last episode

2.7K 132 103
                                    

میراب نے اریبہ کا میکپ ٹھیک کیا اور اسے اپنے کمرے میں پلنگ پر بٹھا دیا۔
"تم بیٹھو عمیر بس آتا ہی ہوگا" وہ یہ کہ کر جانے کے لئے مڑی۔
"آپ تھوڑی دیر اور رک جایں نا" اسنے گھبراتے ہوئے کہا۔
"ڈونٹ ٹیل می کے تمہے اپنے شوہر سے بات کرنے میں بھی ڈر لگ رہا ہے۔۔بچپنا چھوڑ دو اب۔۔میں تو جارہی ہوں بائے اینڈ انجوئی" میراب نے اسے شرارت سے اسے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
"ایک تو یہ صارم کا بچہ اتنے کام چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں بھاگ گیا ہے اوپر سے فون بھی بند جارہا ہے" میراب نے یہ کہتے ہوئے اپنا بجتا ہوا فون اٹھایا۔
"ہیلو؟" سامنے والے کی بات پر میراب کے تاثرات بدلے۔
"وہ بچ تو گیا ہے نا؟" میراب نے بمشکل الفاظ ادا کیے۔
سامنے کی گئی بات پر میراب کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر گرا اور وہ خود بھی گرتی ہی چلی گئی۔
"آپی کیا ہوا ہے کون ہے فون پر؟" اریبہ گھوٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھ گئی۔۔اتنے میں عمیر بھی کمرے میں داخل ہوا اور میراب کو اس طرح بے حال دیکھا تو پریشانی کے عالم میں اسکی طرف آیا۔
"اسے کیا ہوا ہے؟" اسنے اریبہ سے پوچھا۔۔وہ جو اسکی ایک جھلک دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا مگر وہ اسی حالت میں اسکے سامنے آئ تھی کے وہ نظر بھر کر اسے دیکھ بھی نہیں سکا تھا۔۔
"پتا نہیں،کسی کا فون آیا تھا۔کچھ بتا بھی نہیں رہی ہیں مجھے"
"بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے" عمیر نے اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔
میراب نے اپنا بھیگا ہوا چہرہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
وہ کہہ رہے ہیں صارم کا ایکسیڈنٹ"اس نے اتنا ہی کہا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگی۔
"آپی آپ لوگ کیوں مذاق کر رہے ہیں آج تو میرا برتھ ڈے بھی نہیں ہے جو آپ لوگ مجھے نیچے لانے کے لئے بہانے بنائے۔آپ اتنے اچھے موقع پر بے ہودہ مذاق کیوں کر رہی ہیں" اریبہ نے غصے سے کہا۔
"میں تمہیں پاگل لگتی ہو جو ایسا مذاق کرو گی" میراب نے چیختے ہوئے کہا۔
"کونسے ہوسپٹل میں ہے وہ ابھی۔جس نمبر سے فون آیا ہے دوبارہ فون کرکے کہو،فورن ٹریٹمنٹ شروع کریں میں اور ابو ابھی پوھنچ رہے ہیں"وہ جلدی میں کھڑا ہوا۔
میراب نے اسے ہاتھ پکڑ کر روکا۔
"کوئی فائدہ نہیں ہے وہ چلا گیا ہے ہمیں چھوڑ کر"
اس نے زور سے عمیر کو کھینچ کر اپنے سامنے بٹھایا اور اس کا گریبان پکڑا۔
"تمہاری وجہ سے گیا ہے ہمارا صارم۔تم نے مارا ہے اسے"وہ زور زور سے عمیر کے سینے پر مار رہی تھی اور وہ بے حس و حرکت اس کے سامنے بیٹھا تھا۔۔
"اریبہ کے بغیر صارم کچھ نہیں ہے"صارم کی آوازیں میراب کے کانوں میں گونجنے لگیں۔اسکی گرفت ڈھیلی ہوئی۔
"صرف سانسیں چلنے کا نام زندگی نہیں ہوتا" اسنے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھلیا۔
"میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔میں مر جاؤنگا"
"کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا"
"مگر میں مر جاؤنگا"
