محبت، یقین اور خواہش

3.4K 121 27
                                    

                           قسط:١٣
"آیان اٹھ جاٸیں" مہروالنسإ آیان کو کندھے سے ہلاتی بولی۔
"بس دو منٹ " وہ انگڑاٸی لیتا بولا۔
"نماز نہیں پڑھنی کیا؟"
"اٹھنے لگا ہوں" وہ اونگھتا ہوا بولا۔
"میں نماز پڑھنے لگی ہوں اٹھ جاٸیے گا" کہتی وہ دوسرے روم میں گٸی جاۓ نماز لایا اور بیڈ روم میں بچھا کے نماز پڑھنا شروع ہو گٸی۔ سلام پھیرا آیان کی طرف دیکھا وہ ابھی بھی لیٹا ہوا تھا۔
"آیان نماز کا ٹاٸم ختم ہو رہا ہے اٹھ جاٸیں" جاۓ نماز پہ کھڑے ہو کے ہی اس نے آیان سے کہا اور پھر نیت باندھ لی۔
نماز پڑھ کے آیان کے پاس بیڈ پہ بیٹھی۔
"آیان آج کچھ زیادہ نیند نہیں آ رہی آپ کو؟"
"ہمم" آنکھیں بند کیے ہی جواب دیا۔
"اٹھ جاٸیں نا میں نے نماز پڑھ بھی لی اور آپ ابھی تک سو رہے ہیں" وہ اس کے بالوں پہ ہاتھ پھیرتی بولی۔
"دو منٹ اور سونے دو"
"یہ دو منٹ میں پندرہ منٹ تو گزر گٸے ہیں " وہ اٹھتی ہوٸی بولی۔ آیان نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔
"کہاں جا رہی ہو؟"
"قرآن پاک پڑھنے لگی ہوں"
"میرے بالوں پہ انگلیاں پھیرو نا مجھے بہت سکون مل رہا ہے"
"نماز پڑھیں اٹھ کے"
"بس دو منٹ ٹاٸم دیکھ لو پورے دو منٹ بعد اٹھ جاٶں گا "
"ان دو منٹ میں کیا آپ کی نیند پوری ہو جاۓ گی"
"جی اب بیٹھو میرے پاس اور جیسے پہلے میرے بالوں پہ ہاتھ پھیر رہی تھی ویسے کرو پھر میں اٹھ کے نماز پڑھ لوں گا اور تم قرآن پاک"
"دو منٹ تو آپ کی باتوں میں گزر گٸے ہیں" پھر وہ اس کے پاس بیٹھی اور نرمی سے اس کے بال سہلانے لگی۔
"مہرو"
"جی"
"بچپن میں ماما مجھے ایسے سلاتی تھیں مجھے بہت سکون ملتا تھا ہر سنڈے کو وہ میرے بالوں پہ مالش بھی کرتی تھیں میں بہت چڑتا تھا مالش کروانے سے پر وہ اتنے پیار سے مجھے کہتی تھیں بیٹا اس طرح بال سلکی ہوں گے ہیارے ہوں گے اور سر کو بھی سکون ملے گا۔ اور۔۔۔ایسا ہوتا بھی تھا ماما صوفے پہ بیٹھتیں اور میں نیچے فرش پہ پھر وہ اتنے ہیار سے مالش کرتی تھیں اور ساتھ ہم دونوں باتیں بھی کرتے تھے" ایک آنسو آنکھ کے کنارے سے بہتا ہوا کان تک چلا گیا۔ جسے مہرو نے پونچھا۔
"اب پانچ منٹ ہو گٸے ہیں اٹھ بھی جاٸیں"
"مہرو میں نے تو سنا ہوا ہے ماٸیں بچوں سے بہت ہیار کرتی ہیں ان کے لیے جان بھی دے دیتی ہیں بلکہ میری ماما بھی تو ایسی ہی تھیں بہت پیار کرتی تھیں مجھ سے۔ میں 7th میں تھا میں اور ارہم کرکٹ کھیل رہے تھے اس نے بے ایمانی کی میں اس کے پیچھے بھاگا اور گر گیا میرے گھٹنے سے خون نکلنا شروع ہو گیا ویسے تو درد محسوس نہیں ہوا لیکن جب نظر خون پہ پڑی تو میں نے چیخ بھی مار دی ماما بھاگتی ہوٸی لان میں آٸیں"
"کیا ہوا آیان"
"گر گیا"
"میرا بچہ دکھاٶ مجھے" پھر انہوں نے اس کے گھٹنے سے پینٹ اوپر کی۔ وہاں سے ماس چھل گیا تھا عفت نے اپنا ہی دوپٹہ اس کے گھٹنے پہ رکھ دیا۔
"دیکھ کے نہیں چل سکتے تھے دیکھو کتنی چوٹ لگ گٸی اسلم اسلم (ڈراٸیور) گاڑی نکالو جلدی سے "
"جی میڈم"
"جلدی کرو دیکھو میرے بچے کا کتنا خون بہہ رہا ہے" پھر انہوں نے آیان کا ہاتھ پکڑ کے اسے اٹھایا۔ اور گاڑی تک لے کے گٸیں۔
"زیادہ درد تو نہیں ہو رہا "
"نہیں ماما تھوڑی سی تو چوٹ ہے "
"میرا بچہ دیکھ کے چلا کرو نا دیکھو اب کتنا خون نکل گیا" انہوں نے اسے اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا پھر اس کی پیشانی چومی۔
"اسلم گاڑی تیز چلاٶ "
"جی میڈم بس آ گیا ہاسپیٹل"
"ماما میں نے کہا تو تھا کچھ نہیں ہوا ایویں آپ ٹینشن لے رہی تھیں" ہاسپیٹل سے واپسی پہ آیان ماما سے کہہ رہا تھا۔
"میرا ایک ہی تو بیٹا ہے جس میں میری جان بستی ہے کیسے دیکھ سکتی ہوں اسے کسی تکلیف میں بس آٸندہ تم دیکھ کے نہیں چلے یا بھاگتے ہوے گِرے تو میں تمہارا کھیلنا ہی بند کر دوں گی اور ایک گارڈ تمہارے لیے رکھوا دوں گی جو ہر وقت تمہارے ساتھ ہو گا"
"ماما جان کیا ہو گیا ہے ٹھیک ہوں میں اور آٸندہ دھیان سے چلوں گا"
"آٸسکریم کھاٶ گے"
"جی"
"اسلم جاٶ میرے بیٹے کے لیے اس کی فیورٹ آٸسکریم لے کے آٶ" پھر ڈراٸیور نے آٸسکریم کپ لا کے آیان کو دیا۔
"کھا لو میری جان اور کچھ لینا ہے "
"نہیں بس ٹھیک ہے یہی ماما آپ مجھے بچوں کی طرح کیوں ٹریٹ کرتی ہیں اب میں بڑا ہو گیا ہوں"
"تم جتنے بھی بڑے ہو جاٶ میرے لیے بچے ہی رہو گے" انہوں نے اس کا گال چوما
"یو آر بیسٹ موم ان دا ورلڈ "
"اینڈ یو آر بیسٹ سن ان دا ورلڈ لو یو سو مچ ماٸی سن"
