قسط: ١٥
مہرو نا میں گردن ہلا رہی تھی اس کی آنکھوں سے جیسے سمندر اُمڈ رہا تھا۔ آیان آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا اس کا دماغ ماٶف ہو رہا تھا۔ اس کے آنسو لکیر کی صورت بہ رہے تھے آنکھیں دھندلا رہی تھی پر پھر بھی پلیکیں جھپک کے مہرو کو دیکھنا چاہ رہا تھا اس کا ایک ایک نقش اپنی آنکھوں میں اُتار رہا تھا۔ہجوم میں سے کسی نے ایمبولینس کو کال کر لی تھی ایمبولینس آٸی آیان کو اسٹریچر پہ ڈالا۔آیان نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔
(آٸی لو یو ایون مور۔ آیان میں ہر وقت آپ کو یاد کرتی رہتی ہوں) آیان کے زہن میں باتیں گردش کر رہی تھیں۔
"م۔۔مہرو" اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔
"آیان میں آپ کے پاس ہوں۔۔کچھ نہیں ہو گا آپ کو کچھ بھی نہیں" وہ مسلسل نا میں گردن ہلا رہا تھی۔
(تو میری جان ہے۔ مجھے میرا بھاٸی بہت پیارا لگتا ہے۔۔۔ میں تو ایسا کروں گا یہ میرے پیار کی نشانی ہے۔۔)
"ار۔۔ہممم" اس نے لمبا سانس لیا اور۔۔اور پھر مہرو کے ہاتھ پہ گرفت ڈھیلی ہو گٸی۔
"نہیں آیان۔۔۔۔آپ میرا ہاتھ نہیں چھوڑ سکتے کبھی بھی نہیں" مہرو چلاٸی۔
"تیز چلاٸیں نا۔۔۔ آیان آیان آنکھیں کھولیں نا۔۔میرا ہاتھ پکڑیں۔۔کیوں چھوڑا میرا ہاتھ۔۔" "آیاننننن" ہاسپیٹل آ گیا تھا لڑکے جلدی سے باہر نکلے اور اسٹریچر میں خون سے لت پت پڑے وجود کو آٸی سی یو میں لے گٸے۔ مہرو اسکا ہاتھ نہیں چھوڑ رہی تھی۔
"بیبی ہاتھ چھوڑیں پیشنٹ کا۔۔۔" پر اسنے نہیں چھوڑا۔
"پیشنٹ کی حالت ٹھیک نہیں ہے نرس انہیں پیچھے کریں" پھر ایک نرس نے جیسے تیسے کر کے مہرو کو پیچھے کیا۔ اور مہرو بے سد سی کرسی پہ بیٹھ گٸی۔
(میں تمہارے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ آپ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ خود سے زیادہ۔۔) اس کا پورا وجود لرز رہا تھا پر اب وہ کچھ بول نہیں تھی رہی وہ تو خاموش ہو گٸی تھی۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر باہر آیا۔
"آپ کیا لگتی ہیں پیشنٹ کی" مہرو نے جیسے سنا ہی نہیں۔
"پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہے جلدی سے بلڈ ارینج کریں" پر مہرو تو صرف اسے دیکھ رہی تھی اسے تو پتا ہی نہیں کے ڈاکٹر نے کہا کیا ہے۔ ڈاکٹر نے نرس کو بلایا۔ اس نے آ کے مہرو کو کندھے سے جھنجھوڑا تو جیسے وہ ہوش میں آٸی۔
"آیان" وہ زیر لب بڑبڑاٸی۔
"بلڈ ارینج کریں پیشنٹ کی حالت ٹھیک نہیں"
"کیوں کیا ہوا ہے پیشنٹ کو۔۔کچھ نہیں ہو گا اسے وہ مجھے چھوڑ کے کہیں نہیں جاۓ گا" مہرو چلاٸی۔
" فون کر کے گھر والوں کو بلاٸیں پلیز"۔ ڈاکٹر واپس جا چکا تھا اب نرس مہروالنسإ سے بات کر رہی تھی جو ہوش و حواس سے بیگانہ تھی۔ پھر نرس نے جہاں وہ بیٹھی تھی وہاں دیکھا موباٸل نہیں تھا۔
"موباٸل کہاں ہے آپ کا"
"پتا نہیں" وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولی۔ ایک دوسری نرس آٸی سی یو سے باہر آٸی۔ "یہ پیشنٹ کی پاکٹ سے موباٸل نکلا ہے اس سے کر لو فون"۔ نرس نے حود ہی موباٸل آن کیا نمبر لسٹ چیک کی سب سے اوپر ارہم کا نمبر تھا اسے کال ملاٸی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" ارہم نے سلام لی۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام آپ آیان کے کیا لگتے ہیں" اس نے مہرو کے منہ سے کتنی ہی دفعہ تو اس کا نام سن لیا تھا اس لیے وہ جان گٸی تھی یہی نام ہو گا۔ ارہم ایک انجان لڑکی کی آواز سن کے حیران ہوا۔
"وہ میرا بھاٸی ہے "
"جی ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہے جلدی سے بلڈ ارینج کریں" ارہم کی جیسے کسی نے جان ہی نکال لی اسے اپنی سماعتوں میں یقین نہیں آیا وہ جو کھڑا تھا جیسے لڑکھڑا گیا اور پھر دیوار کا سہارا لیا۔
"آپ سن رہے ہیں"
"ج۔۔جی کون۔۔سا ہاسپٹل" نرس نے ہاسپٹل کا بتا کے فون بند کر دیا۔ ارہم کی آنکھو سے آنسو نکلے۔
