اریبہ کی طبیعت ایک ہی دن میں کافی حد تک سمبھل چکی تھی۔۔رات کے وقت سب سو چکے تھے مگر دن میں کئی گھنٹے نیند پوری کرنے کے بعد اب اسکی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔کمرے سے نکل کر وہ کچن میں چاے بنانے گئی۔۔کچن سے نکل کر کسی کا سایہ دیکھ کر ایک دم ٹھٹکی۔وہ ڈرتے ڈرتے کچن سے بیلن اٹھا لائی اور ساۓ کے قریب جانے لگی۔۔۔اپنی کم عقلی کا ثبوت تو وہ ہر جگا دیتی تھی اس بار بھی خود ہی مقابلہ کرنے چلی۔۔۔آہستہ آہستہ اسکے قریب آئ اور سامنے اسے پا کے حیران رہ گئی۔۔وہ رات کے اس پہر جاۓ نماز بچھاے چہرے پے ڈھیروں اطمینان سجاے ٹھر ٹھر کر نماز ادا کر رہا تھا۔۔۔اسے اب یقین ہوچکا تھا کے وہ واقعی بدل چکا تھا کیوں کے دکھاوے کے لئے تو کوئی کم از کم اس وقت اپنی نیند خراب نا کرے۔۔وہ اسے کافی دیر تک یونہی دیکھتی رہی پھر چاے کا کپ لے کر بالکنی میں آگئی۔۔وہ مری کی سرد ہواؤں کو اپنے اندر اتار رہی تھی جب ہی عمیر کی بھاری آواز اپنے پیچھے سنائی دی۔۔"تمھ مرنے کا بہت شوق ہے۔؟"اسنے اسکی بات پر خفگی سے اسے مڑ کر دیکھا پھر دوبارہ سامنے نظارے کرنے میں مصروف ہوگئی۔۔عمیر کو جب کوئی جواب موصول نا ہوا تو خود ہی اسکے برابر میں آکے بیٹھ گیا۔۔"کچھ شرم کرو آج ہی دوائی لے کر ای ہو۔کسی نے دیکھ لیا نا تو کل ہی واپس جانا پڑ جاےگا۔۔"
"کسی کو پتا چلیگا تب نا۔۔"اسنے بڑے مزے سے بتایا۔۔۔
" مطلب تم بھی جھوٹ بولنے لگیں اب۔"اسنے افسوس سے کہا۔۔
"کسی کو کچھ نا بتانا جھوٹ بولنے میں نہیں اتا۔"
"مطلب تم نے بھی بہت سی باتیں چھپائی ہوئی ہیں سب سے۔" اسنے بغور اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔"ہم بہت کچھ۔۔"اسکے لہجے میں عجیب درد تھا جسے عمیر سمجھ نا پایا۔۔
"چاے پینگے آپ؟" اپنی چاے سے دھواں اڑاتے بلاخر اسے پوچھنے کا خیال آہی گیا تھا۔۔۔عمیر نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
"تمہے یاد ہے دو سال پہلے جب ہم یہاں اے تھے اس وقت بھی تم اسے ہی بیمار ہوگئی تھی۔۔۔اس وقت سب کچھ کتنا مختلف تھا۔۔میں نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کے ہم ایک دن ایک دوسرے سے بات کرنے میں اتنا جھجکیںگے۔۔" عمیر نے افسوس سے سر ۔جھکایا۔
"بعض دفع ہماری سوچ کے برخلاف بھی بہت کچھ ہوجاتا ہے۔۔"
"ہم نے یہاں کتنا کھیلا ہے۔ہمیشہ صارم اور تمہاری ٹیم ہوتی اور میری اور میراب کی۔۔تملوگ ہمیشہ ہار جاتے اور تم صارم سے ناراض ہوجاتی۔۔" عمیر پرانے وقتوں کو یاد کر کے خود ہی ہنس دیا۔۔
"اور پھر آپ جان بوجھ کر ہار جاتے تھے" اسنے اریبہ کی بات پر چونک کے اسے دیکھا۔۔
"مطلب تم سب جانتی تھی"
"ہاں میں ہمیشہ سے پوچھنا چاہتی تھی کے آپ کیوں کرتے تھے ایسا۔" انکے بیچ کی سرد دیوار آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہوچکی تھی۔۔
