episode 3

1.6K 111 12
                                    

کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔وہ دروازے پر ہی رک گیا۔۔پاؤں کی چوٹ کے باعث وہ بیٹھ کے نماز پڑھ رہی تھی۔۔۔اسکی نظریں اسکے صاف چہرے پر ٹہر گئی۔۔کیا تھا اس چہرے مے جسنے اسے اس قدر بدلنے پر مجبور کردیا تھا۔۔اریبہ جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو اسے اس طرح دیکھ کر اسکی طرف ہوئی۔۔
"کچھ چاہے آپکو؟"اسنے روکھے لہجے مے پوچھا۔۔
"نہیں تمہارا پاؤں کیسا ہے اب؟"
"جی اب بہتر ہے"اب کی بار اسکا لہجہ قدرے نرم تھا۔۔"'دیھاں رکھنا اپنا۔۔"عمیر یہ کہتا جانے کے لئے مڑا ۔۔"آپ ہمارے گھر کیوں نہیں اتے اب عمیر بھائی۔"عمیر کو لگا وہ پرانے وقتوں مے واپس جا چکا ہو کیوں کے ان ایک سال مے اریبہ نے کبھی اسے خود سے مخاطب نہیں کیا تھا۔۔ "شاید اس گھر کے کسی فرد نے کہا تھا کے اب مے انکے سامنے کبھی نا اوں۔"عمیر نے زمین پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔۔
"اس گھر میں اس فرد کے علاوہ اور بھی لوگ بستے ہیں۔اور سب سے اہم دادی۔روز اپنے لاڈلے کو یاد کر کے آنسو بہاتی ہیں۔مگر انھے کیا پتا کے اسکی نظر میں انکے تو کیا کسی کے بھی آنسو کی اہمیت نہیں ہے۔"اریبہ نے لہجے مے کڑواہٹ بھرتے ہوئے کہا۔۔
"اسکے لئے مے دادی کو اپنے گھر لے جاؤنگا۔کم از کم یہاں اکے لوگوں کی طنز بھری باتیں تو نہیں سن نے کو ملیںگی"
"دادی کہیں نہیں جایں گی۔"اریبہ کا انداز بھی قطعی تھا۔۔
"وہ میری بھی دادی ہیں سمجھی۔"عمیر نے گویا اسے یاد دہانی کروائی۔
"جی بلکل۔لے جایئے دادی کی تھوڑی خدمت کر لیں اسی بہانے تھوڑی دعاہیں مل جاینگی اور جس نے ہر قدم پر بد دعاءیں لی ہوں اسے ان چھوٹی چھوٹی دعاوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔۔"اریبہ نے طنز سے بھرپور لہجے مے کہا۔۔۔عمیر کا ضبط اب جواب دےرہا تھا بھلا وہ کہاں لوگوں کے تانے سن نے کا عادی تھا۔۔۔اسنے غصے سے مٹھیاں بھینچی۔۔اریبہ کی نظر اسک ہاتھ تک گئی تو استحزایہ ہنسی۔۔۔"آپ پورا بدل گئے مگر غصّہ اپکا ابھی بھی ویسا ہی ہے۔۔"۔۔
"انسان اپنی فطرت نہیں بدل سکتا۔۔غصّہ آنا نا آنا میرے اختیار مے نہیں ہے مگر اسپے قابو کرنا میں سیکھ چکا ہوں۔۔"یہ کہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
"ہنہ یہ اور انکی بڑی بڑی باتیں۔"اریبہ سر جھٹک کر اپنے کام مے مصروف ہوگئی....