"آیان کا ایکسیڈینٹ" وہ زیر لب بڑبڑایا اور پھر دیوانہ وار سیڑھیوں کی طرف بھاگا آخری دو سھیڑیوں سے اس کا پاٶں پھسل گیا اور وہ گِر گیا پر پرواہ کسے تھی اپنی وہ جلدی سے اٹھا اور آسف صاحب کے کمرے کی طرف بھاگا۔دروازہ کھلا ہوا تھا وہ سامنے بیڈ پہ بیٹھے شازیہ بیگم سے کچھ بات کر رہے تھے۔
"بابا۔۔۔" اس کے لیے آواز نکالنا بھی جیسے مشکل ہو گیا تھا آسف صاحب اور شازیہ بیگم نے اسے دیکھا اور پھر دونوں کھڑے ہوے۔
کیا ہوا بیٹا آسف صاحب آگے بڑھ کے بولے۔
"بابا۔۔۔آیان"
"کیا ہوا آیان کو"
"اس کا ایکسیڈینٹ" بس وہ اتنا ہی بول پایا آسف صاحب کو جیسے دھچکا لگا۔اور وہ وہیں ڈھے سے گٸے۔
"کس ہاسپٹل میں ہے" شازیہ بیگم بولیں۔ ارہم نے انہیں ہاسپٹل کا بتایا اور نکل گیا۔
"بیٹا رکو تو ہم بھی آتے ہیں" شازیہ بیگم نے پیچھے سے آواز دی۔ پر وہ تو جیسے بہرا ہو گیا تھا اندھا دھند گاڑی چلاتا وی ہاسپیٹل پہنچا۔ ریسپشن سے پوچھ کے وہ آٸی سی یو کی طرف بھاگا۔ سامنے ہی مہرو بیٹھی نظر آ گٸی جس کا چہرہ بھیگا ہوا تھا کپڑے خون سے بھرے ہوے تھے اور نظریں نیچے اپنے پاٶں کی طرف تھیں۔ ارہم اس کی حالت دیکھ کے ہی جان گیا تھا کے آیان کا کیا حال ہو گا اس کا جسم جیسے بے جان ہو گیا تھا قدم آگے بڑھانا چاہا پر نہیں۔۔۔۔ ڈاکٹر پھر آیا۔
"بلڈ ارینج ہو گیا؟" مہرو ابھی بھی نیچے ہی دیکھ رہی تھی وہ ہانپ رہی تھی۔ آیان ہمت کر کے آگے آیا۔
"خون میں دوں گا" ان دونوں کا گروپ سیم تھا۔ جلدی آٸیں میرے ساتھ پھر وہ ڈاکٹر کے پیچھے گٸے۔ کچھ دیر بعد آسف صاحب شازیہ بیگم ارشد صاحب ربعیہ بیگم اور حور آگے پیچھے ہی ہاسپٹل داخل ہوے۔ شازیہ بیگم نے ربعیہ بیگم کو جب فون کیا تو حور اُدھر ہی تھی ارشد صاحب نے اسے منع کیا تھا پر وہ نہیں مانی اور ساتھ آ گٸی۔
"مہرو میری بچی" ربعیہ بیگم اس کے پاس آ کے بیٹھیں اور اسے خود سے لگایا۔ شازیہ اور حور بھی وہیں بیٹھ گٸیں آدمی ڈاکٹر سے بات کرنے لگے۔
"مہرو کچھ بولو تو" ربعیہ بیگم نے اسے ہلایا اس کے آنسو بند ہو چکے تھے اور وہ ایک ہی جگہ دیکھ رہی تھی۔ انہیں اس کی حالت دیکھ کے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا اگر مہرو اسی حال میں رہتی تو اس کے دماغ پہ اثر پر سکتا تھا۔ انہوں نے اسے جھنجھوڑا۔
"مہرو کچھ بول کیوں نہیں رہی کیا ہوا ہے آیان کو" وہ اونچی آواز میں بولیں۔ وہ کچھ نہیں بولی۔ اتنی دیر میں ارشد صاحب اور آسف صاحب ان کے قریب آۓ۔
"کیا کہتے ہیں ڈاکٹر" شازیہ بیگم بولیں۔
"خون بہت نکل چکا ہے ارہم نے خون دیا ہے کچھ اور لڑکوں کو بھی بلا لیا ہے خون دینے کے لیے "
"دعا کریں" اب مہرو نے سنا تھا ہاں اب اسے ہوش آیا تھا۔
"کچھ نہیں ہو گا ماما آیان ٹھیک ہو جاٸیں گے کیوں رو رہے ہیں آپ لوگ۔۔۔ہاں کیوں رو رہے ہیں آیان مجھے چھوڑ کے کہیں نہیں جاٸیں گے" ارہم سامنے سے آیا تو وہ کھڑی ہو گٸی اور اس کے سامنے جا کے بولی۔
"ارہم تم۔۔۔تم بھی رو رہے ہو پاغل ہو گٸے ہو کیا. تم نہیں رو میں بھی نہیں روں گی۔ آیان کو اچھا نہیں لگتا نا وہ کہتے ہیں جب تم روتی ہو تو مجھے اچھا نہیں لگتا" آنسو کا ریلا پھر سے نکلا۔ جسے اس نے بے دردی سے صاف کیا۔
"ارہم وہ تمہیں بلا رہے تھے جاٶ ان کی بات سنو۔۔۔ اور ہاں آنسو بھی صاف کرو اپنے وہ بہت پیار کرتے ہیں تم سے روتا ہوا نہیں دیکھ سکیں گے۔۔۔ جاٶ نا کیوں نہیں جا رہے۔۔۔" اب کی بار وہ تھوڑا اونچی بولی۔
"جاٶ اسے کہو گھر چلیں۔۔ بلاٶ نا اسے کیوں نہیں آ رہا وہ۔۔۔" ارہم وہیں ساکت کھڑا آنسو بہا رہا تھا۔
"ماما آپ جاٸیں آیان کے پاس اسے کہیں یہاں کیوں آیا ہے ابھی۔۔ابھی تو ہم نے ڈنر بھی کرنا تھا۔۔" ربعیہ بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
"چپ ہو جاٶ میری بچی آٶ ادھر بیٹھو"
"ماما کوٸی اسے بلا کیوں نہیں رہا۔۔ٹھیک ہے میں خود ہی چلے جاتی ہوں"
"مہروالنسإ اس کا ٹریٹمنٹ ہو رہا ہے وہ نہیں جانے دیں گے "
"کیوں نہیں جانے دیں گے بیوی ہوں میں اس کی مجھے ملنا ہے اس سے" وہ دروازے کی طرف بڑھی حور نے اسے پکڑا۔
"مہرو آٶ میرے پاس بیٹھو دعا کرتے ہیں نا ہم وہ ٹھیک ہو جاٸیں گے"
