episode 7

1.3K 90 9
                                    

سب کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اب بس سب کو روانہ ہونے کی جلدی تھی۔۔ایک گاڑی صارم ڈرائیو کر رہا تھا جسمے ساری ینگ جنریشن موجود تھی۔ اور دوسری گاڑی میں سب بڑے موجود تھے۔۔یہ آئیڈیا صارم کا تھا کیوں کے وہ کم از کم دادی کی موجودگی میں بچوں والی حرکات نہیں کر سکتا تھا۔دادی کو ویسے ہی اسکی حرکتوں سے الرجی تھی انکا مان نا تھا کے جیسے جیسے انسان بڑا ہو اسکی حرکتیں بھی سمجھدار ہونی چاہے۔۔۔اور اسکی چلتی پھرتی مثال انکے جگر کا ٹکڑا اریبہ کی تھی جسکی وہ ہر وقت تعریفیں کرتی رہتیں۔۔میراب اور صارم کے برعکس اریبہ گھنٹوں بیٹھ کے انکے پرانے قصّے سنتی حلانکے نیند کے جھونکے تو اسے بھی اتے مگر وہ بڑی مہارت کے ساتھ قابو کر لیتی۔۔اسی لئے وہ دادی کی بیحد عزیز تھی۔۔اسکے بعد دادی کا دوسرا پسندیدہ پوتا عمیر تھا کیوں کے وہ مکھن لگانے میں بڑا ماسٹر تھا۔۔صارم اور میراب تو بیچارے کسی گنتی میں ہی نا اتے۔۔ان سب نے راستے میں خوب ہلا گلا کیا۔
اریبہ عمیر کی موجودگی کو مکمل نظر انداز کے باتوں میں مصروف تھی جبکے وہ میراب صارم اور رمشا کے علاوہ ہر کسی کی موجودگی میں خاموش ہی رہتی تھی مگر یہ پکنک وہ کسی بھی طرح خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
صارم اپنی بے سری آواز میں مسلسل گانے گاہے جارہا تھا جبھی میراب نے بیچ سڑک پر گاڑی روکنے کا کہا۔۔
"رکو مجھے یہاں سے کچھ لینا ہے۔۔" میراب کی بات پر اسنے گاڑی روک کے پیچھے ہوکے اسے دیکھا۔۔
"یہ اس سنسان سڑک پر کیا تمھ دھرنا دینا ہے" صارم نے مشکوک نظروں سے اسے ۔گھورا۔وہ ہاں کہ کر دروازہ کھول کر سامنے بنے اسٹور کی طرف بڑھ گئی۔۔
"کہا بھی تھا نکلتے ہوئے ایک رسی رکھلو کبھی بھی اسکو باندھ نے کی ضرورت پر سکتی ہے مجھے تو اسکی دماغی حالت پر شک ہورہا ہے۔۔" صارم نے پریشانی سے کہا۔۔اسی دوران میراب دروازہ کھول کے واپس بیٹھی تو اسکے ہاتھ میں کاٹن تھی جسکے دو بڑے بڑے ٹکرے اسنے اپنے کانوں میں ڈالے جبکے سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔"تمہاری بے سری آواز سے بچنے کے لئے یہی ایک حل تھا۔۔"اسنے معصومیت سے کہتے ہوئے کندھے اچکے۔گاڑی میں عمیر کا بے اختیار قہقہ گونجا جبکے رمشا اور اریبہ بھی ہاتھ پر ہاتھ مر کے ہنسنے لگیں۔۔"بیچارے کی بے عزتی کا کوئی تو موقع جانے دیا کرو۔۔"عمیر نے بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔۔البتہ میراب کی اس حرکت نے باقی سب کے کانوں کو بھی سکوں بخشا تھا کیوں کے اس بے عزتی کے بعد صارم کا ٹیپ ریکارڈر بند ہوچکا تھا۔۔
مگر وہ صارم ہی کیا جسپے کسی بات کا اثر ہو کچھ دیر بعد اسکی ٹرین پھر سے شروع ہوچکی تھی۔۔۔