"اتنا پیار کرتی تھیں ماما مجھ سے تو پھر کیوں چھوڑ گٸیں کیا ان کے بیٹے سے زیادہ عزیز انہیں اپنا بواۓ فرینڈ لگا کیا انہیں میرا خیال نہیں آیا کیا انہیں میری یاد آتی ہو گی۔۔نہیں.. آتی ہوتی تو وہ اتنے سالوں میں ایک دفعہ تو آ ہی جاتی مجھ سے ملنے پر وہ نہیں آٸیں کبھی فون بھی نہیں کیا میں چاہتا ہوں میں بھی ماما کی طرح selfish ہو جاٶں بہت کوشش کرتا ہوں انہیں بھول جاٶں پر نا ہی تو میں انہیں بھول پاتا ہوں اور نا ہی نفرت کر پاتا ہوں۔ اتنی کوشش کرتا ہوں مجھے ان سے نفرت ہو جاۓ پر ایسا نہیں ہوتا کبھی کبھی تو اتنا بے بس ہو جاتا ہوں دل کرتا ہے بس کہیں سے ماما بابا سامنے آ جاٸیں اور میں ان کے گلے لگ جاٶں کتنی ہی دیر انہیں گلے لگاٸی رکھوں پھر بابا سے کہوں میرے لیے کچھ لے کے آٸیں اور ماما کی گود میں سر رکھ دوں وہ میرے بال سہلاٸیں مجھے باتیں سناٸیں اور ان کی باتیں سنتا سنتا میں سو جاٶں" کتنے ہی آنسو بہتے بہتے اس کے کان تک پہنچتے کچھ ٹوٹ کے تکیے میں جزب ہو جاتے تو کچھ بالوں میں اور کچھ کانوں میں ہی خشک ہو جاتے مہرو کی آنکھیں بھی آنسوٶں سے بھری ہوٸی تھیں مہروالنسإ نے اس کے آنسو صاف کیے پھر اپنی آنکھیں صاف کیں۔
"آیان ماں سے کبھی نفرت نہیں ہوتی ماں ہستی ہی ایسی ہے اور آپ اتنا نہیں سوچا کریں نا ان کے لیے دعا کیا کریں کے جہاں بھی ہوں خوش ہوں اور بابا کے لیے بھی دعا کیا کریں اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماۓ۔ اور میں ہوں نا آپ کے پاس آپ کو بالوں پہ مالش کیا کروں گی آپ کو باتیں سنایا کروں گی آپ میری گود میں سر رکھ کے سو جایا کیجیے گا ہاں ماں جتنا سکون تو نہیں ملے گا پر تھوڑا بہت تو ضرور ملے گا اب اٹھ جاٸیں پہلے ہی نماز اتنی لیٹ ہو گٸی ہے" وہ اس کا ماتھا چومتی بولی۔ آیان بھی اٹھ کے واش روم میں چلا گیا وضو کر کے باہر آیا جاۓ نماز بچھا کے نماز ادا کرنا شروع ہو گیا۔ مہروالنسإ بھی قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگ گٸی آیان نے نماز پڑھ کے ٰ پڑھی دعا کی پھر ٹراٶزر شرٹ پہنا جاگرز پہنے اور جاگنگ کے لیے نکل گیا۔ مہرو نے قرآن پاک پڑھ کے ناشتہ بنانے کچن میں چلے گٸی۔
"ارہم کا کیا کرنا ہے اب" وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے جب مہروالنسإ بولی۔
"کیا کرنا ہے؟" آیان نے کندھے اچکاۓ
"میرا مطلب رشتہ کب لے کے جانا ہے"
"ابھی تو کچھ نہیں پتہ مجھے نہیں لگتا بڑی ماما مانیں"
"کیوں؟"
"ان کی اور ہماری فیملی میں بہت فرق ہے بڑی ماما نے صرف لڑکی کی خوبصورتی نہیں دیکھنی اس کا فیملی بیک گراٶنڈ بھی دیکھنا ہے"
"ہاں تو اچھی تو ہے ان کی فیملی"
"پر یار۔۔۔غریب ہیں گھر بھی چھوٹا سا ہے غریبی امیری تو اللہ کے ہاتھ میں ہے پر بڑی ماما۔۔۔۔ خیر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے"
"ہمم"
"خیال رکھنا اپنا الله حافظ"
"آپ بھی فضول نہیں سوچا کریں" وہ بھی کھڑی ہوٸی
"تم ہو نا میرے پاس تو فضول سوچنے کی کیا ضرورت. الله حافظ" پھر آیان اس کے سر پہ پیار کرتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"شانی مجھے بریانی لا دو اور کسی کو بتانا نہیں" سحر زیشان کے روم میں آتی بولی۔
"آپی میں پہلے ہی بہت تھک کے آیا ہوں اب کہیں نہیں جاٶں گا"
"تھوڑے زیادہ نمبر لے لیتے تو یوں زلیل نہیں ہونا پرتا"
"اتنے کم بھی نہیں جتنا آپ لوگ کہہ رہے ہیں وہ بچے بھی تو دیکھیں نا جو فیل ہو گٸے
اور انہیں بھی تو دیکھو نا جنہوں نے ٹاپ کیا
ہمیشہ خود سے نیچے والوں کو دیکھنا چاہیے آپ کو ابھی تک اتنا بھی نہیں پتا کیا پڑھا ہے آپ نے توبہ۔۔۔۔"
"خود سے نیچے والوں کو تب دیکھنا چاہیے جب ہم انسان نا شکری کرنے پہ آ جاٸیں مطلب غریبی امیری خوبصورتی ایسی اور بھی چیزیں جو اللہ نے ہمیں دی ہیں پر ہم شکر گزار ہونے کی بجاۓ ناشکری کرتے ہیں اور کہتے ہیں اللہ نے اسے کتنا پیسا دیا اللہ نے اسے کتنا بڑا گھر دیا تب خود سے نیچے والوں کو دیکھنا چاہیے سمجھ آٸی اور کامیاب ہونے کے لیے خود سے اوپر ہی دیکھا کرو ٹارگٹ بنایا کرو کے اگر دوسرے کے دو نمبر کم آۓ ہیں تو میں ایک نمبر کم لے کے دکھاٶں گا بلکہ پورے ہی لوں گا اس صورت میں تم کامیاب ہو جاٶ گے اور ہاں ایک اور ضروری بات یہ سب کرتے ہوے حسد نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔"
"ٹھیک ہے آپ تو شروع ہی ہو گٸیں۔۔۔"
"ہاں ویسے بھی ایسی باتیں تمہیں سمجھ کونسا آتیں ہیں۔ اب جاٶ پلیز بریانی لا دو"
"نہیں بابا میں نہیں جاٶں گا جوتے نہیں کھانے میں نے فیضی بھاٸی سے"
"اس لیے تو کہہ رہی ہوں چھپا کے لانا ابھی تو وہ آفس ہیں"
"نو مینز نو اب جا سکتی ہیں آپ"
"شانیییی"
"کوٸی فاٸدہ نہیں ہونا میں سونے لگا ہوں لاٸیٹ آف کر جاٸیے گا"
"بہت بدتمیز ہو تم"
"دروازہ بھی بند کر دیجیے"
"بندر ہو چھلانگ لگا کے کر لو" وہ جاتے ہوے روم کی ساری لاٸیٹس اور فین آن کر گٸی دروزہ بھی پورا کھول دیا
"سو جاٶ اب سکون سے بندر"
"کل تو بڑا آیان بھاٸی سے کہہ رہی تھیں کے یہ نہیں سدھرنے والے اب خود الٹا نام ڈال رہی ہیں"
