episode 12

1.2K 89 6
                                    

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکے بیڈ کے قریب آئی جہاں وہ دوایوں کے زیراثر سورہا تھا وہ اسکے بیڈ کے قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔صارم ٹھیک کہتا تھا اسے لوگوں کی نظروں میں رہنے کا ہنر اتا تھا ایک سال پہلے بھی اسکی وجہ سے گھر والوں کی جان حلق میں آئ تھی اور آج پھر سے وقت نے خود کو دوہرایا تھا ۔۔
کچھ عرصہ پہلے بھی جب وہ اسکے پاس آئ تھی تب بھی وہ اسی طرح بیڈ پر لیٹا ہوا تھا مگر اس وقت وہ اسکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی اور آج وہ اسکے اٹھنے کے لئے ترس رہی تھی واقعی وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔۔اسکی نظر میں پرانے وقتوں کا منظر گھومنے لگا۔۔۔منظر تبدیل ہوا ایک آنسو ٹوٹ کر اسکے چہرے میں جذب ہوگیا۔۔
*********
ایک سال پہلے۔۔
وہ یونی کے گارڈن میں ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھا اسکی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا اور وہ شرما کے تعریفیں وصول کر رہی تھی یونی کے لوگوں کے لئے یہ روز کا معمول تھا۔۔وہ ہر روز ایک نئی لڑکی کے ساتھ وہاں بیٹھا نظر اتا۔۔
ایک درمیانی عمر کی خاتون اپنی ہیل کی ٹک ٹک کے ساتھ انکے سر پر پوھنچی۔دیکھنے میں وہ امیر گھرانے کی کوئی ورکنگ وومن لگتی تھی۔۔لڑکی نے بے دیہانی سے اس کو دیکھا اور سامنے اپنی ماں کو کھڑا پاکر سٹپتاتی ہوئی اٹھی عمیر جو گھاس پر بیٹھا کم لیٹا زیادہ تھا سیدھا ہوا۔اس عورت نے انگلی کے اشارے سے عمیر کو اٹھنے کا کہا۔۔عمیر کو کب کسی کے اشاروں پر چلنے کی عادت تھی غصّے سے کھڑا ہوا اور نہایت بدتمیزی سے جواب دیا۔۔
"جی کہیے کیا تکلیف ہے آپکو"
"اوہ سو تم ہو عمیر ہاشم جسکے قصّے میں پچھلے ایک مہینے سے سن رہی ہوں اور اب تو یہ مجھسے ایک دو ٹکے کے لڑکے کے لئے بدتمیزی کر رہی ہے۔"سامنے کھڑی عورت نے آنکھوں میں حقارت لئے اسے دیکھا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے موں پر رسید کیا۔جسکی وجہ سے اسکا چہرہ دوسری طرف ڈھلک گیا۔۔اسنے بے یقینی سے اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر سامنے دیکھا۔۔اس پاس اور لوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔۔
"تم مڈل کلاس لڑکے خود کو سمجھتے کیا ہو؟امیر باپ کی بیٹی پھنسا لی تو لائف سیٹ ہوجاےگی؟بھول ہے تمہاری آیندہ میری بیٹی کے اس پاس تمہارا سایہ بھی دکھا نا تو یہ یونی تو کیا پورے شہر کی یونی تمھ اکسپٹ نہیں کریگی۔۔اور جاب کے تو تم خواب ہی دیکھتے رہنا" وہ اس پر طنزیہ ہنسی۔
"مام پلز اس طرح انسلٹ تو نا کریں اسکی۔۔آئ ریلی لائک ہم"اس لڑکی نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔
" پسند مائی فٹ۔تمہے کیا لگا تم کسی ایرے غیرے کے لئے آنسو بہاوگی اور میں تمہے اسکے حوالے کردونگی ۔۔ایڈیٹ"وہ عمیر پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈال کر اس لڑکی کو زبردستی وہاں سے لے گئی۔۔عمیر کے لئے تو یہ سب ناقابل یقین تھا۔۔وہ یونی کی آدھی سے زیادہ لڑکیوں کے ساتھ گھوم چکا تھا مگر آج تک کبھی کسی کی ہمت نہیں ہوئی تھی اسے ذلیل کرنے کی وہ بھی بھری یونی کے سامنے۔۔
"کہا بھی تھا تجھے لڑکی پٹانے سے پہلے پتا تو کرلیتا کے لڑکی یونی کے وائس چانسلر کی بھانجی ہے" لوگوں میں سے ایک لڑکے نے بلند آواز سے کہا۔۔
