قسط:١
"سیری یار کتنا بکواس لیکچر تھا۔مجھے تو ایک لفظ سمجھ نہیں آیا" مہروانسإ کلاس سے نکلتی ہوٸی سحر سے کہہ رہی تھی ۔"تمہیں کبھی کچھ سمجھ آیا بھی ہے سواٸے اردو کے"۔
"اب ایسی بات بھی نہیں۔۔"
"اچھاااا تو پھر کیسی بات ہے۔ اچھا چھوڑو مجھے بہت بھوک لگی ہے کچھ کھاتے ہیں"۔
"مجھے بھی" مہرو نے ہمایت کی ۔پھر دونوں کیفے ٹیریا کی جانب بڑھ گٸیں۔
"کیا لو گی" مہرو نے سحر سی پوچھا ۔"کچھ بھی منگوا لو یار باٸیو کی کلاس کا ٹاٸم ہو رہے جلدی کرو "
"میں تو نہیں لوں گی کلاس مجھے ایک لفظ نہیں آتا "مہرو اسینڈوچ کی باٸیٹ لیتے بولی۔
"کیوں نہیں لو گی تم کل یونی نہیں آٸی آج آٸی ہو تو کلاس نہیں لو گی ارادے کیا ہیں آپ کے میڈم ۔۔"
"ہاٸے ارادے تو بہت نیک ہیں میرے" مہرو اداکاری کرتے بولی۔
"اچھا اب یہ ڈرامے بازی بند کرو اور اٹھو۔۔"
"یار۔۔۔"
"کوٸی یار وار نہیں اُٹھ اُٹھ۔۔"
"بہت بدتمیز ہو تم" مہرو سحر کو کُہنی مارتے بولی۔
"شکریہ شکریہ" سحر کمر جھکاٸے ہاتھ منہ کے قریب کر کے بولی۔
ان کے کلاس میں جانے تک لیکچر اسٹارٹ ہو چکا تھا۔"
"او نو لیکچر اسٹارٹ ہو گیا میں تو نہیں جاٶں گی اب" مہرو پلٹتے ہوے بولی ۔
"کیوں نہیں جاٶ گی" سحر نے اس کا بازو کھینچا۔
"میرا کوٸی موڈ نہیں لینے کا تم نے لینا ہے تو لو میں تو چلی "
"تم اب میرے ساتھ ایسا کرو گی مہرو" سحر منہ بناتی بولی۔
"تو تم بھی نا لو ویسے بھی کل رزلٹ ہے"
"چل ٹھیک ہے پھر میں بھی نہیں لے رہی"
"سیری مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے کیا ہو گا"
"اتنی ہی ٹینشن تھی تو پڑھ لینا تھا" سحر بولی ۔وہ دونوں گراٶنڈ کی طرف چل دی۔
"یا اللہ مجھے پاس کر دینا سحر اگر میں پاس نہ ہوٸی تو.. یار مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے میں فیل ہو گٸی تو"
"تو کیا" سحر نے کندھے اچکاٸے.