"پلز صارم چپ ہوجاؤ"اسنے چیختے ہوئے کہا۔۔عمیر نے اسے خود سے لگایا۔
"ہماری وجہ سے گیا ہے وہ۔۔میں نے کی تھی زبردستی اسکے ساتھ۔ہم دونوں نے مل کر مارا ہے اسے۔۔
ڈاکٹر کا فون تھا وہ کہ رہے تھے وہ اسے نہیں بچا سکے۔میرا دوست مجھسے دور ہوگیا عمیر کچھ کرو گھر میں کوئی یہ بات برداشت نہیں کر سکےگا۔اسے کسی بھی طرح واپس لے آؤ" اسکی اب ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔
"نہیں اسے کچھ نہیں ہوا ہوگا۔۔۔تمنے کچھ غلط سنلیا ہوگا۔میں ابھی پتہ کرواتا ہوں۔۔وہ ایسے کیسے بنا بتایے جاسکتا ہے۔۔۔تم سمبھالو خود کو اور اسے بھی" عمیر نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اریبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو سن سی بیڈ کے پاس پڑی تھی۔۔۔اسکی آنکھوں میں عجیب وحشت تھی جسے عمیر زیادہ دیر تک دیکھ نہیں سکتا تھا۔فورن دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔بظاہر تو وجہ ایکسیڈنٹ تھی مگر اس کمرے میں موجود صرف دو لوگ جانتے تھے کے وہ کس وجہ سے انسے روٹھ کر گیا ہے۔
اریبہ کو اپنے اس پاس دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔اسے تو آج اپنی زندگی مکمل لگنے لگی تھی پھر آج اسکی زندگی کا اتنا بڑا حصہ کیسے چھن گیا تھا۔
                              ********
خوشیوں والے گھر میں اب صف ماتم بچھ چکی تھی۔۔
آمین ہاؤس میں تو جیسے سب نے مسکراہٹوں کو خود پر حرام کر لیا تھا۔۔ارمینہ تائی اپنے جوان بیٹے کی موت پر سارا سارا دن کمرے میں بند رہتی۔۔
امین صاحب بھی بظاہر تو خود کو مضبوط دکھاتے مگر وہ بھی اندر سے بری طرح ٹوٹ چکے تھے۔۔۔اریبہ بھی گھنٹوں صارم کی دی ہوئی چیزوں کو دیکھتی رہتی اور آنسو بہاتی رہتی۔۔۔سب گھر میں موجود ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے لاتعلق ہوگئے تھے۔۔میراب بھی کب یونی سے آتی کب کھانا کھا کے سو جاتی۔۔۔اور اپنے باقی کام بھی کمرے میں ہی نپٹا لیتی کسی کو پتہ نہ چلتا۔۔کیونکہ ان سب کو جوڑ کر رکھنے والا اس گھر میں رونق بکھیرنے والا منوں مٹی تلے ہمیشہ کے لئے سورہا تھا۔۔
اس گھر کے درودیوار خاموشی اور سناٹے کے باعث ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے۔۔
                                  *******
وہ اپنی اور صارم کی پکچرز دیکھ رہی تھی۔۔روز رات کو سونے سے پہلے وہ پرانی یادوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو مزید تکلیف دیتی۔وہ یہ سب اسلئے کرتی کے وہ ایک دن بھی اسے بھول نا پاے۔بچپن کی ایک تصویر میں صارم اسکے بال کھینچ رہا تھا۔
"اہ صارم میرے بال چھوڑو"
"نہیں چھوڑونگا۔۔۔تمہارے اتنے لمبے بال ہیں اور میرے اتنے سے۔۔۔مجھے تمہارے بال چاہیے"
"بدھو تم لڑکے ہو اور لڑکوں کے بال چھوٹے ہی ہوتے ہیں"
"اچھا مجھے تھوڑی دیر اپنے بالوں سے کھیلنے دیا کرو۔۔میرے پاس تمہارے جیسے بال نہیں ہیں نا" اس بچے نے ڈھیروں معصومیت اپنے چہرے میں سموتے ہوئے کہا۔۔
میراب پرانی یادوں کو یاد کر کے نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔
"صارم تم ایک بار واپس آجاؤ۔۔دیکھو اب تو میں تمسے شادی کرنے کے لئے بھی تیار ہوں۔۔۔میں تمہاری کسی بات کا انکار نہیں کرونگی۔۔۔تمسے لڑونگی بھی نہیں۔۔پھر اسکے بعد تم گھنٹوں میرے بالوں سے کھیلنا میں اپنی جگہ سے ہلونگی تک نہیں۔۔۔۔۔تم اریبہ کو چاہتے تھے نا میں اس جیسی ہی بن جاؤنگی بلکے اس سے زیادہ خوش رکھونگی تمہے۔۔۔میں جانتی ہوں تم مجھسے ناراض ہو جبھی واپس نہیں آتے۔۔۔۔۔تمہے کسی کے آنسو کیوں نظر نہیں آتے۔۔۔تایا تائی کی آنکھیں سوجھ چکی ہیں تمہارے غم میں۔۔تمہے ان پر ذرا سا بھی رحم نہیں آتا؟تم کتنے سنگدل ہو صارم۔"اریبہ کمرے میں داخل ہوئی تو اسے روتا ہوا پایا۔۔۔چپ چاپ اپنی کتابیں لے کر بیٹھ گئی۔۔۔سب کو ایک دوسرے کو اس طرح دیکھنے کی عادت پڑ چکی تھی۔۔۔وہ خود صدمے سے باہر نہیں ای تھی اسے کیا تسلی دیتی۔
                                 **********
"یار بھائی میں کیسا لگ رہا ہوں؟کوئی ایک اد تو اپنا نمبر دے ہی دیگی نا"صارم تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا۔۔۔اسنے اپنا کوٹ درست کرتے ہوے عمیر سے پوچھا۔
" یہ یونی ڈنر ہے تو اپنے ولیمے کی طرح کیوں تیار ہوکر آیا ہے؟"
"یار تو ہر بات میں میری شادی کو مت بیچ میں لے آیا کر۔۔مجھے شرم آتی ہے"صارم نے چہرہ ہاتھوں میں دیتے ہوئے شرما کر کہا۔
" تیرا کوئی حل نہیں ہے"عمیر نے افسوس سے کہا۔
"اور تجھے کیا لگتا ہے میں اپنے ولیمے پے یہ سستا سا سوٹ پہنونگا۔۔۔دنیا دیکھیگی جب میں دولہا بنوںگا تو"اسنے اترا کر کہا۔
"محنت دلہن پر کی جاتی ہے۔۔کیوں کے دنیا دولہے سے زیادہ دلہن کو دیکھتی ہے۔۔۔دولہا بیچارہ تو سائیڈ پر نظر بھی نہیں آتا" عمیر نے اسکا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
"میری والی پر ویسے بھی محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔وہ تو اپنی سادگی میں بھی میرے دل کے تار بجا جاتی ہے"صارم نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہلکا سا گرتے ہوئے کہا۔..
" فلحال تو تو اندر چل اسکے خواب بعد میں دیکھنا"وہ اسے گھسیٹ تا ہوا اندر لے گیا۔
عمیر کی آنکھوں میں اندھیرے کے بادل لہراہے۔۔ماضی کی یادیں ہر روز فلم کی طرح اسکے سامنے چلتی تھیں۔۔۔وہ شیشے کے سامنے کھڑا اپنا عکس دیکھ رہا تھا۔
"تونے تو مجھے خود سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔۔۔میں جب بھی خود کو دیکھتا ہوں مجھے اپنے اندر ایک خود غرض شخص دکھائی دیتا ہے۔۔۔نفرت ہوتی ہے مجھے خود سے۔۔۔تو ایک بار تو بتاتا کے اسکے بنا نہیں رہ سکتا۔۔۔اپنی ضد چھوڑ دیتا پر تجھے تو نا کھوتا۔۔۔میں ہمیشہ سے سمجھتا تھا کے کسی کو پالینا جیت ہوتی ہے۔۔مگر میں تو اسے حاصل کر کے بھی ہار گیا۔۔۔ایک سال پہلے بھی میں اپنی نظروں میں گر گیا تھا اور آج پھر سے۔۔تو اپنی محبت کی سچائی اور شدت سب کے سامنے کھول کر چلا گیا۔
روز میرے اندر کوئی چیخ چیخ کر کہتا ہے کے جاؤ لے جاؤ اریبہ کو مگر صارم سے زیادہ محبت تم اسے کبھی نہیں دے سکوگے۔۔گزار لو اسکے ساتھ زندگی مگر تم کبھی خوش نہیں رہ سکوگے۔۔۔تم ہمیشہ اس سے کم ہی رہوگے" وہ آنکھوں میں ویرانی لئے اپنے سنگدل عکس کو دیکھ رہا تھا۔