********
بالآخر سب کا انتظار ختم ہوا اور وہ لوگ اپنے اسلام آباد والے گھر میں پوھنچے۔۔۔یہ تین کمرے کا درمیانہ گھر تھا زیادہ چھوٹا بھی نا تھا۔۔میراب رمشا اور اریبہ ایک کمرے میں جبکے باقی خواتین دوسرے میں اور مرد حضرات تیسرے میں جبکے بیچارے عمیر اور صارم کو صحن میں سونا پر رہا تھا۔۔سفر کی تھکن اترنے کے بعد سب نے گھومنے کا آغاز کیا۔۔صارم نکلتے وقت پہلے ہی پورا پروگرام سیٹ کر کے آیا تھا اور اب سب اسی حساب سے گھوم رہے تھے۔۔اس دوران عمیر نے ایک بات نوٹ کی تھی کے اریبہ اب پہلے کی طرح اس سے لا تعلق نہیں رہ رہی تھی بلکے سب کی باتوں کے دوران وو اسکی باتوں کا بھی کبھی کبھی جواب دے دیتی اور یہی بات اسے ساتوے آسمان تک پوھچانے کے لئے کافی تھی۔۔سارا دن گھومنے کے بعد بڑے تو فورن اکے سوگے تھے مگر انکی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔صارم نے ان سب کو جمع کر کے برآمدے میں بٹھایا۔۔" ہم ٹرتھ ڈیئر کھل رہے ہیں ٹھیک؟"صارم نے جوش سے بتایا تو باقی سب نے بھی خوشی خوشی ہامی بھری۔۔"بوتل کہاں ہے؟اسکی جگہ اب تم گھوموگے کیا؟"میراب نے جل کر کہا۔۔
"ایک تو تم سرتی ہی رہنا ہمیشہ۔۔اسمے ہم ہر شخص سے ایک ایک سوال پوچینگے اور یہ کوئی بھی پوچھ سکتا ہے۔۔ٹھیک" صارم نے سب کو گیم سمجھایا۔۔
"ٹھیک ہے پھر عمیر سے شروع کرتے ہیں۔۔" میراب نے جھٹ سے کہا۔۔صارم نے فورن عمیر سے پوچھا۔۔
"دوستی یا محبت؟مطلب صارم یا محبت؟" صارم نے شرارتی انداز میں کہا۔۔
"صارم" اسنے لمحہ لئے بغیر کہا۔۔صارم نے اسکی بات پر فرضی کالر جھاڑے۔۔۔"اچھا اب تو بتا ذرا میرے لئے ک چھوڑ سکتا ہے اپنی محبت کو۔۔"عمیر نے جانچتی نظروں سے اس سے پوچھا۔۔
"دیکھنا پڑیگا اگر محبت کچھ زیادہ حسین ہوئی تو محبت ورنہ دو دن کی محبت کو تو چھوڑ سکتا ہوں۔" صارم نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔۔
"جا دیکھ لی تیری دوستی۔۔" عمیر نے اسکی کمر پر ایک مکا جڑتے ہوئے۔۔۔"میراب تم بتاؤ تم اریبہ کے لئے اپنی محبت کی قربانی دے سکتی ہو۔؟"صارم کا رخ اب میراب کی طرف تھا۔۔۔
"ظاہر ہے میرا نہیں خیال کے یہ کوئی پوچھنے کی بات تھی۔۔" میراب نے ہوا سے اڑتی لٹ کو پیچھے ارستے ہوئے نزاکت سے کہا۔۔
"واہ مطلب سب کے پارٹنرز ہیں سواۓ میرے" رمشا کچھ دیر تک نظر انداز ہوئی تو روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔۔
"بھی یہ رونا تو تم کراچی جاکے احمد کے سامنے ہی رونا" صارم نے اسے آنکھ مارتے ہوئے چھیڑا۔ اسکے شرماتے ہوئے چہرے سے سب ہی محظوظ ہوئے تھے۔۔احمد اسکا خالہ زاد بھائی تھا جس سے اسکی منگنی ہو چکی تھی۔۔۔"دیکھ لے بھائی ابھی سے کسی لال ٹماٹر ہورہی ہے میری مان تو اپنے امی ابو سے بات کر کے اسی سال رخصتی ۔کروادے۔۔صارم نے عمیر کو مشورہ دیا۔۔۔"سوچنا بھی مت۔۔۔اسکا بڑا بھائی کنوارہ بیٹھا رہے اور یہ رخصت ہوجاے۔ہرگز نہیں"عمیر نے صاف خود غرضی کا مظاہرہ کیا۔"ہوں اوور سمارٹ(over smart)"اریبہ نے اسکی بات پر منہ ہی میں بڑبڑایا۔۔رمشا نے تو اسکے بعد کچھ نا بولنے میں ہی عافیت سمجھی۔۔"اب اریبہ کی باری۔"صارم کے کہنے پر اچانک ہی میراب کو کھانسی شروع ہوگئی۔۔۔صارم نے کچن کی طرف اشارہ کیا کے وہاں مل جاےگا پانی اور اسے گھور کر کباب میں ہڈی نا بن نے کی تنبیہ کی۔۔میراب نے اچھے بچوں کی طرح ہونٹوں پے انگلی رکھلی۔"