"تو میں مر جاٶں گی"
"رٸیلی تم مر جاو گی نا"
"شرم تو نہیں آتی تمہیں بجاٸے یہ کہنے کے میں دعا کروں گی کیا بکواس کر رہی ہو "
"ہاں تو میں کروں گی نا دعا یہ بھی کوٸی کہنے کی بات ہے"
"میری پیاری دوست زیادہ زیادہ دعا کرنا میرے لیے" مہرو نے اس کے کندھے پہ بازو رکھا۔
"کیوں نہیں ضرور کروں گی دعا کے میرے اللہ مہرو بہت اچھی ہے وہ جو کہتی ہے وہ کرتی بھی ہے اور اس نے کہا ہے کے اگر وہ فیل ہو گٸی تو مر جاٸے گی ۔ویسے مہرو کیا سوچا ہے زہر کھا کے مرو گی یا چھت سے چھلانگ لگاٶ گی" کہتے ہی سحر نے دوڑ لگا دی ۔مہرو بھی اس کے پیچھے بُک لے کے لپکی۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے اب اور نہیں بھاگا جاٸے گا" سحر لمبے لمبے سانس لیتی رکی ۔مہرو نے اس کے سر پہ بُک ماری اور پھر وہیں درخت کے پاس بیٹھ گٸی۔
"چلو اٹھو اب چلیں" سحر مہرو کو اٹھاتے ہوے بولی
"اور پرسوں آٶ گی کے نہیں؟" سحر نے سوال کیا۔
"آٶں گی اور اگر نا آٸی تو سمجھ لینا۔۔"
"ہاں سمجھ لوں گی کے تم فیل ہو گٸی اور sucide کر لی" سحر اس کی بات کاٹتے ہنستے ہوے بولی۔
"فالتو کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں دیکھ لینا پاس ہی ہوں گی" وہ دونوں گیٹ کی جانب بڑھ گٸیں ۔
"کہاں تھی تم سیری دس منٹ ہو گٸے مجھے تمہارا ویٹ کرتے" فیضان نے اسے دیکھتے ہی سوال کیا۔
"مہرو سے کچھ ڈسکس کر رہی تھی"
"اب چلو بھی" سحر کار میں بیٹھتی بولی ۔فیضان سحر کا کزن تھا وہ ایک گھر میں رہتے تھے ۔فیضان کی ماما نے اپنی شادی کے دو سال بعد اپنی چھوٹی بہن شعبانہ کی شادی اپنے دیور سے کروا دی ۔ریحانہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔سب سے بڑا فیضان اس سے چھوٹا زیشان اور اس کے بعد بیٹی عنزہ تھی۔
جبکہ شعبانہ کی ایک ہی بیٹی تھی سحر۔ وہ ایک گھر میں ہی رہتے تھے ۔
"سحر رزلٹ ہے پھر کل آپ کا" فیضی صوفے پہ بیٹھتا بولا.
"جی جی" سحر ٹی وی بند کرتے بولی۔
"پاس ہو جاٶ گی کے نہیں" فیضی سحر کی طرف دیکھتا بولا ۔
"ہو جاٶں گی ان شاء اللہ تم دعا کرنا"
"ہاں کروں گا ضرور"
_________________
سحر بیڈ پہ لیٹی مسلسل کروٹ بدل رہی تھی ۔نیند اس سے کوسوں دور تھی ۔یہی حال مہروالنسإ کا تھا وہ کبھی دعاٸیں کر لیتی اور کھبی انسٹا اوپن کر کے بیٹھ جاتی۔ یہاں سحر بھی نیند لانے کی کوشش میں ناکام ہو کر موباٸل پکڑ کے بیٹھ گٸی۔
"مہرو سو گٸی؟" سحر نے مہرو کو میسج کیا ۔
"کہاں یار نیند ہی نہیں آ رہی"۔
"کیا کر رہی تھی؟" سحر کا دوسرا میسج گیا۔
"انسٹا یوز کر رہی تھی اور تم؟" جواب کے ساتھ سوال بھی کیا گیا۔
"نیند لانے کی ناکام کوشش. ویسے بھی تہجد کا ٹاٸم ہو گیا ہے نماز پر کے ہی سوٶں گی ۔تم بھی پر لو"سحر نے میسج کیا۔