"جو ہو وہی کہوں گی نا وہ جاتے جاتے" اونچی آواز میں بولی۔ اور پھر اپنے روم میں آ گٸی۔
"بریانی بھی نہیں کھانی فاسٹ فوڈ میں بھی کچھ نہیں کھانا تو بھلا میں مر جاٶں آ لیں ایک دفعہ فیضی پھر بتاٶں گی سب گھر والوں کو بھی منع کر دیا ہے کچھ دینے سے ہنہ" وہ بیڈ پہ بیٹھی بڑبڑا رہی تھی۔ پچھلے ہفتے جب اس کا بی پی ہاٸی ہو گیا تھا تو ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا تھا ایسی چیزوں سے اور فیضان نے تو جیسے ڈاکٹر کی بات رٹ لی تھی سب گھر والوں کو بھی کہا تھا اسے ایسی کوٸی چیز نہیں دینی اور تب سے ریحانہ اور شعبانہ اسے دیسی گھی والی روٹی دیتی تھیں اس کا سالن بھی الگ سے دیسی گھی میں بنایا جاتا تھا۔ اور باقی گھر والے مزے والی چیزیں کھاتے تھے۔
سحر نے فیضان کو کال کی۔
"فیضی مجھے بریانی کھانی ہے"
"سلام تو لے لو سیدھا بریانی کھانی ہے" وہ اسی کے انداز میں بولا۔
"نہیں لینی مجھے سلام "
"نا لو"
"مجھے بریانی لا کے دیں"
"محترمہ میں آفس میں ہوں"
"تو میں کیا کروں مجھے بس بریانی چاہیے"
"وہ تو نہیں ملے گی میں ماما کو کہتا ہوں تمہارے لیے میٹ بناٸیں"
"فیضییی نہیں کھانا مجھے یہ گند بریانی ہی کھانی ہے"
"کیسی بچوں والی ضد کر رہی ہو"
"ہاں تو میں کونسا اماں ہوں"
"زیادی دیر نہیں" وہ شریر مسکراہٹ لیے بولا۔
"فیضی آپ نے لا کے دینی ہے یا نہیں" وہ غصے میں بولی۔
"میری جان ڈاکٹر نے منع کیا تھا نا طبعیت خراب ہو جاۓ گی اس لیے جو ماما دیں وہی کھاٶ"
"فیضی آپ بہت بُرے ہیں خود تو کبھی بریانی کھاتے ہیں تو کبھی قورمہ کبھی آپ جناب کو فراٸیڈ مچھلی چاہیے ہوتی ہے اور کبھی کچھ تو کبھی کچھ اور میرے لیے سب بند کر دیا۔۔۔"
"ہاں تو میری جان آپ کے لیے یہ سب ٹھیک نہیں" وہ مسکراتے ہوے بولا۔
"فیضی۔۔۔میں رونا شروع کر دوں گی"
"سیری کیا ہو گیا ہے یار چلو ٹھیک ہے ابھی جو ماما دیں گی وہ کھا لینا میں آفس سے آتے ہوے تمہارے لیے بریانی لے آٶں گا"
"پکا "
"جی"
"گول گپے اور کوک بھی لے آیے گا" بات ختم کرتے اس نے لب دانتوں تلے دبایا۔
"صرف بریانی ہی لاٶں گا اور کوک نہیں pomegranate jucie لاٶں گا"
"فیضییی"
"جی میری جان فرماٸیے "
"پلیز۔۔۔۔"
"نہیں الله حافظ"
"الله حافظ" اس نے منہ بناتے فون بند کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم مسز آیان کیسی ہیں" آیان نے مہرو کو کال کی اور کال پک ہوتے ہی خوشدلی سے بولا۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں"
"بالکل ٹھیک کیا کر رہی تھی؟"
"کچھ نہیں ابھی عصر کی نماز پر کے روم میں آٸی ہوں"
"گڈ آج ڈنر باہر کریں گے میرے آنے تک ریڈی رہنا"
"کس خوشی میں "
"ویسے ہی یار"
"اوکے" وہ مسکراتی ہوٸی بولی۔
"الله حافظ"
"الله حافظ" پھر مہرو نے اپنے اور آیان کے کپڑے آٸرن کیے تھوڑی دیر یونہی لاٶنج میں ٹی وی لگا کے دیکھتی رہی۔ اور پھر روم میں آ گٸی۔
"تیار نہیں ہوٸی" آیان کمرے میں آتا بولا۔
"بس ہونے ہی لگی تھی آپ آ بھی گٸے"
"جی میڈم ٹاٸم دیکھیں نا آٹھ بج کے پانچ منٹ ہو گٸے ہیں"
"اوو مجھے پتا ہی نہیں چلا "
"کیا کر رہی تھی؟"
"ویسے ہی بیٹھی ہوٸی تھی" پھر اس نے اٹھ کے آیان کو پانی لا کے دیا آیان نے پانی پیا اور گلاس خود ہی کچن میں رکھ آیا
"مہروالنسإ کونسے کپڑے پہننے لگی ہو"  مہرو نے جو کپڑے پریس کیے تھے وہ اسے دکھاۓ۔
"یہ والے نہیں پہنو رکو میں بتاتا ہوں کونسے پہننے ہیں" پھر وہ الماری کے قریب گیا پٹ وا کیا جس میں مہرو کے ڈریسزز ہینگ تھے انہیں اِدھر اُدھر کر کے دیکھا پھر روٸل بلیو میکسی نکالی جس پہ خوبصورت سا سلور کام ہوا تھا وہ اس کی طرف بڑھاٸی۔
"یہ پہنو"
"آیان یہ کیوں ہم کونسا کسی فنکشن پہ جا رہے ہیں"
"یہ ہیوی نہیں ہے بس میں نے کہہ دیا نا یہ پہنو" پھر اس نے الماری کی دوسرا پٹ وا کیا جس میں آیان کے ڈریسزز ہینگ تھے پھر اس نے اپنا ڈریس نکالا اور واش روم میں چلا گیا۔ مہرو نے بھی دوسرے روم میں جا کے کپڑے چینج کیے پھر واپس بیڈ روم میں آٸی ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑے ہو کے میک اپ کرنے لگی آیان بھی فریش ہو کے نکلا ہیر ڈڑاٸیر نکال کے ہیر ڈراٸی کیے پھر اسپرے لگا کے انہیں سیٹ کیا۔ باٸیں ہاتھ میں خوبصورت سی واچ پہنی داٸیں ہاتھ پہ کچھ ربر بینڈز پہنے خود پہ پرفیوم چھڑکی پھر بیڈ پہ بیٹھ کے شوز پہننے لگا۔ مہروالنسإ نے آنکھوں پہ لاٸنر لگایا پلکوں پہ مسکارا پھر ہلکا سا بلش آن لگایا ریڈ لپ اسٹک لگاٸی بالوں کی ساٸیڈ مانگ نکال کے انہیں کھلا چھوڑ دیا کانوں میں چھوٹے چھوٹے سلور ٹاپس پہنے جیسے ہی وہ پلٹی آیان بھی بیڈ سے اٹھا دونوں کی نظر ایک دوسرے پہ پڑی اور پھر۔۔۔۔ آیان نے واٸیٹ پینٹ پہ واٸیٹ ٹی شرٹ کے اوپر روٸل بلیو جیکٹ پہنی تھی پاٶں میں روٸل بلیو  شوز خوبصورت سی آنکھیں جو آج کچھ زیادی ہی چمک رہی تھیں وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ مہروالنسإ نے روٸل بلیو میکسی کے نیچے سلور سینڈل پہنی تھی دوپٹے کو اکٹھا کر کے پیچھے سے آگے لا کے دونوں بازوں میں رکھا تھا تیکھے نقوش کھلے ریشمی بال وہ اپسرہ لگ رہی تھی۔