جی تو اریبہ میڈم آپکو اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے۔؟"وہ اس سے اسی نوعیت کا کوئی سوال پوچھے گا سب ہی جانتے تھے۔۔"دادی امی ابو اپی تایا جان اور تائی جان۔ اور اور بس۔"اسنے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔۔صارم کا تو چہرہ ہی لٹک گیا۔۔"اور میں؟"صارم نے دکھ سے پوچھا۔۔۔اریبہ نے پہلے تو ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر نا جانے کیا سمجھ آنے پر کھلکھلا کھلکھلا کر ہنسی۔۔وہ ہنسی جس پر سارے گھر والے جان چھڑکتے تھے۔۔
"آپ؟آپ تو ٹاپ پر ہیں ہمیشہ سے۔" اسنے مزے سے بتایا۔۔۔اپنی معصومیت میں کہی گئی بات صارم کو ساتوے آسمان پر پوہچانے کے لئے کافی تھی اسکے لئے تو یہ اظہار محبت سے کم نا تھا۔۔۔البتہ عمیر کے لئے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہوگیا تو نیند کا بہانہ بنا کر اٹھ گیا۔ باقی سب بھی سونے کے لئے چلے گے اب کل انھے مری کے لئے نکلنا تھا۔۔۔
*******
اب ان سب کا قیام مری میں ہوا تھا اور وہاں جاکے جو سب سے پہلا کام تھا وہ اریبہ کو بخار ہونے کا تھا۔۔۔وہ اسی طرح کی نازک طبیعت کی حامل تھی موسم کی تبدیلی تو اس سے برداشت ہی نا ہوتی۔صبح میراب نے اکے اریبہ کی بیماری کی اطلاع دی۔۔
" ابو آپ کسی ڈاکٹر کے پاس لے جایں اسے۔۔"
"چاچو میرے دوست کا کلینک ہے یہاں سے کچھ دور میں اسے لے جاؤنگا آپ پریشان نا ہوں"یہ بتا کے کچھ دیر بعد صارم اسکے کمرے میں آیا جب میراب اور رمشا تصویریں بنانے میں مصروف تھیں اور اریبہ پلنگ پے بےخبر سوئی ہوئی تھی۔۔صارم پلنگ کے نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔
"تم یوں بیمار مت ہوا کرو۔۔۔میرا دل پھر کسی کام میں نہیں لگتا۔" صارم نے اسکا چہرہ اپنے دل و دماغ میں اتارتے ہوئے کہا جو سب سے بےخبر نیند کی وادیوں میں تھی۔۔۔اسکی خود کلامی جاری تھی جبھی دروازہ کھول کے عمیر اندر داخل ہوا۔۔۔یقیناً وو بھی اریبہ کی خیریت دیکھنے ہی آیا تھا۔۔۔اسے آتے دیکھ صارم نے یک دم اریبہ کا ہاتھ چھوڑا اسے اپنی بیختیاری پر شرمندگی ہوئی۔۔۔"تم یہاں"صارم نے عام سے انداز میں پوچھا۔
"ہاں وہ رمشا سے کچھ کام تھا۔۔" عمیر اپنے آنے کی اصل وجہ گول کر گیا۔۔
"اچھا مگر ابھی تمہارے سامنے ہی تو رمشا اور میراب باہر گئی ہیں۔۔" صارم کے لہجے میں عمیر کو عجیب طنز محسوس ہوا۔اسکا دل یک دم دکھا۔تو آخر ایک لڑکی انکے بیچ اہی گئی تھی ورنہ صارم نے آج تک اس لہجے میں عمیر کو مخاطب نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔اریبہ اس کمرے میں اکیلی تھی اور عمیر یہ بات جانتا تھا پھر بھی یہاں آیا شاید یہ بات صارم کو بری لگی تھی۔۔۔"اوہ ہاں سوری میں بھول گیا تھا۔۔"عمیر نے فورن اپنی شرمندگی ۔چھپائی۔۔اور کمرے سے باہر نکلتے وقت صرف ایک ہی چیز اسکے ذہن میں تھی۔۔"کیا واقعی اریبہ انکی دوستی میں درار بن کے آئ تھی؟ عمیر نے سارے سوالوں کو ذہن سے جھٹکا اور کمرے سے نکل گیا

محبت آخری خواب  از قلم ماہ نور ✔CompletedWhere stories live. Discover now