#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#چوتھی_قسطصالحہ اور ذوالفقار صاحب بہت پریشان تھے انہوں نے اتنے دن اسے بیڈ سے ہلنے بھی نہیں دیا اور پِھر اسے بخار بھی تھا تو اسلئے اب 4 دن بَعْد وہ یونیورسٹی جارہی تھی، وہ سب پولیس میں رپورٹ درج کروانا چاہتے تھے مگر اس نے سب کو روک دیا وہ ایسے کسی مسئلے میں نہیں پڑنا چاہتی تھی، گھر میں کوئی اسے گاڑی بھی چلانے نہیں دے رہا تھا اسلئے آج الماس نے اسے گھر سے پک کیا تھا
" یار آج اتنے دن بَعْد گھر سے نکلی ہوں کَون بندہ تھا جس نے ہاتھ تو کاٹا ہی اوپر سے مجھ سے میری آزادی بھی چِھین لی_ " پچھلی سیٹ پر وہ بیزار سی نیم دراز تھی
" چھوڑو یہ سب ، یہ بتاؤ اب ہاتھ کیسا ہے؟ ڈاکٹر شہریار نے جو میڈیسن دی تھیں وہ لگائیں ؟ _ " رمشہ كو اس پر مکمل شک تھا
"ہاں لگائی تھی، لگانی ہی تھی اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا میرے پاس ، اب کافی بہتر ہے تبھی یونیورسٹی آنے کی اجازت بھی مل گئی_ "
" واہ بھئی یہ ڈاکٹر شہریار تو بڑے کام کے بندے ہیں ، کیوں ابریش" گاڑی چلاتے ہوئے الماس نے اسے چھیڑا
" کیا مطلب ہے ، وہ ڈاکٹر ہے تو ظاہر ہے سہی میڈیسن ہی دیں گے اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بہت قابل ہیں " ابریش كو پتہ نہیں کیوں اس کا نام سن کر غصہ آگیا
" اَچّھا نہ لڑ کیوں رہی ہو ، مذاق کررہی تھی_ " الماس نے موڑ کاٹتے اسے ٹھنڈا کیا وہ جانتی تھی ابریش گھر میں رہتے رہتے بیزار ہوگئی ہے اس لئے چڑچڑی ہورہی تھی
" ہاں یار سوری ، مجھے پتہ نہیں کیوں غصہ آگیا ہے " اسنے شرمندہ ہوتے معذرت کی تو اسکے سوری کہنے پر رمشہ نے پیچھے مڑ کر اسکی تھپڑوں سے تواضع کی* * * * * * *
" ہیلو "
وہ جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئی، سامنے ہی کرسی پر بیٹھے زریاب نے اسے مخاطب کیا جس پر وہ خاصی نروس ہوگئی، وہ یہاں کیا کررہا تھا؟
"ہائے، آپ یہاں کیسے ؟ " اس نے تذبذب میں پوچھا کیوں کہ آج سے پہلے وہ اِس کلاس میں نظر نہیں آیا تھا
" میری کلاس ہے یہ اور اس وقت تو یہیں ہونا چائیے نہ مجھے_ " اس نے ابریش كو گھڑی میں ٹائم دکھاتے ہوئے جواب دیا
" نہیں ایکچولی آپ كو یہاں دیکھا نہیں پہلے اس لیے_ "
"ہاں میں چھٹیوں پر تھا کل سے ہی جوائن کیا ہے " زریاب نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے جواب دیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اسکی نظر ابریش کے بازو پر پڑی تو چونک گیا اور آنکھوں میں چمک نظر آنے لگی
" یہ آپ کے ہاتھ کو کیا ہوا_ " اسنے شیفون کی آستین پہنی ہوئی تھیں تو اسلئے اس کا بینڈیج والا ہاتھ صاف دکھائی دے رہا تھا
" یہ ... بس کچھ نہیں ایسے ہی ہاتھ کٹ گیا تھا . . . " وہ جو اسکی آنکھوں کی نہ سمجھ میں آنے والی چمک دیکھ رہی تھی ، کچھ ٹھیک طرح سے کہہ نہیں پائی ویسی بھی شاید اتنی وضاحت کافی تھی
" اَچّھا ، گٹ ویل سون_ " اسنے بھی زیادہ نہیں پوچھا اور چیئر پر بیٹھ گیا تو اسنے سکون کا سانس لیا اور اسے شکریہ کہتی اپنی کرسی پر بیٹھی الماس رمشہ کا انتظار کرنے لگی جو ہمیشہ کی طرح کینٹین کے بہانے کہیں اڑتی پھر رہی تھیں

VOCÊ ESTÁ LENDO
*Hubun* (On Pause)
Ficção GeralInstead Of A Man Of Peace And Love . . I Become A Man Of Violence And Revenge...... "HUBUN" (love)