"چلیں" مہرو سر جھٹکتی بولی۔
"چلو" پھر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے اور آیان نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ لیں میڈم آپ کی بریانی" فیضی ٹرے میں بریانی کی پلیٹ اور جوس رکھ کے لایا۔
"تھنکیو فیضی"
"تمہاری طبعیت خراب ہوٸی نا پھر دیکھنا"
"کیا کریں گے پھر"
"ماروں گا تمہیں"
"ایسا کر سکتے ہیں آپ "
"جی بالکل"
"کبھی بھی نہیں"
"پتا ہے تمہیں اسی بات کو تو فاٸدہ اٹھاتی ہو"
"اچھا ہے نا ویسے میں تو ترس گٸی تھی بریانی کو شانی کو کہا تو اس بدتمیز نے بھی نہیں لا کے دی" وہ منہ بناتی بولی۔
"اسے میں نے ہی منع کیا ہے"
"پتا ہے"
"اب منہ تو نا بناٶ لا تو دی ہے"
"پورے آٹھ دنوں بعد لا کے دی ہے کوٸی احسان نہیں کیا ہنہہ"
"بہت ناشکری ہو تم"
"ہاں تو"
"سیری یہ سب تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے اس لیے تمہیں نہیں دیتے" وہ نرمی سے بولا۔
"ہاں تو کبھی کبھی تو دے ہی دیتا ہے بندہ ہر وقت دیسی گھی دیسی گھی مجھے تو الٹی آتی ہے اسے دیکھ کے بھی"
"تو کر دیا کرو" وہ شرارت سے بولا۔
"فیضی کل سے میں ایسے کھانے نہیں کھاٶں گی وہی کھاٶں گی جو آپ لوگ کھاتے ہیں"
"ایسا نہیں ہو سکتا اب جلدی کھاٶ پھر سونا بھی ہے"
"فیضییی"
"جی فیضی کی جان"
"نہیں ہوں میں آپ کی جان"
"اچھا تو پھر کس کی ہو؟"
"کسی کی بھی نہیں آپ کی تو بالکل بھی نہیں آپ کو میرا زرا خیال نہیں لوگ بیویوں کو اتنا کچھ لا کے دیتے ہیں ڈنر پہ لے کے جاتے ہیں شاپنگ پہ لے کے جاتے ہیں پر آپ۔۔۔۔۔۔۔"
"کیا میں"
"بہت بُرے ہیں آپ"
"ابھی تو میں بُرا ہی رہوں گا کیوں کے مجھے تم اور میری اولاد بہت عزیز ہو"
"پتا ہے مجھے بہت اچھے سے"
"یار اب ایسے تو نہیں کہو نا لیٹ جاٶ میں برتن رکھ کے آتا ہوں" پھر وہ اٹھ کے برتن کچن میں رکھ کے آیا روم کی لاٸیٹ آف کی سحر کی ساٸیڈ پہ آیا۔
"میں جو کر رہا ہوں تمہاری بہتری کے لیے ہی ہے "پھر وہ اس کی پیشانی پہ پیار کرتا اپنی ساٸیڈ پہ آ کے لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی ایک ریسٹورینٹ کے قریب رکی۔ آیان نے گاڑی پارک کی پھر گاڑی سے نکلا مہرو کی ساٸیڈ سے دروازہ کھولا ہاتھ آگے بڑھایا جسے مہرو تھام کے باہر نکلی ریسٹورینٹ بہت خوبصورت تھا وہ مہرو کا ہاتھ پکڑتا اسے سیکینڈ پورشن میں لے گیا۔ جو کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ پھر جیسے ہی انہوں نے اندر قدم رکھا ساری لاٸیٹس یک دم آن ہو گٸیں اور کچھ دیر پہلے اندھیرے میں ڈوبہ ہوا ہال روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔ پھر جیسے ہی ان دونوں نے دوسرا قدم آگے بڑھایا تو ان پہ پھولوں کی برسات ہوٸی۔ مہروالنسإ ہکا بکا یہ سب دیکھ رہی تھی ہر سو پھولوں کی خوشبو پھیل گٸی داخلی دروازے سے لے کے ٹیبل تک پھولوں کی سڑک بناٸی گٸی تھی۔ جیسے ہی پھول گِرنا بند ہوے تو خوبصورت رومینٹک میوزک آن ہوا اور ایک فوٹوگرافر سامنے آیا وہ آیا کہاں سے یہ مہرو کو سمجھ نہیں آٸی وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں سب دیکھ رہی تھی پھر آیان گھٹنوں کے بل جھکا اور مہرو کا ہاتھ پکڑا۔اور بولا۔
"I'm so lucky to have a wife like you. You gave me the purpose of living, you have filled my life with happiness, thank you for coming into my life, thank you for giving me the purpose of living, thanks for being my life partner. I love you, i love you so much mehru ۔"
(میں بہت خوش قسمت ہوں جو مجھے تم جیسی بیوی ملی۔ تم نے مجھے جینے کا مقصد دیا، تم نے میری زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا، شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے، شکریہ مجھے جینے کا مقصد دینے کے لیے، شکریہ میری شریکِ حیات بننے کے لیے۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں، میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں مہرو۔)
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔ پھر اس نے اس کے ہاتھ میں ڈاٸمنڈ رنگ پہناٸی اور اس کا نرم و ملاٸم ہاتھ چوما ۔مہرو کی آنکھیں نم ہوٸیں۔
"i love you even more"
(میں تمہے خود سے بھی زیادہ پیار کرتی ہوں)
فوٹوگرافر نے یہ خوبصورت سا منظر کیمرے میں قید کیا۔ اور کیسے غاٸب ہو گیا وہ بھی مہرو کو سمجھ نہیں آیا۔ آیان کھڑا ہوا اور مہرو کا ہاتھ پکڑے ٹیبل تک لے کے گیا۔ کرسی دھکیل کے پیچھے کی مہرو وہاں بیٹھی اور خود بھی اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گیا ویٹر آیا اور لوازمات رکھ کے چلا گیا ویٹر کہاں سے گیا تھا یہ مہرو کو پتا چل گیا تھا۔ پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑاٸی۔ ہر طرف ریڈ اور واٸٹ ہارٹ شیپ کے غبارے لگے تھے ان کی داٸیں جانب گلاس وال تھی جس سے باہر کا منظر نظر آ رہا تھا۔
"کیسا لگا" آیان بولا۔
"بہت اچھا" وہ گھمبیر آواز میں بولی۔
"چلو کھانا شروع کرو" پھر ان دونوں نے ڈنر کیا اور واپسی کی راہ پکڑی۔
"آیان میں۔۔۔میں بہت خوش ہوں اتنا اچھا سرپراٸز۔۔مجھے لفظ نہیں مل رہے اپنی خوشی بیان کرنے کے لیے۔۔یہ بہت اسپیشل ڈے ہے میری لاٸف کا اسے میں کبھی نہیں بھول سکتی"
"تم خوش ہو میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات ہو ہی نہیں سکتی"
"آیان آپ  بہتتتت اچھے ہیں۔ آٸی لو یو"
"آٸی لو یو ٹو" باتیں کرتے ہی وہ گھر آٸے۔ آیان نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی مہروالنسإ اندر چلی گٸی۔ آیان نے مین گیٹ بند کیا اور اندر آیا مہروالنسإ ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی ٹاپس اتارنے ہی لگی تھی کے وہ اس کے قریب گیا اس کے پیچھے کھڑے ہو کے اس کے گِرد بازو پھیلاۓ اور اس کے کندھے پہ ٹھوڑی ٹکا کے سرگوشی میں بولا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو"
"آپ سے کم" وہ شیشے میں اسے دیکھتے بولی۔
"میں پیارا لگ رہا ہوں؟" وہ بھی شیشے میں اسے دیکھتا بولا۔
"پیارے نہیں بہت پیارے" پھر آیان نے اسے کندھوں سے پکڑ کے اپنی طرف گھمایا اور اس کے گال پہ جھکا پھر اسے اپنے حصار میں لے لیا۔
"میں کبھی بھی تم سے زیادہ پیارا نہیں لگ سکتا"
"مجھے تو خود سے زیادہ پیارے لگتے ہیں"۔ "چھوڑیں اب میں کپڑے چینج کر لوں"۔ پھر آیان نے اسے خود سے الگ کیا اور مہروالنسإ کپڑے پکڑتی واش روم میں چلی گٸی۔ اس طرح ایک بہت ہی خوبصورت دن کا اختتام ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے۔ تو مہرو نے آیان سے پوچھا۔
"بات ہوٸی ارہم سے"
"نہیں یار آج کروں گا"
"ہمم"
پھر وہ ناشتہ کر کے آفس کے لیے نکل گیا۔ مہرو بھی برتن سمیٹنا شروع ہو گٸی۔ وہ برتن اٹھاتے ہوے بار بار اپنے ہاتھ کو دیکھتی تھی جہاں ڈاٸمنڈ رنگ جگمگا رہی تھی۔ خوشی اسے رنگ کی نہیں تھی بلکہ دینے والے ہاتھوں کی تھی اس کے پیار کی تھی۔ اس کی چاہت کی تھی ڈاٸمنڈ کی طرح اس کی آنکھیں بھی چمک رہی تھیں۔ برتن دھو کے وہ کمرے میں آٸی کمرہ صاف کیا اور پھر ہال میں آ کے ٹی وی لگا لیا۔
ارہم آیان کے کیبن میں داخل ہوا اور اس کے سامنے کرسی پہ بیٹھ گیا۔
"آیان اب کیا کرنا ہے"
"کیا؟"
"رشتے کا"
"بات کر بڑے پاپا سے"
"مجھے شرم آتی ہے"
"ارہم یہ تو ہی ہے نا۔۔۔تجھے شرم آتی ہے نہیں تجھے تو کبھی شرم آٸی ہی نہیں تو پھر اب بھلا کیسے آ سکتی ہے مجھے لگ رہا ہے میں کوٸی خواب دیکھ رہا ہوں "
"زیادہ اوور نہیں ہو"
"تو اس کا مطلب تو نے سچ میں کہا ہے کے تجھے شرم آتی ہے واہ مسٹر ارہم کو شرم آتی ہے آج کی تازہ خبر ناظرین آپ کو بتاتے چلیں کے ارہم چوہدری جنہیں شرم چھو کے نہیں گزری یہ ان کا کہنا ہے وہ آج میرے پاس مطلب آیان چوہدری کے پاس آ کے کہہ رہے ہیں کے انہیں اپنے رشتے کی بات کرتے شرم آتی ہے" وہ ہاتھ کا ماٸیک بناتا ہوسٹنگ کر رہا تھا۔
"جی تو ناظرین ہم ارہم چوہدری سے پوچھتے ہیں کے جب انہیں شرم چھو کے نہیں گزری تو پھر یہ آ کہاں سے گٸی تو بتاٸیے ارہم یہ شرم آخر آ کہاں سے گٸی" وہ ہاتھ کا ماٸیک اس کی طرف کرتا بولا۔
"میں نے تجھے بکواس کرنے کو نہیں کہا میں سیریس ہوں" وہ اس کا ہاتھ جھٹکتا بولا۔
"جی تو ناظرین ایک اور خبر آپ کو دیتے چلیں کے ارہم چوہدری آج سیریس بھی ہیں تو بتاٸے ارہم آپ سیریس کیسے ہو گٸے" آیان نے پھر سے ماٸیک اس کے منہ کے آگے کیا جسے ارہم نے پکڑ کے دانت کاٹ دیا ہوا اتنی جلدی میں تھا کے آیان چاہ کے بھی اپنا ہاتھ پیچھے نہیں کر پایا۔
"جنگلی انسان بھوک لگی ہے تو جا کے روٹی کھا مجھ غریب کو کیوں کاٹ دیا" آیان اپنا ہاتھ سہلاتا ہوا بولا۔
"تجھے بہت شوق آ رہا تھا نا میرے آگے کرنے کا اب کر۔۔۔"
"نہیں بھاٸی معاف کر میں تو چلا ڈاکٹر کو چیک کروانے اس سے پہلے کے زہر میری باڈی میں پھیلے" آیان نے قدم دروازے کی جانب بڑھاۓ تو ارہم فوراً اٹھ کے اس کا بازو کھینچتا بولا
"تو نے میری بات سننی ہے کے پھر دانت کاٹوں۔۔"
"سنتا ہوں بھاٸی پر ایسا ظلم نہیں کرنا۔ پہلے ہی یہ سات انجیکشنز پتا نہیں کیسے برداشت کرنے ہیں میں نے" وہ ایکٹینگ کرتا بولا۔
"بکواس نہیں کر اور مجھے کوٸی حل بتا"
"بیٹھ" پھر وہ دونوں بیٹھے
