وہ آئنے کے سامنے کھڑی اپنا سکارف درست کرتی پرس اٹھاتی اور اپنے گرد بڑی سی چادر لپیٹ تی باہر کو لپکی۔۔"تائی امی صارم بھائی کہاں ہیں?جب اسے صارم کہیں نہیں ملا تو کچن مے تائی امی سے پوچھا۔۔۔
"ہاں اسے ضروری کام سے جانا تھا کہ رہا تھا تمھ بتادوں۔کیوں تمنے کہیں جانا تھا کیا۔۔"انہونے سرسری سا پوچھا۔۔۔
"مجال ہے جو صارم بھائی کبھی گھر مے مل جایں۔"اسنے جلے بھنے انداز مے کہا۔
"تم رکو میں ابھی صارم کی خبر لیتی ہوں۔۔"یہ کہتیں وہ صحن تک ای اور صارم کو فون ملانے لگی۔۔پھر اس سے بات کر کے اریبہ کی طرف گھومی۔۔"بیٹا صارم تو بہت دور ہے فلحال۔۔۔میراب بھی گاڑی لے گئی ہے۔جانا ضروری ہے کیا?"تائی امی نے پریشانی سے پوچھا۔۔
"جی ضروری تو تھا مجھے کچھ نوٹس چاہیے تھے دوست سے خیر۔۔"وہ برے دل سے اپنے کمرے مے جانے کے لئے مڑی۔۔جبھی پیچھے سے عمیر کی آواز سنائی دی۔۔۔
"کیا ہوا چچی کوئی مسلہ ہے?"اسکی بات پر تائی امی نے خوشگوار حیرت کے ساتھ اسے اندر بلایا۔۔"تم اس وقت۔آؤ اندر۔۔"
"جی بس وہ صارم نے کہا کے اریبہ کو کہیں جانا ہے تو چھوڑدوں مے اصل مے پاس میں ہی تھا۔۔"اسنے بالوں مے ہاتھ پھرتے ہوئے کہا۔۔
اریبہ جو فورن اسکی پیشکش کی نفی کرنے والی تھی کے تائی کی بات پر یک دم خاموش ہوگئی۔۔۔
"جاؤ بیٹا شاباش۔۔"انکی بات پر وو انکار نا کرسکی۔۔عمیر نے باہر نکل کر گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا۔۔
"آپ رہنے دیں میں آٹو میں چلی جاؤنگی۔"اسنے عام سے انداز مے کہا۔۔
"اچھا?آٹو والے پر بھروسہ کر سکتی ہو مگر مجھ پے نہیں؟اندر بیٹھو اور مجھے اڈریسس بتاؤ۔۔"اسنے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ تے ہوئے کہا۔۔۔اسے نا چاہتے ہوئے بھی بیٹھنا ہی پڑا ۔۔آدھا راستہ دونو کے درمیان خاموشی سے گزرا جبھی اس خاموشی کو عمیر نے توڑا ۔۔۔"تم نے کہا تھا کے تم مجھے معاف کر چکی ہو۔۔مگر مجھے نہیں لگتا کیوں کے اگر ایسا ہوتا تو تم مجھ سے یوں نا کتراتی۔"وہ جسکی نگاہیں سفر کے شروع سے باہر جمی تھیں اسکی بات پر اسکی طرف دیکھا۔۔"معاف کر کے دل بڑا ہونے کا ثبوت دے چکی ہوں۔۔دوبارہ بھروسہ کر کے بیوقوفی کا نہیں دینا چاہتی۔۔"اسنے انتہائی روکھے لہجے مے کہا۔۔عمیر نے افسوس سے اسے دیکھا۔۔۔"اتنا ہی ڈر تھا تو منع کردینا تھا نا چاچی کو۔۔حامی کیوں بھری۔۔"اسکا لہجہ بھی اب سخت ہوچکا تھا۔۔۔
"میں نہیں ڈرتی کسی سے۔۔جس ذات نے پہلے میری حفاظت کی تھی کیا وہ اب نہیں کرسکتی۔۔۔وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرنے والوں کو رسوا نہیں ہونے دیتا ۔۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کے بیخوفی سے بولی۔۔یہ وہ آنکھیں تو نا تھیں جو کچھ عرصہ پہلے ڈر کے مارے بھیگی ہوئی تھیں۔۔۔عمیر زیادہ دیر تک انمے نہیں دیکھ سکتا تھا اتنا تو تے تھا۔۔فورن نگاہیں سامنے سڑک پر مرکوز کرلیں۔۔۔
"تم خود اعتماد ہوتی جارہی ہو۔۔گڈ۔ویسے بھی مجھے ڈرپوک لڑکیاں نہیں پسند۔"اسکا لہجہ اب ہلکا پھلکا ہوچکا تھا۔۔۔
"کتنی خوش فہمیاں ہیں آپکو۔۔میں نے خود کو آپ کو پسند انے کے لئے نہیں بدلہ ہے۔۔۔۔"اسنے چڑ کر کہا۔۔
"بھی تم اسے خوشفہمی کہتی ہو تو ٹھیک ہے مگر یہ حقیقت ہے۔۔۔لڑکیاں میری نظروں میں اچھا لگنے کے لئے خود کو بدلتی ہیں طرح طرح سے۔۔"اسنے فخر سے کہا۔۔۔اسکی بات پر پر اریبہ نے افسوس سے اسے دیکھا گو کے اسکی عقل پر ماتم کیا ہو۔۔
"کبھی فرصت نکل کر اپنی خشفہمیوں پر نظرے ثانی کرےگا بہت مہلک مرض ہے یہ۔۔۔"اسنے پھر سے کھڑکی سے باہر نظریں کرلی جیسے اب دوبارہ وو اسے ڈسٹرب نا کرے۔۔۔"مہلک مرض میں تو میں اب بھی ہوں۔۔"اسکی بات پر اریبہ نے چونک کر اسے دیکھا۔۔"آپکو کیا ہوا ہے آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے؟"اسکے لہجے کی سختی ہوا ہوچکی تھی۔۔اب اریبہ جیسی رحم دل لڑکی اپنے سامنے کسی مریض کو دیکھ اور اسکی عیادت نا کرے یہ تو اسکی طبیعت پر گراں ہے۔۔
"ہاں۔۔ڈاکٹر کو دکھایا ہے وہ ایک پیاری سی زندگی حرام کرنے والی کی کمی بتاتے ہیں۔"عمیر نے اپنی مسکراہٹ دبای اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ کہا۔۔اریبہ نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔۔"اس دنیا میں کچھ لوگ ہیں جو لاعلاج ہیں۔آپ ان میں پہلے نمبر پر ہیں۔۔"اسنے جل کر کہا۔۔
"اہوں غلط دوسرے پر کیوں کے پہلے پر تمہارا کزن صارم ہے۔۔"اریبہ نے غصے سے اسے گھورا تو اسنے ایک ہاتھ اٹھا کر گویا صلح کرنا چاہی۔۔"ایم سوری۔۔تمہارے سامنے صارم کی برائی کرنا مطلب بین کے اگے بھینس بجانے جیسا ہے۔۔"اسکی آخری بات پر اریبہ کھلکھلا کے ہنسی۔۔۔"آپ تو بدل گئے مگر آپکے الٹے محاورے بولنے کی عادت ووہیں ہے۔۔۔"اسنے بمشکل اپنی ہنسی قابو کی۔۔
"عمیر کی زندگی میں محاورے بھی اسکی مرضی کے ہوتے ہیں۔۔"اسنے بےنیازی سے کہا۔۔۔اریبہ جواب دئے بنا پھر سے باہر دیکھنے مے مصروف ہوگئی۔۔اسکا موڈ اچھا ہوچکا تھا یہی بہت تھا عمیر کے باقی سفر خوشگوار گزرنے کے لئے۔۔
********
اریبہ کو واپس لانے کے بعد عمیر اسے اپنے گھر لے گیا تھا۔۔جو اب رمشا اور صائمہ بیگم سے باتوں مے۔مصروف تھی۔۔"تمنے تو شکل گم کرلی ہے اپنی۔۔۔عمیر کو کتنی بار کہا ہے کے یونی سے واپسی پر تمہے لیتا ہوا اے مگر وہ تو خود اب زیادہ نہیں جاتا تملوگ کے یہاں۔۔۔"صائمہ بیگم شکایتیں کھول کے بیٹھ گئیں ۔۔
"امی آپ بات کرلیں چاچی سے۔۔اریبہ آج رات یہیں رہیگی کل سنڈے ہے ہم جاگ کے پارٹی کرینگے ٹھیک۔۔"رمشا نے جوش سے بتایا۔۔انکے اسرار پر اریبہ منع نہیں کرسکی۔۔۔
*******
"دوپہر سے گئی ہر اریبہ مگر گھر مے کتنا سناٹا ہوگیا ہے۔۔۔ان محترمہ کو تو ہمارے پاس فرصت ہی نہیں بیٹھنے کی۔۔۔یہ ہوں اور انکا موبائل ہو بس۔۔"اماں نے اڑے ہاتھوں میراب کو لیا۔۔
"ماما آپ تو چار گھنٹے میں اسے مس کرنے لگ گئی ہیں شادی کے بعد جب اریبہ دوسرے گھر چلی جاےگی تب کیا ہوگا اپکا۔"میراب نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
"کیا پتا دوسرے گھر جانے کی نوبت ہی نا اے۔۔اسے صرف ایک کمرے سے دوسرے کمرے شفٹ ہونا پڑے۔۔"اسکے برابر مے بیٹھے صارم نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
"کیا کہا تمنے؟زور سے بولنا۔۔"میراب کے ایک دم بولنے پر سب نے ان دونوں کی طرف دیکھا۔۔
"کیا؟"صارم گھبرایا۔
"ابھی تم کہ رہے تھے نا ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک۔؟میراب نے اسے پھنسانے مے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔
"لگتا ہے تم غیر ضروری باتیں بھی سن رہی ہو۔۔خیر ہے اس عمر مے ہوتا رہتا ہے ایسا۔۔"اسکی بات پر میراب نے اسکے سامنے چھری لہری گوکے اسے خبردار کیا ہو۔۔
"اچھا نا تم تو دہشت گردی پر اتر اتی ہو۔۔"صارم نے فورن ہی دوسری کرسی سمبھال لی اسکے برابر مے بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔۔۔سب انکی نوک۔جھوک سے محظوظ کھانے مے مصروف ہوگے۔۔
******
" امی اریبہ کہاں ہے۔"عمیر نے دوپہر کے وقت گھر مے داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
"وو اور رمشا کچن مے ہیں۔۔۔کھانے کی تیاری میں۔۔"
"اسکو بولیں یہ سب چھوڑے اور فٹافٹ تیار ہو صارم نے سختی سے کہا ہے کے دوپہر کے کھانے سے پہلے اسے چھوڑدوں۔۔اس سے زیادہ اس گھر میں کسی۔کو اسکی کمی برداشت نہیں ہے۔۔"
"میں نے بات کرلی ہے ہم سب جارہے ہیں شام کو۔۔بھابھی بہت اسرار کر رہی تھیں ڈنر کا تو منے منع نہیں کیا۔۔"امی کی بات پر وو سر ہلاتا صوفے پے لیٹنے والے انداز میں ڈھے گیا۔۔
"ویسے اریبہ کسی لگتی ہے تمہے"امی نے احتیاط سے پوچھا۔۔