"حور۔۔اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا میں۔۔میں رو رہی تھی اس نے چپ نہیں کروایا آج چُپ نہیں کروایا شاید ناراض ہے مجھ سے میں منا لیتی ہوں اسے مجھے جانے دو" حور نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تو وہ چلاٸی۔
"مجھے آیان سے ملنا ہے۔۔ جانا ہے میں نے اس کے پاس۔۔ آیان۔۔۔آیان یہ مجھے تمہارے پاس نہیں آنے دے رہے تم خود ہی آ جاٶ میرے پاس۔۔۔آیان۔۔۔ آیانننننن" وہ چیخی اور وہیں گِر گٸی سب جلدی سے اس کی طرف بڑھے وہ بے ہوش ہو چکی تھی نرس نے آ کے اسے اٹھایا اور روم میں لے گٸی۔ حور اور ربعیہ بیگم بھی اس کے ساتھ ہی تھیں۔
ارہم نے شیشے سے اندر دیکھا ڈاکٹرز اس پہ جھکے ہوے تھے اس کا جسم مشینوں میں جکڑا ہوا تھا۔ ارہم نے اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیے اور وہیں دیوار کے ساتھ ڈھے گیا۔ ارشد صاحب اس کے پاس گٸے۔
"ارہم بیٹا آو یہاں اوپر بیٹھو" انہوں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
"انکل۔۔میرا بھاٸی۔۔۔وہ۔۔وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔وہ ٹھیک نہیں ہے" وہ ان کے سینے سے لگ گیا۔
"تم دعا کرو نا اسکے لیے ہم سب دعا کر رہیں ہیں وہ ٹھیک ہو جاۓ گا ہمت کرو"
"ہاں۔۔وہ ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔اسے ٹھیک ہونا پڑے گا" وہ اتنی آواز میں بولا کے ارشد صاحب سن نہیں پاۓ۔ اسے اٹھانا چاہا پر وہ نہیں اٹھا۔ دو گھنٹے بعد ڈاکٹرز باہر آۓ ارہم جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا باقی بھی کھڑے ہو گٸے۔
"پیشنٹ کا ہوش میں آنا بہت ضروری ہے اگر چوبیس گھنٹوں میں ہوش نا آیا تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے دوا سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے" ڈاکٹر کہہ کے چلے گٸے اور وہاں سب کی جان جیسے اپنے ساتھ لے گٸے۔ وہ وہیں بیٹھ گٸے ارہم باہر کی طرف لپکا۔
"کہاں جا رہے ہو بیٹا" شازیہ بیگم ہمت کر کے بولیں۔ پر اس نے جواب نہیں دیا۔ گاڑی میں بیٹھا چابی اگنیشن میں گھماٸی اور سی ساٸیڈ پہ آ گیا رات ساڈھے بارہ کا ٹاٸم تھا۔ اس نے گاڑی روکی اور ساحل سے تھوڑا پیچھے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔وہاں وہ سب کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا اسی لیے وہ یہاں آیا تھا اپنے اللہ کے سامنے رونے اپنی بھاٸی کی زندگی مانگنے۔
"یا اللہ تجھے تیرے پیارے حبیب کا واسطہ میرے بھاٸی کو ٹھیک کر دے۔۔ یا اللہ اس کی زندگی میں تو بہت دیر بعد خوشیاں آٸی تھیں۔۔تو پھر یہ کیا ہو گیا۔۔نہیں میرے مولا اسے کچھ مت کرنا۔۔اسے۔۔اسے میری زندگی لگا دے میرے اللہ۔۔میں تجھ سے بھیک مانگتا ہوں اس کی زندگی کی یااللہ اسے ٹھیک کر دے۔۔ میں کیسے رہوں گا اسکا بغیر۔۔ننن۔نہیں اسے کچھ مت کیجیے گا میرے مولا۔۔میرے بھاٸی کو ٹھیک کر دے۔۔ٹھیک کر دے" آنسو متواتر اس کی ہتھیلیوں میں گر رہے تھے۔
"یا اللہ اس کی جگہ میرا ایکسیڈینٹ ہو جاتا نا ۔۔اس کے ساتھ ہی کیوں ہوا ایسا۔۔۔مجھے میرا بھاٸی ٹھیک چاہیے یا اللہ اسے ٹھیک کر دے۔۔۔۔ٹھیک کر دے اسے" وہ چلایا۔ اور کتنی ہی دیر وہیں بیٹھا رہا۔ ایک ایک سیکنڈ جیسے ایک دن پہ میسر آ گیا تھا۔ رات تھی کے کٹ نہیں رہی تھی۔
(مہرو مجھے تم سے اتنی جلدی پیار ہو جاۓ گا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ آٸی لو یو مسز آیان۔ تم تو میری جان ہو۔۔رویا نہیں کرو)۔
"آیانننن" مہرو ایک دم اٹھ بیٹھی اسے ڈریپ لگی ہوٸی تھی۔
"کیا ہوا مہرو" شازیہ بیگم اٹھ کے اس کے پاس آٸیں۔
"آیان کہاں ہے؟"
"سو جاٶ تم"
"میں نے آیان سے ملنا ہے"
"لیٹ جاٶ میری بچی"
"مجھے آیان سے ملنا ہے" اب وہ تھوڑا اونچا بولی۔
"بیٹا آپ کو ڈریپ لگی ہوٸی ہے" وہ تحمل سے بولیں۔ مہرو نے بے دردی سے ڈریپ کی سوٸی نکالی تو ہاتھ سے خون نکل آیا پر اپنا ہوش کسے تھا وہ باہر کی طرف بھاگی شازیہ بیگم گھر جا چکی تھیں۔ آسف صاحب پرٸیر روم میں تھے۔ وہ آٸی سی یو کی طرف بڑھی تو ارشد صاحب نے جلدی سے اسے پکڑا۔
"بابا جانے دیں مجھے" اس نے التجا کی۔
"نہیں میری جان ابھی وہ نہیں جانے دیں گے
کیوں نہیں جانے دیں گے"