"تو مجھے یہاں اکیلا کیوں چھوڑ گیا۔۔ہم دونوں تو جان تھے ایک دوسرے کی۔۔۔تو مجھسے پہلے کیوں مجھے تڑپتا چھوڑ گیا۔۔۔موت کے موں سے تو دو بار میں بچ کر آیا تھا پہلے تو مجھے جانا تھا۔۔۔تونے تو اپنے لئے دعا مانگنے کا بھی موقع نا دیا۔۔۔تو اپنے ساتھ ساتھ میری زندگی کے سب سے حسین دن بھی لے گیا۔میں جب بھی اریبہ کو دیکھتا ہوں مجھے اسمیں تیری صورت دکھتی ہے۔۔میں دو منٹ سے زیادہ اب اس سے بات بھی نہیں کرسکتا۔۔نا وہ مجھسے کرتی ہے۔۔۔تو سب کو جلتا ہوا چھوڑ گیا ہے۔"
وہ اپنی نم آنکھیں صاف کرتا وہاں سے چلا گیا۔۔اسکے لئے اس سے زیادہ دیر خود کو دیکھنا مزید اذیت سے دوچار ہونے کے مترادف تھا۔۔۔
                                    ******
دادی کو دوائی دے کر اریبہ جانے کے لئے مڑی مگر انکے روکنے پر انکے پاس ہی بیٹھ گئی۔
"ہم بوڑھے لوگوں کے پاس تو اب کوئی بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتا" دادی نے تاسف سے کہا۔
"ایسی بات نہیں ہے دادی۔بس اب کسی سے بات کرنے کا دل نہیں چاہتا" اریبہ نے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"بیٹا اللّه کی چیز تھی اسنے واپس لیلی۔۔وقت تو میرا تھا جانے کا۔۔اس عمر میں اللّه نے جواں پوتے کی موت دکھا دی"اسنے کرب سے دادی کو دیکھا۔
"پلز دادی مرنے کی باتیں نا کریں۔۔۔اب اگر کوئی مجھسے دور ہوا تو میں برداشت نہیں کرسکونگی"اسنے دادی کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
انہونے اسکے سر پر پیار کیا۔
" میں منحوس ہوں نا دادی؟"اسکی بات پر انہونے تڑپ کر اسے دیکھا۔
"آپکو یاد ہے دادی۔۔میری پیدائش کے دن دادا کا انتقال ہوگیا تھا؟بچپن میں آپی سے میری لڑائی ہوتی تھی تو وہ کہتی تھی کے تم منحوس ہو۔۔۔تمہارے آتے ہی ہمارے دادا چلے گئے۔۔۔اس وقت میں بہت روتی تھی۔اور صارم بھائی میری طرف سے آپی سے لڑتے تھے۔۔اب تو میرے لئے کوئی لڑنے والا بھی نہیں ہے۔۔۔میرے نکاح والے دن صارم بھائی ہمسے دور ہوگے۔۔۔واقعی آپی بلکل ٹھیک کہتی تھیں"۔۔۔۔
"ایسی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بیٹا۔۔۔اللّه نے ایک رشتہ لیا تو دوسرا دیا بھی تو عمیر کے روپ میں"
"نہیں چاہیے مجھے کوئی اور رشتہ۔۔۔مجھے صرف اپنا بھائی چاہے۔نہیں چاہیے مجھے کوئی شوہر۔۔اگر مجھے پتہ ہوتا کے اللّه عمیر کو دے کر مجھسے میرا بھائی چھین لینگے تو میں کبھی عمیر کو دعاوں میں نا مانگتی۔۔۔میں عمیر کے بغیر تو رہ سکتی ہوں دادی پر اپنے گھر والوں کے بنا نہیں" آج اتنے دن بعد وہ کھل کر روی تھی۔
"اللّه کی دی ہوئی نعمتوں پر ناشکری نہیں کرتے بیٹا۔۔ایک بار تیری شادی ہوجایگی تو سب مصروف ہوجاینگے۔۔۔سب ٹھیک ہوجاےگا انشاء اللّہ۔"۔۔
"میں نہیں کرونگی شادی۔۔بس بہت تکلیف اٹھالی سب نے میری وجہ سے۔۔۔مجھے لگتا ہے میری شادی والے دن بھی کوئی نا کوئی مجھ سے دور ہوجاےگا۔۔۔آپ منع کردیں عمیر کو اس شادی سے"اسنے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور چلی گئی۔۔
"پتا نہیں کسکی نظر لگ گئی ہمارے ہنستے کھلتے گھر کو" دادی نے دکھ سے اسے جاتا ہوا دیکھا۔۔
                                  ********

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jun 22, 2019 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

محبت آخری خواب  از قلم ماہ نور ✔CompletedWhere stories live. Discover now