"ہوں اچھی ہے۔۔"اسنے آنکھوں پر سے بازو ہٹایے بنا کہا۔۔
"نہیں مطلب اس گھر کی بہو بن نے کے لئے کسی ہے۔۔"امی کی بات پر وہ کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔۔"یہ خیال نکال دیں امی۔۔میں میراب کو پسند کرتا ہوں۔۔اسکی بہن کے بارے مے کیسے سوچ سکتا ہوں"اسنے قطعی انداز مے امی کو فیصلہ سنایا۔۔
"میراب کہاں سے بیچ مے آگئی۔۔"انکو حیرت ہوئی۔۔
"وہ بیچ میں ہی تھی۔ہم دونوں پسند کرتے ہیں ایک دوسرے کو۔۔۔میں آپکو بتانے والا تھا مگر اپنے خود یہ بات نکالی ہے تو اب میرا فیصلہ بھی سنلیں۔"
"کب سے چل رہا ہے یہ سب۔۔"انہونے سختی سے پوچھا۔۔
"یونی لائف سے۔"جواب ڈھٹائی سے آیا۔۔
"تم اسے پسند نہیں کرتے عمیر۔"امی نے اسکے چہرے پر غور کرتے ہوئے کہا۔۔
"اور آپ اتنے یقین سے کیسے کہ سکتی ہیں"عمیر نے چیلنجنگ انداز میں کہا۔۔
"تم جسے پسند کا نام دے رہے ہو وو محض ایک وقتی دلچسپی ہے جو وقت کے ساتھ ختم ہوجاےگی مگر اسکے ساتھ زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔۔"
"امی پلز میں میراب سے وعدہ کر چکا ہوں کے آپکو۔لے کے آونگا۔۔مے اسے دھوکہ نہیں دےسکتا اور یہ بات آپ سمجھ لیں۔۔مے مزید اس بارے میں نہیں پڑنا چاہتا۔۔۔"وو بیزاری سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔"بیٹھو یہاں۔آج پوری بات کر کے ہی تمھ چورنگی۔"انکا لہجہ اتنا سخت تھا کے عمیر کو مجبورن بیٹھنا پڑا ۔۔۔۔"تم جس طرح کے ہوچکے ہو اریبہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے میراب تمہارے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر پاۓ گی۔"
"اسے کرنا پڑیگا۔"اسنے بےنیازی سے شانے اچکے۔۔
"۔چلو مان لیا کے وو ایڈجسٹ کرلیگی مگر کیا تم رہ لوگے اریبہ کے بغیر؟جب کے تم محبت کرتے ہو اس سے۔"جو راز آج تک اسنے خود سے چھپایا تھا امی نے کتنی آسانی سے کہ دیا تھا۔۔۔وہ سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ انکی طرف جھکا۔۔۔"اپنی پسند کو میری محبت بنا کے پیش کیا کریں امی۔۔"ان آنکھوں میں ہر وقت اسی دلکشی ہوتی تھی جس پر ہر کوئی جان دیدے مگر انہی آنکھوں میں غصّے کے وقت اسی سرخی اتر اتی جو بڑے چھوٹے کا ہر لحاظ بھلا دیتی تھی ہر کوئی اسکی ان آنکھوں سے ڈرتا تھا۔۔۔"تم میری نظروں کو نہیں جھٹلا سکتے عمیر۔۔۔اور کل کی ہی بات ہے کھانے کی میز پر تمہارے نگاہیں بھٹک بھٹک کے اسکے چہرے پر جارہی تھیں یا اب مے یہ سمجھوں کے میرا بیٹا ہر لڑکی کو اس طرح تارتا ہے۔"..