"اب سمجھ آیا اسکا ہمیشہ یونی میں ٹاپ کرنے کا راز" ایک اور بلند آواز آئی۔۔مجموے میں سب کی دبی دبی ہنسی گونجنے لگی عمیر غصے سے مٹھیاں بھینچتا وہاں سے چلا گیا۔
*******
عمیر اور صارم خاموشی سے میز پر کھانا کھا رہے تھے ۔۔صارم آج کے واقعے کے بارے میں یونی میں اتنے لوگوں کے موں سے سن چکا تھا کے اب اسنے عمیر سے اس بارے میں بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔البتہ اس لڑکی کو تو سبق سکھانے کا منصوبہ تو وہ پہلے ہی تیار کر چکا تھا کوئی عمیر کو بے عزت کرے اور صارم ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا رہے نا ممکن۔۔۔
عمیر کل سے انکے گھر پر ہی رکا ہوا تھا صائمہ تائی کے بھانجے کی شادی لاہور میں تھی تو انکو ہاشم تایا اور رمشا کو وہاں جانا پڑ گیا تھا اور عمیر کا جانے کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا اسلئے صارم اسے زبردستی اپنے گھر لے آیا تھا اور بڑوں نے جب تک وہ لوگ واپس نہیں آجاتے اسے یہاں رکنے کی خاص تاکید کی تھی۔۔
میراب شام کے وقت نیچے آئ تو لاونج میں سب بیٹھے خشگپیوں میں مصروف تھے وہ یونی سے واپسی کے وقت اپنی دوست کے گھر چلی گئی تھی اور کھانے پر بھی موجود نا تھی تو اب تک اسکی عمیر سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
وہ قدم قدم چلتی عمیر کے بلکل مقابل کھڑی ہوگئی جو کسی کام سے کھڑا ہوا تھا۔میراب نے سامنے موجود بڑوں تک کا لحاظ نا کرا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے موں پر مارا۔عمیر جو کے اس حملے کے لئے بلکل تیار نا تھا ذرا سا لڑکھڑایا آج کے دن یہ اسکا دوسرا تھپڑ تھا۔۔ایک بھری یونی کے سامنے اور ایک سب گھر والوں کے۔اسکے لئے آج کا دن ہی منحوس تھا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے میراب" صارم غصے سے اسکے پاس آیا۔
"اگر یہ بدتمیزی ہے تو وہ کیا ہے جو تمہارا دوست کرتا پھر رہا ہے۔۔۔کہا تھا نا میں نے باذ آجاؤ اپنی حرکتوں نے " اسنے انگلی اٹھا کر عمیر سے کہا۔
"کتنی باتیں سن نی پڑی ہیں مجھے اسکی وجہ سے۔" اب اسنے صارم نے کہا تھا۔
"بعد میں بات کرلینا تم دونوں ابھی کم از کم گھر والوں کے سامنے تو تماشا نا بناؤ۔" صارم نے جب سب کو دم سادھے میراب کی اس حرکت کو دیکھا تو اسکے کان میں سرغوشی کی۔۔
"اب کوئی بات نہیں ہوگی۔۔سارا دن مجھے اتنی باتیں سن نے کو ملی ہیں کے اپنے بویفرینڈ کو سمبھال کر رکھو ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا ہے وہ "can you believe it?"اب کی بار اسنے آہستہ کہا تھا کے صرف عمیر اور صارم ہی سن پاے تھے۔۔یہ کہتی وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی اور عمیر سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گیا۔ان دونوں کے جانے کے بعد صارم نے گھر والوں کو یونی میں ہونے والے انکے جھگڑے کے بارے میں بتاکے مطمعین تو کرلیا تھا مگر وہ میراب کی اس قدر بدتمیزی وہ بھی مہمان کے ساتھ کرنے پر بہت خفا تھے۔
اریبہ جو اس پورے واقعے کے دوران کمرے سے باہر ہی نہیں آئ تھی تو اسے کانوکان خبر نا ہوئی تھی کے نیچے کیا تماشا لگا ہوا ہے۔
*******
وہ انکے گھر کی چھت پر اکیلا بیٹھا تھا جب ہی اریبہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں آئ۔دسمبر کی جما دینے والی سردی میں اسے اس طرح بیٹھے دیکھ اسے فکر لاحق ہوئی۔۔