"اب بول شرم کیوں آتی ہے انہیں آرام سے بتانا کے مجھے ایک لڑکی پسند ہے شادی کرنا چاہتا ہوں اس سے"
"اگر وہ نہ مانے تو" وہ اداس ہوا
"مان جاٸیں گے"
"پر اگر نا مانے تو پھر تو ہی کرے گا بات"
"چل ٹھیک ہے"
"تو میری جان ہے"
"اور تو میرا مان"
"چل اسی بات پہ گلے مل" ارہم کھڑا ہوتا بولا پھر دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے۔ اور ارہم نے وہی کیا جس سے وہ چڑتا تھا۔
"یہ کرنا ضروری ہوتا ہے کیا"
"ہاں یہ میرے پیار کی نشانی ہے اچھا اب میں چلتا ہوں تو کام کر" کہتا وہ باہر نکل گیا آیان بھی مسکراتا ہوا کرسی پہ بیٹھ گیا اور مہروالنسإ کو کال ملا دی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم سویٹ ہارٹ"
"وَعَلَيْكُم السَّلَام"
"کیسی ہو؟"
"ٹھیک"
"کیا کر رہی تھی"
"آپ کو یاد"
"آہاں"
"جی آپ کیا کر رہے تھے؟"
"ارہم آیا تھا"
"کیا کہہ رہا تھا"
"رشتے کے بارے میں ہی کہہ رہا تھا کے اگر بڑے پاپا نا مانے تو تم بات کرنا"
"آپ نے کیا کہا؟"
"کہا ٹھیک ہے"
"ہمم کب کرے گا و"ہ بات"
"آج ہی کر دے گا
"اچھا آپ کریں کام پھر بات ہو گی الله حافظ"
"الله حافظ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارہم اسکول کے باہر کھڑا حور کا انتظار کر رہا تھا چھٹی ہو گٸی تھی سب بچے نکل گٸے تھے پر حور نہیں نکلی تھی پھر وہ گاڑی سے باہر آیا اور اسکول گیٹ کے پاس گیا۔
"جی آپ کون" گیٹ کیپر بولا۔
"تم۔۔تم مجھے نہیں جانتے چچ چچ چچ" اس کی ایکٹنگ شروع ہو گٸی۔
"نہیں جانتا بھاٸی بتاٶ گے تو پتہ چلے گا نا" وہ ہاتھ جھلا کے بولا۔
"میں ارہم چوہدری ایک مشہور بزنس مین آصف چوہدری کا بیٹا اور آیان چوہدری کا بھاٸی" اب تو پتا چل گیا ہو گا وہ ایک ادا سے عینک اتارتا بولا۔
"میں نے یہ نہیں پوچھا کس کے بھاٸی ہو کسکے بیٹے ہو کس سے ملنا ہے یہ بتاٶ؟"
"اپنی بیوی سے بلا دیں اسے "
"نام تو بتا بھاٸی پہلے تو تجھے کبھی یہاں نہیں دیکھا"
"ابھی کل ہی امریکہ سے آیا ہوں۔۔"
"نام بتا بیوی کا میں بلاتا ہوں"
"حور "
"او اچھا حور کب ہوٸی اس کی شادی"
"بچپن میں نکاح ہو گیا تھا ہمارا کچھ دنوں تک رخصتی ہو جاۓ گی بہت بڑی شادی کرنی ہے ہم نے آنا تم بھی کوٸی لُڈی شُڈی ڈالنا "
"میں تمہیں لڈی ڈالنے والا نظر آتا ہوں"
"او نہیں بھاٸی تم تو بہت حسین ہو ہاۓ کیا لُک ہے تمہاری میں تو کہتا ہوں یہ کام چھوڑو کوٸی بزنس کرو۔ مجھے تو دنیا میں بس دو ہی لڑکے خوبصورت لگتے ہیں ایک میں اور ایک میرا بھاٸی آیان تو دیکھے گا نا اسے تو کہے گا ہم ٹوینز ہیں پر ایسا نہیں ہے ہم صرف لگتے ہیں۔ ہیں نہیں"
"میں نے کب کہا"
"ہاں تو تونے ابھی دیکھا کب ہے پاغل "
"تمیز سے بات کر" اسے اس کا پاغل کہنا اچھا نہیں لگا۔
"او بھاٸی پوری بات تو سن لے "
"کونسی بات"
"یہی کے پہلے مجھے دو لوگ پیارے لگتے تھے پر اب تین لگتے ہیں اب پوچھ تیسرا کون ہے"
"میں کیوں پوچھوں"
"نا پوچھ میں خود ہی بتا دیتا ہوں تیسرا تو ہے یار کیا personality ہے تیری زبردست"
"مزاق اڑا رہا ہے میرا" اتنا پاغل بھی نہیں تھا وہ۔
"نہیں تو ویسے تجھے لگ رہا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں" پھر اسے حور نکلتی ہوٸی دکھاٸی دی۔
"آ گٸی وہ"
"رک مجھے اس سے پوچھ لینے دے کے تو اس کا شوہر ہی ہے نا" حور نے ارہم کو گیٹ کیپر سے بات کرتے دیکھا تو ان کے قریب آٸی۔
"میڈم جی یہ آپ کے شوہر ہیں" حور کا تو منہ ہی کھل گیا۔
"تو تجھے کیا میں اس کا دادا لگ رہا ہوں۔ اتنا خوبصورت جوان لڑکا تیرے سامنے کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے کے اس کا شوہر ہے تو شوہر ہی ہوا نا"
"مجھے میڈم جی سے پوچھ لینے دے۔ بتاٸیں میڈم جی یہ آپ کا شوہر ہے" ارہم نے اسے ہاں کرنے کا اشارہ کیا حور بولی تو نہیں صرف گردن کو تھوڑا خم دیا وہ جانتی تھی کے اگر انکار کرتی تو کوٸی تماشا کھڑا ہو جانا تھا۔
"ہو گیا یقین ہنہہ چلو حور" کہتا وہ کار کی طرف بڑھا۔ حور بھی اس کے پیچھے گٸی۔ ارہم نے دروازہ کھول کے اسے بیٹھنے کا کہا۔پر وہ نہیں بیٹھی۔
"بات کرنی ہے مجھے آپ سے دو منٹ اس ساٸیڈ پہ آ جاٸیں" وہ ایک گلی کی طرف اشارہ کرتی بولی۔
"تو گاڑی میں بیٹھ کے کر لو"
"نہیں ادھر آٸیں" پھر ارہم اس کے پیچھے گلی میں گیا۔
"کیوں آٸے تھے یہاں؟"
"تم سے ملنے کا دل کر رہا تھا"
"کس رشتے سے"
"یار اب ایسی باتیں تو نہیں کرو" وہ اداس ہوا۔
"ارہم میرا رکشے والا انتظار کر رہا ہو گا میں نا گٸی تو باتیں بن جاٸیں گی"
"تم اسے کال کر کے کہہ دو کے اپنی دوست کے گھر گٸی ہوں آپ چلے جاٸیں"
"ایسا نہیں ہوتا"
"کیوں نہیں ہوتا پرسوں بھی تو اسکول سے ہی مہرو بھابھی کے گھر گٸی تھی نا تب کیا کہا تھا رکشے والے کو"
"تب میں نے ماما کو کال کر دی تھی انہوں نے ہی اسے منع کر دیا تھا کے آج لینے نا جاۓ"
