نہیں کرتے
محبت تو حقیقت ہے، کوئی سپنا نہیں ہوتا
کسی کا نام لکھنے سے، کوئی اپنا نہیں ہوتا* * * * * * * *
عجیب سے احساس سے وہ سوتے سوتے چونک کر اٹھی تھی
عجیب خواب دیکھا تھا اسنے کہ وہ سمندر کے کنارے پر بیٹھی ہے . . . سمندر، بَادَل، چاند، ہوا . . سب اس سے بات کررہے ہیں . . . .
" عجیب ہے . . . پتہ نہیں کیسے کیسے خواب آرہے ہیں مجھے آج کل . . . _ " وہ سَر جھٹکتی ہاتھوں کی مدد سے اٹھ کر بیٹھنے لگی کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی سے اچانک اٹھنے والی درد کی ٹیسوں نے اسے یاد دلایا کہ اس کا ہاتھ زخمی ہے
اپنا ہاتھ دیکھتے وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی وہ گھر میں اکیلی تھی ماما پاپا گروسری اسٹور گئے ہوئے تھے اور امان یونیورسٹی . . .
صالحہ بیگم اس کے لیے پریشان تھیں اسے چھوڑ کر جانا نہیں چاہ رہی تھیں مگر ابریش نے انھیں زبردستی بھیج دیا کہ انکا تھوڑا دھیان بٹ جائے گا
ان کے جانے کے بعد تو وہ سو گئی تھی اسلئے اسے زیادہ انکی کمی محسوس نہیں ہوئی مگر اب اسے گھبراہٹ ہورہی تھی . . . عجیب سی بے چینی تھی جیسے۔
جیسے کوئی مستقل اسے دیکھ رہا ہو . . . جیسے کچھ آنکھوں نے مستقل اس پر پہرہ دیا ہوا ہو۔ یہ بات سوچنے میں بھی بہت خوفناک تھی ، مگر سچ تھی
اسنے اپنی بے چینی سے گھبرا کر جھٹکے سے گردن گھمائی اور اپنے کمرے کے چاروں طرف دیکھا . . . بظاہر تو کوئی نہیں تھا مگر ابھی بھی اسے محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اس پر نظریں جمائے ہوئے ہے
شاید اسکی آنکھ بھی اِس احساس کے تحت ہی کھلی تھی . . .
وہ بیڈ سے اٹھی اور جا کر اپنے کمرے کے ساتھ بنے ٹیرِس کی کھڑکی کا پردہ ہٹادیا مگر سامنے کا منظر دیکھ کر بے ساختہ اسکے حلق سے چیخ بلند ہوئی جسے فوراً اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسنے دبا دیا
اس کے ٹیرِس کے فرش پر 6،7 کبوتر خون میں لت پت ترتیب سے مرے پڑے تھے ، جیسے کسی نے انھیں مار کر ترتیب سے رکھ دیا ہو
اسنے گھبرا کر پردہ واپس برابر کیا اور دِل پر ہاتھ رکھتے لمبے لمبے سانس لیتی اپنے بیڈ پر بیٹھی اور خود کو پرسکون کرنے لگی
" شاید فلاپپی نے مارے ہو_ " . . . وہ خود کو پرسکون کرتی سوچنے لگی . . . مگر دِل ماننے کو تیار نہیں تھا
تو اللہ کا نام لیتی اٹھی اور اپنے کمرے کے کونے پر بنے فلاپی کے بیڈ کے پاس گئی تو فلاپپی وہاں سکون سے سو رہی تھی اور وہ بالکل صاف ستھری تھی مطلب اگر فلاپپی نے کبوتر مارے ہوتے تو ضرور اس پر بھی کبوتروں کا خون ہوتا . . . . مگر وہ بالکل صاف تھی . . ." یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے . . _ " اپنا سَر پکڑتی وہ پِھر سے بیڈ پر بیٹھی زندگی میں آج پہلی بار اسے اپنے گھر میں اکیلے ہونے پر ڈر لگ رہا تھا . .
