episode 14

1.1K 80 13
                                    

"آپی"اریبہ نے برابر میں بیٹھی میراب کو پکارا
" ہوں؟"اسنے مصروف انداز میں پوچھا۔
"صارم بھائی کتنے اداس ہوگئے ہیں نا عمیر بھائی کی وجہ سے پہلی بار ہم نے انکے ساتھ خاموشی سے سفر کیا ہے ورنہ تو انکی باتوں کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ڈالنی پڑ جاتی ہیں۔گھر آکر بھی بنا کسی سے بات کیے کمرے میں چلے گئے۔" اریبہ نے اداسی سے کہا۔
"ہوں اچھا" میراب نے اسکی باتوں کو نظرانداز کیا۔
"اپی میں اپسے بات کر رہی ہوں" میراب کی طرف سے جب کوئی جواب نا ملا تو وہ دوبارہ بولی۔
"آپ ناراض ہیں مجھسے؟" اسنے معصومیت سے پوچھا۔
"ہاں ناراض ہوں میں مجھے لگتا تھا میں اپنی بہن کی رازدار ہوں مگر میں غلط تھی" میراب نے دکھ سے کہا۔
"میں آپکو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی میں نے جو کچھ بھی ہوسپٹل میں کہا وہ جان بوجھ کر نہیں کہا۔۔اگر عمیر بھائی کی اسی حالت نا ہوتی تو میں کبھی خود سے بھی اس بات کا اقرار نا کرتی۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کے آپ انھے پسند کرتی ہیں میں نے غلط کیا ایم سوری" اسنے اسے اپنے پاس بلایا اور اریبہ اسکی گود میں لیٹ گئی۔
"تمہے کیا لگتا ہے میں اسلئے ناراض ہوں؟بہنوں کا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہوتا جو کوئی بھی شخص انکے بیچ میں آجاے۔۔تمہے کیا لگتا ہے میں اتنی کمظرف ہوں جو اپنی چھوٹی بہن کی خوشیوں کے لئے قربانی نہیں دے سکتی؟اور میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کے میں صرف اسے پسند کرتی ہوں مگر تم اس سے محبت کرتی ہو جس طرح سے تمہاری ہوسپٹل میں حالت ہوئی تھی میں تو ان ساری چیزوں سے بہت دور ہوں۔اور ویسے بھی مجھے اپنی بہن عمیر سے زیادہ بلکے اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے اور یہ بات اپنے چھوٹے سے دماغ میں بیٹھا لو" میراب نے اسکے سر پر ہلکی سی چت لگاتے ہوئے کہا۔
"مطلب آپ مجھسے ناراض نہیں ہیں" اریبہ نے چہک کر پوچھا۔میراب نے نفی میں سر ہلایا۔۔
"ایک بات پر ہوں ناراض۔تم نے مجھسے کچھ اور بھی چھپایا ہے۔۔۔میں نے ہوسپٹل میں تمہاری اور عمیر کی باتیں سن کی تھیں مجھے پوری بات بتاؤ"
"جانے دیں نا آپی۔پرانے زخموں کو تازہ کرنے سے کیا فائدہ"
"اریبہ مجھے بتاؤ" اب کی بار میراب نے قدرے سختی سے کہا۔
چار و ناچار اریبہ کو پوری بات الف سے یہ تک بتانی پڑی۔۔میراب بس دم سادھے اسے سنتی رہی۔۔۔آخر میں ایک آنسو ٹوٹ کر اسکے چہرے میں جذب ہوگیا۔
"مجھے تو اب تک یقین نہیں آرہا کے یہ سب عمیر نے کیا ہے۔"