"ہاں تو آج بھی کر دو"
"کیوں کروں"
"کیوں کے میں کہہ رہا ہوں"
"آپ کیوں کہہ رہے ہیں"
"تم میرا دل دکھا رہی ہو "
"ارہم مجھے جانے دیں رکشے والا مجھے لینے آ گیا اور میں نا گٸی تو بہت باتیں بن جاٸیں گی"
"اسکول سے تو تم نکل آٸی ہو گیٹ کیپر نے اسے بتا ہی دینا ہے اس لیے ٹاٸم ضاٸع کیے بغیر اسے فون کر دو یہ نا ہو وہ یہاں آ جاۓ"
"آپ نے بہت غلط کیا ہے"
"فون کرو" پھر حور نے رکشے والے کو فون کر کےاسے آنے سے منع کر دیا۔
"چلیں "
"نہیں آپ جاٸیں میں ٹیکسی کروا کے چلی جاٶں گی"
"یار آ جاٶ میں چھوڑ آتا ہوں تمہیں"
"ارہم آپ پاغل ہیں کسی نے مجھے آپ کے ساتھ دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے"
"کوٸی نہیں دیکھے گا تم نے نقاب کیا ہوا ہے"
"آپ نے مجھے نقاب میں پہچانا ہے اسی طرح لوگ بھی پہچان لیتے ہیں"
"پہلے بھی تو دو دفعہ میں تمہیں چھوڑ کے آیا ہوں کسی نے نہیں دیکھا کوٸی بات نہیں بنی ویسے بھی میں تمہیں پیچھے تو اتار دیتا ہوں"
"ماما ویٹ کر رہی ہوں گی مجھے جانے دیں"
"گاڑی میں بیٹھو میں چھوڑ آتا ہوں"
"کیوں بیٹھوں میں گاڑی میں کیا رشتہ ہے میرا آپ کے ساتھ" اب کی بار وہ تھوڑا اونچا بولی۔
"رشتہ بنتے ٹاٸم نہیں لگتا اور آج میں نے کرنی ہے بابا سے بات کچھ ہی دنوں میں وہ رشتہ لے کے آٸیں گے"
"ہاں تو جب رشتہ ہو جاۓ گا میں آپ کے ساتھ چلے جایا کروں گی"
"حور پہلے تو میں نے سوچا تھا کے تمہیں کہیں اور لے جاٶں گا پھر گھر چھوڑ دوں گا پر میں تو تمہارا کچھ لگتا ہی نہیں ٹھیک کہا ہے تم نے. بیٹھو گاڑی میں تمہیں گھر چھوڑ دوں اور ہاں اب چپ کر کے بیٹھ جانا" غصے میں کہتا وہ آگے بڑھا۔ گاڑی میں بیٹھا۔ حور پچھلا دروازہ کھول کے پیچھے بیٹھ گٸی اس نے کچھ نہیں کہا خاموشی سے گاڑی چلانا شروع کر دی۔ تیز تیز گاڑی چلاتے اس نے گھر سے تھوڑا پیچھے روکی۔ حور ساٸیڈ بیگ پکڑتی نیچے اترنے لگی پھر بولی۔
"میرا وہ۔۔۔۔۔"
"جا سکتی ہو جب کوٸی رشتہ ہو گا تبھی بات کرنا" وہ غصے میں بولا۔ حور بیگ پکڑتی اُتر گٸی۔ وہ بھی گاڑی زن سے دوڑاتا وہاں سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیان نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور اندر آیا مہروالنسإ ہال میں ٹی وی لگاۓ بیٹھی تھی۔ آیان نے بہت بڑا فریم پکڑا ہوا تھا اسے اپنے پیچھے کرتا وہ اس کے سامنے گیا۔
"آپ آ گٸے بیٹھیں میں پانی لاتی ہوں" وہ اٹھی۔ آیان نے فریم آگے کیا۔ مہرو کی نظر اس پہ پڑی۔ اس میں آیان  اور مہرو کی پک تھی آیان گھٹنوں کے بل بیٹھا مہرو کو انگوٹھی پہنا رہا تھا اور مہرو اپنے ہاتھ کی طرف دیکھ رہی تھی خوشی دونوں کے چہروں پہ صاف واضح تھی وہ بہت بڑا فریم تھا پک کے پیچھے کچھ عکس دکھاٸی دے رہے تھے۔ جہاں آیان اس کا ہاتھ پکڑے اس سے کچھ کہہ رہا تھا اور دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ ایک جگہ آیان اس کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا اور مہرو کی آنکھیں نم تھیں وہ پک پوری کہانی بیان کر رہی تھی۔
"واووو کتنی پیاری ہے یہ" مہروالنسإ اسے دیکھتی کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولی۔
"ہمم ہے تو پیاری آٶ روم میں لگاتے ہیں" کہتا وہ کمرے کی طرف بڑھا۔
"آپ لگاٸیں میں آپ کے لیے پانی لاٸی"
آیان نے وہ فریم بیڈ والی دیوار پہ لگایا۔ مہروالنسإ پانی لے کے آٸی۔
"کیسا لگا" آیان پانی کا گلاس پکڑتا بولا
۔"fantastic آپ فریش ہو لیں میں تب تک کھانا لگاتی ہوں"
"اوکے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر کر کے آصف صاحب اسٹڈی روم میں گٸے ارہم نے انہیں جاتا دیکھا تو ہمت کرتا وہ بھی اسٹڈی روم میں داخل ہوا۔ آصف صاحب ابھی فاٸل کھولنے ہی لگے تھے کے ارہم کو آتا دیکھ ساٸیڈ پہ رکھ دی وہ اسٹڈی روم میں کم ہی پایا جاتا تھا اور آصف صاحب کے ہوتے ہوے تو کبھی نہیں آیا تھا اب اگر آیا تھا تو کوٸی خاص بات ہی ہو گی۔ ارہم نے کرسی کھنیچ کے ان کے قریب کی اور بیٹھ گیا۔ آسف صاحب بھی اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگے۔
"بابا جان کچھ بات کرنی تھی آپ سے" وہ نظریں جھکاۓ بولا۔ بات کوٸی خاص تھی یہ تو وہ اس کی شکل دیکھ کے ہی جان گٸے تھے اور پھر جس طرح اس نے نظریں جھکاٸی ہوٸی تھیں۔
"جی بیٹا بولو" وہ نرمی سے بولے۔
"میں۔۔۔ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں"
"اچھا۔۔کون ہے وہ"
"بھابھی مہرو کی دوست" نظریں ہنوز جھکی ہوٸی تھیں۔
"تمہیں کہاں ملی"
"شادی پہ"
"شادی پہ لوگوں کی لڑکیاں دیکھنے جاتے ہو"
"نہیں بابا وہ بس۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرا آسف صاحب اسے دیکھ کے مسکراۓ۔
"کہاں رہتی ہے"
"بھابھی کے ہمساۓ ہیں"