********
۔وہ اپنے پاؤں کو ہلکے ہلکے سہلا رہی تھی جبھی ماضی کی یادوں نے اسے آگھیرا۔۔۔۔
وو اپنی دوست کی شادی کے لئے تیار ہوکر نیچے اتر رہی تھی کے اچانک ایک بھاری بھرکم وجود سے ٹکرائی۔۔۔"اہ"اسنے اپنا سر سہلاتے ہوئے سامنے والے کو گھور کر دیکھا۔۔۔۔عمیر جو اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا اچانک اسکے چٹکی بجانے پر سمبھلا۔۔۔۔"کہاں کھو گئے"
"کہیں نہیں"اسنے خود کو سمبھالا۔
"مے کچھ زیادہ ہی اچھی لگ رہی ہوں کیا"اریبہ نے چہکتے ہوئے کہا۔۔
"بلکل بھی نہیں۔۔۔یہ اتنا تیار کیوں ہوئی ہو تم مے بھی میراب کا اثر اگیا ہے کیا۔۔"اب عمیر جو شرافت سے کسی کی تعریف کردے ہو نہیں سکتا۔۔۔۔
"میری بیسٹ فرینڈ کی شادی ہے اسنے خاص کہا تھا کے تیار ہوکر آنا اپنا سادہ سا موں اٹھا کر مت آجانا"اسنے موں بناتے ہوئے کہا۔۔"اچھا ہٹیں راستے سے ویسے ہی دیر ہوگئی ہے مزید ہوئی تو اسنے گلہ دبادینا ہے میرا"۔۔وو عمیر کو سائیڈ مے کرتی نیچے اترنے لگی کے اسکے پاؤں مرا اس سے پہلے وو گرتی عمیر نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔وو ستپتاتی ایک ہاتھ سے اپنا دوپٹے ٹھیک کرنے لگی جبکے دوسرا ہاتھ ابھی بھی عمیر کی گرفت مے تھا۔۔۔
"تمہارے ہاتھ مے چوریاں بہت اچھی لگتی ہیں۔"عمیر نے بے خیالی مے اسکی چوریوں کو اپنی انگلیوں سے چھوا۔۔۔۔۔۔۔
"اب صارم بھائی میرے لئے کوئی چیز لیں اور مجھ پر اچھی نا لگیں ایسا ہو سکتا ہے؟"صارم کے ذکر نے اس وقت عمیر کے دل مے عجیب سی جلن پیدا کی تھی ورنہ یہ تو عام بات تھی اریبہ کے موں پے ادھے سے زیادہ وقت صارم کا ہی نام رہتا اسنے اریبہ کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی جسکی وجہ سے کچھ چوڑیاں ٹوٹ کر اسکے ہاتھ مے گھسس گئی اور اب اسکی کلائی سے خون نکل رہا تھا اریبہ کی کراہ پر اسنے اسکا ہاتھ چھوڑا ۔۔۔۔۔اریبہ نے غصّے سے اسے دیکھا۔۔۔"آئ یم سوری مجھے دیھاں"عمیر کی بات مکمل نہیں ہونے پائی تھی کے صارم نیچے سے دوڑتا ہوا انکی طرف آیا۔۔"مے کب سے گاڑی مے تمہارا انتظار کرہا رہا ہوں اور یہ کیا کیا ہے"صارم نے پریشانی کے عالم مے اسکا ہاتھ دیکھا۔۔
"کچھ نہیں پاؤں پھسلا تو چوڑیاں ٹوٹ گیں۔۔"۔اریبہ نے صفائی سے جھوٹ بولا۔۔
"منع کیا ہے اتنی اونچی اونچی ہیلس پہن نے کا مگر تم سنتی کہاں ہو اب اؤ میرے ساتھ"صارم اسکا ہاتھ پکڑتا کمرے مے لے گیا جبکے عمیر ان دونو کو جاتا ہوا دیکھ اپنی بیختیاری پر حیران تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد عمیر اسکے کمرے مے آیا جو کے ہاتھ پی پٹی بندھے پلنگ پی بیٹھی تھی اسے دیکھ کر فورن موں موڑ لیا۔۔۔اسکی ناراضگی ظاہر کرنے کا یہی طریقہ تھا۔۔وو جب بھی کسی سے ناراض ہوتی اس سے بےرخی اختیار کرلیتی اور اس گھر کے لوگوں کو مارنے کے لئے اسکی بےرخی ہی کافی ہوتی۔۔۔وو اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔۔"تم گیں نہیں شادی مے"
"ہم صارم بھائی کا کوئی فون اگیا تھا بس وو اتے ہیں تو جاؤنگی"۔۔اسنے اسے دیکھے بغیر جواب دیا۔۔۔