"اچھا" مہرو نے ریپلاٸے کیا دونوں نے نماز پڑھی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے ۔
"یا اللہ پلیز پلیز پلیز مجھے پاس کر دیجیے گا ۔یا اللہ میرا باٸیو کا پیپر اتنا اچھا تو نہیں تھا ہوا پر آپ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں نا یا اللہ پلیز مجھے پاس کر دیجیے گا ۔اگلی دفعہ میں بہت محنت کروں گی لیکن یا اللہ اس دفعہ مجھے پاس کر دیں" مہرو مسلسل اپنے پاس ہونے کی دعا کر رہی تھی ۔سحر نے بھی دعا کی اور پھر سونے کے لیے لیٹ گٸی۔
"آفس نہیں گٸے؟" فیضان جو کے لاٶنج میں بیٹھا موباٸل یوز کر رہا تھا سحر اس سے مخاطب ہوٸی ۔
"تمہارا رزلٹ آنا تھا اس لیے نہیں گیا"
"رزلٹ میرا آنا تھا آفس تم نہیں گٸے"
"اب تم شروع ہو جاٶ پہلے ہی ماما سے بہت باتیں سُن چکا ہوں" فیضان منہ بناتا بولا۔
"ناشتہ کر لیا" سحر فیضان کے پاس بیٹھتی بولی۔
"نہیں سوچا تمہارے ساتھ ہی کر لوں گا "
"اچھا تو جاٶ پھر ٹیبل پہ لگاٶ میں آتی ہوں" سحر ٹی وی آن کرتے بولی ۔
"شرم تو نہیں تمہیں زرا بھی" فیضان بنھویں سکیڑیں بولا۔
"اب جاٶ بھی مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے"
"ماما اور بڑی ماما کہاں ہیں" سحر اٹھتے ہوے بولی ۔
"ماما کچن میں ہیں اور چچی کپڑے دو رہی ہیں"
"ہمم" وہ کہتی کچن کی طرف چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سیری پندرہ منٹ" فیضان پندرہ منٹ پہلے ہی ویب ساٸٹ اوپن کر کے بیٹھ گیا۔ "دس منٹ۔۔۔۔"اور وقتاً فوقتاً اسے ٹاٸم سے آگاہ کر رہا تھا۔جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ویسے ویسے دعاٶں میں اضافہ ہو رہا تھا۔
"پانچ منٹ"
"تو" سحر جنجھلاٸی۔
"تو یہ کے دعا کرو ۔ماما چچی آ جاٸیں دو منٹ رہ گٸے ہیں" فیضان انہیں آواز دیتا بولا۔
"دو منٹ سحر بس دو منٹ کیا بنے گا تمہارا افففف"
"میں تمہیں رول نمبر ہی نہیں دوں گی بیٹھے رہو ایسے ہی" سحر منہ چڑاتی بولی۔
"ہی ہی ہی میرے پاس ہے"
"کہاں سے لیا؟" سحر نے آنکھیں بڑی کیں۔
"تم وہ چھوڑو بس دعا کرو"
" کیوں تنگ کر رہے ہو میری بچی کو ان شاء اللہ وہ پاس ہی ہو گی" ریحانہ سحر کے قریب بیٹھتی بولیں۔
سحر زبان نکالے ہاتھ کانوں کے قریب لے جا کر اس کی طرف دیکھا۔
"اتنی اوور نا ہو ایک منٹ بعد تم نے رو رہے ہونے"
"کیوں رو رہے ہونے میری بچی نے" شعبانہ بھی صوفے پہ بیٹھیں۔
"بیس سیکنڈ اور اور اور آگیا" فیضان نظریں موباٸل پہ جماٸے بولا۔
"سحر خالد" جیسے ہی فیضان نے نام لیا سحر کی دھڑکن تیز ہو گٸی۔ فیضان آنکھیں چھوٹی کیے موباٸل کو دیکھ رہا تھا اور باقی سب اسے۔
"انگلش میں فیل"
"کیا ایسا نہیں ہو سکتا بدتمیزی نہیں کرو موباٸل مجھے دکھاو" سحر اس سے موباٸل چھیننے کے لیے آگے بڑھی۔
"فالتو تنگ نہیں کرو سیدھی طرح نمبر بتاٶ" ریحانہ نے کہا۔