"اوو پھر تو اچھی بات ہے ارشد سے سب پتا چل جاۓ گا اگر اچھے لوگ ہوے تو کر دوں گا شادی ورنہ۔۔۔۔۔"
"بابا بہت اچھے ہیں" وہ جھٹ سے بولا۔
"چلو دیکھتے ہیں تمہاری اور مریم کی شادی اکھٹی کر دیں گے۔۔۔۔ اصغر صاحب کے بیٹے کا پروپوزل آیا ہے مریم کے لیے"
"پر بابا اس کی تو بلال سے کرنا ہے نا" اب کی بار اس نے نظریں اٹھاٸیں۔
"ہاں پہلے تو تمہاری ماما یہی کہتی تھیں پر اب کہتی ہیں ادھر نہیں کرنا"
"کیوں"
"پتا نہیں کہتی ہے وہ اچھا لڑکا نہیں چلو اسے چھوڑو یہ بتاٶ کیسا لگتا ہے تمہے منیب"
"اچھا ہے دو تین دفعہ مل چکا ہوں اس سے بہت تمیز سے بات کرتا ہے"
"مجھے بھی اچھا لگا یہ رشتہ اب آیان سے ایک دفعہ بات کر کے ہاں کر دوں گا"
"جی ٹھیک ہے"
"ارشد سے بات کر کے پوچھوں گا پھر لے جاٸیں گے رشتہ ٹینشن نہیں لو تم" وہ مسکراتے ہوے بولے۔ ارہم بھی مسکرا دیا۔
"تھنکیو سو مچ بابا" وہ ان کا گال چومتا بولا۔
"زیادہ خوش نہیں ہو ابھی ہوا نہیں "
"ہو جاۓ گا" وہ ہنستا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر کر کے وہ دونوں روم میں آ گٸے ۔
"آیان تصویر بہت پیاری ہے"
"ظاہر سی بات ہے تم ہو اس میں پیاری تو ہو گی نا"
"مجھے تو آپ کی زیادہ پیاری لگی "
"اور مجھے تمہاری" پھر کچھ دیر وہ باتیں کرتے رہے اور سو گٸے۔
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ننگے پاٶں سمندر کے ساحل پر چل رہے تھے۔ آیان نے واٸیٹ پینٹ پہ کاٸی رنگ کی ٹی شرٹ پہنی تھی سن گلاسزز کو شرٹ پہ اٹکایا ہوا تھا۔ مہروالنسإ نے بلیک پینٹ کے اوپر اورنج ٹاپ پہنا تھا بلیک دوپٹہ گلے میں ڈالا ہوا تھا۔ بال کھلے ہوے تھے جو ہوا سے اس کے چہرے کے آگے آتے اور وہ انہیں بار بار کانوں کے پیچھے اڑیس دیتی۔ دونوں نے پینٹ کو ٹہنوں سے تھوڑا اوپر تک فولڈ کیا ہوا تھا ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے وہ قدم سے قدم ملا رہے تھے۔ سمندر کی لہریں ہچکولے لیتی ان کے پاٶں بھگو جاتیں۔
"آیان"
"جی مسز آیان"
"میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں"
"مجھے پتا ہے"
"جب آپ آفس ہوتے ہیں میرا ٹاٸم ہی نہیں گزرتا ہر وقت آپ کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں"
"یہ تو اچھی بات ہے کے تم صرف اپنے شوہر کے بارے میں سوچتی ہو" وہ شوخی سے بولا۔
"آیان آپ بھی مجھ سے پیار کرتےہیں؟"
"بتاتا تو رہتا ہوں" وہ اسے دیکھتا بولا۔
"کتنا کرتے ہیں؟" وہ بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتی بولی۔
"تم سے زیادہ"
"کتنا؟"
"تمہارے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں "
"یہ صرف باتیں ہی ہوتی ہیں" وہ بال کان کے پیچھے کرتی بولی۔
"میں آیان چوہدری ہوں جو کہتا ہوں وہ کرتا بھی ہوں"
"اچھااا "
"جی "
"آیان" تھوڑی دیر بعد وہ پھر بولی۔
"جی مسز آیان"
"آپ مجھے کبھی چھوڑیں گے تو نہیں" آیان رکا اور اس کندھوں سے پکڑ کے رخ اپنی جانب کیا۔
"میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں تمہیں۔۔تم میری جان ہو میری زندگی ہو میری جینے کی وجہ ہو تمہارے بغیر زندگی گزارنے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔تمہیں پتا ہے اب میں کیا دعا کرتا ہوں؟"
"کیا؟"
"یہی کے میں تم سے پہلے مر جاٶں"
"آیان" وہ روہانسی ہوٸی
"جی مسز آیان" وہی شوخ لہجا۔
"ایسی باتیں نہیں کیا کریں"
"کیوں؟" وہ شریر مسکراہٹ لیے بولا۔
"میں ماروں گی آپ کو"
"جتنی پیاری لگ رہی ہو مجھے تو لگ رہا ہے میں مر ہی جاٶں گا"
"آیان میں نے مار بھی دینا ہے "
"مار لو میری جان" وہ اسے خود سے لگاتا بولا۔ پھر اس کے سر پہ پیار کر کے اسے خود سے الگ کیا۔
"موڈ کیوں آف کر لیا دیکھو کتنا پیارا منظر ہے۔ چلو چلتے چلتے باتیں کرتے ہیں" پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے ریت پہ چلنا شروع ہو گیا۔ وہ دونوں بات کر رہے تھے کے آیان نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا۔
"ہاتھ کیوں چھوڑ رہے ہیں" آیان نے جواب نہیں دیا اور اس کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
"آیان کہاں گٸے آپ "
"آیان چھپنے والا مزاق نہیں کریں" وہ اِدھر اُدھر دیکھتی بولی۔
"آیان کہاں گٸے میرا ہاتھ کیوں چھوڑا"
"آیان آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے" اب کی بار وہ اونچا بولی پر وہ نہیں آیا۔
"آیان میں رونا شروع کر دوں گی" کہتے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے۔
"مجھے آپ کا یہ مزاق بالکل اچھا نہیں لگ رہا" اس کی آواز بھڑا گٸی دو موتی ٹوٹ کے رخساروں پہ گِرے۔
"آیان آ جاٸیں نا بہت ہو گیا اب۔۔۔"
"آیان۔۔۔" اس نے رونا شروع کر دیا۔
"آیان۔۔۔" وہ چیخی پر وہ نہیں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Where stories live. Discover now