" یہ رات کے اس وقت آپکو کیا شوق ہوا ہے ہسپتال جانے کا۔"وہ اسکی آواز پر چونکا پھر دوبارہ سے چہرہ جھکا لیا۔
"عمیر بھائی نیچے چلیں میرے تو یہاں آتے ہی دانت بجنے لگے ہیں اور آپ تو کب سے یہاں بیٹھے ہیں"
"کیوں کے میں تمہاری طرح نازک نہیں ہوں" اسنے بے تاثر لہجے میں کہا۔
"ہاں لیکن انسان تو ہیں نا۔اب چلیں" اریبہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہا مگر اسکا ہاتھ شدید گرم تھا۔
"یا اللّه" اریبہ کے موں سے چیخ نکلی۔۔۔اریبہ نے اسکے قریب اکر اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کیا۔۔
عمیر نے پہلی بار اسے اتنا قریب سے دیکھا تھا۔
"آپ کو تو بہت تیز بخار ہے میں کسی کو بلا کے لاتی ہوں" وہ پریشانی کے عالم میں جانے کے لئے پلٹی تبھی عمیر نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔
"مت جاؤ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ پلز۔" عمیر کی آواز بھی کپکپا رہی تھی اسکے لہجے میں ایک التجا تھی کے کم از کم اریبہ اسے منع نہیں کریگی۔
اریبہ کو اسکا یہ انداز عجیب لگا۔اور رات کے اس پہر اسکے ساتھ بیٹھنا کچھ مناسب بھی نا لگا۔ہاں البتہ دن کا وقت ہوتا تو وہ خوشی خوشی اسکے ساتھ گپے لڑاتی۔
"آپ رکیں میں آپکے لئے کالی چاے بنا کے لاتی ہوں آپکی سردی فورن غایب ہوجاےگی"اسے منع کرنے میں تھوڑا عجیب لگا تو بہانہ بنا کر نیچے جانا چاہا۔
" میں نے منع کردیا نا"اسنے سختی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
ایک پل کے لئے وہ گھبرائی مگر دوبارہ منع کرنا چاہا تو اسنے اتنی سختی سے اسے پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا کے وہ سہم کر رہ گئی۔
"ایک بار کی بات سمجھ میں نہیں آتی کہا نا بیٹھ جاؤ کھا نہیں جاؤنگا"
"ننننہیں عمیر بھائی اسی بات نہیں ہے میں تو بس اپکا بخار" اسکی بات پوری نہیں ہوئی تھی کے عمیر یک دم دھارا۔۔
"چپ بلکل چپ۔۔تم لڑکیاں سمجھتی کیا ہو مجھے۔۔آج دو لڑکیوں نے بے عزت کیا ہے مجھے اور اب تم بھی انکار پر انکار کر رہی ہو۔۔۔میں عمیر ہاشم جسکی ذہانت کے چرچے پوری یونی میں تھے۔۔کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی میرے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے کی آج اس لڑکی کی وجہ سے ان میں اتنی ہمت آگئی کے مجھ پر جملے کس رہے تھے وولوگ۔" غصے سے اسکی آنکھیں شدید سرخ ہورہی تھیں اور ایک ساتھ اتنی سری سگریتیں پھونکنے کی وجہ سے بھی۔
اریبہ کو زندگی میں پہلی بار اسکی آنکھوں سے خوف آیا۔
"اور تمہاری بہن وہ کیا سمجھتی ہے خود کو۔سب کے سامنے مجھے تھپڑ ماریگی اور میں ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا رہونگا۔بھول ہے یہ اسکی۔میں اتنی آسانی سے معاف نہیں کیا کرتا۔۔یہ جو ہر وقت میراب میراب کی رٹ لگائی ہوئی ہے نا اسنے۔۔اسے کہیں موں دکھانے لائق نہیں چھوڑونگا میں۔"
"مگر آپی نے کیا کیا ہے؟وہ جو اس سارے معاملے سے بےخبر تھی اپنے سوالات کے ڈبے کو کھولتے وقت کی نزاکت بھی نا سمجھی۔
" یہ تو تم اس سے پوچھنا۔۔اسے سب سے زیادہ جس سے محبت ہوگی نا اسے بھی اسی طرح ذلیل کرونگا جس طرح آج اسنے مجھے کیا ہے۔"ان ساری باتوں کے دوران اسنے ایک سیکنڈ کے لئے بھی اسکا بازو نہیں چھوڑا تھا۔۔اپنا غصہ شاید وہ اس معصوم پر نکلنا چاہ رہا تھا۔اسکی انگلیاں اسکے بازو میں گڑ چکی تھیں۔