"اچھی لگ رہی ہو"اب منانے کے لئے تعریف تو ضروری تھی۔۔۔اریبہ نے اپنی مسکراہٹ دبای۔۔۔"اچھا نا یار سوری پریشان تھا کچھ اسلئے دیھاں ہٹ گیا تھا"
"کوئی پریشانی والی بات ہے کیا عمیر بھائی؟آپ مجھے بتایں مے یوں حل کردنگی"اریبہ نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔۔عمیر مسکرا دیا۔۔
"نہیں پرسنل پرابلم ہے کچھ تم چھوٹی ہو ابھی تمسے کیا شیر کروں"اسنے بات بدلتے ہوئے کہا۔۔
"بس جب بھی کوئی اہم بات ہوتی بے مجھے کمرے سے نکل دیتے ہیں یا پھر خاموش ہوجاتے ہیں مطلب اب اتنی بھی بچی نہیں ہوں مے۔۔"اریبہ نے موں پھلاتے ہوئے کہا۔۔۔
"لیکن حرکتیں تو بچوں والی ہی ہے نا اب تک"عمیر نے اسکے سر پر ہلکے سے مارتے ہوئے کہا۔۔اریبہ ہنس دی۔۔
"اچھا چلو صارم تو اب تک آیا نہیں مے تمھ چھوڑ دوں؟"
"ٹھیک ہے مے صارم بھائی سے پوچھ کے اتی ہوں"اریبہ فورن صارم کے کمرے کی طرف بھاگی۔۔
"آرام سے لڑکی"۔عمیر نے پیچھے سے آواز لگائی۔۔
کچھ ہی دیر مے وو دونو گاڑی کے اندر موجود تھے۔۔۔اریبہ کھڑکی سے باہر رات کی ہوا کو اپنے اندر سمیت رہی تھی جب کے عمیر کی نظریں بار بار مر کر اسکے چہرے پی ٹہر رہی تھیں۔۔ایسا نہیں تھا کے اسے وو پسند نہیں تھی بس اسنے کبھی اسمے دلچسپی لی ہی نہیں تھی۔اسے تو ہمیشہ سے ہی ماڈرن ,سٹائلش بولڈ لڑکیاں اپنی طرف مائل کرتی تھیں جب کے اریبہ مے انمے سے کچھ بھی نہیں تھا۔۔مگر کافی دنوں سے وو خود بھی پریشان تھا اسنے ہمیشہ سے ہی اریبہ کو عزت دی تھی شاید وو اپنی عزت کروانا جانتی تھی اسلئے یا پھر صارم کی وجہ سے۔۔وو نہیں چاہتا تھا کے اریبہ جیسی معصوم لڑکی اسکے لئے ٹائم پاس بنے کیوں کے اصلی پیار محبت سے تو وو کوسوں دور تھا مگر وو عمیر ہی کیا جو کچھ چاہے اور اسے حاصل نا کرے۔۔۔۔"شادی مے جانا ضروری ہے کیا"اریبہ نے اسکی بات پر چونک کر اسے دیکھا۔۔
"ظاہر بے جبھی جارہی ہوں"اریبہ نے نا سمجھی سے کہا۔۔
"مے سوچ رہا تھا کیوں نا ہم ڈنر باہر کریں آج۔۔۔مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے"اسنے عام سے انداز مے کہا۔۔
"تو آپ مجھے چھوڑ کر کھا لیں کہیں پر"بظاہر تو اسنے لاپرواہی سے کہا تھا مگر اس کی بات سے حیران تو وو بہت ہوئی تھی۔۔۔"مجھے کسی لڑکی نے انکار کیا نہیں ہے آج تک..آیندہ تم بھی دھان رکھنا۔"عمیر نے اسکی آنکھوں مے دیکھتے ہوئے سنجیدہ چہرے کے ساتھ کہا۔۔جب عمیر نے اریبہ کے چہرے پر سے ہوائیں اڑتی ہوئی دیکھیں تو گاڑی مے ایک قہقہ گونجا تبھی اریبہ کی سانس بحال ہوئی۔۔۔"اف عمیر بھائی آپ اتنے ڈراونے لگ رہے تھے مجھے اس وقت"۔اریبہ نے موں پھلاتے ہوئے کہا۔۔۔"اچھا چلو میری کلاس بعد لینا پہلے اندر جاؤ"ایک خوبصورت سے ہال کے بھر گاڑی روکتے اسنے کہا۔۔۔"ٹھیک ہے مے آپکو مسیج کردنگی آپ آجانا اوکے"وو یہ کہتی اندر کی جانب بڑھ گئی اور عمیر سڑک پر بےمقصد گاڑی بھگا لے گیا۔
اریبہ اندر داخل ہوئی تو اسکی نظر سامنے کھڑی اپنی دوستوں پر پڑی وو انکی طرف ای۔۔۔
"اتنی لیٹ ای ہو یار"جواب مے اریبہ نے پوری کہانی سنادی۔۔
"اوہ اب کیسا ہے ہاتھ؟"ثوبیہ نے پوچھا۔۔"ٹھیک ہے"اریبہ نے سر ہلایا ۔۔