"پتا نہیں۔۔تم میں کچھ خاص ہے۔مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا کے تم سب کے اتنے قریب کیسے ہو۔۔۔بچپن میں میں بھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا اسلئے ہار جاتا تھا۔۔دادی سے لے کر صارم تک گھر کا ہر فرد تمہاری محبت میں مبتلا ہے یہاں تک کے میں بھی" اریبہ نے اسکی آخری بات پر چونک کر اسے دیکھا۔۔"اب پلز یہ کپ اٹھا کر نا ماردینا مجھے۔"عمیر نے تھوڑا دور کھسکتے ہوئے کہا۔۔
"اور یہ اظہار محبت آپ اور کتنی لڑکیوں سے کرچکے ہیں" اریبہ نے اس قدر طنز سے کہا کے عمیر کا دل اندر تک زخمی ہوگیا۔۔
"میں صرف اتنا جانتا ہوں کے محبت پہلی بار ہوئی ہے مجھے۔۔اس سے پہلے جو بھی تھا وہ محض ٹائم پاس تھا۔۔میں تمسے محبت کر بدلے محبت نہیں مانگتا۔۔تم نے مجھے معافی دیدی یہی احسان بہت ہے۔۔" اریبہ خاموشی سے اسکی باتیں سن رہی تھی۔۔"آدھی رات کو رب سے اسکے بجاے اسکی مخلوق کو مانگنا میری نظر میں محبت ہی ہے۔۔اگر وہ ہماری محبت ہمیں دیدے تو ہمے اس پر اور پیار آنے لگتا ہے مگر اگر وہ نا دے تو یہ یقین ہوجاتا ہے کے اسکی محبت کے علاوہ ہر محبت کو زوال ہے۔۔یہ رات کی تاریکی یہ خاموشی میری دعایں یہ سب میری محبت کی گواہ ہیں۔۔میں تمسے اظہار محبت کے بدلے کوئی جواب نہیں چاہتا۔۔میں صرف اتنا چاہتا ہوں کے تم میرے جذبوں کو سمجھو میرے دل کی اس طرح تذلیل نا کرو۔۔تم بس دعا کرو کے یہ محبت کا سفر عشق میں نا تبدیل ہوجاے۔۔ورنہ اسے چھپانا مشکل ہوجاےگا۔۔عشق اچھے خاصے انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔۔میں نے بہت کوشش کی اپنے جذبات کو پوشیدہ رکھنے کی۔۔مگر میں آج خود سے ہار گیا۔۔"یہ کہ کر وہ خاموش ہوگیا کے سب کچھ تو وہ کہ چکا تھا۔۔
"تم کچھ نہیں کہوگی۔" کافی دیر تک جب اسکا جواب نہیں آیا تو خود ہی پوچھا۔۔
"میں کیا کہوں۔۔آپکے اتنے روپ دیکھ چکی ہوں سمجھ نہیں اتا کس پر بھروسہ کروں۔۔ہر بار زندگی میرے سامنے نیا عمیر لا کر کھڑا کر دیتی ہے ۔۔مجھے اب کسی پر اعتبار نہیں رہا۔۔" اسنے اتنی ہلکی آواز میں کہا کے عمیر کو ٹھیک سے سمجھ بھی نا آیا۔۔
"اس رات کو ایک لمحے کے لئے بھول جاؤ۔۔اگر صرف عمیر تم سے یہ اظہار کرتا تو تمہارا کیا جواب ہوتا؟"
اسنے ایک امید کے ساتھ پوچھا۔اریبہ گہری سانس خارج کرتی کھڑی ہوئی۔۔"رات بہت ہوچکی ہے ہمیں نیچے چلنا چاہے۔"عمیر نے بیٹھے بیٹھے اسکی کلائی پکڑی۔۔"صرف ایک بار کہ دو۔میں اندازہ کرنا چاہتا ہوں کے وہ ایک غلطی اور کتنا نقصان کر چکی ہے میرا۔۔"
"میرا جواب اس وقت ہاں ہوتا عمیر بھائی۔۔مگر وہ وقت میں اور اس وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔" یہ کہتی وہ اسے ساکت چھوڑ کر نیچے اتر گئی۔۔