"اہ چھوڑیں عمیر بھائی مجھے درد ہورہا ہے" وہ روتے ہوئے اب اسکی منت کر رہی تھی۔
عمیر نے پہلے تو اسے غور سے دیکھا۔۔۔۔اسنے تو کبھی اریبہ پر زیادہ توجہ ہی نا دی تھی مطلب وہ اسکے لئے اب تک چھوٹی بچی ہی تھی جو اسکی گود میں کھیلتی تھی۔۔اسنے غور سے اریبہ کی آنکھوں میں دیکھا پھر چہرے پر ایک شاطرانہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"وہ سب سے زیادہ تم سے محبت کرتی ہے نا؟تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی نا تو اگر تمہاری عزت پر کوئی بات آجاے تو مجھے اسکی آنکھوں میں تکلیف نظر آےگی۔" عمیر نے یہ کہ کر اسے خود سے قریب کیا۔۔اسے تو کوئی فرق نا پڑا البتہ اریبہ کے تو فرشتوں نے بھی آج تک کسی لڑکے کو اتنا قریب سے نہیں دیکھا تھا۔اسے جب اسکی بات کا مطلب سمجھ آیا تو وہ کانپ کر رہ گئی۔
"عمیر بھائی آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔۔کچھ تو اللّه سے ڈریں۔۔آپ اپنے گھر کی عزت کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں" وہ بےبسی کی آخری حد پر تھی۔۔یہاں سے تو اسکی آواز گھر کی در و دیوار تک نے نا سن نی تھی۔۔اسنے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
عمیر نے اسکے ہاتھ پر سے اپنی گرفت ڈھیلی کری اور تھوڑی سے پکڑ کر اسکا چہرہ دایں سے بایں گھمایا۔
"ویسے دیکھنے میں تو تم بھی بری نہیں ہو۔کچھ دن کے لئے میرے لئے اچھا ٹائم پاس بن سکتی ہو۔۔۔بس تمہے اسمیں میرے ساتھ رہنا ہوگا ہم ساتھ گھومنگے ہر جگا جاینگے مزے کرینگے۔۔۔بس مجھے اسکے بعد میراب کا حسد دیکھنا ہے جو اسے اپنی سگی بہن سے ہوگا۔مجھے اس کام کا بہت تجربہ ہے تم بھی سیکھ جاوگی ابھی تو تم چھوٹی ہو۔" اریبہ بے یقینی سے اسے دیکھ جارہی تھی۔۔اپنوں کا یہ کونسا روپ تھا جو اسنے اتنی کم عمر میں دیکھ لیا تھا۔۔
"بکواس بند کریں عمیر بھائی۔" وہ اپنی پوری قوت سے چللائی۔
"شرافت سے ہاں بولدو مجھے زبردستی کرنے پر مجبور مت کرو۔" عمیر نے آج بدتمیزی کی تمام حدیں پار کر دیں تھی۔
اریبہ میں نا جانے کہاں سے اتنی طاقت آگئی تھی کے اسنے ایک جھٹکے سے اپنا بازو اسکی گرفت سے چھڑایا اور ایک زور دار تھپڑ اسے رسید کیا اور نیچے بھاگی گویا موت سے جان چھڑانے والا بھاگتا ہے۔۔۔
پہلے دو تھپڑوں نے اسے ہوش کی دنیا سے بیگانہ کر کے اسمیں انتقام کی آگ بھڑکائی تھی اور یہ تھپڑ اسے ہوش کی دنیا میں واپس لایا تھا
اسکے جاتے ہی عمیر ایک دم ہوش میں آیا۔۔وہ کیا کر چکا تھا یا کیا کرنے جارہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
شاید یہ نشے کا اثر تھا جو وہ سارا دن دوستوں میں کرتا رہا تھا کے وہ اپنے سامنے بیٹھے ووجود کو بھی نا پہچان سکا۔وہ جو اسے رمشا جیسی عزیز تھی آج وہ اس نے اسکے دل میں ہمیشہ کے لئے اپنی نفرت بٹھا دی تھی۔اگر اریبہ کچھ دیر اور یہاں رکتی تو شاید وہ کچھ ایسا کردیتا کے نا اریبہ خود سے نظریں ملا پاتی نا وہ خود اپنے آپ سے۔اللّه نے ایک بہت بڑا گناہ کرنے سے اسے بچالیا تھا۔۔وہ اپنی غلطی کا بوجھ ساتھ لئے سردی سے بےنیاز چھت کی ٹھنڈی زمین پر یونہی سوگیا۔۔اسے اس وقت صرف نیند چاہیے تھی اس عذاب سے جو وہ کسی پر ڈھا چکا تھا
جاری ہے۔۔۔۔
Do votes and give your review..

محبت آخری خواب  از قلم ماہ نور ✔CompletedWhere stories live. Discover now