"ہم جو تمہاری آنکھوں میں ایک آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے اسکے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا اور ہمیں بھنک تک نہیں ہوئی تم اتنی بڑی کب ہوگئی کے اپنے دکھ چھپانا آگئے تمہے؟"
"میں بس آپکو اداس نہیں کرنا چاہتی تھی میں نہیں چاہتی تھی کے اس سب کا قصوروار آپ خود کو سمجھیں۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے عمیر بھائی کی طرف سے اپنا دل پوری طرح صاف کرلیا ہے مجھے اب انسے کوئی شکایت نہیں رہی۔۔۔وہ بدل چکے ہیں آپ بھی انھے معاف کردیں۔اور آپ یہ بات کسی کو بھی نہیں بتاینگی صارم بھائی کو بھی نہیں؟" اریبہ نے مکمل طور پر تسلی کرنا چاہی۔میراب بھی سر ہلا کر سونے کے لئے لیٹ گئی۔
********
وہ تھکا ہوا سا باہر سے آیا صوفے پر بیٹھ گیا۔
امی کو اسنے چاۓ بنانے کا کہا جو کے اریبہ کے ذمے یہ کام لگا کے خود دوسرے کام میں مصروف ہوگئیں۔
کچھ دیر بعد اریبہ نے اسکے سامنے چاۓ کا کپ کیا جو صوفے کی پشت سے ٹیک لگاے آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔
"صارم بھائی آپکی چاۓ"اریبہ کی آواز اور اسنے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔وہ جتنی کوشش کرتا تھا کے وہ لڑکی اسکے سامنے نا اے وہ ہر بار اس کے سامنے آجاتی کیوں کے اسکا ہر کام کرنے کی عادت اسی کو تھی ۔
"میں نے امی سے کہا تھا شاید" اسنے روکھے لہجے میں کہا۔
"لیکن انہونے مجھسے کہ دیا اب پکڑ بھی لیں میرا ہاتھ درد ہوگیا ہے اسے پکڑ پکڑ کر" اریبہ نے خفگی سے کہا۔
"تو واپس لے جاؤ۔نہیں پینی میں نے۔ایک کام کیا کہ دو امی سے وہ بھی دوسروں پر ڈال دیتی ہیں" وہ غصے میں کہتا کمرے کی جانب بڑھا۔اریبہ کو اسکے انداز نے تکلیف دی بھلا اسے کہاں عادت تھی کے کوئی اس سے اس طرح بات کرے۔
"اسی چاۓ آپکے علاوہ گھر میں کوئی نہیں پیتا اسلئے آپکو ہی پینی پڑیگی اور آپکو تو پتا ہے نا مجھے کھانے پینے کی چیزوں کو ضائع کرنا بلکل پسند نہیں ہے۔" اریبہ نے اسکے راستے میں آتے ہوئے کہا۔۔
"ایک بار منع کردیا سمجھ نہیں اتا؟اوہ آپکو کیسے سمجھ ایگا آپکو انکار سن نے کی عادت جو نہیں ہے۔میڈم یہاں ہر کوئی آپکی ہاں میں ہاں نہیں ملاہے گا اور بھی لوگ رہتے ہیں اس گھر میں" اریبہ کا دل اسکے کڑوے طنز پر ٹکرے ٹکرے ہوگیا۔
"آپ زیادتی کر رہی ہیں صارم بھائی۔عمیر بھائی کی وجہ سے ہم سب ہی پریشان ہیں مگر اپنے تو سب کو خاص کر کے مجھے نظرانداز کرنے کی قسم کھالی ہے" اریبہ نے اپنی آنکھوں کے کٹورے بھرتے ہوئے کہا۔وہ جانتی تھی صارم اسے جتنا بھی ڈانٹ لے جیسے ہی اسکی آنکھوں میں آنسو آیینگے وہ سب کچھ چھوڑ کر بس اسے مناۓ گا۔مگر اس بار تو صارم کے دل میں اسی آگ لگی تھی جسے اریبہ کے آنسو بھی نا بجھا پاے۔
اریبہ کے موں سے عمیر کا نام سن کر صارم کا ضبط جواب دے گیا اور اسنے ایک جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے کپ دور پھینکا۔اسکے ٹکرے پورے صحن میں پھیل گئے۔اریبہ بےیقینی سے اسکا یہ روپ دیکھ گئی۔
"کیا سمجھتی ہو خود کو؟اپنی عید معصومیت سے کسی کا بھی دل پگھلا لوگی بہت شوق ہے نا تمہے سب کے دلوں پر اپنا نام لکھنے کا اب میری بات کان کھول کر سنلو آیندہ میرے سامنے مت آنا ورنہ نتائج کی ذمیدار تم خود ہوگی۔۔میں جس قدر محبت کر سکتا ہوں اس سے کہیں زیادہ نفرت بھی کر سکتا ہوں مجھے اتنا مجبور مت کرو کے میں کچھ ایسا کر گزروں کے مجھے بعد میں خود بھی پچھتانا پڑے۔" وہ انگلی اٹھا کر اسے تنبہیہ کرتا سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے ووہیں ساکت چھوڑ گیا۔
********
کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے اریبہ سر درد کی وجہ سے کھانے پر موجود نا تھی میراب جب کمرے میں آئ تو اریبہ لیٹی ہوئی تھی
"کھانا کیوں نہیں کھایا؟" میراب نے پلنگ پر بیٹھ تے ہوئے کہا۔
"بھوک نہیں تھی" اسکی بھرائی ہوئی آواز سن کر میراب نے اسکی آنکھوں پر سے اسکا بازو ہٹایا تو اسکی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں
"بیٹھو بتاؤ مجھے اب کسی نے کچھ کہا ہے کیا تمہے؟" اریبہ نے اسکی بات پر نفی میں سر ہلایا۔
"صارم نے؟" اب کی بار اریبہ نے سر جھکالیا۔
"ہم مطلب صارم نے تمہے ڈانٹا ہے یار وہ حد سے زیادہ فکر کرتا ہے تمہاری اسلئے تمہاری لاپرواہیوں پر ڈانٹ دیتا ہے اب تم اتنی اتنی سی باتیں دل پر لے کر رونے نا بیٹھ جایا کرو"
"آپکے لئے چھوٹی بات ہوگی مگر جس طرح صارم بھائی نے آج مجھسے بات کی ہے میں آیندہ کبھی انسے بات نہیں کرونگی۔" اسکے اب مکمل طور پر آنسو چھلک پڑے تھے۔
"وہ عمیر کی وجہ سے یوں ہوگیا ہے جب اسکی طبیعت سمبھلیگی تو وہ خود ہی ٹھیک ہوجاۓ گا" میراب نے اسے سمجھایا۔
"وہ آج مجھے ڈانٹ نہیں رہے تھے مجھے انکی ڈانٹ کی عادت ہے مگر آج انہونے میرے لئے نفرت کا لفظ استمعال کیا انکی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا میں نے ایسا کیا کردیا ہے جو وہ مجھسے اس حد تک ناراض ہیں کے اب ہمارے بیچ نفرت پیدا ہوجانے کا ڈر ہے؟" وہ اب باقاعدہ رورہی تھی۔
"صارم نے یہ کہا تم سے؟" میراب نے دکھ سے اس سے پوچھا۔اریبہ نے اپنے آنسو رگڑے۔
"بس اب تھک گئی ہوں میں سب کے نئے نئے روپ برداشت کر کے۔۔جب اسی طرح زمین پر پٹخنا ہوتا ہے تو پہلے اپنے رویوں سے آسمان پر کیوں پوھچاتے ہیں لوگ؟مجھے اب تک عمیر بھائی کی حرکت نہیں بھولتی کے اب صارم بھائی بھی؟ایک وہی تو رہ گئے تھے جن پر میں آنکھیں بند کر کے بھی بھروسہ کر لیتی تھی اب انسے بھی احتیاط کرنا پڑیگی مجھے؟
مجھے خوشفہمی تھی کے میں سب کی لاڈلی ہوں اس گھر میں مگر ایک بار تو ہر کوئی مجھے میرا مقام یاد دلا ہی دیتا ہے اب بس آپ کبھی ایسا مت کرنا"
وہ دل برداشتہ سی سونے کے لئے لیٹ گئی اور میراب بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔
**********
عمیر کو ہوسپٹل سے چھٹی مل چکی تھی۔۔طبیعت بھی کافی حد تک سمبھل چکی تھی اب وہ گھر بیٹھے بیٹھے بور ہوگیا تھا اسلئے کل سے زبردستی یونی جانے کی ضد کی تھی۔۔کچھ دیر بعد جب نماز کا وقت ہوا تو وضو کرنے گیا۔۔۔شیشے میں اپنا عکس دیکھا چہرہ انتہائی پسرمردہ دکھائی دے رہا تھا اسنے موں پر پانی کے چھینٹے مارے۔اچانک ہی اسے اپنا عکس شیشے میں بدلتا دکھائی دینے لگا۔
"نماز پڑھ کے اپنے کونسے گناہوں کی معافی مانگوگے؟اسنے چونک کر سامنے دیکھا۔سامنے کھڑا شخص آنکھوں میں حقارت لئے اسے دیکھ رہا تھا۔
" ان گناہوں کے لئے جو تم پہلے کر چکے ہو یا جو اب کرنے جارہے ہو؟"
"میرا اب ایساکوئی ارادہ نہیں ہے" اسنے خود کو جواب دیا۔
"اچھا تو پھر اپنے جان سے پیارے دوست جس کے بارے میں اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کے اسکے لئے جان بھی دسکتے ہو اسکو دھوکہ دینا اسکی محبت کو چھین نا ثواب سمجھ کر کر رہے ہو؟"
"میں کوئی دھوکہ نہیں دے رہا اریبہ خود مجھسے محبت کرتی ہے وہ صارم سے محبت نہیں کرتی" اسنے خود کو ہی صفائی دی۔
"ان بہانوں سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔۔تم نہیں بدلے تم ابھی بھی خودغرض ہو تم اریبہ جیسی لڑکی کے قابل نہیں ہو"
"جسٹ شٹ اپ" اسنے مٹھیاں بھینچ کر زور سے شیشے پر مکا مارا سامنے والا شخص ہوا میں تحلیل ہوگیا۔۔
"ہاں مانتا ہوں میں کے عمیر ہاشم خودغرض ہے مگر مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔۔۔اپنی پسند کو پانے کے لئے کوشش کرنا کوئی برائی نہیں ہے۔۔اریبہ میری عادت بن چکی ہے اب اسکے بغیر میں ایک لمحہ اور نہیں گزر سکتا۔مجھے نہیں پتا قدرت نے ہمارے حق میں کیا فیصلہ کیا ہے۔۔۔
اب اگر وہ مجھے نا ملی تو اسے پانے کے لئے میں اسکے ساتھ تو کچھ غلط نہیں کرونگا مگر مجھے اتنا یقین ہے کے میں خود کو ضرور کچھ کرلونگا ۔
اس سے پہلے میرا جنوں اس قدر نہیں بڑھا تھا مگر جب سے میں نے اسکے موں سے اقرار سنا ہے اب میں ایک دن بھی اسے نا دیکھوں تو مجھے سکوں نہیں ۔ملتا۔اگر اس تڑپ کے باوجود بھی وہ مجھے نا ملی تو تم اپنی جان بچانے کے لئے تیار ہوجانا سمجھے" عمیر غصے سے انگلی اٹھا کر اپنے آپ کو ہی تنبہیہ کرتا نکل گیا اور ایک دھاڑ سے دروازہ بند ہوگیا۔

محبت آخری خواب  از قلم ماہ نور ✔CompletedWhere stories live. Discover now