وہ ابھی انہی سوچو میں گھم بیٹھی تھی کہ اس کے موبائل کی بیل بجی جس پر وہ ایک دم چونکی پِھر سَر جھٹکتے موبائل پکڑا اور جلدی سے کال اٹھالی
" ہیلو_ " آواز میں کپکپاہٹ واضع تھی
" السلام و علیکم "
" واعلیکم سلام ، شہریار_ " وہ آواز پہچان گئی
" کیسی ہو ؟ ہاتھ کیسا . . . _ "
" میں ٹھیک نہیں ہوں شہریار_ " وہ جملہ پورا کرتا اس سے پہلے ہی وہ جلدی سے بولی
" کیوں کیا ہوا ؟ سب ٹھیک ہے ؟ _ " کال کی دوسری طرف وہ پریشان ہو گیا تھا
"میں گھر میں اکیلی ہوں اور مجھے عجیب سا فیل ہو رہا ہے جیسے . . . جیسے مجھے مستقل کوئی دیکھ رہا ہو . . . اور میری بالکونی میں بھی بہت سارے کبوتر مرے پڑے ہیں . . . اُف شہریار مجھے بہَت ڈر لگ رہا ہے _ " جھنجھلاتے ہوئے اسنے اپنا سر تھام لیا
" کام ڈاؤن ابریش . . . ہو سکتا ہے تمہارا وہم . . _ " اسنے اسے مطمئن کرنا چاہا جب کہ وہ خود پریشان ہو چکا تھا لیکن اسنے پھر سے شہریار کی بات کاٹی اور تیزی سے بولی
" نہیں میرا وہم نہیں ہے شہریار میں جھوٹ نہیں بول رہی ، مجھے واقعی ایسا لگ رہا ہے جیسے مجھے دیکھ رہا ہے کوئی اور میرے ٹیرِس پر جو کبوتر . . . _ " آگے اس سے کہا نہیں گیا تو بےبسی سے دوبارہ اپنا سَر تھام گئی
" اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے ، تُم ایک کام کرو تُم الماس یا رمشہ میں سے کسی کے گھر چلی جاؤ_ "
" میں نہیں جا سکتی الماس اپنی نانی کے گھر پر ہے اور رمشہ کی کزن کی شادی ہے _ " وہ رُو دینے کو تھی
" تو پِھر اب کیا کریں ؟ . . . رکو سوچنے دو کچھ_ " وہ سوچنے لگا تھا کہ موبائل کی دوسری جانب سے اس نے اسے پکارا " آپ آجائیں یہاں _ "
" میں ؟ _ " شہریار کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہے
" جی آپ آجائیں یہاں اور مجھے اپنے ساتھ باہر لے جائیں کہیں اور تب تک کے لیے باہر گھماتے رہے جب تک ماما پاپا گھر نا آجائیں . . کیوں کے میں یہاں نہیں رہ سکتی اکیلی_ " وہ خود ہی سب پلان کرتی بول رہی تھی
" مگر . . . _ " اور کال کی دوسری طرف اسکی بات سنتے شہریار کنفیوز ہو گیا تھا
" مگر وگر کچھ نہیں . . . آپ آرہے ہیں یا نہیں ؟ _ " اسنے حتمی لہجے میں پوچھا تو شہریار کے پاس کوئی اوپشن نا رہا
" ٹھیک ہے آتا ہوں _ " اسنے کال کاٹی اور مسکرایا . . . کام تو اسے آج بہَت تھے مگر ابریش نے حکم دیا تھا تو.... شہریار حسن کیسے ٹال سکتا تھا ؟
وہ کوٹ کے بٹن بند کرتا جلدی سے اپنی کرسی سے اٹھا اور ٹیبل سے گاڑی کی چابیاں اٹھاتے اپنے آفس سے باہر نکل گیا
دوسری طرف ابریش قدرے پرسکون سی اللہ کا نام لیتی اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے بال بنانے لگی جو کہ سونے کی وجہ سے چڑیوں کے گھونسلے کا منظر پیش کر رہے تھے

YOU ARE READING
*Hubun* (On Pause)
General FictionInstead Of A Man Of Peace And Love . . I Become A Man Of Violence And Revenge...... "HUBUN" (love)