*******
صارم پچھلے ایک گھنٹے سے اریبہ کے پاس پانی لے کے بیٹھا تھا مگر مجال ہے جو اسنے دوائی موں میں ڈالی ہو۔۔صارم کی برداشت جواب دے گئی تھی اور وہ اسے ڈانٹنا شروع ہوگیا تھا۔۔تبھی عمیر وہاں آگیا۔۔" کیا ہوا کس کا غصہ نکل رہے ہو اسپے۔"اریبہ اور وہ ایک دوسرے کو کل کی ملاقات کے بعد اب دیکھ رہے تھے مگر اسکا انداز بلکل نارمل تھا۔۔۔"یار ادھے گھنٹے سے اسکی خوشامدیں کر رہا ہوں مگر اسکے نخرے ہی پورے نہیں پڑ رہے"اسنے خفگی سے اریبہ کو دیکھا۔اتنے میں صارم کا فون بجا اور وہ ایک منٹ کا کہ کے وہاں سے اٹھ گیا۔۔عمیر صارم کی جگہ پر آکے بیٹھ گیا۔۔"یہ لو۔۔"اسنے دوائی اسکے آگے کی۔۔اریبہ نے رونی صورت بنائی۔۔"یہ ڈرامے صارم برداشت کرتا ہوگا میرے سامنے مت کرنا۔۔جلدی پیو ویسے ہی آدھا گھنٹہ تمہاری وجہ سے لیٹ ہوچکے ہیں۔۔"اسنے اتنی سختی سے کہا کے اریبہ کو بنا چوں چرا کے دوائی لینی پڑی۔۔اسنے اسکے ہاتھ سے پانی کا گلاس لینا چاہا مگر عمیر نے پہلے ہی گلاس اسکے لبوں سے لگادیا ۔۔۔وہ اسی اس حرکت پر سٹپٹا گئی۔۔عمیر نے ساری چیزیں سیٹ کر کے اسے اٹھنے کا کہا۔۔اتنا رعب برداشت کرنے کی بھلا اریبہ کو کہاں عادت تھی سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔۔عمیر بھی سر جھٹک کر اسکے پیچھے چل دیا۔۔۔
******
میراب اور رمشا ہر جگہ کھڑی ہوکر تصویریں بنا رہی تھیں مری کا کوئی کونہ انہونے نہیں چھوڑا تھا اصل زندگی میں تو کچھ خاص بنتی نا تھی مگر تصویریں اسے لیتیں جیسے جنم جنم کی ساتھی ہوں۔صارم اور عمیر ایک دوسرے کے اپر برف کے گولے پھینکنے اور کشتیاں لڑنے میں مصروف تھے جبکے ان سب سے الگ اریبہ اپنا سنو ہاؤس بڑی مہارت اور یکسوئی کے ساتھ بنا رہی تھی۔۔جب صارم اور عمیر پوری طرح سے تھک چکے تو صارم اریبہ کے برابر میں اکے بیٹھ گیا۔۔
" یہ کیا بنا رہی ہو۔۔"
"سنو ہاؤس"
"مگر یہ تو بہت چھوٹا ہے تم اس میں نہیں آسکتی ہاں البتہ میرے مستقبل کے بچے ضرور آسکتے ہیں"
"آپکو بہت جلدی نہیں ہے شادی کی۔"
"ہاں بہت" صارم نے اسکی بات پر شرماتے ہوئے کہا۔۔
"آپ بس ہاں بولیں اسی بھابھی ڈھوندونگی کے بس" اریبہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔
"ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے چندہ لڑکی تو میرے سامنے ہی ہے۔" اسنے اریبہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مگر جیسے ہی اریبہ نے چونک کے اسے دیکھا اسنے اپنی نگاہیں سامنے مرکوز کرلیں جہاں بدقسمتی سے میراب کھڑی تھی۔۔پہلے تو اریبہ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹے مگر پھر دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔۔بھلا اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی کے اس کی بہن خود اسکے گھر میں آجاے۔۔صارم اسکی گھر بنانے میں مدد کرنے لگا تبھی وہاں دو لڑکیاں جو غالباً کالج کے ساتھ ٹرپ پر ای تھیں انکی طرف آئین۔۔"excuse me"انکے مخاطب کرنے پر صارم اور اریبہ کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی انکی طرف متوجہ ہوئے۔۔"کیا ہم آپکی اور آپکی وائف کی ایک تصویر لے سکتے ہیں"ان میں سے ایک نے کہا۔۔