"کیا ہو گیے ماما میں جھوٹ کیوں بولوں گا۔اس نے جو کیے ہونا تو وہی تھا نہ" فیضان سنجیدگی سے بولا۔
"پر ماما میرا پیپر اچھا ہوا تھا مجھے پتا ہے یہ جھوٹ بول رہے اسے کہیں موباٸل مجھے دکھاٸے" سحر رو دینے کو تھی۔ اس سے پہلے کے سحر رو دیتی فیضان بولا۔
"سیری یار پاس ہو گٸی ہو تم305 مارکس ہیں" سب کے چہروں پہ خوشی پھیل گٸی۔اور سحر کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے۔
"لو جی اب تمہیں کیا ہو گیا" فیضان بولا۔
"خوشی کے آنسو ہیں یہ شعبانہ سحر کو گلے لگاتی بولیں۔ بہت بہت مبارک ہو ریحانہ نے بھی آگے بڑھ کے اسے گلے لگایا۔
"ٹریٹ تیار رکھو سحر کی بچی" فیضان مسکراتا ہوا بولا۔
"تم بھی گفٹ تیا رکھو فیضی"
"ہاں وہ تو بنتا ہے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُه"ُ زیشان اور عنزہ نے گھر میں داخل ہوتے سلام کیا ۔"
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ "سحر جو لاٶنج میں بیٹھی چاٸے پی رہی تھی اس نے جواب دیا۔
"آپی آ گیا رزلٹ" فیضان آبرو اچکاتے بولا۔
"کتنے مارکس آٸے" عنزہ بھی بولی۔
"پاس ہو گٸی ہے میری بیٹی 305 نمبر ہیں ۔تم لوگ فریش ہو لو میں کھانا لگاتی ہوں" ریحانہ بولیں ۔
"ماما آج اس نے لیکچر بنک کیا تھا" عنزہ نے شکایت لگاٸی.
"توبہ جھوٹ تو نہ بولو عنزہ خدا کا خوف کرو ۔تمہیں موت یاد نہیں" زیشان چہرے پر دنیا بھر کی معصومیت سجاٸے بولا ۔
"اچھا تو پھر لیکچر کے ٹاٸم گراٶنڈ میں کیا کر رہے تھے" عنزہ ایک ہاتھ کمر پہ رکھ کے بولی ۔
"اب بس بھی کرو آتے ہی شروع ہو گٸے تم لوگ ۔جاٶ کپڑے چینج کرو میں کھانا لگاتی ہوں" وہ کہتی ہوٸی کچن کی طرف چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو سب لاٶنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب فیضان بولا۔ "سیری پھر کہاں لے کے جا رہی ہو"
"کیا مطلب" سحر نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
"اتنا تو مشکل سوال نہیں کیا میں نے جو تمہیں سمجھ نہیں آیا ۔ٹریٹ کب دو گی"
"آپی آج ڈنر باہر کرتے ہیں" زیشان بولا۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے" عنزہ نے ہمایت کی"
"ویسے تم سے کسی نے پوچھا ٹھیک ہے یا نہیں" زیشان عنزہ کو تنگ کرتا بولا۔
"میں نے تمہیں بتایا بھی نہیں بندر"
"عنزہ کی بچی تم کسی دن مجھ سے پِٹو گی"
"ویری فنی" عنزہ استہزاٸیہ ہنسی۔
"تم دونوں تو بس لڑتے رہا کرو چلو ریڈی ہو جاٶ چلیں پھر" سحر نے کہا۔
"ہاٸے آپی آپ نے تو دل خوش کر دیا میں تو چلی تیار ہونے" عنزہ کہتی ہوٸی صوفے سے اُٹھی۔
"ہاں ہاں جاٶ وہسے بھی تمہیں اپنی شکل سنوارنے میں بہت ٹاٸم لگ جانے" زیشان مسکراتا ہوا بولا۔
"او شٹ اپ بندر " عنزہ غصے میں بولی۔