" مجھے ملنا ہے اس سے کتنی دیر تو ہو گٸی بابا۔۔۔ اب مجھے ملنے دیں نا" اس نے منت کی۔ ارشد صاحب کی اس کے ہاتھ پہ نظر پڑی جہاں سے خون نکل رہا تھا انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا حور اور ربعیہ بیگم بھی اس کے پیچھے باہر آ گٸے تھے۔
"مہروالنسإ آپ کے ہاتھ سے بلڈ نکل رہا ہے ادھر آٶ میری بچی مجھے دکھاٶ" انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
"بابا جان آیان کا بھی بہت خون نکلا۔۔بہت زیادہ خون نکلا۔۔اس نے کچھ کھایا بھی نہیں۔۔مجھے۔۔مجھے جانے دیں نا اس کے پاس" دور دور سے آزانوں کی آواز آ رہی تھی۔
"مہرو آپ تو بہت بہادر ہو نا تو پھر اس طرح رو تو نہیں۔۔آیان ٹھیک ہو جاۓ گا آپ دعا کرو نا اس کے لیے" وہ اسے خود سے لگاتے پیار سے بولے۔
"بابا جان صبح ہو گٸی پر اسے ابھی بھی ہوش نہیں آیا۔۔آپ جاٸیں نا اس کے پاس۔۔اس سے کہیں مہرو رو رہی ہے وہ فوراً ٹھیک ہو جاۓ گا"
"ہاں میں جا کے کہتا ہوں اسے آپ جاٶ نماز پڑھ کے دعا کرو اس کے لیے۔۔اور ہاتھ دکھاٶ مجھے"
"میں نماز پڑھ کے آتی ہوں۔۔تب تک آپ آیان کے پاس جاٸیں نا "
"ہاں ٹھیک ہے آپ جاٶ" پھر وہ پرٸیر روم کی طرف بڑھ گٸی۔ حور اور ربعیہ بیگم بھی نماز پڑھنے کی غرض سے پرٸیر روم کی طرف گٸیں۔ ارہم نے پوری رات وہیں بیٹھ کے گزاری تھی۔ اب وہ ہاسپیٹل آیا تھا۔ حور ابھی پرٸیر روم سے نکلی تھی۔ اس کی نظر ارہم پہ پڑی جو آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا تھا کپڑوں پہ مٹی لگی ہوٸی تھی چہرہ بے تاثر تھا آنکھوں میں وحشت تھی بال بکھرے ہوے تھے۔ وہ ارشد صاحب کی پاس گیا اور ان کی طرف ایسے دیکھا کے وہ کہہ دیں آیان ٹھیک ہو گیا ہے اسے ہوش آ گیا ہے پر وہ ایسا کچھ نہیں کہہ پاۓ انہوں نے نظریں چڑا لیں تو ارہم شکست خوردہ کی طرح سر جھکا گیا۔
"یا اللہ آیان کو ٹھیک کر دیں نا۔۔ آپ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں آپ کے لیے تو ہر کام بہت آسان ہے تو پھر آیان کو ٹھیک کر دیں۔۔اس نے رات کو کھانا بھی نہیں کھایا تھا اسے بھوک لگی ہو گی" کھانا تو خود مہرو نے بھی نہیں کھایا تھا اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے۔
"اللہ جی ڈاکٹرز مجھے اس سے ملنے نہیں دے رہے۔۔ میں اس سے ملوں گی تو وہ ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔اس کے سامنے میں ایک آنسو گِراٶں گی تو وہ مجھے خود سے لگا لے گا۔۔پر ڈاکٹرز کو تو یہ سمجھ ہی نہیں آ رہا۔۔یا اللہ آپ اسے ٹھیک کر دیں۔۔اب تو کتنی دیر ہو گٸی نا۔۔یا اللہ ٹھیک کر دیں اسے" کہتی وہ سجدے میں چلے گٸ اور کتنی ہی دیر اس طرح رہی ربعیہ بیگم نے تھوڑی دیر اس کے اٹھنے کا انتظار کیا پر وہ نہیں اٹھی تو انہوں نے اسے ہلایا اور وہ ایک سمت گِر گٸی وہ پھر سے بے ہوش ہو چکی تھی۔ ان کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی وہ باہر کو بھاگی۔
"ارشد صاحب مہرو پھر بے ہوش ہو گٸی" وہ روتے ہوے بولیں۔ ارشد صاحب نے نرس کو بلایا۔ نرس نے چیک کیا پھر اسے کمرے میں لا کے لٹا دیا گیا اس کا بی پی بہت لو تھا۔ اور کل سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔ اسے ہوش میں لایا۔
"انہیں کچھ کھلاٸیں پھر ہم میڈیسن دیں گے" نرس کہہ کے چلی گٸی۔ حور کینٹین سے جوس اور اسینڈویچ لے کے آٸی۔ اور اس کے منہ کے آگے کیا تو مہرو نے پیچھے کر دیا۔
"تھوڑا سا کھا لو" مہرو حور نے پھر آگے کیا۔
"نہیں مجھے آیان کے پاس جانا ہے"
"یہ کھا لو پھر چلی جانا"
"نہیں کھانا مجھے کچھ بھی آیان سے ملنا ہے میں نے" وہ اٹھی۔ اور آٸی سی یو کی طرف گٸی۔ ربعیہ بیگم میں اب ہمت نہیں رہی تھی اسے روکنے کی وہ وہیں بیٹھی آنسو بہاتی رہیں۔ حور اس کے پیچھے گٸی۔ آسف صاحب بھی وہاں آ گٸے تھے۔
"مہرو رکو میری بات تو سنو" حور اس کے پیچھے لپکی۔
"نہیں سننی مجھے کسی کی بات۔۔بس اب بہت ہو گیا۔ مجھے آیان سے ملنا ہے" وہ اونچی آواز میں بولی۔ ارشد صاحب نے اسے پکڑا۔
"میری جان اِدھر آٶ "
"نہیں آنا مجھے۔۔آپ نے اسے بتایا نہیں مہرو رو رہی ہے۔۔مجھے پتا ہے آپ نے نہیں بتایا۔۔بتایا ہوتا تو وہ میرے پاس آ چکا ہوتا۔۔اب۔۔اب خود جاٶں گی میں اس کے پاس"
"ڈاکٹرز نہیں جانے دیں گے مہرو بیٹا"
"کیوں نہیں جانے دیں گے۔۔ میں جاٶں گی چھوڑیں مجھے" وہ چیخی۔
"بابا جان مجھے ملنا ہے آیان سے" وہ چلاٸی وہ بے قابو ہو رہی تھی۔ آسف صاحب اٹھ کے ڈاکٹر کے پاس گٸے۔لیکن ڈاکٹر نے صاف صاف منع کر دیا۔
"صرف پانچ منٹ دے دیں" وہ ملتجیانہ لہجے میں بولے۔پر انہوں نے انکار ہی کیا۔
"ڈاکٹر صاحب صرف پانچ منٹ ملنے دیں۔۔وہ اسے دیکھے گی تو تھوڑا سنبھل جاۓ گی" جیسے تیسے کر کے صرف پانچ منٹ کی اجازت مل گٸی۔ انہوں نے آ کے اسے ارشد صاحب کو اِشارہ کیا کے اجازت مل گٸی ہے۔ پھر انہوں نے مہرو کو اندر بھیجا۔ مہرو دروازہ دھیکل کے اندر گٸی اور سامنے آیان کو مشینوں اور پاٸپوں میں جکڑا دیکھ اس کے لیے قدم اُٹھانا مشکل ہو گیا وہ لرکھڑاٸی اور دروازے پہ ہاتھ رکھ کے لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ پھر قدم قدم اٹھاتی آگے بڑھی۔ آنکھوں میں پھر سے پانی بھر آیا وہ اس کے پاس بیٹھ گٸی اس کے چہرے کی طرف دیکھا جس کے سر پہ پٹی بندھی ہوٸی تھی آنکھیں بند تھیں چہرہ زرد تھا آکیسجن ماسک لگا ہوا تھا۔ مہرو کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کے جکڑا۔ اس نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا اور نرمی سے بولی۔
"آیان۔۔۔۔" پر سامنے خاموشی تھی۔
"آیان میری طرف دیکھیں نا۔۔۔" پر وہ تو جیسے مزے سے سو رہا تھا۔
"آیان آپ ناراض ہیں مجھ سے۔۔ آپ۔۔آپ اُٹھیں میں آپ کو منا لوں گی۔۔۔"
"آیان اٹھیں نا دیکھیں آپ کی مہرو رو رہی ہے۔۔ چپ کرواٸیں نا مجھے۔۔ آپ کو اچھا نہیں لگتا نا میرا رونا۔۔تو دیکھیں میں رات سے رو رہیں ہوں چُپ کرواٸیں نا مجھے۔۔۔آیان۔۔آیانننن" اب وہ چلاٸی۔
"آیان آپ نہیں اٹھیں تو میں ناراض ہو جاٶں گی۔۔۔آیاننننن کیوں نہیں اٹھ رہے آپ کیوں مجھے چُپ نہیں کروا رہے۔۔۔ دیکھے نا آپ کی مہرو رو رہی ہے" وہ اب کھڑی ہو کے اونچی اونچی بول رہی تھی نرس اندر آٸی۔
"میم پیشنٹ کے پاس اونچی نہیں بولیں باہر آ جاٸیں" وہ تحمل سے بولی۔
"کیوں جاٶں میں باہر۔۔ہاں کیوں جاٶں۔۔شوہر ہے میرا مجھ سے ناراض ہیں شاید۔۔پر میں منا لوں گی۔۔آیان اٹھیں۔۔دیکھیں میری طرف۔۔آیاننننن" وہ چلاٸی۔ نرس ارشد صاحب کو اندر لے کے آٸی۔ تو انہوں نے اسے پکڑا وہ بے قابو ہو رہی تھی۔ بہت مشکل سے وہ اسے باہر لے کے گٸے۔ شازیہ بیگم ہاسپٹل آ گٸیں تھیں انہوں نے آگے بڑھ کے اسے پکڑا اور خود سے لگایا۔ ارہم ابھی بھی سر جھکاۓ بیٹھا ایک ہی سمت دیکھ رہا تھا آسف صاحب بھی خود پہ ضبط کر کے بیٹھے ہوے تھے ربعیہ بیگم روم میں ہی تھیں کبھی رو لیتی تو کبھی دعا مانگ لیتیں۔ حور کا بھی یہی حال تھا اس سے مہرو کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ صبح کے آٹھ بج گٸے تھے پر آیان کو ہوش نہیں آیا تھا۔ فیضان کو آفس سے کسی نے فون کر کے بتایا تھا وہ ابھی گھر ہی تھا۔
"ماما آیان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے" ریحانہ بیگم برتن اُٹھا رہی تھیں جب اس نے آ کے بتایا۔
"یا اللہ خیر۔۔" ان کی جیسے ہارٹ بیٹ مس ہوٸی شعبانہ بیگم بھی کچن سے سن کے جلدی جلدی باہر آٸیں۔
"کیسے ہو گیا ایکسیڈینٹ"
"مجھے بھی ابھی آفس سے فون آیا ہے رات کا ہوا ہے۔ ابھی تک اسے ہوش نہیں آیا میں وہاں جا رہا ہوں اور ہاں سحر کو بالکل پتا نا چلے۔۔"
"بیٹا ہم بھی آتے ہیں"
"نہیں ماما میں جاتا ہوں آپ لوگ گھر رہیں میں فون پہ آپ کو بتاتا رہوں گا" کہتا وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ زیشان نے یونی جانا اسٹارٹ کر دیا تھا وہ پہلے عنزہ کو کالج اتارتا اور پھر خود یونی جاتا وہ دونوں نکل گٸے ہوے تھے عابد صاحب اور آطف صاحب بھی آفس جا چکے تھے۔ سحر اپنے روم میں تھی۔
فیضان ہاسپٹل پہنچا رسیپشن سے پتا کیا اور لمبے لمبے ڈگ اُٹھاتا آٸی سی یو کی جانب بڑھا۔ سامنے ہی سارے بیٹھے نظر آ گٸے آسف صاحب اسے دیکھ کے اٹھے اور اس کے گلے لگ گٸے ضبط ٹوٹا اور کچھ آنسو ان کے گال بھیگو گٸے۔ فیضی کے لیے بھی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔
"انکل حوصلہ کریں کچھ نہیں ہو گا ہمارے آیان کو وہ بہت بریو ہے۔۔ وہ ٹھیک ہو جاۓ گا" فیضان نے انہیں دلاسہ دیا۔ ارہم ابھی بھی اسی طرح بیٹھا تھا۔ شازیہ بیگم جوس اور اسینڈوچ لے کے مہرو کے پاس آٸیں۔
"کھا لو میری پیاری بیٹی" مہرو نے نفی میں گردن ہلاٸی۔
"تھوڑا سا" پھر سے انکار۔
"ایک باٸیٹ لے لو" نا میں گردن ہلی۔
"اچھا یہ جوس پی لو" پھر وہی جواب۔
"میری بات نہیں مانو گی تو میں ناراض ہو جاٶں گی۔ تھوڑا سا پی لو" انہوں نے اسٹرا اس کے منہ میں ڈالا تو اس نے ایک سپ لے لیا جو کے بمشکل اس نے خلق سے اُتارا اور پھر ہاتھ سے پیچھے کر دیا۔ شازیہ بیگم نے ارہم کی طرف دیکھا پھر اس کے پاس گٸیں۔
"ارہم میری جان یہ اسینڈویچ کھا لو" وہ ویسے ہی رہا۔
"میری جان تھوڑا سا کھا لو رات سے تم نے کچھ نہیں کھایا" پر ارہم تو جیسے وہاں تھا ہی نہیں۔
"ارہم" انہوں نے اس کا بازو ہلایا تو اس نے آنکھیں اُٹھا کے انہیں دیکھا ۔اس کی آنکھیں وحشت زدہ تھیں جیسے خون بھر آیا تھا اس کی آنکھوں میں۔
"تھوڑا سا کھا لو میری جان "
"ماما میں نہیں کھاٶں گا اور اب پلیز مجھے نا کہیے گا" کہہ کے اس نے پھر سے نظریں جھکا لیں۔
"ڈاکٹر ڈاکٹر پیشنٹ کو ہوش آ رہا ہے" نرس بھاگتی ہوٸی آٸی۔ ڈاکٹر جلدی سے وہاں گیا۔ اسے چیک کیا وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نرس نے انجیکشن ڈاکٹر کی طرف بڑھایا اور ڈاکٹر نے آیان کو لگایا۔ دو منٹ میں اس کا سانس ٹھیک ہوا اس نے لب وا کرنا چاہے۔
"مہرو۔۔۔" وہ یک دم بولا اور آنکھیں کھولیں روشنی کی وجہ سے آنکھیں چندھیا گٸیں۔اس نے پھر آہستہ آہستہ کھولیں اب کی بار وہ کامیاب رہا۔ ڈاکٹر نے اس کا بی پی چیک کیا اور پھر باہر جا کے سب کو خوشخبری دی۔
"پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے تھوڑی دیر میں روم میں شفٹ کر دیں گے پھر آپ مل لیجیے گا وہ کہتے ارشد صاحب کا کندھا تھپتھپاتے آگے بڑھ گٸے۔ سب کی اٹکی ہوٸی سانسیں بحال ہوٸیں چہروں پہ مسکراہٹ پھیلی لبوں سے "اللہ تیرا شکر ہے" جیسے الفاظ نکلے ارہم کی آنکھوں میں آنسو آۓ وہ پرٸیر روم کی طرف نفل پڑھنے بڑھا۔ کچھ دیر میں اسے روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ اور سب باری باری مل کے آۓ۔ اور پھر مہرو کو اندر بھیجا۔ وہ اندر داخل ہوٸی آیان آنکھیں کھولے دروازے کی جانب ہی دیکھ رہا تھا مہرو آہستہ آہستہ چلتی اس تک پہنچی پھر اس کے پاس بیٹھی بیڈ کو تھوڑا اونچا کر دیا گیا تھا۔ مہرو نے آیان کی طرف دیکھا تو آنکھیں چھلک پڑی۔ اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے۔ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر آیان بولا۔
"مسز آیان کچھ۔۔بولو گی نہیں" وہ ہلکا سا مسکرایا تو مہرو اس کے سینے سے لگ گٸی۔ آیان اس کے گرد بازو حماٸل کرنے لگا تو منہ سے کراہ نکلی۔
"آیان کیا ہوا" مہرو نے سر اونچا کر کے پوچھا۔ تو آیان نے مسکراتے ہوے نفی میں گردن ہلا دی ابھی اس سے زیادہ بولا نہیں جا رہا تھا۔
"آیان آپ آگے کیوں آۓ۔۔آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا" کتنے ہی آنسو آیان کی شرٹ میں جزب ہوے۔
"مہرو۔۔رونا بند کرو۔۔۔تکلیف ہو رہی ہے مجھے"
"اوکے۔۔نن۔۔نہیں روٶں گی میں بالکل نہیں روٶں گی" مہرو نے اپنے آنسو صاف کیے
پھر اس سے الگ ہو کے اس کی طرف دیکھا۔ اور تھوڑا آگے ہو کے اس کے گال پہ جھکی آیان مسکرایا۔
"تم نے کھانا۔۔کھایا" اسے ابھی بھی اپنی نہیں اس کی فکر تھی۔
"جی کھا لیا" مہرو نے جھوٹ بولا۔
"جھوٹ۔۔بول رہی ہو جاٶ کھانا کھاٶ جا کے۔۔اور اب رونا نہیں"
" کھا لوں گی"
"آیان ارہم بہت پیار کرتا ہے نا آپ سے بہت رویا وہ میں نے تو اسے کبھی اداس بھی نہیں دیکھا تھا پر اب۔۔۔۔ اس نے بھی کچھ نہیں کھایا"
"جاٶ اسے میرے پاس بھیجو پھر آیان نے اسے اشارے سے چہرہ قریب کرنے کا کہا اس نے کیا تو اس نے مہرہ کی پیشانی چومی۔ پھر مہرو باہر چلے گٸی ارہم پرٸیر روم سے آ رہا تھا۔
"آیان بلا رہا ہے تمہیں" مہرو نے اس کے پاس جا کے کہا۔ وہ ہاں میں گردن ہلاتا اندر بڑھا آیان پہ نظر پڑی تو آنکھیں بھر آٸیں۔ جنہیں وہ ضبط سے پی گیا۔ پھر اس کے پاس جا کے سینے پہ ہاتھ باندھ کے کھڑا ہو گیا۔ اور اسے دیکھے گیا۔ کیا کچھ ہو گیا تھا ایک رات میں۔ اس کے بھاٸی کی کیا حالت ہو گٸی تھی۔
"اندھا تھا دیکھنا بھول گیا تھا اللہ نے آنکھیں استعمال کرنے کے لیے دی ہیں ان کو استعمال کرنے سے بِل نہیں آتا۔۔حال دیکھ رہا ہے اپنا مجھے۔۔مجھے بات ہی نہیں کرنی تجھ سے" کہتے ہی آنکھوں سے آنسو بہہ گٸے اور وہ پلٹ گیا۔
"ارہم" پر ارہم نے قدم آگے بڑھا لیا۔
"آااا" اس نے ایکٹینگ کی تو ارہم فوراً اس کی طرف لپکا۔
"کیا ہوا ڈاکٹر کو بلاٶں"
"نہیں۔۔میرے پاس بیٹھ" ارہم اس کے پاس بیٹھا وہ آیان کو دیکھنے سے گریز کر رہا تھا اسے دیکھتے ہی اسے رونا آ جاتا تھا اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔
"گلے نہیں لگے۔۔گا" وہ مسکرتا ہوا دھیمے لہجے میں بولا۔ تو وہ جلدی سے اس کے گلے لگ گیا۔ اور آنسوٶں کو بہنے دیا۔
"آیان تجھے کچھ ہو جاتا تو کیا بنتا میرا"
"تو دولہا بن جاتا اور حور کو گھر لے۔۔آتا"
"تیرے بغیر تو کبھی شادی نہیں کرتا" آیان مسکرا دیا۔
"آیان میرا پتا ہے کیا دل کر رہے" ارہم سنجیدگی سے بولا۔
"کیا "
"تجھے مارنے کا مجھ سے نہیں دیکھا جا رہا تجھے اس حالت میں بھی ایکسیڈینٹ کروا کے تیرے ساتھ ہی لیٹ جاتا ہوں"
"پاغل۔۔کیا بکواس کر رہا ہے"
"تو ٹھیک ہو پھر جلدی ورنہ میں یہی کروں گا"
"ارہم۔۔اب میں تجھے تھپڑ مار دوں گا"
"مار لے" وہ مسکراتا ہوا بولا پتا تھا ابھی وہ نہیں مار سکتا۔ پھر اٹھ کے اس کا گال چوما۔
"ٹھیک ہو جا جلدی موٹے"
"تو نے۔۔کچھ کھایا کیوں۔۔نہیں"
"کھا لیتا ہوں تو زیادہ نہیں بول" پھر ارہم نے اس کا ہاتھ چوما۔ حور اندر داخل ہوٸی۔ اور آیان کے قریب آ کے کھڑی ہو گٸی آنکھوں میں خودبخود آنسو آ گٸے۔
" بیٹھ جاٸیں۔۔یہاں" آیان نے قریب پڑے اسٹول کی طرف اشارہ کیا ارہم نے سرسری سی نگاہ اس پہ ڈالی۔ اور پھر آیان کو دیکھنا شروع کر دیا۔
"آنسو صاف کریں۔۔اپنے ٹھیک ہوں میں اب"
"آیان۔۔بھاٸی۔۔۔۔۔" وہ بس اتنا ہی بول سکی۔ آنکھیں پھر چھلک پڑیں۔ کتنی حساس ہوتی ہیں لڑکیاں۔
"آپ روٶیں گی تو۔۔مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔ٹھیک ہوں میں اب۔۔آپ سب نے دعا کی تھی میں نے۔۔ٹھیک ہونا ہی تھا" اتنی دیر میں نرس اندر آٸی۔
"پیشنٹ کو ریسٹ کرنے دیں" پھر اس نے ایک انجیکشن بھرا اور آیان کی ڈریپ میں ڈالا۔
"آپ۔۔ابھی مہرو کے پاس ہی۔۔رہیے گا گھر چلے جاٸیں اس کے ساتھ۔۔پھر کچھ دیر تک آ جاٸیے گا" آیان حور کو دیکھ کے بولا تو اس نے ہاں میں گردن ہلا دی اور اُٹھ کے چلی گٸی۔ ارہم اٹھ کے اس کے گال پہ جھکا پھر آیان نے بھی اس کے گال پہ بوسہ دیا۔ اور ارہم چلا گیا۔ آیان دواٸیوں کے زیر اثر سو گیا۔ شازیہ بیگم کے کہنے پہ ارہم مہرو اور حور کو گھر لے گیا۔ جاتے ہوے ایک بیکری سے ناشتہ پیک کروایا۔ اور پھر آیان کے گھر گاڑی روکی۔
حور نے ناشتہ ٹیبل پہ لگایا تینوں نے کیا۔
"مہرو بھابھی اب سو جاٸیے گا میں بھی گھر جا کے تھوڑی دیر سونے لگا ہوں واپسی پہ آپ دونوں کو لے جاٶں گا" وہ اُٹھتا ہوا بولا۔
"کتنی دیر تک آٶ گے"
"دو گھنٹوں تک"
"اوکے" پھر آیان چلا گیا۔ حور برتن اُٹھانا شروع ہو گٸی۔
"حور لیٹ جاٶ تم بھی رات سے اُٹھی ہوٸی ہو"
"تم لیٹو میں برتن دھو کے آٸی"
"رہنے دو برتن اور میرے ساتھ چلو روم میں" پھر وہ دونوں روم میں چلے گٸیں۔ ارہم نے جاتے ہوے ایک بھیکاری کو پانچ ہزار صدقہ دیا پھر ایک دیگ لے کے یتیم خانے دے آیا اور گھر جا کے فریش ہو کے لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے ہی لوگ ہاسپیٹل پتا لینے آ رہے تھے فرینڈز، رشتہ دار، کچھ آفس سے آیان سو رہا تھا وہ آسف صاحب سے ہی بات چیت کر کے چلے جاتے ارہم مہروالنسإ اور حور بھی ایک گھنٹے بعد ہی واپس آ گٸے تھے نیند تو کسی کو آٸی نہیں تھی۔ پھر وہ کمرے میں چلے گٸے اور آیان کو بھی اُٹھا دیا یہ تو ان کا حق تھا نا جس کے لیے وہ اٹھے ہوے تھے تو پھر اسے کیوں سونے دیتے ربعیہ بیگم ارشد صاحب اور شازیہ بیگم گھر چلے گٸے تھے مریم ان کے پاس ہی تھی۔ کچھ دیر میں ریحانہ شعبانہ عنزہ اور زیشان بھی آ گٸے فیضان نے گھر فون کر کے بتا دیا تھا خود بھی وہ کتنی دیر بیٹھ کے گیا تھا۔ عنزہ اور زیشان کو ریحانہ بیگم نے بہت منع کیا تھا پر ان کی سنتا کون۔ وہ کمرے میں داخل ہوے جہاں ارہم مریم مہروالنسإ اور حور پہلے سے موجود تھے ارہم تو باتوں کے ساتھ ساتھ کھانے میں بھی مصروف تھا شعبانہ اور ریحانہ بیگم مل کے بیٹھی تو عنزہ آگے بڑھی۔ آنکھیں آنسوٶں سے بھر گٸی تھیں۔ وہ آیان کے پاس بیٹھی۔
"عنزہ" آیان نے نرمی سے کہا۔ اور عنزہ کے آنسو بہ گٸے۔ اس کی طرف دیکھ کے باقی سب کی آنکھیں بھی نم ہو گٸیں۔
"میری اتنی پیاری بہن رو کیوں رہی ہے"
"میرے اتنے پیارے بھاٸی کو پٹیوں میں کیوں جکڑا ہوا ہے" وہ روتے ہوے بولی۔
"آاا عنزہ روتے تو نہیں نا اب تو میں بالکل ٹھیک ہوں" آیان نے اسے خود سے لگایا۔
"آیان بھاٸی میں بھی ہوں یہاں" پہ زیشان نے حصہ لیا۔
"آٶ بیٹھو تم بھی" آیان مسکراتا ہوا بولا۔
"تم دور ہی رہو میرے بھاٸی سے دیکھو نا وہ ٹھیک نہیں" عنزہ جھٹ سے بولی۔
"ہاں میں بیٹھوں گا پاس تو ٹھیک ہو جاٸیں گے"
"جاٶ شیشہ دیکھو "
"دیکھ کے آیا تھا بہت پیارا لگ رہا ہوں کیوں مہرو آپی" وہ دانت نکالتا بولا۔
"ہمم" مہرو نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
"بیٹھی رہو تم اپنے بھاٸی کے پاس میں تو اپنی پیاری بہن کے پاس بیٹھنے لگا ہوں" کہتا وہ مہرو کے ساتھ والی چٸیر پہ بیٹھ گیا۔
"ارہم بھاٸی بندہ قریب بیٹھے لوگوں کو بھی دیکھ لیتا ہے اکیلے کھاتے جا رہے ہیں" ارہم کا منہ میں برگر لے کے جاتا ہاتھ رُکا ریحانہ بیگم اور شعبانہ بیگم نے زیشان کو گھورا پر زیشان کو شرم کہاں تھی وہ تو ہر ایک سے فری ہو جاتا تھا ارہم نے دانت دکھاتے ہوے برگر زیشان کی طرف اُچھالا۔ جو اس نے بڑی مہارت سے کیچ کر لیا۔
"موٹی گھور کیوں رہی ہو" عنزہ بیچاری جو دور دور تک اسے نہیں دیکھ رہی تھی زیشان کی بات سن کے اس کا منہ کھل گیا۔
"میں نے کب گھورا بن۔۔۔" کہتے کہتے وہ چُپ ہوٸی کیونکہ آیان پاس ہی تھا۔
"آیان بھاٸی کہہ لوں بدلہ لینے دیں نا اس نے بھی تو سب کے سامنے میرا نام ڈالا ہے پھر میرا بھی تو حق بنتا ہے> عنزہ نے آیان کے کان میں سرگوشی کی سب اسے ہی دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ بولتی بولتی چُپ ہوٸی تھی۔ اس سے پہلے کے آیان کوٸی جواب دیتا وہ خود ہی بول پڑی۔
"بندر مینڈک یہاں پہ کچھ نٸے لوگ ہیں جنہیں تمہارا نام نہیں پتا جیسے کے ارہم بھاٸی اور کیا نام تھا آپ کا ہاں مریم آپی آپ لوگ بھی یاد کر لیں اس کا نام بندر مینڈک ہے اور بھکر بھی" اس کا یہ کہنا تھا اور باقی سب کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔ ریحانہ بیگم اور شعبانہ بیگم نے مسکراتے ہوے چہرہ ہی جھکا لیا کتنی شرمندگی ہوٸی تھی اُنہیں پر وہ کہاں سُدھرنے والے تھے۔
"کہہ لے موٹی جلی جایا کر مجھ سے اب پتا نہیں کیسے مجھے یہ ہضم ہونا ہے "
"اللہ کرے نا ہی ہو"
"عنزہ خاموشی سے بیٹھ جاٶ" ریحانہ بیگم نے اسے ڈپٹا۔
"ہنہہ" عنزہ کا منہ بن گیا۔ باقی سب انہیں دیکھ کے محفوظ ہو رہے تھے۔ ارہم نے ڈیری مِلک عنزہ کی طرف بڑھاٸی۔ جو اس نے فوراً پکڑ لی۔
"آپ کو کیسے پتا مجھے پسند ہے"
"بس ویسے ہی" وہ فخریہ انداز میں بولا۔
"تھینکیو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
میرے پیارے ریڈرز آپ لوگوں کے کمینٹس اور ووٹ کیوں نہیں آ رہے ووٹ اور کمینٹ بھی کیا کریں اور ریویو بھی ضرور دیا کریں۔😊
فالو می آن انسٹاگرام👇
_mehreen _writes
DU LIEST GERADE
محبت،یقین اور خواہش Completed 💕
Jugendliteraturاس کہانی میں ہے کسی کی محبت تو کسی کا اللہ پہ یقین اور پھر جب اللہ پہ یقین ہو تو ہر کام بہتر ہی ہوتا ہے۔ کسی کا اللہ کے سامنے خواہش ظاہر کرنا اور اسے جھٹ سے پا لینا۔ اب یہ کس کی محبت ہے کس کا یقین اور کس کی ہے خواہش وہ تو ناول پڑھ کے پتا چلے گا💗😉