"وہ دراصل ہمیں کپلس کے کیوٹ مومنٹس کیپچر کرنے کا بہت شوق ہے۔۔" دوسری لڑکی نے فورن وضاحت دی۔۔پاس کھڑی میراب کا تو پورا موں ہی کھل گیا۔۔۔عمیر ان سب کو نظر انداز کرنے کی مکمل کوشش کرنے لگا۔۔جبکے اریبہ نے ناسمجھی سے پہلے ان دونوں کو دیکھا پھر صارم کو جو اپنے چہرے پر شریر سی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔اریبہ نے گھور کر اسے آنکھیں دکھائیں اور پھر خفگی سے ان دونوں لڑکیوں کو کہا۔۔"بھائی ہیں میرے۔"اسکی بات سن کے جہاں صارم کا موں لٹکا تھا ووہیں رمشا اور میراب ہاتھ پے ہاتھ مار کر ہنسنے لگیں۔۔عمیر نے بھی اپنی ہنسی کو قابو کیا۔۔۔وہ دونوں لڑکیاں اپنی کم عقلی کا ماتم مناتی فورن ہی وہاں سے غایب ہوگئیں۔۔۔"پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں"اریبہ سر جھٹک کر پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔۔
**********
وہ سب برف کے چھوٹے چھوٹے پہاڑ پر چڑھ رہے تھے۔۔میراب تو چڑھتے وقت کم از کم پانچ مرتبہ گری تھی اور ہر بار رمشا کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی گرا دیتی۔۔اب میراب بیچاری کی اتنی اچھی قسمت کہاں کے کوئی ہیرو اسے اپنی جان پر کھل کے بچاۓ۔۔یہ لوگ چڑھ رہے تھے کے اچانک اریبہ کا پاؤں پھسلا اور وہ لڑکھڑھائی صارم اور عمیر نے دیکھا تو فورن اسے پکڑنے دوڑے۔۔۔انسے کہاں برداشت ہونا تھا کے انکی جان سے پیاری گر کر زخمی ہوجاے۔۔اریبہ تو خود ہی سمبھل چکی تھی مگر یہ دونوں بھاگنے کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نا رکھ پاے اور ایک دوسرے کے اوپر گرتے چلے گئے۔۔سب انکی طرف پریشانی سے اے جو ایک دولسرے کے اوپر اوندھے پڑے تھے۔۔صارم کی بدقسمتی تھی کر آج کے ہی دن میں میراب کو اس پر ہنسنے کا دوسرا موقع مل چکا تھا۔۔میراب نے ان دونوں لڑکیوں کی طرح لہجہ بنا کر پوچھا۔۔
"کیا ہم آپکی ایک پک لے سکتے ہیں۔۔وہ کیا ہے نا ہمے کپلس کے کیوٹ مومنٹ کیپچر کرنے کا بہت شوق ہے۔۔" اپنی بات پر وہ خود ہی قہقہ مار کے ہنسنے لگی۔کچھ دیر بعد انسانیت کی خاطر اپنا ہاتھ آگے کیا صارم کو بھلائی کہاں راس آنی تھی اسے پکڑ کے خود بھی گرا دیا۔۔اب اریبہ اور رمشا ان پر برف ڈال کر انکو برف میں قید کر رہی تھیں۔۔بلاشبہ یہ انکی اب تک کی سب سے حسین شام تھی۔۔
YOU ARE READING
محبت آخری خواب از قلم ماہ نور ✔Completed
Romanceالسلام و علیکم۔۔۔یہ میرا پہلا ناول ہے تو اسمے غلطیوں کی بیحد گنجایش ہے۔۔۔۔یہ کہانی ہے محبّت کی دوستی کی کچھ شرارتوں کی۔۔اور کچھ جنون کی۔۔ ایک ہے عمیر جسکی زندگی کے ایک حادثے نے اسے بدل کر رکھدیا۔۔ ایک ہے میراب جسکے نخروں سے سب واقف ہیں۔۔ ایک ہے اریب...