"جاٶ جاٶ موٹی ایسی شکلیں نہیں بنایا کرو مجھے ڈر لگتے" وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپاتا ڈرنے کی ایکٹینگ کرنے لگا۔
"بندر " وہ کہہ کر کمرے میں چلے گٸی۔
زیشان اس کے جانے کے بعد کھلکھلا کر ہنسا۔
سحر بابا سے اجازت لینے گٸی تھی جو کے اسے مل بھی گٸی پر ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کے "جلدی آ جانا اور فیضان کو کہنا کار آہستہ ہی چلاٸے۔ "او کے بابا" کہتی وہ ریڈی ہونے چلے گٸی۔
فیضان نے بلیک پینٹ اور واٸٹ ٹی شرٹ پہنی تھی۔سپرے لگا کے بال سیٹ کیے اور پھر سحر کے کمرے کی طرف چل دیا۔
سحر اپنی تیاری مکمل کیے شیشے کے آگے کھڑی ہو کے اپنا جاٸزہ لے رہی تھی۔
اس نے واٸٹ ٹراٶزر کے اوپر بلیک قمیض پہنی تھی واٸٹ اور بلیک پرینٹیڈ دوپٹے کا حجاب کیا۔لاٸٹ پنک لپ اسٹک ۔ آنکھوں پر لاٸنر اور مسکارا لگاٸے وہ اب ریڈی تھی۔وہ میک اپ میں بس یہی چیزیں یوز کرتی تھی جب کبھی فنکشن پہ جانا ہوتا تو ہلکا سا بلش آن بھی لگا لیتی۔
"کیسی لگ رہی ہوں میں؟" فیضان کمرے میں داخل ہوا تو سحر نے سوال کیا۔ فیضان نے انگلی کو نچلے ہونٹ پہ رکھا اور پُر سوچ انداز میں اسے دیکھا۔
"نہیں اچھی لگ رہی" سحر نے منہ لٹکاٸے پوچھا۔
"نہیں" فیضان نے گردن ہلاٸی۔
"کیوں کیا ڈریس نہیں اچھا؟"
"اچھا ہے"
"لپ اسٹک کا کلر نہیں اچھا؟" وہ ہونٹ پہ انگلی رکھتے بولی۔
"اچھا ہے"
"لاٸنر نہیں ٹھیک لگا؟"
"ٹھیک لگا ہے"
"تو ؟" وہ اداسی سے بولی.
"تو پھر یہ کے اچھی نہیں بہت اچھی لگ رہی ہو" وہ ہاتھ سینے پہ باندھے مسکراتے ہوے بولا۔
سحر شرمیلی مسکراہٹ لیے آنکھیں جھکا گٸی۔ فیضان سحر سے چار سال بڑا تھا۔سحر سترہ سال کی تھی جبکہ فیضان اکیس سال کا تھا جب ان کی منگنی کر دی گٸی سب کزنز کی طرح ان میں بھی نوک جھونک چلتی رہتی تھی پر پیار بھی بہت تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی بہت کٸیر کرتے تھے ۔
سحر ،فیضان ،عنزہ اور ذیشان ہی ڈنر پی گٸے تھے ۔ڈنر انہوں نے بہت اچھے ریسٹورنٹ میں کیا۔واپسی پر زیشان کی ضد کے باوجود وہ کہیں اور نہیں گٸے۔ساتھ کوٸی بڑا ہوتا تو وہ ضرور چلے جاتے ۔پر اب وہ اکیلے تھے تو سیدھا گھر ہی گٸے۔
سحر فجر کی نماز پڑ کے جاٸے نماز تے کر رہی تھی جب اس کی نظر دروازے پر کھڑے فیضان پر پڑی۔جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"باہر کیوں کھڑے ہو اندر آٶ" وہ جاٸے نماز الماری میں رکھتے بولی۔
"تمہارے لیے کچھ لایا ہوں" وہ بیڈ پہ بیٹھا۔
"کیا؟" وہ اس کے سامنے صوفے پہ بیٹھتی بولی۔
فیضان نے ایک باکس اس کے آگے کیا ۔وہ ایک خوبصورت پینڈنٹ تھا ۔چین کے درمیان لاکٹ پہ ہارٹ شیپ میں f اور s نگینوں سے لکھا گیا تھا۔
"واو اٹس سو ناٸس" وہ پینڈنٹ دیکھتے ہوے بولی۔
"پسند آیا؟" وہ تجسس سے بولا.