"کس کے ساتھ ای ہو?"عالیہ نے پوچھا۔۔
"بھائی کے ساتھ"
"مگر ثوبیہ نے تو بتایا تھا تمہارا کوئی بھائی نہیں ہے?"عالیہ نے ناسمجھی سے اریبہ کو دیکھا۔۔
"یہ تو ہے ہی بھلکڑ میرا کوئی بھائی نہیں ہے مگر صارم بھائی اور عمیر بھائی میرے بھائیوں جیسے ہی ہیں"اریبہ نے اسے سمجھایا۔۔
"بھائی جیسا کوئی نیا رشتہ ایجاد کیا ہے کیا؟"عالیہ نے جیسا پی زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔اریبہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر ثوبیہ اور مہک کو جو اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں انہیں گھور کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔
"دیکھو وہ بھائی ہی ہیں میرے ہم بچپن سے ساتھ بڑے ہوئے ہیں"اریبہ نے اسے وضاحت دی۔۔
"دیکھو اریبہ یا تو بھائی ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا یہ بیچ کا تو ہمنے خود بنایا ہے نا۔اور جسے اللہ نے ہمارا بھائی نہیں بنایا اس سے احتیاط لازم ہے۔۔"عالیہ نے اسے پیار سے سمجھایا۔۔
"مے انپر آنکھ بند کر کے بھی بھروسہ کر سکتی ہوں اور احتیاط انسے کی جاتی ہے جس سے آپکو کوئی ڈر ہو۔"اریبہ کا ضبط اب جواب دےرہا تھا۔۔
"تم نا سمجھ ہو تمہے نہیں پتا چلتا کون تمھ کیا سمجھ کر بات کر رہا ہے اتنی رات کو تم کسی کے ساتھ ای بس مجھے اسی لئے تمہاری فکر تھی۔"
"بس کرو عالیہ وہ دونو میری فیملی کا حصّہ ہیں اور مے اب انکے خلاف ایک لفظ نہیں سننگی سمجھی۔"اریبہ نے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کی۔۔
ثوبیہ اور مہک نے جب ماحول گرم ہوتا ہوا دیکھا تو فورن موزو بدلہ۔۔
"یار چلو ویسے ہی بہت لیٹ ہو گیا ہے اب سانیا نے اپنے دلہن ہونے کا لحاظ کے بغیر جوتوں سے ہماری مہمان نوازی کرنی ہے"۔۔ثوبیہ ہاتھ پکڑ کر اریبہ کو لیجانی لگی جبکے مہک عالیہ کو۔۔
"رکو"عالیہ کی بات پر اریبہ نے اسکی طرف دیکھا۔
"جاؤگی کس کے ساتھ"
ظاہر ہے جس کے ساتھ ای ہوں اسی کے ساتھ"اریبہ نے جل کر کہا۔۔
"عمیر بھائی کو منع کردینا میرے بھائی آرہے ہیں ہم ساتھ چلیںگے ٹھیک ہے۔"یہ کہ کر وہ اسٹیج کی طرف جانے لگی۔
"تم پاگل ہو مے اتنی رات کو کسی اور کے ساتھ گئی نا گھر تو گھر والوں نے دروازے سے ہی ہری جھنڈی دکھا دینی ہے مجھے"
"کیوں تمھ میرے بھائی پر بھروسہ نہیں ہے کیا?تم بے عزتی کر رہی ہو میرے بھائی کی۔۔"یہ کہہ کر وہ رکی نہیں اور اریبہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی اپنی بات کس انداز مے سمجھا کے چلی گئی تھی اسے سمجھ ہی نہیں آیا ۔۔ایک آنسو ٹوٹ کر اسکے چہرے مے جذب ہو گیا۔۔
"کاش مے نے تمہاری بات اس وقت ہی سمجھ لی ہوتی عالیہ۔۔۔اپنے مجھے تکلیفوں کے علاوہ دیا ہی کیا ہے عمیر بھائی۔۔۔"اسنے اپنے پٹی سے بندھے پاؤں کو دیکھا آج ایک اور تکلیف اسے دوبارہ اسی شخص سے ملی تھی۔۔۔۔۔
پڑھ کے اپنی قیمتی راۓ سے آگاہ کریں۔۔
Next part will be uploaded soon

محبت آخری خواب  از قلم ماہ نور ✔CompletedOpowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz