ایک دن جب ارسلان یونیورسٹی سے واپس آیا تو فریحہ نے ارسلان کو کال کی
"ارسل کیسے ہیں آپ"
میں ٹھیک ہو تم بتاؤ تم کیسی ہو
فریحہ:"میں بھی ٹھیک ہوں"
معمول کی باتوں کے بعد فریحہ نے کہا کہ
"ارسل آپ کو پتا ہے کہ میری دوست کی شادی ہے ہے اور میں وہاں جا رہی ہوں اور امی بھی ساتھ جا رہی ہیں میں چاہتی ہوں کہ آپ بھی آؤ کیونکہ میرا آپ کو ملنے کا دل کر رہا ہے"
ارسلان:"فریحہ تمہاری دوست کی شادی ہے میں کیسے آ سکتا ہوں"
فریحہ:"یار کیا ہوگیا ہے آپ نے ہمارے ساتھ جانا ہے"
ارسلان:"اچھا چلو مجھے تاریخ بتا دو میں آ جاؤں گا"
شادی ہفتہ کو تھی اور ہفتہ کو یونیورسٹی سے چھٹی ہوتی تھی اس لئے ارسلان چلا گیا
وہاں پہنچ کر اسلان اور فریحہ کی ملاقات ہوئی ہوئی دونوں بہت خوش تھے ،خوش کیوں نہ ہوتے اتنی دیر بعد ملاقات جو ہو رہی تھی اور دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کو دیکھنے کی منتظر تھیں
فریحہ بہت خوش تھی اس نے ارسلان کو اپنی دوستوں سے ملوایا
اور پھر وہ دونوں چھت پہ چلے گئے
فریحہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پہ رونق تھی
پھر وہ دونوں باتیں کرنے لگے۔
ارسلان :" ماشاءاللہ آج تو بہت پیاری لگ رہی ہو"
فریحہ مسکرا کر بولی "آپ نے جو آنا تھا اس لیے"
اور دونوں ہنس پڑے
فریحہ "ارسل کچھ تصویریں بناتے ہیں"
"ہاں کیوں نہیں" ارسلان مسکرا کر بولا
ارسلان میں موبائل کا کیمرہ آن کیا اور تصویر بنانے لگا
فریحہ ارسلان کے ساتھ ہو کر کھڑی ہو گئی بھی اور ایک ہاتھ ارسلان کے کندھے پے رکھ لیا
ارسلان تصویر بنا رہا تھا اور فریحہ ارسلان کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی یہ دیکھ کر ارسلان نے تصویر کی جگہ ویڈیو آن کر لی
فریحہ مسلسل اسلان کے چہرے کو دیکھ رہی تھی اور ایک دم اس نے ارسلان کے گال کو چوما اور شرما گئی
دونوں مسکرا رہے تھے
رات کو جب دونوں بات کر رہے تھے تو ارسلان نے فریحہ کو ویڈیو سینڈ کی
دونوں ہنس رہے تھے تو فریحہ نے کہا"ارسل تمہیں پتا ہے کہ تمہارے چہرے پہ بہت دھول پڑی ہوئی تھی"
ارسلان"تو یار مجھے بتا دیتی نہ میں چہرہ صاف کر لیتا" یہ بول کر وہ ہنس پڑا
پھر ارسلان نے بتایا یا کہ دراصل وہ بائیک پہ آیا تھا جس وجہ سے دھول پڑ گئی تھی۔
وہ لمحات کتنے حسین ہوتے ہیں نہ جو اس انسان کے ساتھ گزریں تھے جس سے آپ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
ارسلان ور فریحہ کی محبت ایسی ہی تھی۔ وہ ہر رات ایک دوسرے سے بات کرتے تھے۔تنو سجاواں تنو سنواراں
تنو اینا سنوار رکھاں
تنو اوے نہ دکھ کدیں
تنو اینا خوش رکھاں
سجاواں پھلاں نال تے
تنو سجاواں نال موتیاں
دے دیوے اجازت زمانہ تے
ہر حد توں گزر جاواں
تنو ہنساواں تنو رلاواں
تنو یر پل نال رکھاں
تنو ہووے نہ دکھ کدیں
تیرا اینا خیال رکھاں
پیار کراں تے اینا کراں
تنو کی دساں
کرے رشک زمانہ وی
اینا تنو پیار کراں
دیواں جان ہار تے
تنو جان وار دیواں
دیوے گواہی زمانہ وی
تنو اینا مان دیواںارسل میں بہت خوش ہوں آپ یقین نہیں کر سکتے مجھے یونیورسٹی جانے کا کتنا شوق تھا " صبح صبح ارسلان کی آنکھ کھلی ہی تھی کے فریحہ کا فون آ گیا آج اسکا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا ۔ وہ بہت دنوں سے یونیورسٹی جانے کی تیاریاں کر رہی تھی ۔ ارسلان جانتا تھا کے وہ کس قدر اکسائٹیڈ تھی ۔ اسی لئے صبح اٹھتے ہی جب وہ یونیورسٹی کے لئے تیار ہوئی تو اس نے ارسلان کو ویڈیو کال کی وہ اسے دکھانا چاہتی تھی کے وہ کیسی لگ رہی ہے ۔ کیوں کے ایسی فرمائشیں اس سے ارسلان ہی کرتا تھا اور تیار ہو کر فون کرنے کے لئے بھی اسے ارسلان نے ہی کہا تھا ۔ ارسلان کو یونیورسٹی آئے ایک سال اور چھے ماہ ہو چکے تھے ۔
"اچھا نا اب بتاؤ کیسی لگ رہی ہوں " فریحہ نے ارسلان کو کہا جو مزے سے فریحہ کی اکسائٹمینٹ سے لطف لے کر ہنس رہا تھا ۔۔
"ہمیشہ کی طرح شہزادی " ارسلان نے محبت بھرے لہجے سے کہا
"اوکے چلو اب میں چلتی ہوں " فریحہ فون بند کرنے لگی جب ارسلان نے اسے روکا
"رکو ۔۔ تم نے برقع نہیں پہننا " ارسلان نے پوچھا
"ارسل میں برقع پہنے بغیر باہر جاتی ہوں کیا ۔ پہننے لگی ہوں کال بند کر کے "
"ہاں تمھیں پتا ہے نا مجھے پسند نہیں تم برقعے کے بغیر باہر جاؤ "
"ہاں جانتی ہوں اور جناب" فریحہ نے معصوم سی شکل بنا کر بولا
"فریحہ اپنا بہت خیال رکھنا ۔۔" ارسلان نے کہا فریحہ نے سر اثبات میں ہلایا ۔۔
______________________
فریحہ نے یونیورسٹی سے آتے ہی ارسلان کو فون کر کے یونیورسٹی کے بارے میں بتایا وہ بہت خوش تھی ۔ بچوں کی طرح وہ ایک ایک چیز ارسلان کو بتا رہی تھی اور ارسلان بھی دلچسپی سے سنتا رہا اسے فریحہ پر بے حد پیار آتا تھا جب وہ اپنی دھن میں مگن ہو کر ارسلان سے باتیں کرتی تھی ۔ ۔
فریحہ نے اپنی کچھ تصاویر ارسلان کو بھیجیں جو کہ اس نے یونیورسٹی بنائی تھیں
فریحہ کے بال کھلے تھے نہ ہی حجاب تھا اور نہ ہی سر پہ دوپٹہ
ارسلان نے تصاویر دیکھ کہ بولا" فریحہ تمہارا حجاب کدر ہے ؟
فریحہ:"ارسل کیسی "ٹیپیکل" باتیں کر رہے ہیں۔ اب کیا میں یونیورسٹی میں بھی حجاب کر کے رکھوں"
"ہاں تو اور کیا اگر حجاب نہیں تو کم از کم سر پہ دوپٹہ تو رکھو ۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی تمہیں بری نظر سے دیکھے۔"
ارسلان جدھر فریحہ سے بے پناہ محبت کرتا تھا ادھر وہ اس کی عزت اور پردے کا بھی بہت خیال رکھتا تھا
فریحہ کبھی گھر سے باہر بغیر عبایہ کے نہیں گئی تھی
وہ یونیورسٹی بھی عبایہ میں جاتی تھی مگر یونیورسٹی جاکر عبایا تو کیا حجاب بھی اتار دیتی تھی اور نہ ہی سر پہ دوپٹہ۔۔
فریحہ: "ارسل مجھے آپ کی پابندیاں نہیں چاہئیں۔ میں اپنی مرضی سے یونیورسٹی لائف جینا چاہتی ہوں"
فریحہ نے کبھی ارسلان سے اس طرح بات نہیں کی تھی
ارسلان اس کی محبت کا مارا ہوا تھا اور اسے کھونے سے ڈرتا تھا۔ اس لیے اس نے زیادہ بحث نہ کی۔ مگر اسے بہت برا لگ رہا تھا
محبت بھی انسان کو کتنا مجبور کر دیتی ہے۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کے سامنے اپنی کوئی مرضی بھی نہیں رکھ سکتا۔ اپنے محبوب کے سامنے جھکا رہتا ہے
محبت نام ہی جھکنے کا ہے چاہے وہ رب سے ہو یا انسان سے
اب ایسا نہیں تھا کہ ارسلان اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور تھا کہ وہ اپنی مرضی ظاہر نہیں کر سکتا
پچھلے تین سال سے زائد عرصہ میں فریحہ نے بھی ارسلان سے بہت محبت ظاہر کی تھی اور ان دونوں نے ایک دوسرے کو ہر طرح کی بات بلا جھجک کرنے کا حق دے رکھا تھا
مگر فریحہ کے رویہ نے ارسلان کو پریشان کر دیا تھا ۔۔۔۔
اب فریحہ روز یونیورسٹی جاتے ہوئے اور آتے ہی ارسلان کو فون کرتی تھی ۔ پہلی روٹین کے مطابق ان کی روز بات ہوتی تھی سب کچھ پرفیکٹ چل رہا تھا ۔۔ ارسلان فریحہ کے بارے میں بہت سر خرو تھا وہ جانتا تھا فریحہ اس سے بہت محبت کرتی ہے اور وہ دونوں بہت جلد ایک پاک رشتے میں بندہ جائیں گے ۔ لیکن ہمیشہ ویسا بھی تو نہیں ہوتا جیسا انسان چاہتا ہے ۔ ارسلان کی زندگی ایک نیا موڑ لینے جا رہی تھی ۔۔ فریحہ کو یونیورسٹی گئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا جب ایک دن
ارسلان نے یونیورسٹی سے ہوسٹل آ کر فون چیک کیا ۔ کیوں کے ان کی عادت تھی ہمیشہ ارسلان جب یونیورسٹی سے آتا تو وہ دونوں بات کرتے تھے لیکن آج فریحہ کی طرف سے کوئی میسج نہیں تھا ۔ وہ جانتا تھا فریحہ تھک گئی ہو گی یاں ابھی تک گھر نہیں پوھنچی ہو گی اس لئے میسج نہیں کیا ۔ ورنہ وہ گھر پوھنچ کر کم از کم ارسلان کو بتا ضرور دیتی تھی کے وہ گھر آ چکی ہے ۔ تھوڑی دیر فریحہ کے میسج کا انتظار کرنے کے بعد اس نے فریحہ کی چھوٹی بہن یشل کو میسج کیا
"جی بھائی " یشل کا اسی وقت جواب آیا
"فریحہ گھر آ گئی ہے کیا " ارسلان نے پوچھا
"جی بھائی وہ کافی تھکی تھی تو سو گئی ہے "
"اچھا جب اٹھی تو کہنا مجھے میسج کرے ۔ " ارسلان نے کہ کر فون رکھ دیا ۔۔ وقفے وقفے سے وہ فون دیکھتا رہا مگر فریحہ کا میسج نہیں آیا تھا شام ہو گئی تھی ۔ ارسلان کو اس سے بات کرنے کی عادت تھی اس لئے اسے آج سب کچھ ہی ادھورا ادھورا لگ رہا تھا ۔ شام کو فریحہ کا فون آیا تو ارسلان کی جان میں جان آئی ۔۔
رسمی سلام دعا کے بعد ارسلان فریحہ کے ہمیشہ کی طرح پوچھنے لگا کے اس نے یونیورسٹی میں آج کیا پڑھا ، کیا کچھ کیا ۔ جب فریحہ کوئی اور جواب دیئے بغیر بولی
"ارسل آپ ریسٹ کریں اب میں پڑھ لوں تھوڑا " فریحہ نے کہا
"ٹھیک ہے فری ہو کر مجھے میسج کر لینا " ارسلان نے کہا
"نہیں آپ سو جانا میں دیر سے فارغ ہوں گی " فریحہ نے جواب دیا
"کتنی دیر فریحہ میں انتظار کر لوں گا "
"ارسل مجھے پڑھنا ہے پھر فارغ ہو کر میں نے سونا ہے کیوں کے کل پھر یونیورسٹی جانا ہے نا " فریحہ کی بات پر ارسلان کو تھوڑا برا لگا کیوں کے وہ بھی تو روز یونیورسٹی جاتا تھا لیکن واپس آ کر بھی وہ بات کرتے تھے اور پوری پوری رات بھی لیکن پھر اس نے یہ کہ کر خود کو سمجھا لیا تھا کے ابھی نئی نئی روٹین بدلی ہے فریحہ کی وہ مینیج کر لے گی ۔ لیکن ایک ہفتے سے وہ مینیج تو کر رہی تھی پھر آج کیا ہوا تھا
"فریحہ پہلے تم سوئی رہی ، اب تم پڑھنے لگی ہو تو ٹھیک ہے لیکن پھر تم کہہ رہی ہو ہماری بات ہی نہیں ہوگی آج رات یار تم جانتی ہو نا مجھے عادت ہے تم سے بات کرنے کی رات کو " ارسلان نے فریحہ کو جتایا کے اسے فریحہ کی اپنی زندگی میں کتنی ضرورت ہے
"ارسل سمجھنے کی کوشش کریں نا پلیز اب میری پڑھائی مشکل ہو گئی ہے مجھے زیادہ وقت دینا پڑتا ہے پڑھائی کو " فریحہ نے اس معصومیت سے کہا کے ارسلان مزید کچھ بول نا پایا ۔۔۔۔۔۔آج صبح فریحہ نے یونیورسٹی جاتے ہوئے ارسلان کو فون یاں میسج نہیں کیا تھا ارسلان کو بہت برا لگا تھا اور وہ فریحہ کا انتظار کر رہا تھا کی یونیورسٹی سے آئے تو ارسلان اس سے شکایت کرے ، گلہ کرے ۔۔
۔
کہتے ہیں محبت سے زیادہ عادت جان لیوا ہوتی ہے ۔ فریحہ سے ارسلان کو محبت تو بے حد تھی ہی لیکن ساتھ ساتھ اس کے ساتھ کی عادت بھی تھی ۔ اگر فریحہ نے ارسلان کو سنوارا تھا تو ارسلان نے فریحہ کو محبت اور مان دیا تھا اسے بتایا تھا کے جب آپ کسی کی پرواہ کرو تو بدلے میں اگلا آپ کی کس طرح سے قدر کرتا ہے ۔ ارسلان فریحہ کی بہت قدر کرتا تھا ۔ وہ فریحہ کو کھونا نہیں چاہتا تھا جس سے محبت ہو اسے کھونے سے تو انسان کو ڈر لگتا ہی ہے ۔ یہ گلے ،شکوے ، شکایتیں تو محبت کے رشتے میں چلتی رہتی ہیں ۔ فریحہ نے یونیورسٹی سے آ کر ارسلان کو فون کیا
"ارسل " فون اٹھا کر ارسلان خاموش رہا تو فریحہ نے سلام کیا
" جی بولو " اس نے مختصر سا جواب دیا
"کیا ہوا بول کیوں نہیں رہے "
"مجھ سے بات مت کرو.
ارسلان تیزی سے بولا ۔ لہجہ تھوڑا سخت تھا ۔ پر اس غصے میں بھی ہائے اسکا پیار ۔۔
"اچھا تو آپ مجھ سے ناراض ہیں کے میں نے صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے آپ کو بتایا نہیں ہے ۔ اچھا جی سوری مسٹر ارسل " فریحہ نے دھیمے لہجے میں بولی
"فریحہ تم جانتی ہو نا میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں بس اسی لئے چاہتا ہوں کے تم سے رابطے میں رہوں " ارسلان نے اپنے جذبات کا اظہار کیا
"اچھا نا سوری اب جو تھوڑی دیر بات کرنی ہے وہ تو کریں پھر مجھے پڑھنا ہے رات کو " فریحہ نے اگلی خبر بھی ساتھ ہی دے دی تھی ۔
"فریحہ مجھے بھی اچھا نہیں لگتا تمھیں بار بار کہنا لیکن تم مینیج کرو یار تم جانتی ہو میں نے یونیورسٹی میں بھی کوئی دوست نہیں بنایا کیوں کے تم وہ واحد ہو جس سے میں ہر بات کرتا ہوں اب تم بھی مجھ سے رابطہ کم رکھو گی تو میں بہت اکیلا ہو جاؤں گا یار " ارسلان نے بہت محبت اور مان سے کہا
"اچھا میں کوشش کروں گی "وہ دل رکھنا جانتی تھی
_______________________________________امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے۔۔۔
کچھ پرسنل مسائل کی وجہ سے ناول پوسٹ نہیں کر پایا تھا۔ ابھی بھی زیادہ نہیں کر پایا پر کچھ نا ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔۔۔
Follow me on Instagram:@_arsl_writes_
YOU ARE READING
Pamal-e-Ishq (پامال عشق )
Humorبسم اللہ الرحمٰن الرحیم شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ السلام عليكم ! ہر انسان کسی نا کسی چیز سے انسپائر ہو کر لکھتا ہے۔ مگر دیکھا جاۓ تو اگر انسان سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو مجھے نہیں لگتا کے اسے کسی انسپریشن کی ضرورت...