"ہاں بہت پر میں اسے پہن تو نہیں سکتی نا" وہ اداس ہوٸی۔
"کیوں؟" وہ آنکھیں سکیڑیں بولا۔
"مجھے شرم آتی ہے"
"حد ہے اس میں شرم والی کیا بات ہے سیری یار ہم انگیجڈ ہیں"
"پھر بھی شانی عنزہ ماما بابا سب دیکھیں گے "
فیضان خاموش ہو گیا_
"ویسے مجھے یہ بہت پسند آیا میں مہرو کو دکھاٶں گی" وہ اسے دیکھتے ہوے بولی۔
"ٹھیک ہے پر شادی کے بعد تم اسے پہنو گی"
"ہاں پھر تو ضرور پہنوں گی" وہ مسکراتے ہوے بولی۔
__________________
"ماما لے بھی آٸیں ناشتہ" ارہم پلیٹ میں چمچ بجاتا بولا۔
"لا رہی ہوں بس دو منٹ" شازیہ جگ سے باداموں والا دودھ گلاس میں ڈالتی بولیں۔
اتنی دیر میں مریم بھی وہاں آ کے بیٹھ گٸی۔
"پہلے دودھ پیو پھر میں ناشتہ لگاتی ہوں" وہ دودھ کا گلاس ارہم کے آگے کیے بولیں۔
"ماما آپ کو پتا تو ہے مجھے دودھ نہیں پسند اور پھر یہ باداموں والا o youck میں تو نہیں پیوں گا" ارہم نے منہ بنایا۔
"آپ آیان کو دے دیں"
"میں نے فی الحال تم سے کہا ہے" وہ درشت لہجے میں بولیں۔
آیان جو موباٸل کی اسکرین اسکرول کر رہا تھا۔ اس نے انہیں دیکھا ۔وہ حقیر بھری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
"اور تم ۔۔مریم تم سے میں نے کتنی دفعہ کہا ہے جہاں یہ بیٹھا ہوتا ہے وہاں تم مجھے نظر نہ آیا کرو۔اب دفعہ ہو جاٶ یہاں سے جب یہ چلا جاٸے گا تو آ جانا ۔ماں خود تو بھاگ گٸی اسے ہمارے سر پہ چھوڑ گٸی۔جوان بیٹی ہے میری گھر میں پل پل مجھے اس کی فکر لگی رہتی ہے۔ آیان سترہ سال کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کی وفات کے تین ماہ بعد ہی اس کی والدہ کسی آدمی کے ساتھ بھاگ گٸیں۔اور پھر کبھی واپس نہیں آٸیں کوٸی نہیں جانتا وہ اب کہاں ہیں کس حال میں ہیں۔ان کے گھر سے جانے کے پندرہ دنوں بعد ہی پتا چل گیا تھا کے وہ ساتھ والے گاٶں کے ایک آدمی کے ساتھ بھاگی تھیں ۔پر وہ تھیں کہاں یہ کسی کو نہیں پتا چل سکا۔ آصف چوہدری اور عاطف دو بھاٸی تھے اور دونوں ایک ہی گھر میں رہتے تھے ۔آصف کے دو بچے بڑا ارہم چوہدری جو کے اکیس سال کا تھا اور چھوٹی بیٹی بی اے کر کے اب پراٸیوٹ ایم اے کر رہی تھی۔عاطف کا ایک ہی بیٹا تھا ۔آیان چوہدری اس کے بعد ان کی کوٸی اولاد نہیں ہوٸی ۔عاطف صاحب ہارٹ کے پیشنٹ تھے۔انہیں دو اٹیک پہلے ہی ہو چکے تھے اور تیسرا ہارٹ اٹیک جب انہیں ہوا تو وہ اللہ کو پیارے ہو گٸے۔ آصف صاحب صبح جلدی ہی آفس کے لیے نکل جاتے تھے اسی بات کا فاٸدہ اٹھاتے ہوے شازیہ بیگم روزانہ آیان کو باتیں سناتیں تھیں۔ رات کو ان کا رویہ بالکل مختلف ہوتا تھا ۔آصف صاحب اندازہ ہی نہیں لگا سکتے تھے کے وہ ناشتے میں آیان کے ساتھ بُرا برتاٶ کرتی ہوں گی ۔آسف صاحب آیان سے ارہم جتنا ہی پیار کرتے تھے یا کہہ لو کے اس سے بھی زیادہ ۔وہ بہت نرم مزاج کے مالک تھے جبکہ شازیہ بیگم ان سے بالکل مختلف تھیں وہ روزانہ آیان کو ایسے ہی باتیں کرتیں۔اس کا ضبط جواب دے جاتا اور وہ اکثر ناشتہ کیے بغیر ہی چلا جاتا۔آج بھی وہ غصے میں اٹھ گیا ۔
"آیان آیان رکو تو مجھے تو لیتے جاٶ" ارہم بولا۔
"اپنی کار میں آ جانا" اس نے بغیر پلٹے ہی جواب دیا ۔
"میری گاڑی خراب ہے یار" آیان جانتا تھا وہ کچھ ایسا ہی کہے گا ۔اس لیے بغیر جواب دیے ہی گاڑی میں بیٹھ گیا۔چابی اگنیشن میں گھماٸی اور تیز تیز گاڑی چلاتا یونی پہنچ گیا۔
"ماما آپ کیوں ایسا کرتی ہیں کم از کم اسے ناشتہ تو کرنے دیا کریں۔یا شاید آپ یہ سب اسی لیے کرتی ہیں کے وہ ناشتہ کیے بغیر ہی چلا جاٸے" ارہم آیان کے جانے کے بعد غصے میں اپنی ماما سے کہہ رہا تھا بلکہ روز ہی کہتا تھا پر وہ اس کی باتیں اَن سنا کر دیتیں۔
"تم چپ کر کے ناشتہ کرو۔اس کی ساٸڈ لینا چھوڑ دو"۔
"پر ماما۔۔۔"
"منہ بند کر کے ناشتہ کرو" وہ اس کی بات کاٹتے تلخی سے بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہروالنسإ سحر کو رزلٹ بتانے کے لیے بے تاب تھی ۔میسج پہ تو وہ ایک دوسرے کو بتا چکی تھیں ۔لیکن سامنے بتانے کی تو بات ہی الگ تھی ۔وہ تیز تیز چل رہی تھی جب کسی سے ٹکڑاٸی اور اس کی بکس نیچے گر گٸیں ۔نوٹس بُکس سے نکل کر زمین پر پھیل چکے تھے ۔
"آر یو بلاٸنڈ" وہ مقابل کو دیکھتے بولی۔ وہ جواب دیے بغیر آگے بڑھ گیا ۔
"او ہیلو مسٹر میں آپ سے بات کر رہی ہوں اندھے ہیں آپ؟" وہ عین اس کے سامنے کھڑی ہوٸی ۔وہ خاموش رہا ۔
"میرے خیال سے آپ بہرے بھی ہیں" قریب کھڑے کچھ اسٹوڈینٹس اب ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے ۔اس نے پھر قدم آگے بڑھایا۔ مہروالنسإ کے غصے میں اضافہ ہوا ۔
"اندھے ہیں بہرے ہیں تو پھر کسی ڈاکٹر کو دکھاٸیں یہاں کیا کر رہے ہیں" وہ جو پہلے ہی غصے میں گھر سےنکلا تھا اس کی باتیں سن کر حواس باختہ ہو رہا تھا۔
"سوری" خود پہ قابو پاتے ہوے اس نے صرف یہی کہا ۔
"اووو تو آپ بولتے بھی ہیں۔ اب جب کے آپ میں attitude حد سے زیادہ ہے تو میں آپ کا سوری ایکسیپٹ نہیں کروں گی۔میری بکس اٹھا کے مجھے دیں" وہ ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑی اس سے کہہ رہی تھی۔
"میں نے سوری کہہ دیا نا اب اسے ایکسیپٹ کرنا ہے یا نہیں کرنا آپ کی مرضی اب ساٸڈ پہ ہویں اور مجھے گزرنے دیں" اس نے اطمینان سے کہا ۔مہرو کو اس کے رویے پہ مزید غصہ آیا ۔
"آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو پہلے تو آپ نے میری بکس گِراٸیں اور پھر بولنا گوارا نہیں کیا اگر اتنا ہی attitude تھا تو اندھوں کی طرح نہیں تھا چلنا" وہ اب انگلی اس کی طرف کیے بول رہی تھی ۔
"شٹ اپ میں تب سے آپ کی بکواس سن رہا ہوں اور کیا بار بار اندھے کی رَٹ لگاٸی ہوٸی ہے ۔میں اندھا تھا تو آپ اپنی آنکھوں کا استعمال کر لیتی ۔نا ٹکڑاتی مجھ سے" اس سے پہلے کے وہ کچھ اور کہتا ارہم وہاں پہنچ گیا ۔
"جسٹ ریلیکسڈ آیان کیا ہو گیا ہے ۔اور بُکس میں اٹھا دیتا ہوں۔ اس کی طرف سے میں آپ سے معزرت کرتا ہوں" ارہم بُکس مہرو کی طرف کیے بولا۔ آیان وہاں سے جا چکا تھا۔
"اپنے اس دوست کو بھی تھوڑی عقل دیں" کہتی وہ آگے بڑھ گٸی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہرو تم آٸی ہوٸی ہو تو پھر کلاس میں کیوں نہیں آٸی" سحر اس کے سامنے والی چٸیر پہ بیٹھتی بغور اس کا منہ دیکھتی بولی۔ اس کا موڈ ابھی تک آف تھا ۔
"دل نہیں کیا کلاس لینے کو اس لیے یہیں بیٹھ گٸی"
"کیا ہوا منہ کیوں بنا ہوا ہے تمہارا"
" کچھ نہیں بس ایک پاغل مل گیا تھا "
"کیا مطلب" مہرو اسے اپنے اور آیان کے بارے میں بتانے لگی۔
"کون تھا" سحر نے آبرو اچکاٸے۔
"مجھے کیا پتا پر جو بھی تھا انتہاٸی بدتمیز تھا "
"اچھا چھوڑو اُسے کچھ منگواتے ہیں "
"کیا لو گی تم"
"کچھ بھی منگوا لو" مہروالنسإ نے کہا۔ پھر سحر گول گپے لاٸی اور وہ دونوں گول گپے کھاتی ہوٸی ساتھ باتیں بھی کر رہی تھیں۔
________________
(جاری ہے)
Do vote and comment😄😍
phly is py vote aur comment kren phir next epi py jayen😉😄
YOU ARE READING
محبت،یقین اور خواہش Completed 💕
Teen Fictionاس کہانی میں ہے کسی کی محبت تو کسی کا اللہ پہ یقین اور پھر جب اللہ پہ یقین ہو تو ہر کام بہتر ہی ہوتا ہے۔ کسی کا اللہ کے سامنے خواہش ظاہر کرنا اور اسے جھٹ سے پا لینا۔ اب یہ کس کی محبت ہے کس کا یقین اور کس کی ہے خواہش وہ تو ناول پڑھ کے پتا چلے گا💗😉