"آپکو غلط فہمی ہوئی ہے امی۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔"اسکی بات بے وزن ہوتی جارہی تھی۔۔
"ہاں ٹھیک ہے اب تم یوں کہوگے کے غلط فہمی ایک سال پہلے بھی ہوئی تھی جب ہسپتال میں دوایوں اور انجکشن کے زیراثر تم گنودگی کی حالت میں بھی اریبہ کا نام لے رہے تھے؟یا پھر یہ کہ دو کے میری عمر کی وجہ سے میراب کی جگا اریبہ کا نام سنلیہ میں نے"۔۔اسنے بے یقینی سے امی کو دیکھا جو ایک سال پہلے سے یہ بات جانتی تھیں۔۔۔انہونے اسکو لاجواب کردیا تھا۔۔اسنے گہری سانس خارج کر کے سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا۔۔۔امی اسکے جواب کا انتظار کرنے لگیں۔۔شاید کے وو اب نیا بہانہ سوچ رہا تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد وو آنکھیں کھول کے سیدھا ہوا انگلیاں اپس مے باہم ملاہے سنجیدہ نظر انے لگا۔۔ وہ گویا جواب ڈھونڈ چکا تھا۔۔
"میں میراب کو دھوکہ نہیں دےسکتا۔۔"
"مجھے اس موں پھٹ لڑکی سے کچھ غرض نہیں مجھے صرف اپنے بیٹے کی خوشیوں سے مطلب ہے۔۔اور مجھے نہیں لگتا کے میراب کی خوشیوں کے لئے تم۔یہ قربانی دے رہے ہو۔۔کچھ اور بات ہے۔۔"امی نے اسے جانچتے ہوئے کہا۔۔
"ہاں ایک بڑی وجہ صارم بھی ہے۔۔"انہونے حیرانی سے اسے دیکھا کے صارم۔ان سب مے کہاں سے آگیا۔۔
"یہ جانتے ہوئے بھی کے اریبہ صارم کی محبت ہے میں اسے اپنانے کا کیسے سوچوں؟آپ جانتی ہیں صارم میرے لئے کیا ہے وہ اریبہ کے بغیر ایک پل نہیں گزر سکتا اور مے اسکے ساتھ زندگی گزرنے کے خواب دیکھوں؟نہیں امی مے اتنا خودغرض نہیں ہوں۔۔صارم اس سے بچپن سے محبت کرتا ہے اور مجھ پر تو یہ انکشاف ہی آج بلکے ابھی ہوا ہے کے مجھے اس سے محبت ہے۔۔میں اپنے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے اتنے خوبصورت رشتے نہیں کھو سکتا۔۔کیسے ملاونگا ساری زندگی میراب اور صارم سے نظریں؟اسکی محبت کا اندازہ ہوتے ہوئے بھی میں یہ قدم اٹھا لوں۔۔دوستی قربانی مانگتی ہے اور مجھ میں اتنا ظرف تو ہے کے میں صارم کے لئے یہ کر سکوں۔۔۔صارم مجھے اریبہ سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔۔میں اسکی بے اعتباری برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔"وو اپنی بات مکمل کر کے امی کو یونہی ساکت چھوڑ کر اٹھ گیا۔۔وو جانتا تھا کے امی اب اس موضو پر اتنی جلدی بات نہیں کرینگی۔۔۔جبھی امی کے الفاظ سے اسکے قدم زنجیر ہوئے۔۔
"عمیر خودغرض تھا اور ہے۔۔تم اپنی پسند کی چیز پانے کے لئے کسی کو بھی چھوڑ سکتے ہو عمیر۔۔اتنا تو ماں ہونے کے ناتے میں تمھ جانتی ہوں۔۔۔"یہ کہتی وہ کچن کی طرف بڑھ گیں اور عمیر اپنی جگہ رہ گیا۔۔۔
YOU ARE READING
محبت آخری خواب از قلم ماہ نور ✔Completed
Romanceالسلام و علیکم۔۔۔یہ میرا پہلا ناول ہے تو اسمے غلطیوں کی بیحد گنجایش ہے۔۔۔۔یہ کہانی ہے محبّت کی دوستی کی کچھ شرارتوں کی۔۔اور کچھ جنون کی۔۔ ایک ہے عمیر جسکی زندگی کے ایک حادثے نے اسے بدل کر رکھدیا۔۔ ایک ہے میراب جسکے نخروں سے سب واقف ہیں۔۔ ایک ہے اریب...